ہر احمدی دوسرے احمدی کو نماز کی طرف توجہ دلاتا رہے
ایک مومن کی ایک یہ شان ہے کہ نہ صرف خود نمازوں کا اہتمام کرے بلکہ دوسروں کو بھی تلقین کرتا رہے۔ جماعتی نظام بھی ایک خاندان کی طرح ہے۔ اس میں ہر ایک کو اپنے ساتھ اپنے بھائی کی بھی فکر کرنی چاہئے۔ جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے، اپنے عزیزوں کے لئے بھی پسند کرنی چاہئے۔ یہ ثواب کمانے اور نیکی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ لیکن پیار سے توجہ دلانی چاہئے۔ جس کو توجہ دلائی جارہی ہو اس کوبھی بُرا نہیں منانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاْمُرْاَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْعَلَیْھَا (سورۃ طٰہٰ :۱۳۳) اور تُو اپنے اہل کو نماز کی تلقین کرتا رہ اور خود بھی نماز پر قائم رہ۔ پس جہاں ماں باپ، بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کو نماز کی تلقین کرنی چاہئے وہاں پر ہر احمدی کو دوسرے احمدی کو بھی پیار سے اور نظام جماعت جو اس کام پرمامور ہے ان کو بھی دوسروں کو نمازوں کی طرف توجہ دلاتے رہنا چاہئے۔ یہی چیز ہے جو مومنین کی جماعت کو مضبوطی عطاکرتی ہے۔ یہی چیز ہے جس سے بندے اور خدا کے درمیان ایک تعلق قائم ہوتا ہے جو بندے کو خدا کے قریب کرتا ہے اور یہ تعلق اس لئے نہیں کہ دنیاوی مقاصد حاصل کرنے ہیں بلکہ اصل مقصد روحانیت میں ترقی کرنا اور خدا کا قُرب پانا ہے۔ پس جب اس مقصد کے حصول کے لئے ایک دوسرے کو توجہ دلارہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کو سمیٹنے والے بن رہے ہوں گے اور جماعتی مضبوطی بھی پیدا ہورہی ہوگی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے شرط وہی لگائی کہ خود بھی نمازوں کی طرف توجہ کرو۔ اپنے عمل کی شرط ضروری ہے۔
(خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۲۰۰۷ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۷؍جولائی ۲۰۰۷ء)