اسلام کسی انسان سے نفرت کی تعلیم نہیں دیتا
ہر انسان کی وفات کے بعد اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو جاتا ہے، وہ جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے کسی دوسرے شخص کو اس بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔
… اسلام کسی انسان سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ اس کے فعل سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت لوط علیہ السلام اپنے مخالفین کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ میں تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں۔ (سورۃ الشعراء: ۱۶۹) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ہدایت فرمائی کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے استہزاء ہوتا سنو تو ان ہنسی کرنے والوں کے ساتھ اس وقت نہ بیٹھو۔(سورۃ النساء:۱۴۱) گویا انسانوں سے نفرت نہیں بلکہ ان کے عمل سے بیزاری کے اظہار کی تعلیم دی گئی ہے۔
پس اسلام کی تعلیم ہر معاملے میں مکمل اور نہایت خوبصورت ہے۔ اسلام تو سخت ترین معاند کی موت پر بھی خوش ہونے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس کی موت پر بھی ایک سچے مومن کو اس لیے دکھ ہوتا ہے کہ کاش یہ شخص ہدایت پاجاتا۔
…باقی جہاں تک اسلام کی مخالفت پر مرنے والے کسی شخص کےلیے دعا کرنے کی بات ہے تو اسلام نے صرف مشرک جو خدا تعالیٰ سے کھلی کھلی دشمنی کا اظہار کرے، اس کےلیے دعائے مغفرت کرنے سے منع فرمایا ہے باقی کسی کےلیے دعا کرنے سے نہیں روکا۔ (سورۃالتوبہ:۱۱۴)
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۲۹
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍فروری ۲۰۲۲ء)