اس نے ایمان کا حظّ نہیں اٹھایا جس نے نماز میں لذّت نہیں پائی
انسان کی زاہدانہ زندگی کا بڑا بھاری معیار نماز ہے۔وہ شخص جو خدا کے حضور نماز میں گریاں رہتا ہے امن میں رہتا ہے۔جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں چیخ چیخ کر روتا ہے اور اپنی ماں کی محبت اور شفقت کو محسوس کرتا ہےاسی طرح پر نماز میں تضرّع اور ابتہال کے ساتھ خدا کے حضور گڑ گڑانے والا اپنے آپ کو ربوبیت کی عطُوفت کی گود میں ڈال دیتا ہے۔یاد رکھو اس نے ایمان کا حظ نہیں اٹھایا جس نے نماز میں لذت نہیں پائی۔نماز صرف ٹکروں کا نام نہیں ہے۔بعض لوگ نماز کو تو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی ٹھونگیں مارتی ہےختم کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دعا شروع کرتے ہیں حالانکہ وہ وقت جو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے کے لئے ملا تھا اس کو صرف ایک رسم اور عادت کے طور پر جلد جلد ختم کرنے میں گزار دیتے ہیں اور حضور الٰہی سے نکل کر دعا مانگتے ہیں۔نماز میں دعا مانگو۔نماز کو دعا کا ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھو۔
فاتحہ فتح کرنے کو بھی کہتے ہیں۔مومن کو مومن اور کافر کو کافر بنا دیتی ہے۔یعنی دونو میں ایک امتیاز پیدا کر دیتی ہے اور دل کو کھولتی،سینہ میں ایک انشراح پیدا کرتی ہے۔ اس لئے سورۂ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہیے اور اس دعا پر خوب غور کرنا ضروری ہے۔انسان کو واجب ہے کہ وہ ایک سائل کامل اور محتاج مطلق کی صورت بنا وے اور جیسے ایک فقیر اور سائل نہایت عاجزی سے کبھی اپنی شکل سے اور کبھی آواز سے دوسرے کو رحم دلاتا ہے۔اسی طرح سے چاہیے کہ پوری تضرّع اور ابتہال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض حال کرے۔
پس جب تک نماز میں تضرّع سے کام نہ لے اور دعا کے لئے نماز کو ذریعہ قرار نہ دے نماز میں لذت کہاں۔
(ملفوظات جلد ۲ صفحہ۱۴۵-۱۴۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)