سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بے نظیر و بے مثال خدمت قرآن
وَہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوۡہُ وَاتَّقُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡن۔(الانعام:۱۵۶) اور یہ بہت مبارک کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے۔ پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم رحم کئے جاؤ۔
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَلَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا (النساء:۸۴)پس کیا وہ قرآن پر تدبّر نہیں کرتے؟ حالانکہ اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جیسی نابغۂ روزگار ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ پختہ ارادے، آہنی عزم، نہ رکنے والا قلم، فی البدیہ، پُر ولولہ و پُر جوش مقرر، عاشق قرآن، ہمہ تن خدمت دین پر کمربستہ یہ عظیم ہستی، پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق، کوئی اور نہیں میرے اور آپ سب کے محسن مصلح موعود، پسر موعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ہیں۔ اوائل عمری میں ہی آپؓ کلام الٰہی کی محبت اور خدمت کے جذبہ سے سرشار تھے۔ آپؓ کو قرآن کریم سے عشق اور والہانہ عقیدت و محبت، دین اسلام سے دلی رغبت ورثہ میں ملی تھی۔خدمت قرآن اور کلام رحمٰن کی نورانی کرنیں ہر سُو بکھیرنے کی تڑپ میں مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنے عظیم والد کے اس شعر کے حقیقی مصداق ہیں:
دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
(درثمین)
آپؓ کی دینی انسیّت اور کلام پاک سے گہری وابستگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی محسوس کر لی تھی۔ حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساویؓ کا بیان ہے کہ ’’ہم نے بارہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار سنا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ لڑکا جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے وہ میاں محمود ہی ہیں۔ اور ہم نے آپؑ سے یہ بھی سنا کہ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ مَیں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں۔ ‘‘ (الحکم ۲۸؍دسمبر۱۹۳۹ء۔ماہنامہ خالد سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نمبر۔جون،جولائی۲۰۰۸ءصفحہ ۳۸بحوالہ خطبۂ جمعہ ۲۳؍فروری۲۰۱۸ء)
مسیح پاک علیہ السلام کی دعائیں عرش کے خدا نے قبول فرمائیں۔۲۶؍مئی۱۹۰۸ء کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو غم کا ایک پہاڑ آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑا۔شدت غم سے بے قرار، دوسری طرف لوگوں کے طرح طرح کے اعتراضات،فکر تھی تو اس بات کی کہ مسیح موعودؑ کے مشن کو کس طرح کامیاب بنایا جائے۔ آپ ؓنے زمانے کے امام اور مسیح موعودؑکے جسدِ اطہر کے سرہانے کھڑے ہو کر اپنے رب سےیہ عہد کیا کہ’’اے خدا!میں تُجھکو حاضر ناظر جان کر تُجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پِھرجائے تب بھی وہ پیغام جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ تُو نے نازل فرمایا ہے،میں اِس کو دُنیا کے کونے کونے میں پھیلاؤں گا ‘‘۔(سوانح فضل عمر جلد اوّل،تصنیف حضرت مرزا طاہر احمدؒ۔صفحہ ۱۷۸-۱۷۹)
خدمت قرآن کریم کا جذبہ،فرقان حمید کی عظمت و شان اور کلام اللہ کا ترجمہ وتفسیر اورمطالب ِقرآن کو عام کرنے کا جوش و ولولہ آپ نے بدرجۂ اتم پایا تھا۔جس پرآپ کی زندگی کا ہرلمحہ اور ہر پل گواہ ہےاورآپ کے دوست احباب، آپ کے بیوی بچے اور آپ کی نوک قلم سے سجے خدمت دین اور کلام اللہ کی خدمت میں ہزاروں اوراق اور درجنوں کتب شاہد ہیں۔آپ نے ۱۹۱۰ءسے قرآن کریم کے درس دینے شروع کردیے جن میں قرآن کریم کے معارف و نکات بیان کیے جاتے تھے جبکہ اُس وقت آپ کی عمر ۲۰ سال تھی اور یہ سلسلہ آپؓ کے خلافت پر متمکن ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔ آپؓ کی یہ خواہش تھی کہ نوجوانوں کی تربیت کے لیے قرآن کریم کے درس ہر مجلس میں شروع ہوں۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’نوجوانوں کےلیے بھی درس کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے کیونکہ ان کے سامنے لوگ نئےنئے اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ اوردوسرے دوستوں کے لیےبھی مساجد اور محلوں میں درس کاانتظام ہونا چاہیے۔علیحدہ طور پر پڑھنے میں یہ نقص ہے کہ بعض لوگوں میں استقلال نہیں ہوتا اور وہ باقاعدہ نہیں پڑھ سکتے۔ درس سے وہ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔پھر ایک دوسرے کی معلومات اور اعتراضات سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے…قرآن کریم سیکھنے کا یہ بہت آسان ذریعہ ہے۔ تعجب ہےکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس قدر تاکید کے باوجود ابھی تک ایک طبقہ ایسا ہے۔جو اس طرف متوجہ نہیں۔ حالانکہ دروازہ کھلا ہے۔ معشوق سامنے بیٹھا ہے مگر قدم اٹھا کر آگے نہیں جاتے۔‘‘(اخبار الفضل قادیان دارالامان یکم فروری۱۹۳۴ءصفحہ ۷)آپ نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم پڑھایا اور قران کریم کا ترجمہ سکھایا۔اپنے فرزند ارجمند حضرت حافظ مرزا ناصر احمدؒ کو قرآن کریم کا حافظ بنایا۔عورتوں کی دینی اور تربیتی امور کی طرف بھی آپ کا خاص دھیان تھا۔آپ نے عورتوں میں درس قرآن کا اہتمام فرمایا۔ عورتوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے لجنہ اماءللہ جیسی تنظیم ۲۵؍دسمبر ۱۹۲۲ء میں قائم فرمائی۔آج دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ کینیڈا بھر میں بھی لجنہ اماءاللہ کے تحت درجنوں نیشنل، ریجنل اور لوکل سطح پر قرآن کریم فرقان حمید کی کلاسز ہو رہی ہیں جن سے ہزاروں کی تعداد میں ممبرات لجنہ اور ناصرات الاحمدیہ آپ رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر سے اپنے قلب و ذہن کو جلا بخش رہی ہیں اور آپ کے بیان فرمودہ قرآنی معارف اور تفسیر دلپذیر سے اپنی روحانی پیاس بجھا رہی ہیں۔الحمد للہ علیٰ ذالک!
۱۹۲۸ء کےجلسہ سالانہ کے موقع پر فضائل قرآن مجید کے عنوان پر قرآن کریم کے انوار و محاسن کے مختلف پہلو بیان کرتے ہوئے اعلیٰ پائے کی علمی و معلوماتی تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جو ۶تقاریر پر مشتمل تھا۔تفسیرکبیر، تفسیر صغیر،دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم کے نام سے طبع ہونے والی ۲۶ ضخیم جلدیں اور ۳۹ جلدوں پر مشتمل خطبات و خطابات آپ کی خدمات قرآن کی منہ بولتی تصویر اور تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہیں۔ اسی طرح دو ہزار خطبات جمعہ و عیدین اور جلسہ سالانہ پر آپ کی قرآن کریم کی محبت میں تقاریر۔’’کلام اللہ کا مرتبہ آپ پر ظاہر ہو گا ‘‘کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔دن رات خدمت و اشاعت قرآن کا جذبہ اس روحانی و نورانی وجود پر سوار تھا۔آ پ کی دلی تمنا اور آرزو تھی کہ قرآن کریم کی اعلیٰ و ارفع اور پاکیزہ و مطہر زندگی بخش تعلیم کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں،جس کے لیے آپ نے دن رات ایک کر دیا۔
تفسیر صغیر
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عظیم کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ تفسیر صغیر ہے۔قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیر کے دوران آپ علیل تھے مگر آپ نے اپنی خرابی صحت کے باوجود اسے مکمل کیا۔
تفسیر صغیر کے کام کا نقشہ کھینچتے ہوئے آپ کی رفیقۂ حیات حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کے دینی کاموں میں مدد کرنے کی خاص سعادت نصیب ہوئی تحریر فرماتی ہیں:’’تفسیر صغیر تو لکھی ہی آپ نے بیماری کےپہلے حملہ کے بعد یعنی ۱۹۵۶ء میں۔ طبیعت کافی کمزور ہو چکی تھی۔ گو یورپ سے واپسی کے بعد صحت ایک حد تک بحال ہو چکی تھی۔ مگر پھر بھی کمزوری باقی تھی۔ ڈاکٹر کہتے تھے آرام کریں،فکر نہ کریں، زیادہ محنت نہ کریں، لیکن آپ کو ایک دُھن تھی کہ قرآن کے ترجمہ کا کام ختم ہو جائے۔ بعض دن صبح سے شام ہو جاتی اور لکھواتے رہتے۔ کبھی مجھ سے املاء کرواتے۔ مجھے گھر کا کام ہوتا تو مولوی یعقوب صاحب مرحوم کو ترجمہ لکھواتے رہے۔آخری سورتیں لکھوا رہے تھے غالباً انتیسواں سیپارہ تھا یا آخری شروع ہو چکا تھا (ہم لوگ نخلہ میں تھے وہیں تفسیر صغیر مکمل ہوئی تھی) ‘‘
مزید فرمایاکہ’’آخری سورتیں لکھوا رہے تھے…کہ مجھے تیز بخار ہوگیا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ…میرے ہاتھوں ہی یہ مقدس کام ختم ہو۔ میں بخار سے مجبور تھی۔ ان سے کہاکہ میں نے دوا کھا لی ہےآج یا کل بخار اُتر جائے گا۔ دو دن آپ بھی آرام کرلیں آخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیں تا میں ثواب حاصل کرسکوں۔ نہیں مانے کہ میری زندگی کا کیا اعتبار۔ تمہارے بخار اترنے کے انتظار میں اگر مجھے موت آجائے تو؟ سارا دن ترجمہ اور نوٹس لکھواتے رہےاورشام کے قریب تفسیرصغیر کا کام ختم ہوگیا… قرآن مجید کی تلاوت کا کوئی وقت مقرر نہ تھا جب بھی وقت ملا تلاوت کرلی۔ یہ نہیں کہ دن میں صرف ایک بار یا دو بار۔ عموماً یہ ہوتاتھا کہ صبح اُٹھ کر ناشتہ سے فارغ ہوکر ملاقاتوں کی اطلاع ہوئی۔آپ انتظار میں ٹہل رہے ہیں قرآن مجید ہاتھ میں ہے لوگ ملنے آگئے قرآن مجید رکھ دیا۔ مل کر چلے گئے۔ پڑھنا شروع کردیا۔ تین تین چار چار دن میں عموماًمیں نے ختم کرتے دیکھا ہے۔ہاں جب کام زیادہ ہوتا تھا تو زیادہ دن میں بھی لیکن ایسا بھی ہوتاتھا کہ صبح سے قرآن مجید ہاتھ میں ہے ٹہل رہے ہیں اور ایک ورق بھی نہیں اُلٹا۔ دوسرے دن دیکھا تو پھروہی صفحہ میں نے کہنا کہ آپ کے ہاتھ میں قرآن مجید ہے لیکن آپ پڑھ نہیں رہے تو فرماتے ایک آیت پر اٹک گیا ہوں جب تک اس کے مطالب حل نہیں ہوتے آگے کس طرح چلوں۔‘‘ایک دفعہ یونہی خدا جانےمجھے کیا خیال آیا۔میں نے پوچھا کہ آپ نےکبھی موٹربھی چلانی سیکھی ؟ کہنے لگے ہاں ایک دفعہ کوشش کی تھی مگر اس خیال سے ارادہ ترک کردیاکہ ٹکر نہ ماردوں۔ ہاتھ پہیہ پر تھے اور دماغ قرآنِ مجید کی کسی آیت کی تفسیر میں الجھا ہوا تھا موٹر کیسے چلاتا۔‘‘ (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی مقدس زندگی کی چند جھلکیاں مطبوعہ الفضل ۲۵؍مارچ۱۹۶۶ءصفحہ۵)
مٹ جاؤں میں تو اس کی پروا نہیں ہے کچھ بھی
میری فنا سے حاصل گر دین کو بقا ہو
(کلام محمود)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:’’پھر تفسیر صغیر ہے یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی،کی ہوئی قرآن کریم کی تفسیر ہے جو علوم کا سر چشمہ اور تمام انوار کا سورج ہے مجھ پر یہ اثر ہے کہ بہت سے نوجوان اس تفسیر کی یا اس ترجمہ کی جس کے ساتھ تفسیری نوٹ ہیں… اہمیت نہیں سمجھتے۔…جماعت کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئےاگرہم قرآنِ کریم کے علوم صحیح طور پر سیکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ خصوصاً ہمارے بچے اور نوجوان اس سے محبت کرنےلگیں اور ان کے دل کا شدید تعلق قرآن ِکریم کے نور سے ہو جائے تو ہر نوجوان بچے کے باپ یا گارڈین کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں تفسیر صغیر کودیکھے اور اگر نہ دیکھے تو اس کا انتظام کرے۔‘‘(دوسرے روز کا خطاب بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ فرمودہ۱۲؍جنوری۱۹۶۸ءمطبوعہ خطابات ناصرجلداوّل صفحہ۱۸۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمه الله تعالیٰ آپ کی خدمت قرآن کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’آپ کا اٹھنا بیٹھنا، بولنا، سکوت تمام کا تمام قرآن کریم ہی سے پھوٹتاتھا۔ آپؓ کی فکر ونظر کامنبع قرآن تھا۔ آپؓ گفتگو فرماتے تھے تو قرآن کی تفسیر ہوتی تھی۔ تقریر فرماتے تھے توقرآن کی تفسیر ہوتی تھی، تحریر فرماتے تھے تو قرآن کی تفسیر ہوتی تھی۔ اور اس پہلو سے آپ جتنی بھی حضورؓ کی کتب کا مطالعہ کریں گے ایک بھی کتاب ایسی نظر نہیں آئے گی جس کا مضمون قرآن کریم سے نہ پھوٹتا ہو …گھنٹوں حضور کا تقریر کرنا، وہ سوز وگداز جس سے آپؓ تلاوت فرمایا کرتے تھے، وہ عشق قرآن جو آپؓ کے چہرے پر اس طر ح چھا جاتا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے چہرہ غائب ہو گیا ہے اور قرآن کا عشق باقی رہ گیا ہے۔ ‘‘(خطابات طاہر، تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت، صفحہ ۱۷۸) خدمت قرآن کے جذبہ سے سرشار حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۱۱ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے اجازت لے کر ایک انجمن کا قیام فرمایااور اس انجمن کا نام ’’انصارللہ ‘‘رکھا جس کے مقاصد میں قرآن کریم کی اشاعت کی طرف خصوصی توجہ دینا بھی تھا۔ مئی ۱۹۱۱ء کے تشحیذ الاذہان میں آپ کا ایک بصیرت افروز مضمون ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔یہ مضمون بھی آپ کی قرآن کریم سے والہانہ محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپؓ کی اس تحریر میں سے چند اقتباسات افادۂ عام کے لئے یہاں پیش ہیں۔’’دوسری تحریک جو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے کہ ایک انجمن قائم کی جائے جس کے ممبران خصوصیت سے قرآن و حدیث اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تبلیغ کی طرف توجہ رکھیں۔‘‘(مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ، انوار العلوم جلد۱صفحہ۳۳۴) نیز فرمایا’’یہ مت سمجھو کہ ہم اس کام کے لائق نہیں اگر ہمت و استقلال ہو اور خدا تعالیٰ سےسچا تعلق ہوتو پھروہ خود ہی قرآن و حدیث کا علم سکھلا دیتا ہےحضرت اقدسؑ فرمایا کرتے تھےکہ مجھے ایک رات میں کئی ہزار عربی الفاظ کا مادہ سکھلا دیا گیاتھا۔پس خدا کے خزانے وسیع ہیں کمر ہمت کوچست کرو اوردنیاکو کھول کر سنا دو کہ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نےاسے قبول نہ کیا مگر خدا اسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہرکرےگا۔‘‘ اسلام کا سورج گہن کے نیچے ہے۔ خداکے حضور میں تڑپو آہ و زاری کروتاوہ گہن دور ہو اور دنیا خدا تعالیٰ کا چہرہ دیکھے اور قرآن اور رسول کریم ﷺ کی عظمت اس پر ظاہر ہو۔‘‘(مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ، انوار العلوم جلد ۱صفحہ۳۳۵)
خدمت قرآن کی لگن اور افراد جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے ۱۹۱۳ء میں آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں ایک اخبار نکالنے کی تجویز پیش کی جو حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے منظور فرمائی۔ اس طرح ۱۹۱۳ء ہی میں اخبار الفضل کا اجرا عمل میں آیا۔ اس اخبار کے پہلے مدیر بھی آپ خود تھے۔ اس اخبار کی اغراض و اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں: ’’مذہب اسلام کی خوبیوں کو مخالفین کے سامنے پیش کرنا۔قرآن شریف کے کمالات سے آگاہ کرنا۔‘‘(اخبار’’فضل‘‘ کاپراسپکٹس، انوار العلوم جلد۱صفحہ۴۴۰)
تفسیر کبیر
حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت قرآن کا ایک ایسا عظیم الشان علمی شہکار ہے جس کے اپنے تو اپنے غیر بھی معترف ہیں۔آج تک کوئی اس پائے کی تفسیر نہ بلاد عربیہ اور نہ ہی بلاد عجمیہ سے پیش کر سکا ہے۔یہ ایک منفرد اور غیر معمولی تفسیر قرآن ہے۔۱۰؍جلدوں(نئے ایڈیشن میں ۱۵ جلدیں ہیں)پرمشتمل قرآن کریم کی ۵۹؍سورتوں کی تفسیر اس میں شامل ہے جن کےصفحات کی تعداد ۵۹۰۷؍ہے۔اشاعت قرآن اور خدمت اسلام کے اس غیر معمولی کام کے لیے جس قدر محنت حضوررضی اللہ عنہ نے کی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:’’میری طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل رہتی ہے اور چونکہ قرآن شریف کے ترجمہ اور تفسیر کا کام بہت بڑا بوجھ ان دنوں ہے اور جلسہ تک دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔…آج کل اکثر ایام میں رات ۳-۴بلکہ ۵بجے تک بھی کام کرتا رہتا ہوں۔‘‘(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان ۱۷؍دسمبر۱۹۴۰ءصفحہ اوّل)
ایمان مُجھ کو دے دے عرفان مُجھ کو دے دے
قُربان جاؤں تیرے قرآن مُجھ کو دے دے
(کلام محمود مع فرہنگ صفحہ ۲۳۶)
ربِ رحمان و منان نے آپ کی دعاؤں کو سنا اور آپ کو یہ بے نظیر و بے مثل تفسیر قرآن مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔اس تفسیر کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ نے کیا خوب فرمایا ہے:’’یہ تفسیر ایک بہترین تحفہ ہے جو دوست دوست کو دے سکتا ہے۔ ایک بہترین تحفہ ہے جو خاوند بیوی کو اور بیوی خاوند کو دےسکتی ہے۔ باپ بیٹے کو دے سکتا ہے۔ بھائی بہن کو دے سکتا ہےیہ بہترین جہیز ہے جو لڑکیوں کو دیا جاسکتا ہے۔‘‘ (الفضل۱۶؍جنوری۱۹۴۴ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍فروری ۲۰۲۱ء)آپ کی یہ پُر معارف اور علمی و روحانی نکاتِ قرآنی ۱۰جلدوں پر مشتمل تفسیرجب منظر عام پر آئی تو اپنوں کے علاوہ غیر بھی اس پُر شوکت تفسیر کے نکات اور آپ کے قرآنی فہم و ادراک کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔آپ جن کے بارے میں پیشگوئی مصلح موعود میں یہ کہا گیا تھا کہ ’’کلام اللہ کا مرتبہ آپ پر ظاہر ہو گا ‘‘پیشگوئی کے حقیقی مصداق،حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے ۱۶؍اپریل ۱۹۴۴ء کو دہلی میں ایک پبلک جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے یہ پُرشوکت اعلان فرمایا کہ’’ میں… تمام علماء کو چیلنج دیتاہوں کہ میرے مقابلہ میں قرآن ِکریم کے کسی مقام کی تفسیر لکھیں۔اور جتنے لوگوں سے اور جتنی تفسیروں سے چاہیں مدد لے لیں۔مگر خدا کے فضل سے پھر بھی مجھے فتح حاصل ہوگی۔‘‘(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان ۲۳؍اپریل ۱۹۴۴ءصفحہ اوّل)آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نےاپنے فرشتہ کے ذریعہ مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جاتی ہے اِسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے۔ دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کریم کی افضلیت اس پر ظاہر نہ کر سکوں۔‘‘(میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوارالعلوم جلد ۱۷ صفحہ ۲۱۷)
اسلام کے اس فتح نصیب جرنیل اور حضرت مسیح موعودؑ کے فرزند ارجمند نے کیا معاندین اسلام اور کیا مستشرقین سب کے قرآن کریم پر کیے گئے اعتراضات کے ایسے جامد و ساکت جواب دیے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی اگر دیانت داری کے ساتھ آپ کے جوابات کو پڑھے تو ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ ہی نہیں کہ قرآن ہی ایک کامل و مکمل کتاب ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں۔ اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے، اگر کوئی توریت کا پیرو ہے وہ میرے سامنے آئے، اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں بھی استعارہ سمجھوں۔ پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی پیش نہ کر دوں تو وہ بیشک مجھے اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے۔ لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں۔‘‘(فضائل القرآن بحواله الفضل ۲۹؍مئی ۱۹۹۰ء۔ الفضل انٹرنیشنل۲۲؍فروری۲۰۲۱ء)
علمی و ادبی مشاہیر کے تاثرات
برصغیر پاک وہند کے مشہور محقق اور ادیب،جناب نیاز محمد خان نیاز فتحپوری مرحوم نے آپ کی تفسیرِکبیر جلد سوم کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کی خدمت میں لکھا کہ’’ تفسیرِکبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور میں اسے بڑی نگاہِ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہےاور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حُسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔آپ کی تبحرعلمی،آپ کی وسعتِ نظر، آپ کی غیرمعمولی فکروفراست، آپ کا حسنِ استدلال،اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بےخبر رہا۔ کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا۔کل سُورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط پر آپ کے خیالات معلوم کرکے جی پھڑک گیا اور بےاختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہوگیا۔ آپ نےہٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیۡ کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسّرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۸صفحہ ۱۵۸۔ شائع کردہ نظارت نشرواشاعت قادیان ۲۰۰۷ء)اسی طرح عبدالماجد صاحب دریا بادی نے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے وصال پر لکھا کہ’’قرآن و علومِ قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی اور اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں ان کا اللہ انہیں صلہ دے۔ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح تبیین و ترجمانی وہ کرگئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے۔‘‘ (اخبار صدق جدید لکھنؤ ۱۸ ؍نومبر ۱۹۶۵ء)
تفسیرِکبیر کے بارے میں جناب اختر اورینوی ایم اے سابق صدر شعبہ اُردو پٹنہ یونیورسٹی تحریر کرتے ہیں:’’میں نے یکے بعد دیگرے حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ کی تفسیرِکبیر کی چند جلدیں پروفیسرعبدالمنان بیدل سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ کالج وحال پرنسپل شبینہ کالج پٹنہ کی خدمت میں پیش کیں۔اور وہ ان تفسیروں کو پڑھ کر اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے مدرسہ عربیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے شیوخ کو بھی تفسیر کی بعض جلدیں پڑھنے کے لئے دیں۔ اور ایک دن کئی شیوخ کو بلا کر انہوں نے ان کے خیالات دریافت کئے۔ ایک شیخ نے کہا فارسی تفسیروں میں ایسی تفسیر نہیں ملتی۔ پروفیسرعبدالمنان نے پوچھا کہ عربی تفسیروں کے متعلق کیا خیال ہے؟ شیوخ خاموش رہے۔ کچھ دیر بعد اُن میں سے ایک نے کہا۔ پٹنہ میں ساری عربی تفسیریں ملتی نہیں ہیں۔ مصر و شام کی ساری تفاسیر کے مطالعہ کے بعد ہی صحیح رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ پروفیسر صاحب نے قدیم عربی تفسیروں کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا: مرزا محمود کی تفسیر کے پایہ کی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی۔ آپ جدید تفسیریں بھی مصر و شام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھ سے باتیں کیجئے۔ عربی وفارسی کے علماء مبہوت رہ گئے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۸صفحہ ۱۵۸-۱۵۹۔ناشر نظارت نشرواشاعت قادیان ۲۰۰۷ء)تفسیرِکبیر کے محاسن و کمالات کا ذکر کرتے ہوئے جناب پروفیسراختر اورینوی صاحب مزید رقمطراز ہیں:’’حضرت مرزا محمود احمدؓ کے تصنیفی کارناموں میں گلِ سرسَبدتفسیرِصغیر اور تفسیرِکبیر کی تابناک جلدیں ہیں۔ یہ تفسیریں سراجِ منیر ہیں۔ان سے قرآن حکیم کی حیات بخش شعاعوں کا انعکاس ہوتا ہے۔تفسیرقرآنی کی یہ دولت سرمدی دنیا اور عقبیٰ کے لئے لاکھوں سلطنتوں اور ہزاروں ہزار جنتوں سے افضل ہے۔ علومِ قرآنی کے گہرہائے آبدار کانِ معانی و معدنِ عرفان سے نکالے گئے ہیں۔ غوّاصِ معارف پر فدا ہونے کوجی چاہتا ہے۔ان تفسیروں کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے ایک دفتر چاہیے۔(تاریخِ احمدیت جلد۸ صفحہ ۱۵۵۔ ناشر نظارت نشرواشاعت قادیان ۲۰۰۷ء)
دَور خلافت میں اشاعت قرآن کی مساعی
آپؓ کے ۵۲ سالہ دَور خلافت میں برصغیر پاک و ہند کے دوسرے ممالک میں بھی قرآن کریم کے ترجمے کر کے مبلّغین کے ذریعے پہنچائے گئے۔اردو اور انگریزی کے علاوہ ۱۵ زبانوں میں تراجم قرآن پر کام شروع ہوا۔اپنے شعور سے لے کر زندگی کےآخری سانس تک خدمت قرآن کرنے والے اس پسر موعودرضی اللہ عنہ کی خدمت قرآن سے، کیا محقق کیا ادیب، تاریخ دان و سائنس دان سے لےکر ریاضی دان و سیاستدان کے ساتھ ساتھ ہر باشعور شخص نےبھی خوب استفادہ کیا۔اسی طرح ہر مشورہ کرنے والے کو قرآن کریم کی روشنی میں مفید مشوروں سے نوازا۔ اللہ کرے کہ ہم سب افراد جماعت خاص طور پر لجنہ اماءللہ آپ کی خدمت قرآن کے کام کو آگے بڑھانے والی بنیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شان قرآن کے متعلق تقاریر اور تصانیف سے فیض یاب ہوکر،معلمات بن کر قرآن کریم کی زندہ و جاوید تعلیم سے احمدی عورتوں، بچوں اور بچیوں کو آراستہ کرنے والی بنیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے پُردرد قلب صافی سے نکلی ہوئی دعاؤں کی وارث بنائے۔آمین
قرآن پاک ہاتھ میں ہو دل میں نُور ہو
مل جائے مومنوں کی فراست خدا کرے
قائم ہو پھر سے حکمِ محمدؐ جہان میں
ضائِع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے
(کلام محمود مع فرہنگ صفحہ ۳۳۳-۳۳۴)
’’خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے۔…خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل اَدیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔ دنیا زور لگا لے، وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے۔ عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے، دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقتور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں ناکام کرنے کے لئے متحد ہو جا ئیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے اُن کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا۔ ‘‘ (الموعود، انوارالعلوم جلد ۱۷صفحہ ۶۱۴)
حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۴۰۹۔ ناشر نظارت نشرواشاعت قادیان ۲۰۰۳ء)
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح پر ابدالآباد تک رحمتیں اور برکتیں نازل فرما تا چلا جائے۔آمین
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے