کسی وقتِ مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا چشم نمائی کرے
میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے۔ گویا بد مزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے تو اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کر جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمّل اور بُردبار اور باسکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا چشم نمائی کرے۔ مگر مغلوب الغضب اور سُبک سر اور طائش العقل ہر گز سزا وار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفّل ہو۔ جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوزِ دل سے دُعا کرنے کو ایک حزب ٹھہرا لیں اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔
(ملفوظات جلد۲ صفحہ ۴ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
کر انکو نیک قسمت دے انکو دین و دولت
کر انکی خود حفاظت ہو ان پر تیری رحمت
دے رُشد اور ہدایت اور عُمر اور عزّت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
اے میرے بندہ پروَر کر انکو نیک اختر
رُتبہ میں ہوں یہ بَرتر اور بخش تاج و افسر
( محمود کی آمین، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۲۱)