اسلام نے جھوٹ کو کسی موقع پر بھی جائز قرار نہیں دیا
قرآن کریم اورمستند احادیث میں جھوٹ کو أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ(یعنی بڑے بڑے گناہوں میں سے بڑا گناہ)قرار دیا گیا ہے۔ اور آنحضورﷺ نے اس سے اجتناب کی بار بار نصیحت فرمائی ہے۔جہاں تک آپ کے خط میں مذکور روایت کا تعلق ہے تو ایسی ایک روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ام کلثوم بنت عقبہؓ سے مروی ہے اور اس روایت کے الفاظ محتاط اور قابل تاویل ہیں۔ چنانچہ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُوْلُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا۔یعنی جو شخص لوگوں میں صلح کروانے کےلیے نیک بات کرے اور اچھی بات آگے پہنچائے وہ جھوٹا نہیں ہے۔
اس کی مثال ایسے ہے کہ صلح کروانے والا شخص ایک فریق کی دوسرے فریق کے بارے میں کہی ہوئی باتوں میں سے اچھی اور نیک باتیں دوسرے فریق تک پہنچا دے اور اس فریق کے خلاف کہی جانے والی باتوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرےتو ایسا صلح کروانے والا جھوٹا نہیں کہلا سکتاہے۔
سنن ترمذی نے حضرت اسماء بنت یزیدؓ سےاس روایت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ۔ یعنی تین باتوں کے سوا جھوٹ بولنا جائز نہیں۔ خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کےلیے کوئی بات کہے۔ لڑائی کے موقع پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صلح کروانے پر جھوٹ بولنا۔
پہلی بات یہ ہے کہ سنن ترمذی میں بیان یہ روایت قرآن کریم کے واضح حکم اوراحادیث صحیحہ میں مروی دیگر روایات کے خلاف ہونے کی بنا پر قابل قبول نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ اسلام نے جھوٹ کو کسی موقع پر بھی جائز قرار نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برعکس یہ تعلیم دی کہ جان بھی جاتی ہو تو جانے دو لیکن سچ کو ہاتھ سے مت جانے دو۔… پس یہ بات کسی طرح بھی ماننے کے لائق نہیں کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس لیے اگر ان احادیث کی کوئی تطبیق ہو سکتی ہو جو قرآن و سنت کے مطابق ٹھہرے تو اس تطبیق کے ساتھ ہم ان احادیث کو قبول کریں گے، ورنہ قرآن کریم اور رسول اللہﷺ کی واضح تعلیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہم ان احادیث کوقابل قبول نہیں ٹھہراتے۔
(بنیادی مسائل کے جوابات نمبر ۱۰
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍مارچ ۲۰۲۱ء)