محسنین بنتے ہوئے دوسروں کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍فروری ۲۰۱۲ء)
جیسا کہ مَیں نے کہا محسنین کا یہ مطلب بھی ہے کہ اپنی بھی فکر کرنا اور اپنے علم و عرفان کو بھی کمال تک پہنچانے کی کوشش کرنا اور یہ احسان اپنے پر بھی ہے۔ نیک صالح عمل کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا اور پھر اس میں بڑھنا یہ بھی اس کا ایک مطلب ہے۔ اور پھر یہ کہ علم و معرفت سے خود بھی فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کو اپنی زندگی پر لاگو کرنا اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا۔ جتنا جتنا علم و معرفت زیادہ ہو گا اور پھر اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش بھی ہو گی تو پھر اس سے محسنین میں شامل ہونے کی ایک اور معراج ملتی ہے۔ قدم پھر آگے بڑھتے ہیں۔ ایک نئے راستے کا تعین ہوتا ہے جو مزید روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف لے کر جاتا ہے اور جب یہ روحانی اور اخلاقی ترقی ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی معیت کے نئے زاویے بھی نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق بڑھتا ہے۔ اُس کی صفات کا مزید ادراک پیدا ہوتا ہے اور پھر تقویٰ میں بھی ترقی ہوتی ہے۔ گویا کہ ایک سائیکل (Cycle) ہے، ایک چکر ہے جو نیکیوں کے ارد گرد گھومتے ہوئے، تقویٰ کے اعلیٰ مدارج تک لے جاتے ہوئے خدا تعالیٰ تک لے جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے پھر توفیق بڑھتی ہے۔ پھر مزیدنیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور پھر نتیجتاً ان چیزوں سے، ان باتوں سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا زیادہ عرفان حاصل ہوتا ہے۔ تو یہ وہ احسان ہے، محسن بننا ہے جو اللہ تعالیٰ ایک انسان کو بناتا ہے۔ جو احسان جتانے والے محسن نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کی خاطر قربانی کرکے اپنے اوپر سختی وارد کرتے ہیں اور اپنے حقوق چھوڑتے ہیں، پھر وہ اس اصول پر چلتے ہیں کہ اپنے حقوق لینے پر زور نہ دو بلکہ دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دو۔
مَیں اکثر غیروں کے سامنے، جو بھی لیڈر ملتے ہیں یا اسلام پر اعتراض کرنے والے بعض دنیا دار لوگ، یا اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقفیت نہ رکھنے والے، اُن کے سامنے یہ بات بھی پیش کرتا ہوں کہ دنیا والوں کا تمام زور اس بات پر ہے کہ ہمارے حقوق ادا کرو اور پھر اپنے حقوق کا ایک معیار قائم کر کے پھر اس کے حاصل کرنے کے لئے جو بھی بن پڑتا ہے وہ کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں نہ حقوق مانگنے والا انصاف سے اور تقویٰ سے کام لیتا ہے اور نہ حقوق دینے والا انصاف اور تقویٰ سے کام لیتا ہے، اس میں مسلمان بھی شامل ہیں، غیرمسلم بھی شامل ہیں۔ اور نتیجتاً فساد پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے اور مسلمانوں کو اس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے اور اگر یہ عمل کریں تو جو بھی اس وقت حکومتوں میں اور ملکوں میں، دنیا میں فساد ہیں وہ کم از کم مسلمان ملکوں میں کبھی نہ ہوں۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ دوسرے کے حقوق ادا کرو۔ اس سے پہلے کہ دوسرا اپنے حق کا مطالبہ کرے اُس کا حق ادا کرو۔ بلکہ اُس پر احسان کرتے ہوئے انسانیت کی قدروں کو قائم کرنے کے لئے محسنین میں شمار ہو جاؤ۔ اُن کی ضروریات کا اُن سے بڑھ کر خیال رکھو۔ مثلاً ملازمین کے بارے میں، خادموں کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ جو خود پہنو اپنے غریب ملازم کو پہناؤ۔ جو خود کھاؤ اُسے کھلاؤ۔ (بخاری کتاب العتق باب قول النبیﷺ العبید اخوانکم فاطعموھم مماتاکلون حدیث 2545)
اس تعلیم کو اگر دنیا کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو کسی بھی ملک کے عوام بھوکے نہیں رہ سکتے، اُن کے حقوق کبھی پامال نہیں ہو سکتے۔ وہ ننگے نہیں رہیں گے۔ ٹی وی پر مختلف افریقن ممالک کی تصویریں دکھائی جاتی ہیں۔ بچے فاقوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بہت سارے خوراک کی کمی کی وجہ سے قریب المرگ ہیں یا بڑھوتری اُن کی صحیح نہیں ہے۔ مالنورشڈ (Malnourished) ہیں۔ مائیں بھوکی ہیں۔ چھوٹے بچوں کو دودھ نہیں پلاسکتیں۔ پس اگر وسائل پر قبضہ کرنے کی سوچ کے بجائے حقوق کی ادائیگی پر توجہ دی جائے، محسنین بنتے ہوئے دوسروں کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔ خود غریبوں کو اُن کے پاؤں پر کھڑا کیا جائے تو یہ مسائل جو دنیا میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ اگر مسلمان حکومتیں بھی اپنے ملکوں میں اس بات کا خیال رکھنے والی ہوں اور لیڈر اپنے بنک بیلنس بنانے کی بجائے عوام کا خیال رکھنے والے ہوں، محسنین بننے کی کوشش کرنے والے ہوں، تقویٰ پر چلنے والے ہوں تو اس خوبصورت تعلیم کے بعد کبھی ہمارے مسلمان ملکوں میں بے چینی اور غربت اور افلاس کی یہ حالت نہیں ہو سکتی۔ لیکن بدقسمتی سے سب سے زیادہ مسلمان ملکوں میں یہ حال ہے اور پھر غیر بھی اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ تو جب بھی مَیں نے لوگوں کے سامنے یہ بیان کیا کہ اگر یہ صورتحال ہو، اور تم لوگ بھی اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے کام کرو تو یہ مسائل جو دنیا میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں یہ خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ اس پر اکثر یہی کہتے ہیں کہ اصل یہی چیز ہے اور یہ اسلام کی بڑی خوبصورت تعلیم ہے۔ لیکن جب اپنی مجلسوں میں واپس جاتے ہیں تو پھر ذاتی مفادات آڑے آجاتے ہیں۔ یعنی ملکی اور قومی مفادات کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ ملکی مفادات ضرور ہونے چاہئیں اگر وہ حق اور انصاف پر قائم رہتے ہوئے ہوں۔ دوسروں کا حق مار کے نہ ہوں تو پھر ضرور اُن پر عمل ہونا چاہئے۔ اور ظاہر ہے کہ پہلے خود انسان اپنے آپ کو سنبھالتا ہے۔ اسی طرح ملکوں کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو سنبھالیں۔ لیکن دوسروں کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے ملکی مفادات کی آڑ کے بہانے بنانا یہ چیز غلط ہے۔ دوسروں کے مفادات پامال کر کے اپنے نام نہاد حق کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا یہ غلط ہے۔ یہ سب چیزیں خود غرضی دکھانے والی ہیں۔ یا ایسی باتیں ہیں جو صرف فسادات کو فروغ دیتی ہیں۔ بہر حال ہر احمدی کا کام ہے کہ وہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اور محسنین میں شمار ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قرب کے نظارے دیکھنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کی معیت میں آنے کی کوشش کرے اور یہی ایک صورت ہے جس سے ہم اپنی اصلاح کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں اور معاشرے کو بھی اپنے محدود دائرے میں فساد سے بچا سکتے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ صِبْغَۃَ اللّٰہ بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے دائرے میں، اپنی استعدادوں کے مطابق اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کیلئے تیار رہیں تو یہ دنیا کی نعمتیں ہماری خادم بن جائیں گی۔ ہماری زندگی میں ان دنیاوی چیزوں کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی اور پھر وہی بات کہ جب خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر انسان یہ کام کر رہا ہو گا تو پھر تقویٰ میں ترقی ہو گی۔ غرض کہ جس زاویے سے بھی ہم دیکھیں، خدا تعالیٰ کی رضا ہماری سوچوں کا محور ہونا چاہئے۔