ماں باپ کی جائیداد کی طرف توجہ
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’بعض دفعہ شکایات آ جاتی ہیں، جاہل بچوں کے ماں باپ کی طرف سے نہیں، بلکہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے بچوں کے ماں باپ کی طرف سے کہ بچے ناخلف ہیں۔ نہ صرف یہ کہ حق ادا نہیں کرتے بلکہ ظلم کرتے ہیں۔ بعض بہنیں اپنے بھائیوں کے متعلق لکھتی ہیں کہ ماں باپ پر ہاتھ اُٹھا لینے سے بھی نہیں چُوکتے۔ خاص طور پر ماں باپ سے بدتمیزی ہوتی ہے جب ایسے معاملات آئیں جہاں جائیداد کا معاملہ ہو۔ والدین کی زندگی میں بچوں کو جب ماں باپ کی جائیداد کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تواُس وقت یہ بدتمیزیاں بھی شروع ہوتی ہیں اور جب والدین اپنے بچوں کو جائیداد دے دیتے ہیں تو پھر اُن سے اور سختیاں شروع ہو جاتی ہیں اور وہی والدین جو جائیداد کے مالک ہوتے ہیں پھر بعض ایسے بچے بھی ہیں کہ اُن کو دینے کے بعد وہ والدین دَر بدر ہو جاتے ہیں اور ایسی مثالیں ہمارے اندر بھی موجود ہیں۔ یہاں بھی، اس ملک میں بھی آزادی کے نام پر وہ بچے جو نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہیں وہ بدتمیزی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ بچے ایک عمر کو پہنچ کے آزاد ہیں۔ تو یہ تعلیم جو ماں باپ کا احترام نہیں سکھاتی یا یہ آزادی جو یہاں بچوں کو ہے، جو حفظ مراتب کا خیال نہیں رکھتی، یا ماں باپ کی عزت قائم نہیں کرتی، یہ تعلیم اور ترقی نہیں ہے بلکہ یہ جہالت ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے جو خوبصورت تعلیم ہے کہ ماں باپ سے احسان کا سلوک کرو، اُن کی عزت کرو، اُن کو اُف تک نہ کہو۔ یہ ماں باپ کا احترام قائم کرتی ہے۔ ماں باپ کے احسانوں کا بدلہ احسان سے اتارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ ایسا عمل کرو جو بہترین ہو، ورنہ ماں باپ کے احسان کا بدلہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اتار ہی نہیں سکتے۔ اس احسان کے بدلے کے لئے بچوں کو اللہ تعالیٰ نے کیا خوبصورت تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدین کیلئے یہ بھی دعا کرو۔ رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَارَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا (بنی اسرائیل:۲۵)کہ اے میرے رب! ان پر رحم فرما۔ جس طرح یہ لوگ میرے بچپن میں مجھ پر رحم کرتے رہے ہیں۔ اور انہوں نے رحم کرتے ہوئے میری پرورش کی تھی۔ پس یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو اسلام ایک مسلمان کو اپنے والدین سے حسنِ سلوک کے بارے میں سکھاتا ہے۔ یہ وہ اعلیٰ معیار ہے جو ایک مسلمان کا اپنے والدین کے لئے ہونا چاہئے‘‘۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ جولائی ۲۰۱۳ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍اگست ۲۰۱۳ءصفحہ۷)
(مرسلہ:’نجم الثاقب کاشغری‘)