توبہ و استغفار کی اہمیت و فضیلت (حصہ دوم)
استغفار کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ پر فرماتے ہیں: ’’استغفار کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ سے اپنے گذشتہ جرائم اور معاصی کی سزا سے حفاظت چاہنا۔ اور آئندہ گناہوں کے سرزد ہونے سے حفاظت مانگنا۔ استغفار انبیاء بھی کیا کرتے تھے اور عوام بھی۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’غفر کہتے ہیں ڈھکنے کو۔ اصل بات یہی ہے کہ جو طاقت خدا کو ہے وہ نہ کسی نبی کو ہے، نہ ولی کو اور نہ رسول کو۔ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں۔ پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خدا کے محتاج ہیں۔ پس اظہار عبودیت کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور انبیاء کی طرح اپنی حفاظت خدا تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۰۷، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
استغفار اس کیفیت کا نام ہےجب بندہ اپنے رب کے سامنےاپنے گناہوں کی مغفرت زبان سے مانگتا ہے۔ یعنی ایسی ندامت کہ بندہ دوبارہ اس گناہ کے ارتکاب کا خیال تک نہ لائے۔
استغفار کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں:’’میرے نزدیک تو استغفار سے بڑھ کرکوئی تعویذ و حرز اور کوئی احتیاط و دوا نہیں۔‘‘فرمایا: استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سُبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے۔
فرمایا: استغفار بہت کرو۔ اس سے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتا ہے۔‘‘(تفسیرحضرت مسیح موعودؑجلداوّل صفحہ۳۶۱-۳۶۲)
اس کے لیے ضروری ہے کہ حقیقی معنوں میں دل کی گہرائیوں سے مغفرت طلب کی جائے نہ کہ زبانی کلامی استغفار کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ باقی احکام الٰہی پر کار بند ہونا بھی ضروری ہے۔
ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیااللہ اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطافر مائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔‘‘(ابن ماجہ، الحدیث٣٨١٩)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کوکثرت سے توبہ کرنے کی تلقین فرماتے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ فرمایا کرتے تھے:’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ۔ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپؐ کو دیکھتی ہوں کہ آپؐ بکثرت کہتے ہیں: سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھے خبر دی ہے کہ میں جلد ہی اپنی امت میں ایک نشانی دیکھوں گا اور جب میں اس کو دیکھ لوں توبکثرت کہوں: سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ تو (وہ نشانی) میں دیکھ چکا ہوں۔ اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ۔ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا۔ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔
جب اللہ کی نصرت اور فتح آ پہنچے (یعنی فتح مکہ) اور آپ لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھ لیں تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کریں اور اس سے بخشش طلب کریں بلاشبہ وہ توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ ‘‘ (صحيح مسلم، كِتَاب الصَّلَاةِ،باب مَا يُقَالُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ)
حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے کا یوں پکارنا سید الاستغفار ہے: ’’اے اللہ! تُو میرا ربّ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تُو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں جہاں تک طاقت رکھتا ہوں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں اور میں اپنے کیے ہوئے عمل کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں ان نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر کیں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، پس تو مجھے معاف کر دے، بے شک تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں‘‘۔ جو شخص یہ کلمات استغفار دن میں دل کے یقین سے کہے اور شام ہونے سے پہلے اسے موت آ جائے، تو وہ جنتی ہے اور جو اسے یقین کے ساتھ رات کو پڑھے اور صبح ہونے سے پہلے اسے موت آجائے، تو وہ جنتی ہے۔(صحیح البخاری، ۶۳۲۳)
حضرت زید بن حارثہؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ، آپؐ فرما رہے تھے : جو شخص یہ کہے: اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ، میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے ، میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تو اس کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں، اگرچہ وہ میدانِ جہاد سے فرار ہوا ہو۔ (سنن ابی داؤد: ۱۵۱۷، الترمذی: ۳۵۷۷، حسن )
ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ کی قسم !میں دن میں ستّر بار سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا اور توبہ کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری )
ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنی کثرت سے استغفار کرنے کا مقصد اپنی امت کو استغفار وتوبہ کی اہمیت اورترغیب دلانا تھا۔ آنحضورﷺ تمام مخلوقات سے افضل و اعلیٰ وبرتر ہونے کے باوجود بھی ایک دن میں ستر اور کبھی سو بار توبہ و استغفار کرتےتھے۔ اس لیے ہم سب کو آپؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے کثرت سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
(باقی آئندہ)