اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
اگست۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
لاہور میں چھ احمدیوں کو گرفتار کر لیا گیا
بادامی باغ لاہور:اگست ۲۰۲۳ء:ایک احمدی اور ان کے دو بھائی جوتوں کے تلوے بنانےکی ایک فیکٹری چلا رہے ہیں اور ان کے پاس ۲۰؍کے قریب ملازم ہیں۔ گذشتہ کافی عرصے سے مولوی یہاں کام کرنے والو ں اور ان کے ہمسایوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔
یکم اگست کو مولوی فیکٹری میں داخل ہوئے اور فیکٹری کو چلانے والے اور ان کے بیٹے کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کرنے لگے اور ساتھ ہی انتہائی بد زبانی کی اور دھمکیاں دیں۔ اس کے بعد انہوں نے تھانہ بادامی باغ میں ان کے خلاف توہین کے مقدمات درج کروا دیے۔
۱۵؍اگست کو سیشن کورٹ نے ان دونوں کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی۔اورمقدمے کی سماعت کی تاریخ ۲۲؍اگست مقرر کی۔موصوف کے تین بھائی فیکٹری سے کچھ کاغذات لینےگئے تو وہاں پر مولوی جمع ہو گئے اور شدید ہنگامہ آرائی کی۔اس کے بعد انہوں نے پولیس کو بلالیا اور ان سب کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ نہ تو فیکٹری سیل تھی اور نہ ہی وہاں جانے پر کوئی پابندی تھی۔ پولیس نے ان احباب کو بھی پہلے والے مقدمے میں نامزد کر دیا اور عدالتی ریمانڈپر ان سب کو کیمپ جیل بھیج دیا گیا۔
تحریک لبیک نے ان احمدیوں کے خلاف مہم چلانےاور انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کےلیے اپنےشرپسندوں کو جمع کر لیا تا کہ ان کی ضمانت مسترد کروائی جاسکے۔اس وقت صورت حال اس قدر بگڑ گئی اور حالات قابو سے باہر ہوجانے کے اندیشے کی وجہ سے پولیس نے فیکٹری کے مالک اور ان کے بیٹے کو عدالت میں پیش ہی نہیں کیا اور جج نے ان کی ضمانت نان پراسیکیوشن (یعنی عدالت میں پیش نہ ہونے )کے باعث خارج کر دی۔
اس موقع پر تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے ایک اشتہار شائع کیا گیا، جو یوں تھا۔’’یو سی ۴۷۔پی پی ۱۴۵۔ضلع لاہور۔کل مورخہ ۲۲؍ اگست ۲۰۲۳ء بروز منگل ….قادیانیوں کی عدالت میں پیشی ہے۔ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کےلیے تمام عاشقان رسول ٹھیک صبح ۷بجے ملک نوید کے گھر جمع ہو جائیں۔اور وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھیں۔‘‘
انتظامیہ کا یہ رویہ انتہائی غلط تھا۔ ابھی تین رو ز قبل ہی جڑانوالہ کا واقعہ ہوا تھااور پورا ملک ان ملاؤںکی شرانگیزی کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا تھا۔ پولیس نے صوبے کے دارالحکومت میں اسی گروہ کے ملاؤں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے جو جڑانوالہ واقعہ کے بھی ذمہ دار تھےاور پہلے سے ہی ظلم و بربریت کی شکار ایک جماعت کے ارکان کے خلاف جھوٹی کارروائی کر دی۔
میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں نے اس بات کا نوٹس لیا اور مختلف پیرایوں میں اس واقعہ کا ذکر کیا۔
۲۳؍اگست ۲۰۲۳ء کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک برمحل اور زیرک رائے کو ہم یہاں شامل کریں گے۔ڈان اخبار نےاپنے اداریے میں لکھا کہ جب تک اس انتہاپسندانہ تشدد کے رویے کی جامع اور مستقل بنیادوں پر بیخ کنی نہیں کی جائے گی کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔ہماری اقلیتیں تلوار کی دھار پر رہ رہی ہوں گی اور ان کو کبھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکے گا کہ کب غلطی سے منہ سے نکلے کسی لفظ،دل میں رکھے ہوئے بغض یا کوئی اَور بہانہ تراش کے کسی خون کے پیاسے ہجوم کو ان کے دروازے پر لاکھڑا کیا جائے گا۔اس سارے معاملے میں پہلا قدم تو یہ ہوگا کہ جڑانوالہ واقعہ میں ملوث بدکرداروں کی نشاندہی کی جائے اور ان کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔کسی کو بھی یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ ایسی قوّتیں موجود ہیں جو مذہب کی بنیاد پر کیے گئے جرم کی سزا میں کمی کا باعث بن سکتی ہیں۔اس میں کوئی بھی استثنا نہیں ہونا چاہیے۔تمام اقلیتیں تحفظ کا حق رکھتی ہیں اور ہر پاکستانی کو اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہونی چاہیے۔ جڑانوالہ جیسے واقعات کو روکنے کےلیے یہ بنیادی قدم ہے۔لیکن معاشرے کے اندر سے اس فاتحانہ رویے کو ختم کرنا اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کےلیے حکومت کا انتہائی دائیں بازو کے مذہبی گروہوں کو استعمال میں لانے کو روکنا انتہائی مشکل کام ہے۔صرف حکومت ہی اس نقصان کی تلافی کر سکتی ہے جو اس کے ٹنل وژن [دائرے کی شکل میں محدود حد نگاہ] کے باعث رونما ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ایسا کرے گی؟
ضلع قصور میں احمدیوں کے لیے انتہائی جارحانہ صورت حال
بھلیر،ضلع قصور۔اگست ۲۰۲۳ء:گذشتہ کچھ عرصے سے یہاں احمدیوں کے لیے صورت حال کافی کشیدہ ہو گئی ہے جس میں مسلح حملے اور جھوٹے مقدمات شامل ہیں۔حال ہی میں یہاں تیرہ احمدیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں اور چھ احمدیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مخالفین کی طرف سے خطرے کے باعث اپنے عزیزوں کے ہاں چھپے ہوئے ایک احمدی جب ۴؍اگست ۲۰۲۳ء کو اپنے گھر جا رہے تھے تو مخالفین نے انہیں دیکھ کر روک لیا۔اس پر مقامی صدر جماعت چند دیگر احمدی احباب کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔ مخالفین نے پولیس کو بلا لیا اور الٹا احمدیوں پر الزام لگایا کہ انہوں نے ان پر حملہ کر دیا ہے اور ان کے گھروں پر گولیاں برسائی ہیں حالانکہ اس وقت احمدیوںکے پاس نہ تو کوئی اسلحہ موجود تھا اور نہ ہی احمدی کبھی ایسی پُرتشدد کارروائیوں میں شریک ہوتے ہیں۔پولیس نے اپنے گھر لوٹنے کی کوشش کرنے والے احمدی اور ان کے بھائی کو گرفتار کر لیا اور ان کو تھانے میں لے گئے۔ اگلے دن دونوں کی ضمانت منظور ہو گئی۔پولیس نے اپنی تحقیق کی تو پتا چلا گیا کہ گولیاں برسانے کا الزام جھوٹا ہے۔ چنانچہ انہوں نے درخواست گزار رؤف احمد نامی شخص کو نقض امن کے مقدمے میں قصور جیل بھیج دیا۔
۵؍اگست کو ایک اَور احمدی کے ساتھ مخالفین نے گالی گلوچ کی اوربعد میں اسے ہی گرفتار کر لیا۔۷؍اگست کو موصوف کو ضمانت مل گئی۔
۷؍اگست کو ہی چلہار گاؤں کی ایک مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے ایک مولوی نے یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ ساتھ والے گاؤں بھلیر میں احمدیوں نے گستاخی کی ہے۔اس لیے تمام لوگ جمع ہو جائیں اور انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ احمدیوں نے انتظامیہ کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا تو پولیس نے اس مولوی اور اس کے چند شر پسند ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔اس کے تین ساتھی تو رہا ہو گئے لیکن ابھی دو جیل میں ہیں۔ پولیس نے امن و امان کی صورت حال کو بحال رکھنے کےلیے دونوں طرف سے لوگو ں کو جیل میں بند کیا ہوا ہے۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مظلوم کو بھی ظالم کے ساتھ ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے!
ایک احمدی کو تبلیغ کرنے کے الزام پر جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا
چک ۵/۱ رینالہ خورد۔ضلع اوکاڑہ۔۶؍اگست ۲۰۲۳ء: چاراحمدیوں کے خلاف تبلیغ کرنے کے الزام پرایک جھوٹا مقدمہ درج کروایا گیااور ان پر توہین کی دفعات لگا دی گئیں۔مقدمہ درج کروالے والا آصف نامی ایک شخص ان احمدیوں میں سے ایک کا دوست تھا۔اس احمدی کے کہنے پر ان کے بھائی نے آصف کو اس کی درخواست پر کاروبار میں لگانے کےلیے ۳۰؍ہزار یورکی رقم ادھار دی۔ بعد ازاں آصف نے یہ رقم واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر قرض خواہ نے سیٹیزن پورٹل کے ذریعے آصف پر مقدمہ درج کروا دیا۔ آصف نے بدلے میں چاراحمدیوںپر تبلیغ کا جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا۔
مقامی صدر جماعت کو جیل بھیج دیا گیا
نگر پار کر۔سندھ۔۱۵؍اگست ۲۰۲۳ء:کوہاڑا نگرپارکر کے مقامی صدر جماعت،ان کے تین ہندو رشتہ داروں اور تین دیگر لوگوں کو ایک جھوٹے مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ ایڈیشنل سیشن جج مٹھی نے باقی چھ افراد کو تو رہا کر دیا لیکن صدر جماعت کو پانچ سال کی سزا سنا دی۔ اس فیصلے کے خلاف اب سندھ ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے گے۔
ایک احمدی کی تدفین کو روک دیا گیا
جتوئی۔ مظفر گڑھ۔۱۵؍اگست ۲۰۲۳ء:ایک احمدی مشتاق احمد ۱۵؍اگست ۲۰۲۳ء کو وفات پا گئے۔ موصوف نے ۳۰؍سال قبل احمدیت قبول کی تھی اور ان کے باقی رشتہ دار غیراحمدی ہیں۔ جب تدفین کی تیاری مکمل ہو گئی اور قبرستان لےجایا گیا تو پتا چلا کہ کچھ شرپسند وہاں جمع ہیں جنہوں نے کہا کہ اگر اس بےدین کو یہاں دفن کیا گیا تو یہاں خون بہے گا۔اس موقع پر ایک مقامی سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والے شخص نے بھی ان کی مدد کی۔ اس پر ان کو احمدی موضع بیٹ دریائی لے جایا گیا جہاں پر احمدیوں کا قبرستان موجود تھا۔اس واقعہ کے بعد مخالفین نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نشر کی اور اپنی فتح کا اعلان کیا اور احمدیت مخالف نعرے بازی کرتے رہے۔
ایک احمدی ڈاکٹر فیصل آباد پولیس کے جارحانہ رویہ کا نشانہ بنے
نعمت کالونی۔ ضلع فیصل آباد۔۲۵؍جولائی ۲۰۲۳ء:سیکیورٹی وزٹ کے دوران ڈی ایس پی کی معیت میں پولیس ایک احمدی ڈاکٹرکے کلینک کے پاس رکی۔ڈی ایس پی نے کہا کہ کلینک کے باہر ڈاکٹر صاحب کے نام کی تختی سے ’سید‘ کا لفظ ہٹایا جائے۔ ڈاکٹر صاحب تو وہاں موجود نہ تھے لیکن ڈسپنسر نے تختی کو ہٹا دیا۔
بعد ازاں ڈی ایس پی نے وجہ بتائے بغیر کلینک کو چیک کرنے کا کہا اور ڈسپنسر کو دروازے کھولنے کا کہا۔ اس پر ڈسپنسر نے بتایا کہ چابیاں ڈاکٹر صاحب کے پاس ہیں جو اس وقت موجود نہیں۔چنانچہ ڈی ایس پی نےکلینک کو سیل کر دیا اور ڈاکٹر صاحب کو تھانے آنے کاپیغام بھیجا۔جب ڈاکٹر صاحب بعض دیگر احمدیوں کے ہمراہ تھانے پہنچے تو پتا چلا کہ یہ سب کارروائی تحریک لبیک کے کہنے پر کی گئی ہے۔ بہرحال گفت وشنید کے بعد انہیں کلینک کھولنے کی اجازت دےدی گئی۔
سانگھڑ میں احمدیہ مسجد پر حملہ
سانگھڑ۔سندھ۔۵؍اگست۲۰۲۳ء: دوپہر کے وقت چند شرپسند آئے اور ہتھوڑوں کی مدد سے مالی پارا میں موجود احمدیہ مسجد کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔اس سے چند روز قبل ملاؤںنے امیر صاحب ضلع کے فارم ہاؤس میں موجود مسجد کی مرمت کے متعلق پولیس کو شکایت کی تھی۔پولیس نے موقع پر آکر جائزہ لیا اور ان کو اس بات کا علم ہوا کہ یہ مسجد کافی پرانی ہے اور اس کی مرمت ضروری ہے۔ لیکن اس کے باوجود پولیس نے امیر صاحب ضلع اور ان کے بھائی کے خلاف مقدمہ درج کردیا۔ حالانکہ ان کے بھائی ان سے ایک ہزار کلومیٹر دور ربوہ میں مقیم ہیں۔۹؍اگست کو رات ساڑھے دس بجے دوبارہ ان مذہبی شر پسندوں نے مالی پارا کی مسجد پر حملہ کیا اور ہتھوڑوں کی مدد سے محراب کو نشانہ بنایا اور اسے شدید نقصان پہنچایا۔
نامعلوم مذہبی شر پسندوں نے احمدیہ مسجد کے میناروں کو مسمار کر دیا
۱۶۸ مراد۔ضلع بہاولنگر۔۶؍اگست ۲۰۲۳ء:عیدالاضحی سے ہی اس جگہ احمدیوں کے لیے صورت حال کافی مخدوش ہوچکی ہے اور احمدیوں کے خلاف مہم کافی زور پکڑ گئی ہے۔مستقل بنیادوں پر یہاں احمدیہ مسجد کو نقصان پہنچانے اور حملےکی دھمکیاں دی جارہی تھیں اور ہجوم کی شکل میں شدت پسندوں کی طرف سے حملے بھی کیے جارہے تھے۔احمدیوں نے انتظامیہ کو اس خراب صورت حال سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی ڈی پی او بہاولنگر کو بھی ملے۔وقتی طور پر تو معاملات معمول کے مطابق لگ رہے تھے تاہم ۶؍اگست۲۰۲۳ء کورات گیارہ بجے کے قریب مخالفین نے احمدیہ مسجد پر حملہ کیا اور مینارے شہید کر دیے۔احمدیوں نے فوری طورپر پولیس کو اس واقعہ سے آگاہ کیا۔پولیس نےموقع پر پہنچ کر جائزہ لیا اور بعض نا معلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )