حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی تفسیر کبیرکی روشنی میں واقعہ معراج و اسراء کی حقیقت
جب انسان خدا تعالیٰ کی خاطراِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ کی حد کو پہنچ جاتا ہے تب خدا تعالیٰ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ کی شان میں ہمیں نظر آتا دکھائی دیتا ہے۔ اس انسان کا اٹھنا، بیٹھنا،کھڑا ہونا،چلنا غرض ہر قسم کی ادا خدا تعالیٰ کی خاطر ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس کا اعلیٰ و اکمل نمونہ ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰﷺہیں۔جب انہوں نے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے خدا تعالیٰ کے سپرد کردیا تب خدا تعالیٰ نےہمارے نبیﷺ کو اپنا دیدار کروایا۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر کی روشنی میں واقعہ معراج اور اسراء کا مختصر خلاصہ پیش ہے۔جس سے اس واقعہ کی تفصیل اور اللہ تعالیٰ کی اپنے پیارے نبیﷺسے محبت آشکار ہوگی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ
خلاصہ واقعہ معراج و اسراء مفسرین کا اختلاف
٭…تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل میں معراج کےواقعہ کا ذکر کیا ہے مگر تمام مفسرین کا واقعہ معراج کی تفاصیل پر شدید اختلاف ہے۔
واقعہ معراج کا ذکر سورۃ النجم میں
٭…سورۃ بنی اسرائیل کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النجم میں بھی واقعہ معراج کا ذکر فرمایا ہے جس کی تفصیل رکوع نمبر ۱ میں موجود ہے۔ اس رکوع میں بیان فرمودہ امور، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ کسی معراج کی طرف ہی اشارہ ہےاور ان تمام امور کا ذکر معراج کی حدیثوں میں بھی آتا ہے، وہ اموردرج ذیل ہیں۔
(۱)سدرۃ المنتہیٰ تک آپﷺکا جانا(۲)سدرۃ المنتہیٰ پر کسی چیز کا نزول (۳)سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جنت کا دیکھنا (۴)قاب قوسین کی حالت پیدا ہونا(۵)اللہ تعالیٰ کا دیکھنا(۶)کلام الٰہی کا وہاں نازل ہونا۔ یعنی نبی کریمﷺکا خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونا۔
زمانہ واقعہ معراج و اسراء
(تاریخ اور واقعات کی رُوسے )
٭…سورۃ النجم کا نزول نبوت کے پانچویں سال کا ہے۔اور اس سورت کے نزول کے وقت ایک بہت ہی اہم واقعہ رونما ہوتا ہے جو اس سورت کےنزول کے صحیح وقت کا تعین کرتا بھی ہمیں نظر آتا ہےاور وہ ہے رجب ۵؍ نبوی میں کفار کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف مسلمانوں کا ہجرت کرنا اس پر کفار کا پیچھا کرنا یہاں تک کہ بادشاہ کے دربار میں مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کرنا مگرکفار کے وفد کاناکامی پر واپس مکہ کی طرف لوٹ آنااور پھر کسی دن نبی کریمﷺکی خدمت میں آکر کفار کا قرآن سننے کا مطالبہ کرنااور پھر نبی کریمﷺکا سورۃ النجم کی تلاوت کرنا۔کیونکہ جب آپﷺنے سورۃ النجم کی تلاوت کی تو کفار نے سجدہ کیا اور تمام علاقہ میں خبر پھیل گئی کہ تمام کفار مسلمان ہوگئے ہیں۔اس پر یہ جھوٹی خبر سن کر کچھ مہاجرین بھی واپس آگئے۔مہاجرین کی واپسی شوال ۵؍ نبوی میں بیان کی جاتی ہے۔اور یہ واقعہ تاریخ اوراحادیث کی تمام کتابوں میں درج ہے۔
پس اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ چونکہ سورۃ النجم شوال ۵؍ نبوی میں نازل ہوچکی تھی لہٰذا واقعہ معراج بھی یقیناً شوال ۵ نبوی سے پہلے کا ہے۔
٭…سورت بنی اسرائیل میں جس معرا ج کا ذکر ہے اس کی بابت بھی مؤرخین اور محدثین میں اختلاف موجود ہے۔ کسی نے اس واقعہ کوربیع الاول یا ربیع الثانی ۱۱؍ نبوی کا لکھا ہے تو کسی نے اس واقعہ کو ۱۲؍نبوی میں تسلیم کیا ہے اور بعض صحابہؓ کے نزدیک یہ معراج ہجرت مدینہ سے چھ ماہ یا ایک سال قبل کا ہے۔جس میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نام قابل ذکر ہیں۔واقعہ اسراء کے ۱۱؍ نبوی میں ہونے کے ثبوت کے حوالے سے ذیل میں تاریخی شواہد بیان کیے جاتے ہیں۔
(۱)یہ واقعہ شعب ابی طالب کے بعد کا ہے کیونکہ جب آپﷺاپنے ساتھیوں کے ساتھ شعب ابی طالب میں گئے اس وقت نبوت کا ساتواں سال تھا اور جب آپ باہر واپس آئے تب نبوت کا دسواں سال تھا۔
(۲)حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو آپﷺ کی چچا زاد بہن تھیں ان کے گھر قیام کے دوران آپﷺکو یہ معراج ہوا۔چونکہ حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابوطالب کی زندگی میں آپﷺ اپنے چچا کے گھر نہیں رہ سکتے تھے اس لیے لازماً یہ واقعہ دونوں کی وفات کے بعد کا ہوگا۔اور تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ ۱۰؍ نبوی میں حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابوطالب نے وفات پائی۔
معراج اور اسراء دو الگ الگ واقعات
(تاریخی اور واقعاتی رُو سے)
٭…حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے نزدیک نبی کریمﷺ کو دو معراج نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے تین معراجوں کا تحفہ پیش کیا۔پہلا تحفہ معراج کا اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو نبوت کے ابتدائی ایام میں عطا فرمایا جب خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے پر نمازوں کی فرضیت کی گئی۔تمام مسلمانوں میں مسلّمہ طور پر یہ بات رائج ہے کہ نمازیں نبوت کے ابتدا میں ہی فرض ہوچکی تھیں نہ کہ پانچویں یا گیارھویں سال میں۔ دوسرا معراج نبوت کےپانچویں سال ہوا جس میں خدا تعالیٰ نےآپﷺکو آسمانوں کی سیر کروائی اور اس کے ساتھ ساتھ تمام انبیائےکرام سےآپﷺکی ملاقات ہوئی اور خدا تعالیٰ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس آپﷺ پر جلوہ افروز ہوا۔ اور تیسرا معراج نبوت کے گیارھویں سال ہوا جب آپﷺ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے ہاں مقیم تھے۔پس تاریخ کے حوالے سے یہ تین الگ الگ واقعات ہوئے ۔جبکہ واقعاتی طور پر ذیل میں ثبوت بیان کیے جاتے ہیں۔
(۱)قرآن کریم کی سب سے بڑی گواہی ان واقعات کے الگ الگ ہونے پر یہ ہے کہ سورۃ النجم میں جس معراج کا ذکر ہے اس میں بیت المقدس جانے کا ذکر نہیں جبکہ سورت بنی اسرائیل میں بیت المقدس جانے کا ذکر ہے۔
(۲)حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا موقع کی گواہ ہیں کیونکہ جس رات میں یہ واقعہ ہوا تو آنحضرتﷺ نے ام ہانی کو یہ واقعہ سنایا اور اس تمام روایت میں جس کو سات محدثین نے اپنی اپنی کتب میں لکھا ہے صرف اور صرف بیت المقدس کی جانب سفر کا ذکر ہے اور کہیں اَور جانے کا ذکر نہیں۔
واقعات کےخلط ہونے کی وجوہات
(۱)عربی زبان میں آسمان پر جانے کے ذکر میں یا زمین میں سفر کرنے میں اگرچہ وہ رات کا سفر ہو اس کے لیے اسراء کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔اب چونکہ دونوں واقعات رات کے وقت ہوئے تھے اس لیے ان دونوں کو اسراء ہی کہا جاتا تھا۔
(۲)نظارے قدرے مشترک تھے جیسے براق کا ہونا، انبیاء سے ملاقات،انبیاء کی امامت،دوزخ جنت کے نظارے۔
اسراء ایک نہایت لطیف کشف
٭…سفر کے دوران جبرائیل کا بڑھیا،آدمی،پانی،دودھ اور شراب کی تعبیر کرنا ہی اس واقعہ کو کشف ثابت کرتا ہے۔
٭…قرآن کریم نے اس کو رؤیا قرار دیا ہے فرمایا: وَمَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّافِتۡنَۃً
٭…جب لوگوں کی طرف سے بیت المقدس کا نقشہ بیان کرنے کا مطالبہ ہوا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میں بیت المقدس کو نہ جانتا تھا کہ اچانک خدا نے کشفی حالت طاری کی اور میں ان لوگوں کو بیت المقدس کا تمام نقشہ بتاتا گیا۔
کشف کی اقسام
٭…ایسا کشف جس میں دکھائے جانے والے نظارے جسمانی دنیا کے مطابق ہوتے ہیں جیسے دوربین سے کسی چیز کو دیکھنا۔
٭…دوسری قسم کشف کی ایسی ہوتی ہے جس میں بعض حصہ تو اوپر بیان کردہ قسم کا ہوتا ہے اور بعض حصہ تعبیر طلب ہوتا ہے۔
٭…تیسری قسم کے کشف میں سارا کاسارا تعبیر طلب ہوتا ہے۔
عظیم الشان کشف کی غرض و غایت
٭…ہجرت مدینہ کی خبر دی گئی تھی۔
٭…بیت المقدس دکھانے سے مراد مسجد نبویﷺ کی تعمیرتھی۔
٭…سب انبیاء کی امامت سے یہ مراد تھی کہ آپﷺ کاسلسلہ عرب سے نکل کر دوسری اقوام تک جانے والا ہے۔
٭…سب سے بڑھ کر یہ اشارہ بھی تھا کہ بیت المقدس کے علاقہ کی حکومت اب آپﷺکو دی جائے گی۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد۴صفحہ۲۸۰تا۲۹۴)