ذریّت طیّبہ اور کوثر کا انعام
ایک بار حضوراکرمﷺ اپنے ننھے نواسے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے پیار کرتے ہوئے ان کا منہ چوم رہے تھے۔ وہاں موجود ایک شخص نے حیران ہو کر کہا : حضور! میرے دس بیٹے ہیں مگر میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں کیا۔ آپؐ نے فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اللہ پاک بھی اس پر رحم نہیں فرماتا۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الولد و تقبیلہ و معانقتہ)
اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ ایک بار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ آپؐ کا وہاں سے گزر ہوا، آپ نے امام حسین کو پکڑنا چاہا تو وہ کھیل کے طور پر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر برابر مسکراتے رہےبالآخر امام حسین کو پکڑ لیا اور ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ان کے سر پر ركھ كر ان کا بوسہ لیا۔اور فرمایا: حُسَيْنٌ مِنِّي وَاَنَا مِنْ حُسَيْنٍ اَحَبَّ اللّٰهُ مَنْ اَحَبَّ حُسَيْنًا یعنی حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب السنۃ فضل الحسن والحسين حدیث نمبر ۱۴۴)
بعض معاشروں میں یہ بات آج بھی نظر آتی ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں سے اور بچے اپنے والدین سے محبت کا اظہار کرنے سے گھبراتے ہیں اور اسے عجیب محسوس کرتے ہیں لیکن بچوں سے محبت اور شفقت کی کیا ہی بہترین مثالیں ہیں جو ان دونوں واقعات میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جاہلیت کا وہ دور جس میں باقی انسانی اور معاشرتی حقوق کے ساتھ ساتھ اولاد اور بچوں کے حقوق بھی غصب کیے جاتے تھے۔ وہ زمانہ جب غریبی کے سبب اپنی اولاد کو قتل کردیا جاتا تھا اور اسی طرح بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتاتھا۔ ایسے ظلمت کے دور میں آپﷺ ایک روشن آفتاب کی طرح طلوع ہوئے اور دنیا میں آکرتمام مظلوم طبقات کو ان کے حقوق دلوائے۔ اور بچوں کے حقوق کے بارے میں تو اس قدر تاکید فرمائی کہ ایک مرتبہ آپؐ نے اپنے اصحابؓ سے اس حوالے سے بیعت بھی لی۔عبادہ بن صامتؓ جو کہ مدینہ کے اوّلین مسلمانوں میں سے تھے ان کی ایک روایت اس بیعت کے حوالے سے ملتی ہے۔انہوں نے روایت میں بیعت کے الفاظ کا ذکر فرمایا ہے جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے کہ وَلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَكُمْ یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کروگے۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان باب علامۃ الایمان حب الانصار، حدیث نمبر ۱۸)
آنحضرتﷺ کی نرینہ اولاد
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی پہلی شادی پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ سے ہوئی جو آپﷺ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں۔ آنحضرتﷺ کی تمام اولاد حضرت خدیجہؓ سے ہوئی سوائے آپ کے ایک بیٹے ابراہیم کے جو بچپن میں وفات پاگئے تھے۔آپ کی چار بیٹیوں کے حوالے سے تو عموماً تاریخ و سیرت کے علماء کا اتفاق ہےلیکن بیٹوں کی تعداد اور نام کے حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ آپﷺ کے تمام بیٹے چھوٹی عمر میں ہی وفات پاگئے تھے۔مستند طور پر آپ کے بیٹوں کی تعداد چار بیان کی جاتی ہے۔آپؐ کے سب سے پہلے بیٹے جن کے بارے میں تاریخ دانوں میں اختلاف نہیں ان کا نام قاسم تھا اور انہی کی وجہ سے آپﷺ کی کنیت ابوالقاسم مشہور ہوئی۔آپ کے یہ بیٹے صرف ڈیڑھ دو سال تک زندہ رہےاور بعض روایتوں کی رُو سے صرف سات دن۔(سیرت حلبیہ جلد ۳ صفحہ ۴۰۴)اس کےبعد ابن اسحاق کے مطابق آپ کے ہاں دو بیٹے طاہر اور طیب پیدا ہوئے،مگر یہ دونوں بھی زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکےاور نبوت سے پہلے ہی ان کی وفات ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام جلد ۱صفحہ ۱۹۲)
چوتھے بیٹے ابراہیم ہیں جو آپﷺ کی اہلیہ حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے پیدا ہوئے اور یہ بیٹے بھی روایتوں کے مطابق تقریباً دو سال تک زندہ رہے۔ ان بیٹوں کے علاوہ اور بھی کئی نام تاریخ میں ملتے ہیں جو سب آپﷺ کی زندگی میں وفات پاگئے۔ ان تمام لڑکوں (بیٹوں اور نواسوں)کا اگر مجموعی طور پر شمار کریں جو آپ کی زندگی میں فوت ہوئے تو یہ تعداد گیارہ بارہ تک پہنچ جاتی ہے۔ (سیرت الحلبیہ جلد۳ صفحات۴۰۴-۴۰۷)
لیکن ان تمام مشکل لمحات میں عظیم الشان صبر کا جو نمونہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ بےمثال ہے۔جب آپ کی آنکھیں اپنے ایک نواسے کی جدائی پر اشکبار ہوئیں تو ایک بھی حرف شکایت زبان پر جاری نہ ہوا بلکہ یہی کہا کہ اللہ ہی کا ہے جو وہ لیتا ہے اور وہ بھی جسے وہ دیتا ہےاور سب کے لیے ایک مدت مقرر ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب ما جاء في قول اللّٰہ تعالىٰ إن رحْمةاللّٰہ قريب من المحسنين)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپﷺ کے اس عظیم خُلق کو یوں بیان فرماتے ہیں:’’تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیارہ۱۱ لڑکےپیداہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہوگئے تھے اور آپ نے ہر ایک لڑکے کی وفات کے وقت یہی کہا کہ مجھے اس سے کچھ تعلق نہیں میں خدا کا ہوں اورخدا کی طرف جاؤں گا۔ ہر ایک دفعہ اولاد کے مرنے میں جو لخت جگر ہوتے ہیں یہی منہ سے نکلتا تھا کہ اے خدا ہر ایک چیز پر میں تجھے مقدّم رکھتا ہوں مجھے اس اولاد سے کچھ تعلق نہیں. کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ بالکل دُنیا کی خواہشوں اور شہوات سے بے تعلق تھے اور خدا کی راہ میں ہر ایک وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے تھے۔‘‘(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ۲۹۹)
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آنحضرتﷺ کی تمام بیٹیا ں نبوت کے دعویٰ سے پہلے پیدا ہوئیں۔ حضرت زینبؓ آپﷺ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔آپﷺ کی عمر ۳۰ سال تھی جب آپ کی ولادت ہوئی۔آپ کی شادی اپنی خالہ کے بیٹے ابو العاص سے ہوئی۔ حضرت زینب کے ہاں دو بچے پیدا ہوئے ایک علی جو کہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے اورایک امامہ جو بڑی ہوئیں، ان کے ہاں اولاد بھی ہوئی لیکن آگے نسل نہ چل سکی۔آپﷺ کو اپنی نواسی امامہ سے بے حد پیار تھا۔ایک مرتبہ نجاشی کی طرف سے کچھ زیور ہدیہ کے طور پر آئے جن میں ایک سونے کی انگوٹھی بھی تھی، آپﷺ نے اپنی نواسی امامہ کو بلایا اور کہا یہ لو بیٹی اسے پہن لو۔ہجرت مدینہ کے موقع پر حضرت زینبؓ ابوالعاص سے شادی کی وجہ سے آپﷺ کے ہمراہ نہ جاسکیں۔ ابو العاص غزوہ بدر میں کفار کی طرف سے لڑے اور آخر قید ہوگئے۔ حضرت زینبؓ نے اپنے شوہر کے فدیہ کے طور پر وہ ہار جو حضرت خدیجہؓ نے انہیں شادی کے موقع پر دیا تھا فدیہ کے طور پر بھیجا،جب وہ ہار آپﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپﷺ کا دل رحم سے بھر گیا اور آپﷺ نے فدیہ لیے بغیر اس عہد پر کہ وہ آپﷺ کی بیٹی حضرت زینب ؓکو مدینہ آنے دیں گے آزاد کردیا۔اب ابو العاص نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت زینبؓ کو مدینہ جانے کی اجازت تو دے دی لیکن کفار کو جیسے ہی اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کا پیچھا کیا اور ایک مشرک ہبار بن اسود نے آپؓ کی اونٹنی پر حملہ کیا اور آپؓ اس اونٹنی سے نیچے گر گئیں۔ اس وقت آپؓ حمل کی حالت میں تھیں وہ حمل بھی ضائع ہو گیا اور آپ کو واپس مکہ آنا پڑا۔
آخر اتنی تنگی اور دشواری کے بعد آنحضرتﷺ نے حضرت زیدؓ کو خود مکہ بھجوایا کہ وہ انہیں مدینہ لے آئیں۔چنانچہ آپؓ حضرت زیؓد کے ساتھ مدینہ تشریف لائیں۔ آپﷺ کو بھی اپنی اس بیٹی کے درد کا اندازہ تھا اس لیے ایک مرتبہ آپﷺ نے یہ فرمایا:هي أفضل بناتي أصيبت فيکہ میری اس بیٹی نے میری وجہ سے بہت دکھ سہے ہیں اور اس قربانی میں میری تمام بیٹیوں پر فضیلت رکھتی ہے۔(تاریخ الصغیر از امام بخاری زیر لفظ زینب رضی اللہ عنہا)
حضرت زینبؓ کے شوہر ابو العاص نے ۷؍ ہجری میں اسلام قبول کرلیا اور آپ دونوں دوبارہ ساتھ رہنے لگے۔ ابو العاص نے اس عرصہ میں آپ کا بے حد خیال رکھا لیکن حضرت زینبؓ اس کے بعد زیادہ دیر زندہ نہ رہیں اور ۸؍ ہجری میں آپ کی وفات ہوگئی۔ آنحضرتﷺ نے خود اپنی بیٹی کا جنازہ پڑھایا۔(سنن ابو داؤد، کتاب الخاتم باب ما جاء فی الذھب النساء)
حضرت رقیہؓ اور ام کلثومؓ
حضرت زینبؓ کی پیدائش کے بعد حضرت رقیہؓ اور ام کلثومؓ پیدا ہوئیں۔ حضرت رقیہؓ کی پیدائش کے وقت آپﷺکی عمر۳۳؍سال تھی۔اسی کے ڈیڑھ دوسال بعد حضرت ام کلثومؓ کی پیدائش ہوئی۔ظہور اسلام سے قبل ان دونوں بیٹیوں کی شادی آپﷺ کے چچا ابو لہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ طے ہوچکی تھی۔ نبوت کے اعلان کے بعد ابو لہب نے آپﷺ کی شدید مخالفت شروع کردی یہاں تک کہ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کوآپﷺ کی بیٹیوں سے علیحدگی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ان دونوں نے اپنے والد کے حکم کے مطابق مفارقت اختیار کرلی۔آنحضرتﷺ نے ان دونوں بیٹیوں کا نکاح یکے بعد دیگرےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کروایا۔ اس وجہ سے حضرت عثمانؓ کو ذو النورین کا خطاب ملا یعنی دو نوروں والا۔ان دونوں بیٹیوں سے بھی آگے نسل نہ چل سکی۔
نبوت کے بعد مکہ میں مسلمانوں پر سختیوں کے وقت جب آپﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا توان ہجرت کرنے والوں میں حضرت عثمانؓ اور آپ کی اہلیہ حضرت رقیہؓ بھی شامل تھے۔حبشہ میں آپ کے ہاں ایک بیٹا عبد اللہ نامی پیدا ہوا جو چھ سال تک زندہ رہا۔(سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی جلد۲ صفحہ ۲۴۶ )
آخر کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد آپ دونوں حبشہ سے مدینہ آگئے۔جنگ بدر کے موقع پر حضرت رقیہؓ شدید بیمار ہوگئیں،آپﷺ نے بیٹی کی فکرمیں حضرت عثمانؓ کو آپ کی تیمارداری کے لیے مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا۔ (بخاری، کتاب الخمس، باب إِذَا بَعَثَ الْإِمَامُ رَسُولًا فِي حَاجَةٍ أَوْ أَمَرَهُ بِالْمُقَامِ هَلْ يُسْهَمُ لَهُ)
اس جنگ میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتح حاصل ہوئی،لیکن اس خوشخبری کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی حضرت رقیہؓ انتقال فرماگئیں۔جنگ ِ بدر میں مصروفیت کی وجہ سے آپﷺ اپنی اس پیاری بیٹی کا جنازہ نہ پڑھا سکے۔
اس غزوہ کے بعد حضرت ام کلثوم حضرت عثمانؓ کے عقد میں آئیں۔ آپﷺ کو اپنی ان صاحبزادی سے بھی بےحد پیار تھا۔آپؓ کی شادی کی خوشی کے موقع پر آپﷺ نے ام ایمنؓ کوجو آپ کی خادمہ تھیں فرمایا:میری بیٹی کو اچھی طرح تیار کرو اور اسے اپنے شوہر کے پاس دلہن بنا کر لے جاؤ۔ شادی کے بعد آنحضرتﷺ نے اپنی بیٹی سے (ان کی خوشی دریافت کرنے کی خاطر )یہ پوچھا کہ اپنے شوہر کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ بہت ہی عمدہ شوہر ہیں۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال جلد ۶ صفحہ ۲۳۴)
نکاح کے بعد تقریباً چھ سال تک آپ حیات رہیں اور ہجرتِ مدینہ کے نو سال بعد آپؓ کی وفات ہوئی اور آپﷺ نے خود ان کی نماز ِجنازہ پڑھائی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کی سب سے چھوٹی اورمحبوب صاحبزادی تھیں۔ آپ کی پیدائش کے حوالے سے مختلف روایات تاریخ میں ملتی ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ آپ نبوت سے پہلے پیدا ہوئیں اور بعض بعثت کے عین بعد بیان کرتے ہیں۔مگر ابن اسحاق کے مطابق بیٹے ابراہیم کے علاوہ آپﷺ کی تمام اولاد دعویٰ نبوت سے قبل پیدا ہوئی۔اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ آپ دعویٰ نبوت سے قریب کے زمانہ میں پیدا ہوئی تھیں۔
آنحضرتﷺ کو ان سے بے حد پیار تھا۔ جب بیٹی حضرت فاطمہؓ حضورؐ سے ملنے کے لیے آتیں تو حضور ؐکھڑے ہو کر ان کا استقبال فرماتے۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔(سنن ترمذی ،کتاب المناقب باب مناقب فاطمۃ)
ہجرت کے دوسرے سال میں حضرت فاطمہؓ کی شادی آپﷺ کے چچا ابو طالب کے بیٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔حضرت فاطمہ کو شادی کے موقع پر آپﷺ کی طرف سے ایک پلنگ، مشکیزہ اور ایک بسترتحفہ میں ملا۔رخصتانہ کے بعد آپﷺ ان کے گھر گئے اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی اَللّٰھُمَّ بَارِكْ فِیْھِمَا وَبَارِكْ عَلَیْھِمَا وَبَارِكَ لَھُمَا فی نَسْلِھِمَا ’’اے میرے اللہ! ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت نازل فرما اور ان دونوں کے رشتوں میں برکت عطا فرما جو دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی اولاد میں برکت نازل فرما‘‘۔(الاصابة فی تمییز الصحابہ جلد ۸ صفحہ ۲۶۵)
اس دعا نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی قبولیت کا رنگ پکڑاکہ آپﷺ کے بچوں میں سے صرف حضرت فاطمہؓ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کی اولاد سے نسل کا سلسلہ جاری رہا۔ مسلمانوں میں سے وہ قوم جو آپ کی نسل سے ہے سادات کہلاتی ہے۔
حضرت فاطمہؓ کے ہاں پانچ بچے پیدا ہوئے۔ان میں حسن، حسین،محسن،امّ کلثوم اور زینب شامل ہیں۔ آنحضرتﷺ کا اپنے ان بچوں سے بھی نہایت ہی محبت کا تعلق تھا۔آپﷺ نے ایک مرتبہ اپنے نواسے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے حق میں یہ دعا کی:هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أُحِبُّهُمَا فَأَحِبُّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَ۔ یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے۔ (سنن الترمذي، كتاب المناقب عن رسول اللّٰه باب مناقب الحسن والحسین)
آنحضرتﷺ کے بچوں میں سے صرف حضرت فاطمہؓ ہی ہیں جو آپﷺ کی وفات کے بعد فوت ہوئیں۔آپؓ ۱۱؍ ہجری میں آپﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد فوت ہوئیں۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی باب غزوہ خیبر۔۴۲۴۰)
اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ
آنحضرتﷺ کی زندگی میں بچوں اور خاص طور پر نرینہ اولاد کی وفات کے متواتر صدموں پر آپؐ کے دشمن بہت خوش ہوتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اب تو آپؐ کا سلسلہ ختم ہوجائے گاکیونکہ آپؐ کی کوئی اولاد نہیں ہے اس لیے آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کا نام و نشان باقی نہ رہے گا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب کے طور پر سورۃالکوثر نازل فرمائی کہ وہ دشمن جو یہ کہتے ہیں کہ آپﷺ کانعوذ باللہ نام و نشان مٹ جائے گا وہ یہ بات سن لیں کہ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الۡاَبۡتَرُ یعنی تیرے یہ مخالف ہی نرینہ اولاد سے محروم ہوجائیں گے۔مطلب یہ کہ ان کی اولادیں بھی بالآخر آنحضرتﷺ کے پیغام کو قبول کرکے آپ کی روحانی اولاد میں شامل ہوجائیں گی۔ چنانچہ اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا۔ عاص بن وائل اور ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمروبن العاص اور خالد بن ولید ۸؍ ہجری میں مسلمان ہوگئے۔اس طرح وہ سب جو آپﷺ کے بیٹوں کے حوالے سے طنز کیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام و نشان مٹا دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:اگر آپﷺکا سلسلہ آپ سے ہی شروع ہو کر آپ ہی پر ختم ہو گیا تو آپ ابتر ٹھہریں گے (معاذ اللہ)۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (الکوثر:۴)یعنی تجھے تو ہم نے کثرت کے ساتھ روحانی اولاد عطا کی ہے جو تجھے بے اولاد کہتا ہے وہی ابتر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی فرزند تو کوئی تھا نہیں۔ اگر روحانی طور پر بھی آپ کی اولاد کوئی نہیں تو ایسا شخص خود بتاؤ کیا کہلاوے گا؟ میں تو اس کو سب سے بڑھ کر بے ایمانی اور کفر سمجھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس قسم کا خیال بھی کیا جاوے۔ اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ (الکوثر:۲) کسی دوسرے نبی کو نہیں کہا گیا۔ یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خاصہ ہے۔ آپ کو اس قدر روحانی اولاد عطا کی گئی جس کا شمار بھی نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے کہ قیامت تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ روحانی اولاد ہی کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں کیونکہ آپؐ کے انوار و برکات کا سلسلہ برابر جاری ہے اور جیسے اولاد میں والدین کے نقوش ہوتے ہیں اسی طرح روحانی اولاد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور فیوض کے آثار اور نشانات موجود ہیں۔ الْوَلَدُ سِرٌّ لِأَبِيْهِ۔( الحکم جلد۹ نمبر ۳۹ مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳ ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۳۰۶-۳۰۷، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
پس اگر آج ہم بھی آنحضرتﷺ کی حقیقی روحانی اولاد میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں آپﷺ کا حقیقی سِرّ بنتے ہوئے آپﷺ کا نقش اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا اور اپنی عبادات اور قربانیوں کے معیاروں کو بڑھانا ہوگا۔تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کے فیوض حاصل کرنے والے بن سکیں گے اور اس روحانی سلسلہ میں شامل ہوجائیں گے جو سورۃ الکوثر کے وعدے کی صورت میں قیامت تک جاری رہنے والا ہے۔ان شاءاللہ