یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق (قسط۳۱) حاجی موسیٰ جاراللہ اور استاد عبدالعزیز کی قادیان آمد (اپریل ۱۹۳۹ء)
تاریخ احمدیت کی جلد ہفتم کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اپریل ۱۹۳۹ء میں عالم اسلام کے دو مشہور عالم قادیان دارالامان کی شہرت سن کر مرکز احمدیت میں تشریف لائے۔ حاجی موسیٰ جاراللہ اور الاستاذ عبدالعزیز، ادیب،مدیر ماہنامہ رابطہ اسلامیہ دمشق۔مقدم الذکر مہمان انگریزی ماخذوں میں Haji Musa Bigievکے نام سے مذکور ہیں۔
اس قیام کے دوران علامہ موسیٰ جاراللہ نہ صرف قادیان کے مقامی اداروں اور بالخصوص مرکزی لائبریری میں نایاب کتابیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے بلکہ آپ پر جماعت احمدیہ کے عقائد و تعلیمات کا بھی گہرا اثرا ہوا۔(ماخوذ ازتاریخ احمدیت۔جلد ۷صفحہ ۶۱۹)
اس سفر کی تفصیل میں جماعتی اخبار روزنامہ الفضل قادیان دارالامان نے اپنی ۱۴؍اپریل ۱۹۳۹ء کی اشاعت کے صفحہ ۲ پر’’علامہ حاجی موسیٰ جاراللہ مشہور اسلامی لیڈر اور الاستاذ عبدالعزیز ادیب مدیر رابطہ اسلامیہ دمشق قادیان میں‘‘ کا عنوان بنا کر لکھا کہ ’’قادیان ۱۲؍اپریل۔ علامہ حاجی موسیٰ جاراللہ اسلامی دنیا میں قریباً چالیس سال سے خاص شہرت رکھنے والے مشہور ترکی لیڈر ہیں۔ آپ کئی زبانوں کے ماہر اور متعدد عربی و ترکی کتب کے مصنف ہیں۔ اپنی سیاحت کے دوران میں کچھ عرصہ سے ہندوستان آئے ہوئے ہیں۔ حال میں جب وہ لاہور پہنچے تو وہاں سے کل [یعنی ۱۱؍اپریل کو] قادیان تشریف لائے۔ مقامی ادارے اور خاص کر مرکزی لائبریری میں نایاب کتب دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آج مکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے ان کے نیز الاستاذ عبدالعزیز ادیب کے جو دمشق کے ایک ماہوار رسالہ کے مدیر ہیں۔ اور چند دن سے قادیان میں تشریف رکھتے ہیں اعزاز میں دعوتِ چاء دی جس میں مقامی اخبار نویسوں جناب مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر دعوة و تبلیغ اور بعض اور اصحاب کو بھی مدعو کیا۔ پہلے حاجی صاحب موصوف کا دوسرے اصحاب سمیت فوٹو لیا گیا۔ پھر ان سے تعارف کرایا گیا۔ اور اس کے بعد چائے نوشی کی گئی۔ اس دوران میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی عربی میں حاجی صاحب موصوف سے گفتگو کرتے رہے۔ حاجی صاحب نے مسلمانان روس کی موجودہ حالت بیان کی۔ جاوی۔ ترکستانی اور جاپانی زبانیں جاننے والے اصحاب نے جو اس موقع پر اتفاق سے موجود تھے۔ اپنی زبانوں میں حاجی صاحب اور فاضل مدیر رابطہ اسلامیہ کی آمد کے متعلق خوشی کا اظہار کیا۔
آخر میں شیخ محمود احمد صاحب نے عربی میں مختصر تقریر کی۔ جس میں معزز مہمانوں کی آمد پر مسرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ آج سے بہت عرصہ قبل جبکہ قادیان کو کوئی وقعت حاصل نہ تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایاتھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے یہاں دور دور سے لوگ آئیں گے۔ ہم بارہا اس پیش گوئی کو پورا ہوتادیکھ چکے ہیں۔اور آج بھی علامہ موصوف کی تشریف آوری سے یہ پوری ہوئی ہے۔ اس وجہ سے ان کی آمد ہمارے لئے بے حد خوشی اور مسرت کا موجب ہے۔
آخر میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے عربی میں وہ واقعہ بیان کیا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں امریکہ کا ایک سیاح یہاں آیا تھا۔ جب اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے ملاقات کی تو اپنی نوٹ بک نکال کر دکھائی کہ میں نے امریکہ سے روانہ ہوتے ہوئے یہ نوٹ کیا تھا کہ قادیان میں جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس سے ضرور ملاقات کرونگا۔ آج مجھے ملاقات کا موقع مل گیا ہے۔ اس کے بعد اس نے کہا آپ کے پاس اپنی صداقت کا کیا ثبوت ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا آپ کا یہاں آنا بھی میری صداقت کا ثبوت ہے۔ کیونکہ دور دور سے لوگوں کے یہاں آنے کی خدا تعالیٰ نے آج سے کئی سال پہلے خبر دی تھی۔ جو آپ کے ذریعہ بھی پوری ہوئی۔
حاجی صاحب موصوف نے ساری گفتگو نہایت دلچسپی کے ساتھ سنی اور سلسلہ احمدیہ کی عربی اور اردو اور انگریزی کتب حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔‘‘(الفضل ۱۴ تا ۱۶ اپریل ۱۹۳۹ء)
قارئین کرام! اس معزز مہمان کی طرف سے اردو سمیت دیگر زبانوں کی کتب کے حصول کی خواہش شاید کچھ عجیب معلوم ہو، اس سلسلہ میں مزید تلاش کرنے پر ہمارے سامنے آتا ہے کہ موسیٰ جاراللہ صاحب ۱۸۷۸ء میں روسی علاقہ کازان میں آباد ایک ترکستانی خاندان میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ فاطمہ مقامی امام کی بیٹی اور عربی زبان جانتی تھیں۔
۱۹۴۹ء میں قاہرہ، مصر میں وفات پانے والے موسیٰ جاراللہ کئی کتب کے مصنف اور بطور مترجم خصوصی شہرت کے حامل عالم دین تھے۔ اپنے آبائی علاقہ کازان کے علاوہ آپ نے علم و فضل کے مراکز میں سے بخارا،استنبول، اور قاہرہ جیسے شہروں میں واقع عظیم درسگاہوں سے اکتساب علم کیاتھا۔انقلاب روس کے ہنگاموں میں یکسر بھلادیے جانے والے اس عالم دین نےمتفرق کتب علوم اسلامیہ کو تاتاری زبان میں منتقل کرنے کے علاوہ قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی بھی سعادت پائی۔ مشہور ایرانی شاعر خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی المعروف ’’حافظ‘‘کی شاعری کے مجموعہ ’’دیوانِ حافظ‘‘ کو تاتاری زبان میں پیش کیا۔ موسیٰ جاراللہ کو بعض اختلافی نظریات رکھنے اور آپ کے تنقیدی رجحانات کی بنا پر Luther of Islamبھی کہا جاتا ہے۔ موصوف کوایک لمبا عرصہ ارض حرم مکہ مکرمہ میں قیام اور حج بیت اللہ کی سعادت بھی ملی اورموسیٰ جاراللہ کے قیام ہندوستان کے دوران سنسکرت زبان سیکھنے او رمہابھارت کا مطالعہ کرنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔
نیز اس معزز مہمان کی زبان دانی کے سلسلہ میں اردو زبان کے معروف مصنف اور عالم دین سید سلمان ندوی جنہوں نے سیرت نگاری میں خوب شہرت کمائی،اپنے ایک مضمون ’’ ہندوستان میں ہندوستانی ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’مکہ معظمہ میں میری ملاقات ماسکو کے ایک عالم موسیٰ جاراللہ سے ہوئی جو اردو تصنیف ’’ارض القرآن‘‘کو ہندوستانیوں سے پڑھتے تھے۔‘‘(یہ مضمون ریختہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے)
اس معزز مہمان حاجی موسیٰ جاراللہ کے متعلق مولوی رئیس احمد جعفری (ولادت:۱۹۱۲ءوفات: ۱۹۶۸ء)، جو اردو کے مایہ ناز ادیب، صحافی اور مؤرخ تھے، نےاپنی مشہور کتاب’’دید شنید ‘‘ میں دوصفحات پر مشتمل تعارف لکھا ہے جس کے مطابق حاجی موسیٰ جاراللہ ایک روسی عالم تھے جو انقلاب روس کے بعد ہجرت پر مجبور ہوئے او رآپ ’’روس کے ان ارباب فضل و کمال،اصحاب زہد و تقویٰ سند نشینان علم و فضل میں سے تھے جن پر نہ صرف روس کو بلکہ عالم اسلام کو ناز تھا۔ امارت و ریاست کی گود میں آنکھ کھولی…وہ روس کے بڑے جاگیرداروں میں سے تھے…اس انقلاب نے ان کی دنیا بدل دی وہ ترک وطن پر مجبور ہوئے اور ہندوستان آکر پناہ گزین ہوگئے۔ ترکیہ، روس، افغانستان، ایران اور ممالک عربیہ اکثرمقامات کے لوگ ہندوستان مہمان بن کر آئے…‘‘(دید و شنید، ناشر:رئیس اکیڈمی، کراچی۔سن اشاعت: ۱۹۸۷صفحہ ۴۹ )
ان معزز مہمانوں کی قادیان میں مزید مصروفیات کے حوالے سے الفضل نے اپنے مستقل کالم مدینة المسیح،قادیان کی مورخہ ۱۳؍اپریل کی رپورٹنگ میں لکھتا ہے کہ’’آج ساڑھے چار بجے جناب ناظر صاحب دعوة و تبلیغ نے غیر ملکی معزز مہمانوں جناب موسیٰ جار اللہ صاحب اور الاستاذ عبدالعزیز صاحب دمشقی کے اعزاز میں چائے کی دعوت دی۔ اس موقعہ پر یورپ و امریکہ اور بلاد عربیہ کے بعض مبلغین بھی موجود تھے۔ جناب موسیٰ جاراللہ صاحب سے قریباً ایک گھنٹہ تک عربی زبان میں گفتگو ہوئی۔ مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری نے احمدیت کے عقائد اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مقاصد عالیہ کا مختصر تذکرہ کیا۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد سلیم صاحب نے بھی عربی میں گفتگو کی۔ ‘‘(روزنامہ الفضل قادیان۔ مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۳۹۔ صفحہ اول۔ کالم اول)
اس حوالے سے مورخہ ۱۶؍اپریل ۱۹۳۹ء کی الفضل قادیان کے صفحہ دوم پر ’’جمعیة الناطقین بالعربیہ کی طرف سے دو معزز مہمانوں کے اعزاز میں دعوت‘‘ کے عنوان سے حسب ذیل معلومات درج کی گئیں:’’قادیان، ۱۴؍اپریل۔ آج بعد نماز عصر حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی کوٹھی ’’الصفہ‘‘ کے باغ میں جمعیة الناطقین بالعربیہ کی طرف سے الاستاذ موسیٰ جاراللہ صاحب اور ادیب عبد العزیز صاحب کے اعزاز میں چائے کی دعوت دی گئی۔ چائے نوشی کے بعد صاحبزادہ محمد طیب صاحب نے تلاوت قرآن کریم کی۔ جناب مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے اپنا قصیدہ عربیہ پڑھا۔ اور پھر جمعیة الناطقین بالعربیہ کی طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری نے زبانی فصیح عربی میں ایڈریس پیش کیا۔ جس میں معزز مہمانوں کو مرحبا کہتے ہوئے انہیں جماعت احمدیہ کی تبلیغی جدوجہد اور اس کے شیریں نتائج کی طرف توجہ دلائی۔ اور احمدیت کی ترقی کے متعلق معاندین کا اپنا اعتراف بھی پیش کیا۔ جواب میں ادیب عبدالعزیز صاحب نے ایک مضمون پڑھا۔ جس میں مسلمانوں کی موجودہ حالت اور ضرورت مصلح پر زور دیا۔ پھر جناب موسیٰ آفندی نے عالم اسلامی پر تبصرہ کرتے ہوئے احمدیت کی کوششوں کی تعریف کی۔ اور مجاہدین سلسلہ کی تبلیغی سرگرمیوں کو سراہا۔ دونوں مہمانوں نے جمعیة الناطقین بالعربیہ کا شکریہ ادا کیا۔ ان کے جواب میں پھر مولوی ابوالعطاء صاحب نے تقریر کی۔ اور بتایا کہ آپ ایسے معزز مہمانوں کی آمد پر جمیعة کا فرض تھا کہ خوش آمدید کہے۔ اس طریق سے عالم اسلامی میں رابطہ اتحاد پیدا ہوتا ہے۔
آخر میں جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے جو اس جلسہ کے صدر تھے، تقریر فرمائی اور بتایا کہ انسانی زندگی بہرحال ختم ہوجانے والی ہے۔ اس لئے خدا کی آواز پر لبیک کہنے میں ہی سعادت ہے۔ بعد ازاں دعا پر یہ اجتماع ختم ہوا۔ ‘‘
مؤلف تاریخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب کا تجزیہ ہے کہ حاجی موسیٰ جاراللہ نے اس سفر قادیان سے بہت کچھ اخذ کیا اور آپ پر جماعت احمدیہ کے عقائد و تعلیمات کا بھی گہرا اثر ہواتھا۔ مولانا موصوف نے تاریخ احمدیت کی مذکورہ بالا جلد میں اس سفر قادیان اور قیام کے ذکر کے بعد بتایا کہ’’آپ (موسیٰ جاراللہ)نے (سفر قادیان کے )تین سال بعد فروری ۱۹۴۲ء میں کتاب حروف اوائل السور شائع فرمائی۔ جس میں آیت وآخرین منھم… (سورة الجمعہ) کی جو تفسیر لکھی،اس کا اردو مفہوم یوں ہے کہ اس تیسری آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا جس نے امیوں میں سے رسول بھیجا۔ آخرین میں سے بھی اپنے پیغمبر مبعوث فرمائے گا۔ کیونکہ ہر امت کے رسول اس میں سے برپا ہوتے ہیں۔ اور یہ رسول جن کی یہاں پیش گوئی کی گئی ہے وہ اسلام کے رسول ہیں جو امت محمدیہ میں مبعوث ہوں گے۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کے انبیاء تھے جو بنی اسرائیل میں قیام تورات کی خاطر بھیجے گئے تھے۔ ‘‘
اسی طرح علامہ موسیٰ جاراللہ نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ ۱۳۱ پر جو نظریہ معراج درج کیا ہے، وہ بھی جماعت احمدیہ کے ہی موقف کا مؤید ہے۔