بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۷۰)
٭… کیا حضرت یحییؑ کو قتل کیا گیا تھا؟
٭… سورۃ الاحزاب آیت۷۳ میں ملائکہ اور جنوں کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟
سوال: کراچی پاکستان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا مؤ قف ہے کہ انبیاء قتل ہو سکتے ہیں اور حضرت یحییٰؑ قتل ہوئے تھے، جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف ہے کہ انبیاء قتل نہیں ہو سکتے اور حضرت یحییٰؑ کا قتل تاریخ سے ثابت نہیں، یہ دونوں موقف بظاہر متضاد معلوم ہوتے ہیں۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۳؍نومبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل بصیرت افروز ہدایات سے نوازا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہماالسلام کے قتل کے بارے میں تاریخ و سیرت کی کتب میں اور علمائے سلف کے نظریات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ قرآنی آیات سے استدلال اور احادیث کی تشریح کی روشنی میں جماعت احمدیہ میں بھی اس بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ میری رائے اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق ہے اور میں قرآن کریم، احادیث نبویﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اسی موقف پر قائم ہوں کہ کسی بھی سلسلہ کا پہلااور آخری نبی یا وہ نبی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہو کہ وہ اسے انسانوں کی دسترس سے بچائے گا، قتل نہیں ہو سکتے۔ ان کے علاوہ باقی انبیاء کے لیے قتل نفس کوئی معیوب بات نہیں اور اس سے نبی کی شان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا کیونکہ قتل بھی شہادت ہوتی ہے۔مگر ہاں ناکام قتل ہو جانا انبیاء کی شان کے خلاف ہے۔پس جب ایک نبی اپنا کام پورا کر چکے تو پھر وہ طبعی طور پر فوت ہو یا کسی کے ہاتھ سے شہید ہو جائے اس میں کوئی ہرج کی بات نہیں۔ کیونکہ کامیابی کی موت پرنہ کسی کو تعجب ہوتا ہے اور نہ دشمن کو خوشی ہوتی ہے۔
پس حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کسی سلسلہ کے پہلے اور آخری نبی نہیں تھے اور نہ ہی ان کے بارے میں خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا وعدہ مذکور ہے کہ وہ انہیں دشمن کے ہاتھ سے ضرور محفوظ رکھے گا۔ اسی طرح ہمارا ایمان ہے کہ جب ان انبیاء کی شہادت ہوئی تو یقیناً وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کر چکے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد فرمائی تھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد ارشادات سے آپؑ کا موقف بخوبی واضح ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا قتل ہوئے تھے۔چنانچہ قرآنی آیت اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَاتَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡۚ فَفَرِیۡقًا کَذَّبۡتُمۡ۫ وَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ۔(سورۃ البقرہ:۸۸)کا ترجمہ کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:یعنی اے بنی اسرائیل! کیا تمہاری یہ عادت ہوگئی کہ ہر ایک رسول جو تمہارے پاس آیا تو تم نے بعض کی ان میں سے تکذیب کی اور بعض کو قتل کر ڈالا۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۳۴)اپنی عربی تصنیف حمامۃ البشریٰ میں آپ لکھتے ہیں: وما کان موت القتل نقصًا لأنبیاہ وکسرًا لشأنہم وعزّتہم، وکأین من النبیّین قُتلوا فی سبیل اللّٰہ کیحیٰی علیہ السلام وأبیہ، فتفکرْ واطلبْ صراط المہتدین ولا تجلس مع الغاوين۔(حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد ۷صفحہ ۲۵۵ حاشیہ)
یعنی قتل کے ذریعہ مرنا اس(اللہ) کے انبیاء کے لیے کوئی نقص نہیں ہے، اور نہ ان کی کسر شان ہے اور نہ ہی ان کی عزت کے منافی ہے۔ اور کتنے ہی نبی ایسے ہیں جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئےجیسے یحییٰ علیہ السلام اور ان کے والد۔ پس غور کراور ہدایت یافتہ لوگوں کی راہ طلب کراور گمراہوں کے ساتھ مت بیٹھ۔
اپنی تصنیف تحفہ گولڑویہ میں آپؑ فرماتے ہیں:کَمَاکا لفظ جیسا کہ حضرت موسیٰ اور آنحضرتؐ کی مشابہت کے لیے قرآن نے استعمال کیا ہے وہی کَمَا کا لفظ آیت کَمَا استَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ میں وارد ہے جو اسی قسم کی مغائرت چاہتا ہے جو حضرت موسیٰ اور آنحضرت ﷺ میں ہے۔ یاد رہے کہ اسلام کا بارھواں خلیفہ جو تیرھویں صدی کے سر پر ہونا چاہیے وہ یحییٰ نبی کے مقابل پر ہے جس کا ایک پلید قوم کے لیے سرکاٹا گیا (سمجھنے والا سمجھ لے) اس لئے ضروری ہے کہ بارھواں خلیفہ قریشی ہو جیسا کہ حضرت یحییٰ اسرائیلی ہیں لیکن اسلام کا تیرھواں خلیفہ جو چودھویں صدی کے سر پر ہونا چاہیے جس کا نام مسیح موعود ہے اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ قریش میں سے نہ ہو جیسا کہ حضرت عیسیٰ اسرائیلی نہیں ہیں۔ سید احمد صاحب بریلوی سلسلہ خلافت محمدیہ کے بارھویں خلیفہ ہیں جو حضرت یحییٰ کے مثیل ہیں اور سید ہیں۔(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد۱۷صفحہ۱۹۴،۱۹۳)
ازالۂ اوہام میں حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ایسا ہی حضرت یحییٰ نے بھی یہودیوں کے فقیہوں اور بزرگوں کو سانپوں کے بچے کہہ کر ان کی شرارتوں اور کارسازیوں سے اپنا سر کٹوایا۔(ازالۂ اوہام حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد۳صفحہ۱۱۰)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات کی روشنی میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی تھا کہ حضرت یحیی ٰقتل ہوئے تھے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی اس مسئلہ پر بحث اٹھی تھی جس پر آپؓ نے اس موضوع پر تین خطبات جمعہ ارشاد فرمائے، جن میں آپؓ نے اس بات کو ثابت کیا کہ حضرت یحییٰ شہید ہوئے تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کا بھی یہی عقیدہ تھا۔انہی خطبات میں سے ایک موقع پر آپؓ نے فرمایا:ایک دفعہ نہیں بلکہ متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے ہم نے یہ سُنا اور ایک رنگ میں نہیں بلکہ مختلف رنگوں اور مختلف پیرایوں میں سُنا اور اب ہمارے لئے یہ بات ماننی بالکل ناممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قتل یحییٰ کے قائل نہیں تھے۔ پھر صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے سُننے کا سوال نہیں بلکہ ہم میں اس بات پر بحثیں ہوا کرتی تھیں اور ہم ہمیشہ اُس وقت کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہی عقیدہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے تھے مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اس بات کے قائل تھے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی نبی قتل نہیں ہو سکتا اور ہم ہمیشہ آپ سے اس معاملہ میں بحث کیا کرتے اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں سے حوالہ جات نکال نکال کر دکھایا کرتے۔ آخر ۱۹۱۰ء کے قریب انہوں نے اقرار کیا کہ اب آئندہ کے لیے میں اس مسئلہ کو بیان نہیں کروں گا ورنہ پہلے آپ ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ خطا بیات ہیں جیسے علی گڑھ کے سیّد احمد خان صاحب کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں بہت جگہ خطابیات کے طور پر باتیں بیان کی گئی ہیں مگر جب ہم نے متواتر حوالہ جات کو نکال نکال کر آپ کے سامنے رکھا اور کئی شہادتیں آپ کے سامنے اس امر کے متعلق پیش کیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی بات کے قائل تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے ہیں تو آپ نے اُس وقت فرمایا میں سمجھتا ہوں اب مجھے آئندہ کے لیے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے مگر حضرت خلیفہ اوّل نے بھی اپنے دلائل کے ضمن میں یہ کبھی نہیں فرمایا تھا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایسا سُنا ہے۔ آپ فرماتے میرا علم یوں کہتا ہے مگر جب ہم نے ان پر یہ بات ثابت کر دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اِس بات کے قائل تھے کہ بعض انبیاء شہید ہوئے ہیں تو پھر حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا اب میں خاموش ہو جاتا ہوں اور آئندہ اِس کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کروں گا۔(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ ۲۶؍اگست ۱۹۳۸ء، خطبات محمود جلد ۱۹ صفحہ ۵۷۰،۵۶۹)
باقی جہاں تک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے درس القرآن میں بیان شدہ مؤقف کی بات ہے تو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس موقف کو حتمی قرار نہیں دیا تھا، بلکہ فرمایا تھا کہ اس بارے میں مزید تحقیق ہونی چاہیے۔ نیز حضور رحمہ اللہ نے اپنے موقف کی تائید میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات میں بیان شدہ اس ارشاد کو بیان فرمایا تھا کہ’’صلیب چونکہ جرائم پیشہ کے واسطے ہے اس واسطے نبی کی شان سے بعیدہے کہ اسے بھی صلیب دی جا وے اس لئے توریت میں لکھا تھا کہ جوکا ٹھ پر لٹکا یا جائے وہ ملعون ہے آتشک وغیرہ جوخبیث امراض خبیث لوگوں کو ہو تے ہیں اُس سے بھی انبیاء محفوظ رہتے ہیں نفس قتل انبیاء کے لیے معیوب نہیں ہے مگر کسی نبی کا قتل ہو نا ثا بت نہیں ہے جس آلہ سے خبیث قتل ہو اس آلہ سے نبی قتل نہیں ہو تا۔‘‘(اخبار البدر نمبر ۱۲، جلد۲، مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱،۹۰۔ ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۳۵۶، مطبوعہ ۲۰۱۶ء)
ایک تو یہ ملفوظات کا حوالہ ہے اور ملفوظات سے مراد حضور علیہ السلام کے وہ ارشادات ہیں جوکسی اخبار کے ایڈیٹر یا رپورٹر نے حضورؑ سے سن کر اپنے الفاظ میں لکھے، جبکہ اس کے مقابلہ پر حضور علیہ السلام کی اپنی متعدد تصانیف میں یہ واضح موقف موجود ہے کہ حضور علیہ السلام کے نزدیک حضرت یحییٰ قتل ہوئے تھے۔ دوسرا ملفوظات کے اس مذکورہ بالا حوالہ میں دراصل حضور علیہ السلام نبیوں کے قتل ہونے کی مناہی نہیں فرما رہے بلکہ صلیب پر مارے جانے، کسی خبیث مرض میں مبتلا ہو کر مرنے اور کسی ایسے خبیث آلہ سے قتل ہونے کی مناہی فرما رہے ہیں جس آلہ سے خبیث لوگ قتل ہوتے ہیں۔
سوال: مصر کے صدر صاحب جماعت نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ ایک دوست نے پوچھا ہے کہ قرآن کریم کی آیت اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَاَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَحَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا۔(الاحزاب:۷۳) میں آسمانوں اور زمین کا کیوں ذکر کیا گیا ہے، ملائکہ اور جنوں کا ذکر کیوں نہیں ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۴؍نومبر۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: یہ تو Common senseکی بات ہے اور ہم اپنے روز مرہ کے معمولات میں بھی دیکھتے ہیں کہ چند چیزوں کا ذکر کر کے باقی چیزوں کو انہی کے تحت شمار کر لیا جاتا ہے، ہر دفعہ ایک ایک چیز کا نام لے کر تفصیلات بیان نہیں کی جاتیں۔ عربی زبان کا مشہور مقولہ ہے کہ خَيْرُ الْكَلَامِ مَا قَلَّ وَدَلَّ یعنی بہترین بات وہ ہوتی ہے جو چھوٹی ہو اور مدلل ہو۔ پس قرآن کریم جو ایک جامع کتاب ہے، اس کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اجمال کے رنگ میں تعلیم بیان فرمائی ہے اور مختصر الفاظ میں وسیع اور تفصیلی امور بیان کر دیے ہیں۔ چنانچہ وَکُلَّ شَیۡءٍ فَصَّلۡنٰہُ تَفۡصِیۡلًا۔(سورہ بنی اسرائیل:۱۳) اور وَتَفۡصِیۡلَ کُلِّ شَیۡءٍ۔(سورہ یوسف :۱۱۲) جیسی آیات میں قرآن کریم کی اسی غیر معمولی خوبی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم نے ہر ایک چیز کو خوب کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔نیز یہ کہ یہ کتاب ہر بات کی پوری تفصیل بیان کرنے والی ہے۔
قرآن کریم کے اجمال کی صورت میں تفصیل کو بیان کرنے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ قرآن کریم میں حسب ضرورت بعض جگہوں پر تو مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے الگ الگ ہدایات دی گئی ہیں۔ لیکن بہت سے مقامات پر صرف مومن مردوں کو مخاطب کر کے احکامات دیے گئے ہیں حالانکہ یہ احکامات عورتوں پر بھی اسی طرح نافذ العمل ہیں جس طرح مردوں پر ہیں لیکن ان مقامات پر عورتوں کو الگ مخاطب نہیں کیا گیا۔
پس آپ کے سوال کاجواب یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے مذکورہ بالا آیت میں آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کا ذکر فرمایا تو ان تینوں سے مراد ان میں پائی جانے والی تمام اشیاء ہیں۔ اور یہ بات پرانی تفسیروں میں بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ وقيل المراد بالعرض الخطاب اللفظي بالسماوات والأرض والجبال أهلها كما فى قوله تعالى وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ اى أهلها دون أعيانها۔یعنی یہ بھی کہا گیا ہے کہ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں سے لفظی خطاب سے ان کے باشندے مراد ہیں۔(یعنی آسمان و زمین اور پہاڑوں میں رہنے والی مخلوق کو اللہ نے بار امانت اٹھانے کی پیشکش کی تھی) جیسے آیت وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ (یعنی قریہ سے پوچھ)میں اہل قریہ مراد ہیں، نہ کہ عین قریہ کی زمین۔(تفسیر المظہری مولفہ القاضی محمد ثناء اللہ العثمانی الحنفی المظہری النقشبندی ۱۱۴۳ تا۱۲۲۵ھ جلد ہفتم)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس آیت میں مذکور زمین و آسمان اور پہاڑوں سے مراد ان پر رہنے والی مخلوق ہی لی ہے۔ چنانچہ اپنی تصنیف توضیح مرام میں آپ فرماتے ہیں: اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَاَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَحَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا۔یعنی ہم نےاپنی امانت کو جس سے مراد عشق و محبت الہٰی اور مورد ابتلا ہو کر پھر پوری اطاعت کرنا ہے آسمانوں کے تمام فرشتوں اور زمین کی تمام مخلوقات اور پہاڑوں پر پیش کیا جو بظاہر قوی ہیکل چیزیں تھیں سو ان سب چیزوں نے اُس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اُس کی عظمت کو دیکھ کر ڈر گئیں مگر انسان نے اس کو اٹھا لیاکیونکہ انسان میں یہ دو خوبیاں تھیں ایک یہ کہ وہ خدائے تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس پر ظلم کر سکتاتھا۔ دوسری یہ خوبی کہ وہ خدائے تعالیٰ کی محبت میں اس درجہ تک پہنچ سکتا تھا جو غیر اللہ کو بکلی فراموش کر دے۔ (توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۷۶،۷۵)
اسی طرح براہین احمدیہ حصہ پنجم میں فرمایا: ہم نے اپنی امانت کو جو امانت کی طرح واپس دینی چاہیے تمام زمین و آسمان کی مخلوق پر پیش کیا۔ پس سب نے اُس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر ے کہ امانت کے لینے سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو مگر انسان نے اس امانت کو اپنے سر پر اٹھا لیا کیونکہ وہ ظلوم اور جہول تھا۔ یہ دونوں لفظ انسان کے لیے محل مدح میں ہیں نہ محل مذمت میں اور ان کے معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں ایک صفت تھی کہ وہ خدا کے لیے اپنے نفس پر ظلم اور سختی کر سکتا تھا۔ اور ایسا خدا تعالیٰ کی طرف جھک سکتا تھا کہ اپنے نفس کو فراموش کر دے اس لئے اُس نے منظور کیا کہ اپنے تمام وجود کو امانت کی طرح پاوے اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کر دے۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خرائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۳۹)
آئینہ کمالات اسلام میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:وہ امانت جو فرشتوں اور زمین اور پہاڑوں اور تمام کواکب پر عرض کی گئی تھی اور انہوں نے اٹھانے سے انکار کیا تھا وہ جس وقت انسان پر عرض کی گئی تھی تو بلاشبہ سب سے اوّل انبیاء اور رسولوں کی روحوں پر عرض کی گئی ہو گی کیونکہ وہ انسانوں کے سردار اور انسانیت کے حقیقی مفہوم کے اوّل المستحقین ہیں۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۱۶۹)
پس اس آیت میں آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کا جو اجمالاً ذکر کیا گیا ہے، ان سے مراد ان میں بسنے والی تمام مخلوقات ہیں، جنہوں نے اس امانت کا حق ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور پھر انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا مقام عطا فرمایا ہے اس نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس امانت کو اٹھا لیا۔