احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ کی غرض ِتالیف اورپس منظر
اصل غرض تصنیف:براہین احمدیہ کی تصنیف کی غرض کیا تھی؟ وہ اگر ایک فقرے میں بیان کی جائے تو صرف اورصرف یہ ہے کہ
دیکھ سکتاہی نہیں مَیں ضُعفِ دینِ مصطفیٰ ؐ
یہی ایک واحد غرض تھی اس تڑپتے ہوئے دل کی،جو اسلام کی کمزوری اوربے بسی جب دیکھتا تھا تو ماہئ بے آب کی طرح بے چین ہوکر تڑپتاتھا۔
سیرت المہدی کی ایک روایت ہم پڑھتے ہیں۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’شیخ غلام حسین صاحب لدھیانوی ہیڈ ڈرافٹسمین سنٹرل آفس نئی دہلی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ شیخ فرمان علی صاحب بی۔اے۔ اسسٹنٹ انجینئر ساکن دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداس پور نے جو کہ ۱۹۱۵ء میں لیڈی ہارڈنگ کالج نئی دہلی کی عمارت تعمیر کرا رہے تھے۔ مجھ سے ذکر کیا تھاکہ ایک دفعہ مولوی فتح دین صاحب مرحوم دھرم کوٹی نے جو کہ عالم جوانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہے ہیں ان سے بیان کیا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اکثر ہوا کرتا تھا۔اور کئی مرتبہ حضورؑ کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا۔ایک مرتبہ مَیں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بے قراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ سے دوسرے کونہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ جیسے کہ ماہیٔ بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدتِ درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ مَیں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوااور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت مَیں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی وہ حالت جاتی رہی۔ صبح مَیں نے اس واقعہ کا حضور علیہ السلام سے ذکر کیاکہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے۔ کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔’’میاں فتح دین! کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آرہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے اور یہ اسلام ہی کا درد ہے جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی فتح دین صاحب مرحوم دھرم کوٹ متصل بٹالہ کے رہنے والے تھے اور قدیم مخلص صحابہ میں سے تھے۔ نیز خاکسار خیال کرتا ہے۔ کہ یہ واقعہ ابتدائی زمانہ کا ہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۵۱۶)
یہ وہ درد تھا جواس دل میں موجزن تھااوردن ہویا رات اسے بے چین کیے رکھتاتھا۔خداکے حضوروہ روتا تھا، آہ وزاری کرتاتھا،گڑگڑاتا تھا اس کے ہونٹوں پر ایک ہی فریادہوتی تھی کہ
اس دیں کی شان وشوکت یارب مجھے دکھا دے
دین اسلام کی شان وشوکت کی دعائیں کرتے ہوئے بےقرارہوکر بندکمرے میں خداکے حضوریوں آہ وزاری کرتے کہ سننے والا جب کان لگا کر یہ آہیں سنتا توپریشان ہوجاتا، ایسی آہیں دردِ زہ میں مبتلا عورت کی آہوں سے بھی زیادہ دردناک ہواکرتی تھیں۔ایک چشم دید راوی اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہتاہے کہ ’’ایک دفعہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے مجھے حضرت مرزاصاحب ؑ(مسیح موعودؑ) کو بلا لانے کے لئے فرمایا۔میں آپ حضور کے دروازے پر پہنچا تو یوں آواز آئی گویا کوئی عورت دردِ زہ کی وجہ سے کراہ رہی ہے۔سمجھا کہ شاید میں کمرہ بھول گیا۔لیکن دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہی کمرہ ان کا ہے۔چنانچہ میں دستک دے کر انتظار کرنے لگا۔تھوڑی دیر میں آپؑ نمازظہر سے فارغ ہوکر تشریف لائے اورمجھ سے مصافحہ کیا۔میراپیغام سن کر فرمایا کہ میں آتاہوں۔‘‘ (اصحاب ِ احمد،جلد دہم صفحہ ۱۸۴،روایت شیخ جھنڈا صاحب ؓ)
اسلام اوربانی اسلام حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کی توہین اور تحقیر کا ایک طوفان تھا جسے دیکھ کر دل خون کے آنسو رورہاتھا اوراس بے چین روح کو ایک دم بھی کَل نہیں پڑتی تھی۔اسلام کے دشمن چاروں طرف سے اس پر حملہ آور ہورہے تھےاوراپنی پوری طاقت اورقوت کے ساتھ اس کو ختم کرنے کے درپے تھے۔یہ میدانِ جنگ ایک ایسا کربلا تھاکہ دشمنوں کی یزیدی فوجیں اپنے سارے پیادوں اورسارے سواروں اورسارے سازوسامان کے ساتھ چڑھ دوڑی تھیں اوراسلام زین العابدین کی طرح بیماروبے کس یوں لاچارتھا کہ دشمن سمجھتاتھا کہ اسلام اب تھوڑی ہی دیر کا مہمان ہے۔اورپھر ڈھونڈے سے بھی اس کانام ملے گانہ نام لیوا۔
ظلم وبربریت کے اس دجالی طوفان اوراندھیری رات کا ذکرکرتے ہوئے حضرت اقدسؑ اپنی تصنیف’’آئینہ کمالات اسلام‘‘میں فرماتے ہیں :’’…اس زمانہ میں جو کچھ دینِ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربّانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملکِ ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ اور چھ۶کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسولؐ کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اوردُشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دُکھا۔ پس کیا ابھی اس آخری مصیبت کا وہ وقت نہیں آیا جو اسلام کے لئے دنیا کے آخری دنوں میں مقدر تھا۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا ہے جو قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ان موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہوگا۔ سو بھائیو تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور خوب سوچ لو کہ وقت آگیا اور بیرونی اور اندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے۔ اگر تم ان تمام فتنوں کو ایک پلہ میزان میں رکھو اور دوسرے پلہ کے لئے تمام حدیثوں اور سارے قرآن کریم میں تلاش کرو تو ان کے برابر کیا ان کا ہزارم حصہ بھی وہ فتنے قرآن اور حدیث کی رُو سے ثابت نہیں ہوں گے۔ پس وہ کونسا فساد کا زمانہ اورکس بڑے دجّال کا وقت ہے جو اس زمانہ کے بعد آئے گا اور فتنہ اندازی کی رُو سے اس سے بدتر ہوگا۔ کیا تم ثابت کرسکتے ہو کہ ان فتنوں سے بڑھ کر قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ایسے اور فتنوں کا پتہ ملتا ہے جن کا اب نام و نشان نہیں یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم ان فتنوں کی نظیر تلاش کرنے کے لئے کوشش کرو یہاں تک کہ اسی کوشش میں مر بھی جاؤ تب بھی قرآن کریم اور احادیث نبویہؐ سے ہرگز ثابت نہیں ہوگا کہ کبھی کسی زمانہ میں ان موجودہ فتنوں سے بڑھ کر کوئی اور فتنے بھی آنے والے ہیں۔صاحبو! یہاں وہ دَجّالیّتیں پھیل رہی ہیں جو تمہارے فرضی دجال کے باپ کو بھی یاد نہیں ہونگی۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ۵۱تا۵۳،روحانی خزائن جلد۵صفحہ۵۱تا ۵۳)
اسی کتاب میں آپؑ فرماتے ہیں :’’مخالف قوموں کا کیا حال بیان کیا جاوے کہ وہ اعتراضات اور شبہات سے ایسے لدے ہوئے ہیں کہ جیسے ایک درخت کسی پھل سے لدا ہوا ہوتا ہے۔ ان کے کینے ہمارے زمانہ میں اسلام کی نسبت بہت بڑھ گئے ہیں اور ہر ایک نے اپنی طاقت اور استعداد کے موافق اسلام پر اعتراض کرنے شروع کئے ہیں اگر ہمارے مخالفوں میں سے کوئی شخص علم طبعی میں دخل رکھتا ہے تو وہ اسی طبعیانہ طرز سے اعتراض کرتا ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اسلام علم طبعی کی ثابت شدہ صداقتوں کے مخالف بیان کرتا ہے۔ اور اگر کوئی مخالف طبابت اور ڈاکٹری میں کچھ حصہ رکھتا ہے تو وہ انہیں تحقیقاتوں کو سراسر دھوکہ دہی کی راہ سے اسلام پر اعتراض کرنے کے لئے پیش کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ گویا اسلام ان تجارب مشہودہ محسوسہ کے مخالف بیان کررہا ہے جو نئی تحقیقاتوں کے ذریعہ سے کامل طور پر ثابت ہوچکے ہیں۔ اسی طرح حال کے علم ہیئت پر جس کو کچھ نظر ہے وہ اسی راہ سے تعلیم اسلام پر اپنے اعتراضات وارد کر رہا ہے۔ غرض جہاں تک میں نے دریافت کیا ہے تین ہزار کے قریب اعتراض اسلام اور قرآن کریم کی تعلیم اور ہمارے سیّد و مولیٰ کی نسبت کوتہ بینوں نے کئے ہیں۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۳۷،روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۳۷)
الغرض اس کتاب کی تالیف سے اسلام اورقرآن اورحضرت محمدﷺ کی صداقت اورسچائی ثابت کرنامقصود تھا اوریہ غرض اس کتاب کے نام کے اندرہی بیان ہے۔جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ اس کتاب کا پورا نام ہے :’’اَلبَراھین الاحمدیہ علی حَقِیَّتِ کتاب ِ اللّٰہ ِ القرآن ِ والنبوةِ المحمدیہ‘‘
اوراصل مقصداس تالیف کا ہے ہی یہ کہ سوائے اسلام اورقرآن کے کوئی بھی مذہب اورمقدس مذہبی کتاب کے ایسا نہیں ہے کہ جو خالق اورمخلوق کے رشتے کو ایسا مکمل طورپر جوڑے کہ اس کی پیدائش کا حقیقی مقصدبتاتے ہوئے اس کو نجات کی اس اعلیٰ اورارفع سیڑھی فراہم کرے جس کے ذریعہ وہ اپنے خالق سے مل سکے۔
حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں :’’وہ یقینی اور کامل اور آسان ذریعہ کہ جس سے بغیر تکلیف اور مشقت اور مزاحمت شکوک اور شبہات اور خطا اور سہو کے اصول صحیحہ معہ ان کی دلائل عقلیہ کے معلوم ہوجائیں اور یقین کامل سے معلوم ہوں وہ قرآن شریف ہے اور بجز اس کے دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں اور نہ کوئی ایسا دوسرا ذریعہ ہے کہ جس سے یہ مقصد اعظم ہمارا پورا ہوسکے۔
صاحبو! میں نے بہ یقین تمام معلوم کرلیا ہے اور جو شخص ان باتوں پر غور کرے گا کہ جن پر مَیں نے غور کی ہے وہ بھی بہ یقین تمام معلوم کرلے گا کہ وہ سب اصول کہ جن پر ایمان لانا ہریک طالب سعادت پر واجب ہے اور جن پر ہم سب کی نجات موقوف ہے اور جن سے ساری اُخروی خوشحالی انسان کی وابستہ ہے وہ صرف قرآن شریف ہی میں محفوظ ہیں اور باقی سب کتابوں کے اصول بگڑ گئے ہیں اور ایسی جعلی اور مصنوعی اور اس قدر طریقہٴ مستقیمۂ حکمت اور مجری طبعی سے دور جاپڑے ہیں کہ ان کے لکھنے سے بھی ہمیں شرم آتی ہے اور یہ قول ہمارا بلا تحقیق نہیں میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس کتاب کی تالیف سے پہلے ایک بڑی تحقیقات کی گئی اورہریک مذہب کی کتاب دیانت اور امانت اورخوض اورتدبر سے دیکھی گئی اورفرقانِ مجید اوران کتابوں کا باہم مقابلہ بھی کیا گیا اور زبانی مباحثات بھی اکثر قوموں کے بزرگ علماء سے ہوتے رہے۔ غرض جہاں تک طاقت بشری ہے ہریک طور کی کوشش اور جانفشانی اظہار حق کے لئے کی گئی۔ بالآخر ان تمام تحقیقاتوں سے یہ امر بپایہٴ ثبوت پہنچ گیا کہ آج رُوئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلامِ الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔
جس کے اصولِ نجات کے بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں۔ جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویّہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہریک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں توحید اور تعظیم الٰہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جنابِ الٰہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہرایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے۔ اور ہریک اصول کی حقیت پر دلائل واضح بیان کرکے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے۔ اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کاجاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہریک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دلی اور بصیرتِ قلبی کے لئے ایک آفتابِ چشم افروز ہے اور عقل کے اجمال کو تفصیل دینے والا اور اس کے نقصان کا جبر کرنے والا ہے۔ لیکن دوسری کتابیں جو الہامی کہلاتی ہیں۔ جب ان کی حالت موجودہ کو دیکھا گیا تو بخوبی ثابت ہوگیا جو وہ سب کتابیں ان صفات کاملہ سے بالکل خالی اور عاری ہیں اور خدا کی ذات اور صفات کی نسبت طرح طرح کی بدگمانیاں ان میں پائی جاتی ہیں اور مقلد ان کتابوں کے عجیب عجیب عقائد کے پابند ہورہے ہیں۔ کوئی فرقہ ان میں سے خدا کو خالق اور قادر ہونے سے جواب دے رہا ہے۔ اور قدیم اور خودبخود ہونے میں اس کا بھائی اور حصہ دار بن بیٹھا ہے۔ اور کوئی بتوں اور مورتوں اور دیوتوں کو اس کے کارخانہ میں دخیل اور اس کی سلطنت کا مدار المہام سمجھ رہا ہے کوئی اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں اور پوتے اور پوتیاں تراش رہا ہے اور کوئی خود اسی کو مچھ اور کچھ کا جنم دے رہا ہے۔ غرض ایک دوسرے سے بڑھ کر اس ذات کامل کو ایسا خیال کررہے ہیں کہ گویا وہ نہایت ہی بدنصیب ہے کہ جس کمال تام کو اس کے لئے عقل چاہتی تھی وہ اس کو میسر نہ ہوا۔ اب اے بھائیو! خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میں نے ایسے ایسے باطل عقائد میں لوگوں کو مبتلا دیکھا اور اس درجہ کی گمراہی میں پایا کہ جس کو دیکھ کر جی پگھل آیا اور دل اور بدن کانپ اٹھا۔ تو میں نے ان کی رہنمائی کے لئے اس کتاب کا تالیف کرنا اپنے نفس پر ایک حق واجب اور دَین لازم دیکھا جو بجز ادا کرنے کے ساقط نہ ہوگا۔ چنانچہ مسودہ اس کتاب کا خدا کے فضل و کرم سے تھوڑے ہی دِنوں میں ایک قلیل بلکہ اقل مدت میں جو عادت سے باہر تھی طیار ہوگیا اور حقیقت میں یہ کتاب طالبان حق کو ایک بشارت اور منکران دین اسلام پر ایک حجت الٰہی ہے کہ جس کا جواب قیامت تک ان سے میسر نہیں آسکتا اور اسی وجہ سے اس کے ساتھ ایک اشتہار بھی انعامی دس ہزار روپیہ کا شامل کیا گیا کہ تا ہریک منکر اور معاند پر جو اسلام کی حقیت سے انکاری ہے اتمام حجت ہو اور اپنے باطل خیال اور جھوٹے اعتقاد پر مغرور اور فریفتہ نہ رہے۔‘‘(براہین احمدیہ صفحہ۸۹تا ۹۳،روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۷۷تا ۸۳)