خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۱۴؍ اپریل ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام اور آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کے ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے اسلامی احکام کو کھول کر ان کی گہرائی اور حکمت کے ساتھ ہمیں بتایا۔ جہاں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی گہرائی کے بارے میں ہمیں بتایا وہاں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہﷺکے مقام کے بارے میں بھی ہمیں بتایا۔اس وقت میں اس سلسلے میں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض اقتباسات پیش کروں گا جو اس مضمون پر بڑی خوبصورتی سے روشنی ڈالتے ہیں اور ہمیں بھی اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ اس مضمون کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے ہمیں کس طرح اپنے جائزے لینے چاہئیں۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قیامت کےدن آنحضورﷺکی شفاعت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ سب سے افضل کلمہ جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کہا وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ ہے۔ پس یہ تعلیم ہے جو تمام انبیاء کی ہے لیکن بدقسمتی سے انہی انبیاء کی قوموں نے جنہوں نے یہ تعلیم دی تھی اس تعلیم کو براہِ راست یا بالواسطہ بھول کر شرک کا ذریعہ بنا لیا۔ اصل تعلیم کو بھول گئے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی امّت میں شامل کر کے وہ کامل تعلیم دی جس نے شرک کا بکلی خاتمہ کر دیا اور آپ ﷺ نے توحید کا حقیقی سبق دے کر ہماری دنیا و عاقبت سنوارنے کے سامان فرمائے۔ پس اب جو آنحضرت ﷺ کی حقیقی تعلیم پر عمل کرے گا اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار خالص ہو کر کرے گا وہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بھی بنے گا اور آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے بھی حصہ پائے گا جس کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میری شفاعت کے اعتبار سے لوگوں میں سے سب سے زیادہ خوش بخت شخص وہ ہو گا جس نے اپنے خالص دل یا اپنے خالص نفس کے ساتھ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کیا ہو گا۔پس آپ ﷺ کی شفاعت کے لیے خالص دل کے ساتھ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار ہے جس میں دنیا کی ملونی نہ ہو وہی آپ کی شفاعت کا حصہ دار ہو گا۔ آپ ﷺ وہ آخری اور کامل نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے شفاعت کا اختیار دیا۔ آپ پر ایمان بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ضروری ہے اور آپﷺ کے اس مقام کا خود آنحضرت ﷺ نے یوں ذکر فرمایا ہے۔ فرمایا:کوئی شخص ایسا نہیں جو صدق دل سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کی گواہی دے مگر اللہ تعالیٰ اسے آگ پر حرام کر دے۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اَصۡلُہَا ثَابِتٌکی کیاوضاحت بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’… اصول ایمانیہ جو پہلی نشانی ہے جس سے مراد کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے۔‘‘ یعنی اَصْلُهَا ثَابِتٌ کو اگر ثابت کرنا ہے تو اس کی پہلی نشانی لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے۔ فرمایا کہ ’’اس کو اس قدر بسط سے قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ اگر میں تمام دلائل لکھوں تو پھر چند جزو میں بھی ختم نہ ہوں گے۔‘‘ کتابیں لکھی جائیں گی۔ ’’مگر تھوڑا سا ان میں سے بطور نمونہ کے ذیل میں لکھتا ہوں جیساکہ ایک جگہ یعنی سیپارہ دوسرے سورة البقرہ میں فرماتا ہےاِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَابِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآء ِوَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ (البقره : ۱۶۵)۔ یعنی تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے او ررات اور دن کے اختلاف اور ان کشتیوں کے چلنے میں جو دریا میں لوگوں کے نفع کے لئے چلتی ہیں اور جو کچھ خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا اور زمین میں ہر ایک قسم کے جانور بکھیر دیئے اور ہواؤں کو پھیرا اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں مسخر کیا۔ یہ سب خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اس کے الہام اور اس کے مُدَّبِّرْ بِالْاِرَادَہْ ہونے پر نشانات ہیں۔‘‘فرمایا کہ ’’اب دیکھئے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے اپنے اس اصول ایمانی پر کیسا استدلال اپنے اس قانونِ قدرت سے کیا۔‘‘ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کو ثابت کیا ہے، قانون قدرت سے یہ دلیل دی ہے۔ ’’یعنی اپنی ان مصنوعات سے جو زمین و آسمان میں پائی جاتی ہیں جن کے دیکھنے سے مطابق منشاء اس آیت کریمہ کے صاف صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک اس عالم کا ایک صانع قدیم اور کامل اور وَحْدَہٗ لَاشَرِیک اور مُدَّبِّرْ بِالْاِرَادَہْ اور اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجنے والا ہے۔ وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام یہ مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کے لئے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو اور رحیم بھی ہو اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لا شریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مُدَّبِّرْ بِالْاِرَادَہْ بھی ہو اور مستجمع جمیع صفات کاملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’استمدادکاحق اللہ تعالیٰ ہی کوحاصل ہے‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’استعانت کے متعلق یہ بات یادرکھنا چاہئے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔‘‘جس سے مدد طلب کی جاتی ہے یا کوئی مدد دینے والا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا حق رکھتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی وہ کامل ہستی ہے جس سے مدد چاہی جانی چاہیے۔کوئی اَور اس طرح اس کا حق رکھ ہی نہیں سکتا نہ اس میں طاقت ہے۔ ’’اور اسی پر قرآن کریم نے زوردیا ہے۔چنانچہ فرمایا کہ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔ پہلے صفاتِ الٰہی رب، رحمٰن، رحیم، مَالِکِ یوْمِ الدِّین کا اظہار فرمایا۔ پھر سکھایا اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔ یعنی عبادت بھی تیری کرتے ہیں اور استمداد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔‘‘مدد بھی اس عبادت کرنے کے لیے تجھ سے ہی چاہتے ہیں۔ تیری مدد کے بغیر ہماری عبادت بھی نہیں ہو سکتی۔ ’’اس سے معلوم ہوا کہ اصل حق استمداد کا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔ کسی انسان،حیوان، چرند پرند غرضیکہ کسی مخلوق کے لئے نہ آسمان پر نہ زمین پر یہ حق نہیں ہے مگر ہاں دوسرے درجہ پر ظلی طور سے یہ حق اہل اللہ اور مردانِ خدا کو دیا گیا ہے۔‘‘اللہ کے اذن سے ان کی دعاؤں سے مدد بھی ہوتی ہے۔ فرمایا کہ’’ہم کو نہیں چاہئے کہ کوئی بات اپنی طرف سے بنا لیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے اندر اندر رہنا چاہئے۔ اسی کا نام صراطِ مستقیم ہے اور یہ امر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ سے بھی بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس کے پہلے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا محبوب و معبوداور مطلوب اللہ تعالیٰ ہی ہونا چاہئے۔ اور دوسرے حصے سے رسالتِ محمدیہ ﷺ کی حقیقت کا اظہار ہے‘‘۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’لاالہ الااللّٰہ کہنے سےگناہ دورہوجاتے ہیں‘‘کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’آپ کا یہ کہنا کہ حضرت مقدس نبوی کی تعلیم یہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کہنے سے گناہ دُور ہو جاتے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے اور یہی واقعی حقیقت ہے۔‘‘تم یہ کہتے ہو ناں گناہ ختم ہو جاتے ہیں ٹھیک ہے بالکل سچ ہے ’’کہ جو محض خدا کو واحد لا شریک جانتا ہے اور ایمان لاتا ہے کہ محمد مصطفیٰ ﷺ کو اسی قادر یکتا نے بھیجا ہے تو بے شک اگر اس کلمہ پر اس کا خاتمہ ہو تو نجات پا جائے گا آسمانوں کے نیچے کسی کی خودکشی سے نجات نہیں ہرگز نہیں۔‘‘کسی کے مرنے سے نجات نہیں ہوتی۔ ہاں کوئی تمہاری خاطر مر جائے تو اس سے بھی نجات نہیں ہو گی۔ کلمہ سے نجات پائے گا ’’اور اس سے زیادہ کون‘‘فرمایا کہ ’’اس سے زیادہ کون پاگل ہوگا کہ ایسا خیال بھی کرے‘‘کہ کلمہ سے نجات نہیں پا سکتا’’مگر خدا کو واحد لا شریک سمجھنا اور ایسا مہربان خیال کرنا کہ اس نے نہایت رحم کرکے دنیا کو ضلالت سے چھڑانے کے لئے اپنا رسول بھیجا جس کا نام محمد مصطفیٰﷺ ہے یہ ایک ایسا اعتقاد ہے کہ اس پر یقین کرنے سے روح کی تاریکی دُور ہوتی ہے اور نفسانیت دُور ہوکر اس کی جگہ توحید لے لیتی ہے۔ آخر توحید کا زبردست جوش تمام دل پر محیط ہوکر اسی جہان میں بہشتی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔‘‘حقیقت جاننی چاہیے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مطلب کیا ہےمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کامطلب کیا ہے تو پھر جنت اس دنیا میں ہی شروع ہو جاتی ہے۔ فرمایا کہ ’’جیسا تم دیکھتے ہوکہ نور کے آنے سے ظلمت قائم نہیں رہ سکتی ایسا ہی جب لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا نورانی پرتو دل پر پڑتا ہے تو نفسانی ظلمت کے جذبات کالمعدوم ہو جاتے ہیں۔‘‘ ختم ہو جاتے ہیں۔’’گناہ کی حقیقت بجز اس کے اَور کچھ نہیں کہ سرکشی کی ملونی سے نفسانی جذبات کا شور و غوغا ہو جس کی متابعت کی حالت میں ایک شخص کا نام گناہگار رکھا جاتا ہے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے معنی جو لغت عرب کے مَوارِدِ استعمال سے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘لغت میں اس کا جو بہت زیادہ مطلب ہے ’’وہ یہ ہیں کہ لَا مَطْلُوْبَ لِی وَ لَا مَحْبُوبَ لِی وَ لَا مَعْبُوْدَ لِی وَ لَا مُطَاعَ لِی اِلَّا اللّٰہُ۔یعنی بجز اللہ کے اَور کوئی میرا مطلوب نہیں اور محبوب نہیں اور معبود نہیں اور مطاع نہیں۔‘‘
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لاالہ الااللّٰہکوسمجھنے اوراس پرقائم رہنے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:(آپؑ نے )فرمایا’’دنیا مقصود بالذات نہ ہو اصل مقصود دین ہو۔ پھر دنیا کے کام بھی دین ہی کے ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ کو دیکھو کہ انہوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کو نہیں چھوڑا۔ لڑائی اور تلوار کا وقت ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ محض اس کے تصور سے ہی انسان گھبرا اٹھتا ہے۔ وہ وقت جبکہ جوش اور غضب کا وقت ہوتا ہے ایسی حالت میں بھی وہ خدا سے غافل نہیں ہوئے۔ نمازوں کو نہیں چھوڑا۔دعاؤں سے کام لیا۔ اب یہ بد قسمتی ہے کہ یوں تو ہر طرح سے زور لگاتے ہیں، بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں‘‘ لوگ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی باتیں کرتے ہیں ’’جلسے کرتے ہیں کہ مسلمان ترقی کریں مگر خدا سے ایسے غافل ہوتے ہیں کہ بھول کر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ پھر ایسی حالت میں کیا امید ہو سکتی ہے کہ ان کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں جبکہ وہ سب کی سب دنیا ہی کے لئے ہیں‘‘کوششیں دنیا کے لیے کر رہے ہیں۔نام مسلمانوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ اللہ کے دین کا استعمال کر رہے ہیں۔ فرمایا ’’یاد رکھو جب تک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ دل و جگر میں سرایت نہ کرے اور وجود کے ذرے ذرے پر اسلام کی روشنی اور حکومت نہ ہو کبھی ترقی نہ ہو گی۔‘‘
سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حقیقی لیلۃ القدرکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: رمضان کے آخری عشرے میں ہم لیلةالقدر کی باتیں کرتے ہیں تو لیلة القدر تو حقیقت میں اس وقت ملتی ہے جب ہم اپنا سب کچھ، اپنا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اورا س پر عمل کرنے والے ہوں اور پھر اسے مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں اور یہی وہ حقیقی نشانی ہے جو لیلةالقدر کے پانے کی ہے۔ یہ عارضی نشانیاں کہ ہم نے روشنی دیکھ لی، ہم نے فلاں چیز دیکھ لی، ہمیں اس طرح محسوس ہوا، بارش آ گئی اور خوشبو آ گئی، فلاں چیز آ گئی یہ تو عارضی چیزیں ہیں اصل نشانی یہ ہے کہ کیا انقلاب ہمارے دلوں میں پیدا ہوا۔