مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں (قسط اوّل)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۸؍جنوری ۱۹۴۴ء)
حضورؓ نے اس خطبہ جمعہ میں اپنی ایک رؤیا کا ذکر فرمایا اور اس بات کو ثابت کیا کہ آپؓ ہی پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق ہیں۔ قارئین کے استفادہ کے لیے ماہ فروری میں یوم مصلح موعود کی مناسبت سے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
آج میں ایک ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جس کا بیان کرنا میری طبیعت کے لحاظ سے مجھ پر گراں گزرتا ہے لیکن چونکہ بعض نبوتیں اور الٰہی تقدیریں اس بات کے بیان کرنے کے ساتھ وابستہ ہیں اس لیے میں اس کے بیان کرنے سے باوجود اپنی طبیعت کے انقباض کے رُک بھی نہیں سکتا۔ جنوری کے پہلے ہفتہ میں غالباً بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو ( میں نے غالباً کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ میں اندازہ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات تھی) میں نے ایک عجیب رؤیا دیکھا۔ میں نےجیسا کہ بارہا بیان کیا ہے، غیرمامورین کا اپنے کسی رؤیا کو بیان کرنا ضروری نہیں ہوتا اور میں خود تو سوائے پچھلے ایام کے جبکہ اس جنگ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بعض اہم خبریں مجھے دیں، بہت کم ہی اپنی رؤیا بتایا کرتا ہوں۔ بلکہ (اللہ بہتر جانتا ہے یہ طریق درست ہے یا نہیں) میں اپنے رؤیاء و کشوف اور الہامات لکھتا بھی نہیں اور اس طرح وہ خود بھی کچھ عرصہ کے بعد میری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ابھی لاہور میں مجھے چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ نے ایک امر کے سلسلہ میں میرا ایک بیس پچیس سال کا پرانا رؤیا یاد کرایا۔ پہلے تو وہ میرے ذہن میں ہی نہ آیا۔ مگر بعد میں جب انہوں نے اس کی بعض تفصیلات بیان کیں تواُس وقت مجھے یاد آگیا۔ تو یہ میری عادت نہیں ہے کہ میں رؤیا و کشوف بیان کروں
لیکن چونکہ اس رؤیا کا تعلق بعض اہم امور سے ہے۔ نہ صرف ایسے امور سے جو کہ میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ایسے امور سے بھی جو بعض سابق انبیاء کی ذات اور ان کی پیشگوئیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ صرف وہ بات سابق انبیاء کی ذات اور ان کی پیشگوئیوں سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ آئندہ رونما ہونے والے دنیا کے اہم حالات سے بھی تعلق رکھتے ہیں اس لیے میں مجبور ہوں کہ اُس رؤیا کا اعلان کروں
اور میں نے اس کے اعلان سے پہلے خدا تعالیٰ سے اس بارہ میں دعا بھی کی ہے اور استخارہ بھی کیا ہے تاکہ اس معاملہ میں مجھ سے کوئی بات خدا تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کے خلاف نہ ہو۔
وہ رؤیا یہ تھا کہ میں نے دیکھا میں ایک مقام پر ہوں جہاں جنگ ہو رہی ہے وہاں کچھ عمارتیں ہیں۔ نامعلوم وہ گڑھیاں۱ ہیں یا ٹرنچز(Trenches) ہیں۔بہرحال وہ جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں ہیں۔ وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یونہی مجھے ان سے تعلق ہے میں ان کے پاس ہوں۔ اتنے میں مجھے معلوم ہوتا ہے جیسے جرمن فوج نے جو اس فوج سے کہ جس کے پاس میں ہوں برسرپیکار ہے یہ معلوم کر لیا ہے کہ میں وہاں ہوں اور اس نے اس مقام پر حملہ کردیا ہے۔ اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کردیا۔ یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اَور فوج تھی اِس کا مجھے اُس وقت کوئی خیال نہیں آیا۔ بہر حال وہاں جو فوج تھی اس کو جرمنوں سے دَبنا پڑا اور اُس مقام کو چھوڑ کر وہ پیچھے ہٹ گئی۔ جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو جرمن اس عمارت میں داخل ہو گئے جس میں مَیں تھا۔ تب میں خواب میں کہتا ہوں دشمن کی جگہ پر رہنا درست نہیں اور یہ مناسب نہیں کہ اب اس جگہ ٹھہرا جائے یہاں سے ہمیں بھاگ چلنا چاہیے۔ اُس وقت میں رؤیا میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں۔ میرے ساتھ کچھ اَور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہیں اور جب میں نے دوڑنا شروع کیا تو رؤیا میں مجھے یوں معلوم ہؤا جیسے میں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑ رہا ہوں اور کوئی ایسی زبردست طاقت مجھے تیزی سے لے جا رہی ہے کہ میلوں میل ایک آن میں طے کر تا جا رہا ہوں۔ اُس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور میرے پیچھے ہی جرمن فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لیے دوڑتے آرہے ہیں۔ مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہوگا کہ مجھے رؤیا میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں چلتا ہی جاتا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پَیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے یہاں تک کہ میں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا جو دامنِ کوہ کہلانے کا مستحق ہے۔ ہاں! جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا ہے رؤیا میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی کوئی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی ہے اس میں اس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی تھی اور تمام نقشہ بھی بتایا گیا تھا کہ جب وہ موعود اس مقام سے دوڑے گا تو اس طرح دوڑے گا اور پھر فلاں جگہ جائے گا۔ چنانچہ رؤیا میں جہاں مَیں پہنچا ہوں وہ مقام اس پہلی پیشگوئی کے عین مطابق ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئی میں اس امر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے میں اختیار کروں گا اور اس رستہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے گا۔ چنانچہ جب میں یہ خیال کرتا ہوں تو اس مقام پر مجھے کئی پگڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف جاتی ہے اور کوئی کسی طرف۔ مَیں ان پگڈنڈیوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا ہوں تا معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کس کس راستہ پر جانا چاہیے اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ میں نے کس راستہ سے جانا ہے اور میرا کس راستہ سے جانا خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے۔ ایسا نہ ہو میں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کرلوں جس کا پیشگوئی میں ذکر نہیں۔ اُس وقت میں اُس سڑک کی طرف جا رہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے۔ اُس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اَور ساتھی ہے اور وہ مجھے دیکھ کر کہتا ہے کہ اس سڑک پر نہیں، دوسری سڑک پر جائیں اور مَیں اس کے کہنے پر اس سڑک کی طرف جو بہت دور ہٹ کر ہے واپس لَوٹتا ہوں۔ وہ جس سڑک کی طرف مجھے آوازیں دے رہا ہے انتہائی دائیں طرف ہے اور جس سڑک کو مَیں نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی بائیں طرف تھی۔ پس چونکہ میں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بلا رہا تھا وہ انتہائی دائیں طرف تھی اس لیے مَیں لَوٹ کر اس سڑک کی طرف چلا۔ مگر جس وقت میں پیچھے کی طرف واپس ہٹا، ایسا معلوم ہؤا کہ
مَیں کسی زبردست طاقت کے قبضہ میں ہوں اوراس زبردست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پگڈنڈی پر چلا دیا۔
میرا ساتھی مجھے آوازیں دیتا چلا جاتا ہے کہ اُس طرف نہیں اِس طرف۔ اُس طرف نہیں اِس طرف۔ مگر مَیں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پگڈنڈی پر بھاگتا چلا جاتا ہوں۔ اس جگہ کی شکل رؤیا کے مطابق اس طرح بنتی ہے۔
جب میں تھوڑی دور چلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے جو پیشگوئی میں بیان کیے گئے تھے۔ اور میں کہتا ہوں میں اسی راستہ پر آگیا جو خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں فرمایا تھا۔ اُس وقت رؤیا میں مَیں اس کی کچھ توجیہہ بھی کرتا ہوں کہ میں درمیانی پگڈنڈی پر جو چلا ہوں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ چنانچہ جس وقت میری آنکھ کھلی معاً مجھے خیال آیا کہ دایاں اور بایاں راستہ جو رؤیا میں دکھایا گیا ہے اس میں
بائیں رستہ سے مراد خالص دنیوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور دائیں رستہ سے مراد خالص دینی طریق، دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستے پر چلنے سے ہو گی۔ یعنی کچھ تدبیریں اور کوششیں ہوں گی اور کچھ دعائیں اور تقدیریں ہوں گی۔
اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو قرآن شریف نے امتِ محمدیہؐ کو اُمَّةً وَّسَطًا(البقرہ: ۱۴۴)قرار دیا ہے۔اس وسطی راستہ پر چلنے کے یہی معنے ہیں کہ یہ امت اسلام کا کامل نمونہ ہو گی۔ اور چھوٹی پگڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ راستہ گو درست راستہ ہے مگر اس میں مشکلات بھی ہوتی ہیں۔غرض مَیں اُس راستہ پر چلنا شروع ہؤا اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ دشمن بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اتنی دور کہ نہ اُس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور نہ اُس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے۔مگر ساتھ ہی میرے ساتھیوں کے پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ مگر مَیں دوڑتا چلا جاتا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے۔ اُس وقت مَیں کہتا ہوں کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اُس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس رستہ کے بعد پانی آئے گا اور اُس پانی کو عبور کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اُس وقت مَیں رستے پر چلتا تو چلا جاتا ہوں مگر ساتھ ہی کہتا ہوں وہ پانی کہاں ہے؟ جب مَیں نے یہ کہا وہ پانی کہاں ہے تو یکدم مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک بہت بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑا ہوں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اس جھیل کے پار ہو جانا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے۔ مَیں نے اُس وقت دیکھا کہ جھیل پر کچھ چیزیں تیر رہی ہیں، وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں اور ایسی باریک اور ہلکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے بیّے۲ وغیرہ کے گھونسلے نہایت باریک تنکوں کے ہوتے ہیں۔ وہ اُوپر سے گول ہیں جیسے اژدہا کی پیٹھ ہوتی ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے بیّےکے گھونسلے سے سفیدی، زردی اور خاکی رنگ ملا ہؤا۔ وہ پانی پر تیر رہی ہیں اور اُن کے اُوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو اُن کو چلا رہے ہیں۔ خواب میں مَیں سمجھتا ہوں یہ بُت پرست قوم ہے اور یہ چیزیں جن پر یہ لوگ سوار ہیں اُن کے بُت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں اور اب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جب مجھے اور کوئی چیز پار لے جانے کے لیے نظر نہ آئی تو مَیں نے زور سے چھلانگ لگائی اور ایک بُت پر سوار ہو گیا۔ تب مَیں نے سنا کہ بُتوں کے پجاری زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہار منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے کرنے لگے۔ اس پر مَیں نے دل میں کہا کہ اِس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے اور بڑے زور زور سے مَیں نے توحید کی دعوت ان لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی برائیاں بیان کرنے لگا۔
۱۔ [(گڑھی):چھوٹا قلعہ (فیروز اللغات اردو جامع)]
۲۔ [(بیا):چھوٹی زرد رنگ کی چڑیا جو تنکوں سے بہت خوبصورت اور بہت مضبوط گھونسلا بناتی ہے۔
(باقی آئندہ)