بوقتِ مرگ رسوم و رواج سے پاک اسلام کی حقیقی تعلیم
اگر ہم معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ انسان اکثر اوقات خوشی اور غم کے وقت ایسی حرکات و سکنات کر بیٹھتا ہے جس کی اجازت ہمیں مذہب نہیں دیتا بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور دوری کا باعث بھی بنتی ہیں اور اس کی بڑی وجہ معاشرے کا دباؤ، رسم و رواج، تنگ نظری اور برادری ازم بنتے ہیں۔ اور انہی طوقوں سے ہمیں آزاد کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے انبیاء کے سلسلے کو قائم فرمایا تا ہمیں اس حقیقی فطرت انسانی کی طرف لایا جائے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا جس میں ہمارے لیے آسانیاں ہیں۔حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے ہمیں دیا وہ ان رسم و رواج سے آزاد تھا جن میں آج ہم گرفتار ہیں اور انہی رسم و رواج کے طوق سے آزاد کرنے کے لیے آج چودہ سو سال بعد خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم عدل کے طور پر مبعوث فرمایا تا ہمیں دوبارہ اس اسلام پر کاربند کیا جائے جو معاشرے کے رسم و رواج سے پاک ہو۔انہی رسم و رواج میں سے بعض کا تعلق بوقتِ مرگ یا اس کے بعد سے ہے جن کا ذکر میں آج اپنے مضمون میں کروں گا۔
میت پر نوحہ اور ماتم کرنا
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ بوقت بیعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نوحہ کرنے سے منع فرمایا۔(صحیح بخاری )حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے۔ نبی کریمﷺ عیادت کے لیے عبدالرحمٰن بن عوف سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ جب آپﷺ اندر گئے تو تیمار داروں کے ہجوم میں انہیں پایا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا وفات ہو گئی؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہﷺ! نبی کریمﷺ (ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر ) رو پڑے۔ لوگوں نے جو رسول اکرمﷺ کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ سنو ! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر۔ ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے آپﷺ نے زبان کی طرف اشارہ کیا ( اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو) یہ اس کی رحمت کا بھی باعث بنتی ہے اور میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ و ماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر۱۳۰۴)
میّت پر کتنے دن سوگ کیا جائے؟
حضرت ام عطیہؓ فرماتی ہیں ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا جاتا تھا۔ لیکن شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کے سوگ کا حکم تھا۔ ان دنوں میں ہم نہ سرمہ لگاتیں نہ خوشبو اور عصب ( یمن کی بنی ہوئی ایک چادر جو رنگین بھی ہوتی تھی ) کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا ہم استعمال نہیں کرتی تھیں۔(صحیح بخاری )حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا۔ انتقال کے تیسرے دن انہوں نے ’’صفرہ خلوق ‘‘( ایک قسم کی زرد خوشبو ) منگوائی اور اسے اپنے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔(صحیح بخاری )
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:’’ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیاپا کرنا اور چیخیں مار کر رونااور بے صبری کے کلمات زبان پرلانا یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوئو ں سے لی گئی ہیں۔ جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوئوں کی رسمیں اختیار کرلیں۔ کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لیے یہ حکم قرآن شریف میں ہے کہ صرف اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہیں۔ یعنی ہم خدا کا مال اور ملک ہیں اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہوتوصرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ کرے وہ شیطان ہے۔ برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیاپا کرنا اور باہم عورتوں کا سر ٹکراکر چلانا رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنااور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر میں یا ہماری برادری میں ماتم ہوگیا ہے یہ سب ناپاک رسمیں ہیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ‘‘(فتاویٰ حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ۱۰۳ بحوالہ فقہ احمدیہ صفحہ۲۶۴)
تدفین کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک رات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے انہوں نے اپنی خادمہ حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیچھے بھیجا کہ جاکر دیکھو حضور کدھر جاتے ہیں۔ چنانچہ بریرہ نے واپس آکر بتایا کہ حضور جنت البقیع گئے تھے اور وہاں حضور نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔(صحیح مسلم ) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ جب میت کو دفن کر کے فارغ ہو جاتے تو قبر پر رکتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور ثابت قدمی کی دعا کرو بیشک اب اس سے سوال کیا جائے گا۔(سنن ابو داؤد)
حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کی نعش جس دن قبرستان سے نکال کر بہشتی مقبرہ میں دفن کی گئی تو اس دن آپؑ نے جنازہ نکالنے سے قبل ہاتھ اٹھا کر قبر کے پاس کھڑے ہو کر دعا کی اور دفن کرنے کے بعد بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ (فقہ المسیح صفحہ ۱۹۳)
وفات یافتگان کی طرف سے کپڑے وغیرہ بنوا کر دینا
کسی شخص کی وفات کے بعد کپڑے وغیرہ بنوا کر دینے کی جو رسم ہے اس کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خط میں تحریر فرمایا :کپڑے وغیرہ بنا کر دینا بدعت ہے اور اس سے مومن کو بچنا چاہیے ہاں صدقہ بلا تعین تاریخ دینا متوفی کے لیے مفید ہوتا ہے پس غریبوں کو ان تاریخوں میں جن میں لوگ رسماً صدقہ نہیں کرتے جو ہو سکے صدقہ دے دیں تو یہ منع نہیں بلکہ وفات یافتہ کو اس کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔کوئی عبادت جیسے کہ تلاوت قرآن وفات یافتہ کو نہیں پہنچ سکتی۔(الفضل ۱۷تا۲۰؍ اپریل۱۹۲۲ء صفحہ۱۱کالم ۱)
میت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا اور قرآن شریف کا پڑھنا
سوال۔ کیا میت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتا ہے؟
جواب۔میت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتا ہے لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ سے ثابت نہیں ہے۔اس کی بجائے دعا ہے جو میت کے حق میں کرنی چاہیے۔میت کے حق میں صدقہ خیرات اور دعا کا کرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے۔ لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگاتا ہے۔(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۱-۲)
٭…کیا فاتحہ خوانی جائز ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال پیش ہوا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ فاتحہ خوانی ایک دعائے مغفرت ہے پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟
فرمایا کہ ’’ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بےہودہ بکواس کے اَور کچھ نہیں ہوتا۔پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم و ائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں۔ ناجائز ہے جو جنازہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۵صفحہ ۲۱۳)
٭…کھانے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ؟
ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ محرم کے دنوں امامین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں۔
فرمایا:’’عام طور پر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، لیکن اس کے ساتھ شرک کی رسومات نہیں چاہئیں۔رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا ناجائز ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۵۰۶)
قبر پکی بنانا
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک شخص نے سوال کیا میں اپنے بھائی کی پکی قبر بناؤں یا نہیں؟
فرمایا:’’اگر نمود اور دکھلاوے کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اور گنبد بنائے جائیں تو یہ حرام ہے۔ لیکن اگر خشک مُلّا کی طرح یہ کہا جائے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جائے تو یہ بھی حرام ہے۔ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ۔ عمل نیت پر موقوف ہے۔ ہمارے نزدیک بعض وجوہ میں پکی کرنا درست ہے۔ مثلاً بعض جگہ سیلاب آتا ہے۔ بعض جگہ قبر میں سے میت کو کتے اور بجّو وغیرہ نکال لے جاتے ہیں۔مردے کے لیے بھی ایک عزت ہوتی ہے۔اگر ایسے وجوہ پیش آ جائیں تو اس حد تک کہ نمود اور شان نہ ہو بلکہ صدمہ سے بچانے کے واسطے قبر کا پکا کرنا جائز ہے۔اللہ اور رسول نے مومن کی لاش کے واسطے بھی عزت رکھی ہے۔ ورنہ عزت ضروری نہیں تو غسل دینے، کفن دینے،خوشبو لگانے کی کیا ضرورت ہے۔مجوسیوں کی طرح جانوروں کے آگے پھینک دو۔ مومن اپنے لیے ذلت نہیں چاہتا۔حفاظت ضروری ہے۔ جب تک نیت صحیح ہے خدا تعالیٰ مواخذہ نہیں کرتا۔‘‘ (ملفوظات جلد ۱صفحہ ۵۰۴-۵۰۵)
میت کے لیے قل پڑھنا
سوال:حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال ہوا میت کے لیے قل جو تیسرے دن پڑھے جاتے ہیں ان کا ثواب اسے پہنچتا ہے یا نہیں؟
جواب: قل خوانی کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے۔ صدقہ، دُعا اور استغفار میت کو پہنچتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ملانوں کو اس سے ثواب پہنچ جاتا ہے۔ سو اگر اسے ہی مردہ تصور کر لیا جاوے تو ہم مان لیں گے۔ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں۔ دین تو ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں۔ صحابہ کرامؓ بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے۔ صدہا سال بعد اَور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے۔(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۶۰۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
مردوں کے لیے دعا کرنا
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال ہوا کہ قبر پر کھڑے ہو کر کیا پڑھنا چاہیے ؟
جواب: میت کے واسطے دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ اس کے درجات کو بلند کرے اور اگر اس نے کوئی قصور کیا ہے تو اس کے قصوروں اور گناہوں کو بخشے اور ان کے پس ماندگان کے واسطے اپنے فضل کے سامان کرے پھر سوال ہوا کہ دعا میں کون سی آیت پڑھنی چاہیے؟فرمایا’’یہ تکلفات ہیں تم اپنی زبان میں جس کو بخوبی جانتے ہو اور جس میں تم کو جوش پیدا ہوتا ہے میت کے واسطے دعا کر‘‘(فقہ احمدیہ صفحہ ۲۵۹)
قبرستان میں جا کر منتیں مانگنا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:نذر و نیاز کے لیے قبروں پر جانا اور وہاں جا کر منتیں مانگنا درست نہیں ہے ہاں وہاں جا کر عبرت سیکھے اور اپنی موت کو یاد کرے تو جائز ہے ۔(فقہ المسیح صفحہ ۱۷۷)
حالتِ نزع میں سورہ یٰسین پڑھنا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’نزع کی حالت میں بھی اسی لیے یٰسین پڑھی جاتی ہے کہ مرنے والے کو تکلیف نہ ہو اور یٰسین کے ختم ہونے سے پہلے تکلیف دور ہو جاتی ہے‘‘(سیرت المہدی جلد ١صفحہ ۶۶)
مزار کو بوسہ دینا
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ’’یہ جائز نہیں لغو بات ہے اس قسم کی حرکات سے شرک شروع ہوتا ہے اصل چیز نبی کی تعلیم پر عمل کرنا ہے مگر لوگ اسے چھوڑ کر لغو باتوں میں جا پڑے ہیں۔‘‘(فقہ احمدیہ صفحہ ۲۶۶)
وفات کے متعلق عوام کے بعض غلط تصورات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات کے متعلق عوام کے پاس غلط تصورات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
جمعہ کے دن مرنا، مرتے وقت ہوش کا قائم رہنا یا چہرہ کا رنگ اچھا ہونا ان علامات کو ہم قاعدہ کلیہ کے طور سے ایمان کا نشان نہیں کہہ سکتے کیونکہ دہریہ بھی اس دن مرتے ہیں ان کا ہوش قائم اور چہرہ سفید رہتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بعض امراض ہی ایسے ہیں مثلاً دق وسل کہ ان کےمریضوں کا اخیر تک ہوش قائم رہتا ہے بلکہ طاعون کی بعض قسمیں بھی ایسی ہی ہیں۔ ہم نے بعض دفعہ دیکھا کہ مریض کو کلمہ پڑھایا گیا اور یٰسٓ بھی سنائی بعد ازاں وہ بچ گیا اور پھر وہی برے کام شروع کر دیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدق دل سے ایمان نہیں لایا اگر سچی توبہ کرتا تو کبھی ایسا کام نہ کرتا۔ اصل میں اس وقت کا کلمہ پڑھنا ایمان لانا نہیں یہ تو خوف کا ایمان ہے جو مقبول نہیں۔(ملفوظات جلد۵صفحہ ۴۳۲-۴۳۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں بد رسومات سے بچتے ہوئے حقیقی اسلام پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین