صفت رحیمیت سے فیض اٹھانے کی شرائط
اس صفت سے اگر فیض اٹھانا ہے توہر انسان جو عقل اور شعور رکھتا ہے اپنی عاجزی اور انکساری کو بڑھائے اور دعا اور تضرع کی طرف توجہ کرے اور تبھی پھر فیض حاصل ہو گا۔ تکبر اور غرور اپنے اندر سے نکالو گے تبھی صفت رحیمیت سے فیض پاؤ گے۔ یعنی نیک اعمال ہوں گے تو فیض سے حصہ ملے گاکیونکہ اگر کسی بھی قسم کی بڑائی ہو تو اللہ تعالیٰ کے حضور اُس عاجزی سے انسان حاضر ہو ہی نہیں سکتا جو اس کے ایک عبد بننے کے لئے ضروری ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا تقاضا ہے کہ اپنی ہستی کو کچھ نہ سمجھے، اپنے وجود کو کچھ نہ سمجھے، اپنی ذات کو کوئی حقیقت نہ دے۔
… رحیمیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غَفُوْر کو کیوں رکھا ہوا ہے۔ اس لئے تاکہ بندوں کے لئے جو رحم اللہ تعالیٰ رکھتا ہے اس کی وجہ سے ان کو مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے اور ڈھانپتے ہوئے ان کی پردہ پوشی فرماتا رہے۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ کوئی عمل ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ عمل کوئی نہ ہو اور توقع ہو اللہ تعالیٰ سے پردہ پوشی کی۔ اور پھر بدیوں پہ اصرار نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی برائی ہو گئی تو پھر استغفار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت شامل حال ہواور اس کی پردہ پوشی ہو جائے۔ توبہ کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۙ اَنَّہٗ مَنۡ عَمِلَ مِنۡکُمۡ سُوۡٓءًۢا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَاَصۡلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (الانعام:55) یعنی تمہارے ربّ نے اپنے اوپر رحمت فرض کر دی ہے اور یہ کہ تم میں سے جو کوئی جہالت سے بدی کا ارتکاب کرے پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو یاد رکھے کہ وہ یعنی اللہ یقیناً بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ تو یہاں بھی وہی ایک مثال مَیں نے پہلے دی تھی کہ اللہ تعالیٰ بخشتا تو ہے لیکن یہ ہے کہ انسان توبہ کی طرف متوجہ ہو۔ اُس قاتل کی جس نے99قتل کئے تھے اور 100پورے کر دئیے تھے لیکن کیونکہ توبہ کا خیال آ گیا نیکی کی طرف بڑھ رہا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش کے سامان کردئیے۔ پس صفت رحیم سے زیادہ سے زیادہ فیض پانے کے لئے توبہ کرتے ہوئے اس کے آگے جھکنا اور اعمال صالحہ بجا لانا انتہائی ضروری ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍فروری ۲۰۰۷ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۰۲؍مارچ ۲۰۰۷ء)