احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ کی تالیف بڑی تحقیقات کا نتیجہ
ہم حضرت اقدسؑ کے سوانح میں یہ بات مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب سے آپؑ نے ہوش سنبھالا تو نوجوانی کی اس عمر میں عام ماحول کے بالکل برعکس آپؑ نے اپنے آپ کو مطالعہ میں ایسا فنا کیا کہ اس کے سواآپؑ کو گویا کوئی ہوش ہی نہ تھا۔چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر ہوتااورآپؑ مطالعہ میں یوں مستغرق رہتے کہ گویا سانس لینے کا بھی ہوش نہ رہتاہو اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مطالعہ میں مقدم ترین خداتعالیٰ کا پاک کلام قرآن مجید ہی ہواکرتاتھا۔آپؑ کے والد ماجد کے ریمارکس مطالعہ کی اس کیفیت پر ہمارے لمبے چوڑے مضمون کو مختصر کرنے کے لیے بہت کافی ہیں۔
’’مرزا اسماعیل بیگ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی بڑے مرزا صاحب (حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم و مغفور) مجھے بلا لیتے …پاس دو کرسیاں پڑی رہتی تھیں مجھے کرسی پر بیٹھ جانے کے لئے فرماتے۔اور دریافت کرتے کہ سنا تیرا مرزا کیا کرتا ہے؟ میں کہتا تھاکہ قرآن دیکھتے ہیں اور اس پر وہ کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے۔ (مطلب یہ تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت سے فارغ بھی ہوتا ہے۔عرفانی )پھر یہ پوچھتے کہ رات کو سوتا بھی ہے؟ میں جواب دیتا کہ ہاں سوتے بھی ہیں اور اٹھ کے نماز بھی پڑھتے ہیں۔‘‘ (حیات احمدجلداول صفحہ۴۳۶)
آپؑ کے اسی کثرت ِمطالعہ کی بابت ایک اَورچشمدید راوی پنڈت دیوی رام بیان کرتے ہیں : ’’ میں ۲۱؍ جنوری ۱۸۷۵ء کو نائب مدرس ہوکر قادیان گیا تھامیں وہاں چار سال رہا۔ میں مرزا غلام احمد صاحب کے پاس اکثرجایا کرتا تھا اور میزان طب آپ سے پڑھا کرتاتھا۔آپ کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب زندہ تھے۔مرزاغلام احمدصاحب ہندومذہب اورعیسائی مذہب کی کتب اوراخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اورآپؑ کے اردگرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتاتھا……‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۷۵۹)
حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں : ’’میں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اوران کے اعتراضوں پر غور کرتا رہاہوں۔میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کوجمع کیا ہے جو عیسائی آنحضرت ﷺ پر کرتے ہیں۔ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے۔‘‘(حیات احمدجلداول صفحہ۳۹۸)
براہین احمدیہ میں حضرت اقدسؑ خود فرماتے ہیں: ’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس کتاب کی تالیف سے پہلے ایک بڑی تحقیقات کی گئی اورہریک مذہب کی کتاب دیانت اور امانت اورخوض اورتدبر سے دیکھی گئی اورفرقانِ مجید اوران کتابوں کا باہم مقابلہ بھی کیا گیا اور زبانی مباحثات بھی اکثر قوموں کے بزرگ علماء سے ہوتے رہے۔ غرض جہاں تک طاقت بشری ہے ہریک طور کی کوشش اور جانفشانی اظہار حق کے لئے کی گئی‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلداول صفحہ ۷۹تا۸۱)
ہرچند کہ اس کتاب کے اوّلین مخاطب آریہ سماجی بھی تھے جنہوں نے کہ اسلام اوربانی اسلام کے خلاف وہ طوفانِ بدتمیزی برپا کررکھاتھا کہ دجال عیسائی پادریوں کے بھی کان کاٹے۔حضرت اقدسؑ نے جب یہ کتاب لکھنی شروع فرمائی تو اس وقت ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں آپؑ نے یہ ذکر بھی فرمایاہے۔جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں :’’ اس خاکسار نے ایک کتاب متضمن اثبات حقانیت قرآن وصداقت دین اسلام ایسی تالیف کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد طالبِ حق سے بجز قبولیت اسلام اورکچھ بن نہ پڑے۔اوراسکے جواب میں قلم اٹھانے کی کسی کو جرأت نہ ہوسکے…باعث تصنیف اس کتاب کے پنڈت دیانند صاحب اوران کے اتباع ہیں …‘‘(اشتہار بعنوان ’’اشتہار بغرض استعانت واستظہار ازانصاردین محمدؐ مختار صلے اللہ علیہ وعلےٰ آلہ الابرار‘‘ منقول از ضمیمہ اشاعة السنة نمبر۴ جلد ۲ صفحہ۳-۴؍اپریل ۱۸۷۹ء مطبوعہ مئی ۱۸۷۹ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۱۶-۱۷)
اسی طرح ۱۶؍مئی ۱۸۷۹ء بمطابق ۵؍ جمادی الاول ۱۲۹۶ھ کےاخبار’’منشور محمدی ‘‘میں باوانرائن سنگھ کے لیے خوشخبری کے عنوان سے ہی ایک ہندوعالم باوانرائن سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :’’ لہٰذا ہم نے حسب درخواست باواصاحب ایک کتاب مسمی بہ براہین احمؐدیہ علیٰ حقیّۃ کتاب اللہ القرآن والنبوة المحمدیہ ادلہ کاملہ قطعیہ سے مرتب کرکے تیار کی ہے‘‘ اس طرح آپؑ نے اسی اخبار کے صفحہ ۵ پر ایک اعلان بعنوان ’’اشتہار بطلب معاونت جملہ اکابر وعمائد الاسلام‘‘شائع کیا اس میں باعث تصنیف کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اور اس کتاب کے تصنیف ہونے کا اصل باعث پنڈت دیانند صاحب اوران کے توابع ہیں جو اپنی امت کو آریہ سماج کے نام سے مشہور کررہے ہیں…‘‘(حیات احمد،جلد دوم صفحہ۸،۹ )
لیکن جیسا کہ اس سے قبل اختصار سے یہ ذکرہوچکاہے کہ بنیادی طورپر اسلام کے خلاف جب چاروں طرف سے حملے شروع ہوئے اوردوسری طرف مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ان کے صوفیاء اورفقراء اورعلماء یاتو بسم اللہ کے گنبدوں میں غافل بیٹھے رہے اور دین کے غم سے بے غم ہوکر اپنے نفس کی خودتراشیدہ عبادتوں اوروظائف کے بتوں کی پوجامیں ایسے مصروف رہے کہ قبلہ ٔحقیقت سے بہت دور جاپڑےاورسستی اور تضیع اوقات اور بے قیدی اور آرام طلبی اورمُردہ طبعی میں اپنی ساری عمر گنوادی اور فقیری کا ایسا لباس پہنا کہ شیطان اوران کے مابین فرق کرنا مشکل ہوگیا البتہ اس زمانے میں کچھ علماء ہمیں ایسے بھی نظر آتے ہیں کہ جوسینکڑوں کتابوں کے ڈھیر لگائے بیٹھے ہوئےہیں،چھکڑوں پر کتابیں لادے ہوئے، حدیث،فقہ، تفسیر، منطق، صرف، نحو، تعبیر، اصول فقہ، علم بلاغت، اسماء الرجال، قراءت ، مناظرہ، تاریخ الغرض ہرقسم کے علوم پر مشتمل کتابیں چھکڑوں اورگدھوں پر لادے ہوئے، ان کے قریب جائیں توپتہ چلتاہے کہ یہ ساری کتابیں اورسارے علماء اس لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ کوّاحلال ہے یا حرام ……
می سَزَد،گرخُوں بِبارد،دِدیدۂِ ہراہلِ دیں
برپریشاں حالیِٔ اسلام وقَحطُ المسلمیں
مناسب ہے کہ ہردیندارکی آنکھ خون کے آنسو روئے، اسلام کی پریشاں حالی اورقحط المسلمیں پر
دِینِ حق را،گردِش آمد،صعبناک وسَہمگیں
سخت شورے اوفتاد، اندرجہاں ازکفروکِیں
خدا کے دین پر نہایت خوفناک اورپُرخطرگردش آگئی،کفروشقاوت کی وجہ سے دنیا میں سخت فساد برپا ہوگیا۔
پیشِ چشمانِ شُما،اسلام درخاک اُوفتاد
چیست عُذرے،پیشِحق،اےمجمعُ المتنعّمیں
تمہاری آنکھوں کے سامنے اسلام خاک میں مل گیا۔پس اے گروہِ! امراء تمہارا خداکے حضورمیں کیاعذرہے؟
ہرطرف کفرست جوشاں، ہمچوافواجِ یزید
دینِ حق بیماروبے کس، ہمچوزین العابدیں
افواج یزید کی مانند ہرطرف کفر جوش میں ہے۔اوردین حق زین العابدین کی طرح بیمار وبے کس ہے
عالِماں را، روز و شب، باہم فساد از جوشِ نفس
زاہداں غافل سراسر،ازضرورت ہائے دیں
علماء دن رات نفسانی جوشوں کے باعث آپس میں لڑرہے ہیں اورزاہد ضروریات دین سے بالکل غافل ہیں۔
یہ تھی وہ دینِ احمدﷺ کی حالت اورعلمائے دینِ متین کاردعمل اور کردار۔ ایسے میں ایک دردمند دل اٹھا جس کادل اس غم سے چُورچُورہورہاتھا۔
اِیں دوفکرِدینِ احمدؐ مغزِ جانِ ماگُداخت
کثرتِ اَعدائے ملت،قلتِ انصارِدیں
دین احمدؐ کے متعلق ان دوفکروں نے میری جان کا مغز گھلادیا۔اعدائے ملت کی کثرت اورانصارِدین کی قلت۔
دل میں یہ جوش لے کر اسلام کا یہ بطل ِجلیل قلم کا تلوارلے کر میدان میں اترااورایک عظیم الشان کتاب تصنیف کرنے کا عزم کیا۔ایک ایسی کتاب جو آسمان ِہدایت پر قطبی ستارے کی طرح چمکی اورتمام مذاہب باطلہ کے سُورماؤں کا ایساتعاقب کیا کہ ان کے چھکے چھڑادیے ان کے جسموں پر خوف اوررعب کی ایسی کپکپی طاری ہوئی کہ وہ اس میدان کے اس شیرِببرکا سامنا نہ کرسکے اور ان کے ہاتھوں پرایسالرزہ طاری ہواکہ وہ اپنے ہاتھوں میں قلم تھامنا بھول گئےان کی زبانیں ایسی گنگ ہوئیں کہ سوائے ہزیان کے کچھ بول نہ سکے۔
یہ وہ عظیم الشان کتاب تصنیف کی گئی جو بنیادی طور پر ہرمذہب اورمکتبۂ فکر اورسوچ کے وساوس کا جواب تھی۔جیسا کہ حضرت اقدسؑ براہین احمدیہ میں فرماتے ہیں :’’جتنے ہمارے مخالف ہیں یہودی۔ عیسائی۔ مجوسی۔ آریہ۔ برہمو۔ بت پرست۔ دہریہ۔ طبعیہ۔ اباحتی۔ لامذہب سب کے شبہات اور وساوس کا اس میں جواب ہے۔ اور جواب بھی ایسا جواب کہ دروغگو کو اس کے گھر تک پہنچایا گیا ہے اور پھر صرف رفع اعتراض پر کفایت نہیں کی گئی بلکہ یہ ثابت کرکے دکھلایا گیاہے کہ جس امر کو مخالف ناقص الفہم نے جائے اعتراض سمجھا ہے وہ حقیقت میں ایک ایسا امر ہے کہ جس سے تعلیم قرآنی کی دوسری کتابوں پر فضیلت اور ترجیح ثابت ہوتی ہے نہ کہ جائے اعتراض اور پھر وہ فضیلت بھی ایسی دلائل واضح سے ثابت کی گئی ہے کہ جس سے معترض خود معترض الیہ ٹھہر گیا ہے۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلداول صفحہ ۱۲۹-۱۳۰)
حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں :’’ براہین احمدیہ کی تالیف کایہ باعث ہواتھا کہ پنڈت دیانند نے سرنکالتے ہی اسلام پرزبان کھولی اوراپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں آنحضرتﷺ کی بہت بے ادبی کی اور قرآن شریف کابہت توہین کے ساتھ ذکرکیا۔‘‘ (چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد۲۳صفحہ ۵)