مجلس انصار اللہ کے قیام کا مقصد بانی تنظیم حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات کی روشنی میں
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اللہ پاک نے اپنی پیشگوئی کے مطابق سخت ذہین و فہیم بنایا تھا اور ہر طرح کے علوم سے خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی پُر فرمایا تھا۔ آپ کی خلافت کے زمانے میں جب بیرونی طور پر جماعت کے خلاف حملے ہو رہے تھے آپ نے نہ صرف اپنی خداداد صلاحیت سے ان کا منہ بندکیا بلکہ جماعت کو اندرونی طور پر مستحکم کرنے کے لیے ان کی تنظیم سازی فرمائی۔پہلے لجنہ اماءاللہ کا قیام فرمایا پھر مجلس خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کا قیام عمل میں لائے اور جولائی ۱۹۴۰ء میں آپ نے مجلس انصار اللہ کی تنظیم قائم فرمائی۔
حضرت مصلح موعودؓ ذیلی تنظیموں کے قیام کی غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ان مجالس کا قیام میں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے۔ چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ اور چالیس سال سے اوپر عمر والوں کے لئے انصاراللہ اور عورتوں کے لئے لجنہ اماء اللہ ہے۔ ان مجالس پر دراصل تربیتی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھو کہ اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ ایک شعر لکھ رہے تھے۔ ایک مصرعہ آپ نے لکھا کہ
ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے
اسی وقت آپؑ کو دوسرا مصرعہ الہام ہوا جو یہ ہے کہ
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر جماعت تقویٰ پر قائم ہوجائے تو پھروہ خود ہر چیز کی حفاظت کرے گا۔ نہ وہ دشمن سے ذلیل ہوگی، اور نہ اسے کوئی آسمانی یا زمینی بلائیں تباہ کرسکیں گی۔ اگر کوئی قوم تقویٰ پر قائم ہوجائے تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی… پس مجلس انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کا کام یہ ہے کہ جماعت میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے پہلی ضروری چیز ایمان بالغیب ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ، ملائکہ، قیامت، رسولوں اور ان شاندار عظیم الشان نتائج پر جو آئندہ نکلنے والے ہیں، ایمان پیدا کرنا چاہئے۔ انسان کے اندر بزدلی اور نفاق وغیرہ اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل میں ایمان بالغیب نہ ہو۔ اس صورت میں انسان سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے یہ بھی اگر چلاگیا تو پھر کچھ نہ رہے گا اور اس لئے وہ قربانی کرنے سے ڈرتاہے۔(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ۵۱تا۵۵)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جہاں انصاراللہ کی الگ تنظیم قائم فرمائی وہاں ان کے لیے لائحہ عمل بھی خود تجویز فرمایا۔آپؓ نے انصار اللہ کے قیام کی چھ اغراض بیان فرمائیں جو کہ درج ذیل ہیں:۱۔ایمان بالغیب ۲۔اقامت الصلوٰۃ ۳۔انفاق فی سبیل اللہ ۴۔ ایمان بالقرآن ۵۔ بزرگانِ دین کا احترام ۶۔ یقین بالآخرۃ
ان اغراض کے آخر پر آپؓ نے فرمایا کہ یہ چھ کام ہیں جو انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کے ذمہ ہیں۔ان کو چاہئے کہ پوری کوشش کر کے جماعت کے اندر ان امور کو رائج کریں تاکہ ان کا ایما ن صرف رسمی ایمان نہ رہے بلکہ حقیقی ایمان ہو جو انہیں خدا تعالیٰ کا مقرب بنا دے اور وہ غرض پوری ہو جس کے لیے میں نے اس تنظیم کی بنیاد رکھی ہے۔(مطبوعہ الفضل ۲۶؍اکتوبر ۱۹۶۰ء)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار۔ گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے۔ اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہوجاؤ۔ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسلٍ چلتا چلا جاوے اوراس کے دو ذریعے ہوسکتے ہیں۔ ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے۔ اسی لئے مَیں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں۔ اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی تو اگلی نسل انصاراللہ کی اعلیٰ ہوگی۔ میں نے سیڑھیاں بنادی ہیں۔ آگے کام کرنا تمہارا کام ہے۔ پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے۔ دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے۔ تیسری سیڑھی انصار اللہ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے۔ تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خداتعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیڑھیاں مکمل ہوجائیں گی۔ اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہوجائیں اور پھر تم بھی دعائیں کرو اور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو۔ تو پھر تمہارے لئے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں اور جو عرش پر چلاجائے وہ بالکل محفوظ ہوجاتاہے۔ دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو دوسو فٹ پر حملہ کرسکتی ہے۔ وہ عرش پر حملہ نہیں کرسکتی۔ پس اگر تم اپنی اصلاح کرلوگے اور خداتعالیٰ سے دعائیں کروگے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجائے گا اور اگر تم حقیقی انصاراللہ بن جاؤ اور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی۔‘‘(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ۱۱۴-۱۱۵)
آپ رضی اللہ عنہ نے انصا راللہ کو اپنے فرائض کی تکمیل کے لیے جوش کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکاناہے۔ تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے۔ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے۔ مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سر انجام نہیں دیا جا سکتا جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے اور اس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے جو ان کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔… جب ہم تمام جماعت کے افراد کو ایک نظام میں منسلک کر لیں گے تو اس کے بعد ہم بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف کامل طور پر توجہ کر سکیں گے۔ اس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لیے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور اطفال الاحمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں اور یہ تینوں اپنے اس مقصد میں جو ان کے قیام کا اصل باعث ہے اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ اس اصل کو اپنے مد نظر رکھیں جو حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے فرض کو سمجھے اور پھر رات اور دن اس فرض کی ادائیگی میں اس طرح مصروف ہو جائے جس طرح ایک پاگل اور مجنون تمام اطراف سے اپنی توجہ کو ہٹا کر صرف ایک بات کے لیے اپنے تمام اوقات کو صرف کر دیتا ہے۔ جب تک رات اور دن انصار اللہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے، جب تک رات اور دن خدام الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور جب تک اطفال الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے تمام اوقات کو صرف نہیں کر دیتے اس وقت تک ہم اپنی اندرونی تنظیم مکمل نہیں کر سکتے اور جب تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے اس وقت تک ہم بیرونی دنیا کی اصلاح اور اس کی خرابیوں کے ازالہ کی طرف بھی پوری طرح توجہ نہیں کر سکتے۔‘‘ ( الفضل ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۴ء)
اللہ کرے کہ ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بانیٔ تنظیم کی نیک تمناؤں اور خواہشات پر عمل کرنے والے ہوں اور تنظیم کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے اپنے مقصدِ حیات کو سمجھنے والے ہوں۔ آمین