خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو روح کے لفظ سے یاد کیا
[یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَالۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّاؕ٭ۙ لَّایَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّامَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا (النبأ:۳۹)] کے متعلق فرمایا: میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس آیت میں لفظ روح سے مراد رسولوں اور نبیوں اور محدّثوں کی جماعت مراد ہے جن پر روح القدس ڈالا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہم کلام ہوتے ہیں …اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو روح کے لفظ سے یاد کیا یعنی ایسے لفظ سے جو انقطاع من الجسم پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اس لیے کیا کہ تا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ مطہر لوگ اپنی دنیوی زندگی میں اپنی تمام قوتوں کی رُو سے مرضاتِ الٰہی میں فنا ہو گئے تھے اور اپنے نفسوں سے ایسے باہر آ گئے تھے جیسے کہ روح بدن سے باہر آتی ہے۔ اور نہ ان کا نفس اور نہ اس نفس کی خواہشیں باقی رہی تھیں۔ اور وہ روح القدس کے بلائے بولتے تھے نہ اپنی خواہش سے۔ اور گویا وہ روح القدس ہی ہو گئے تھے جس کے ساتھ نفس کی آمیزش نہیں۔ پھر جان کہ انبیاء ایک ہی جان کی طرح ہیں …وہ اپنے نفس اور اپنی جنبش اور اپنے سکون اور اپنی خواہشوں اور اپنے جذبات سے بکلّی فنا ہو گئے اور ان میں بجز روح القدس کے کچھ باقی نہ رہا اور سب چیزوں سے توڑ کے اور قطع تعلق کر کے خدا کو جا ملے۔ پس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس آیت میں ان کے تجرّد اور تقدّس کے مقام کو ظاہر کرے اور بیان کرے کہ وہ جسم اور نفس کے میلوں سے کیسے دور ہیں۔ پس ان کا نام اس نے روح یعنی روح القدس رکھا تا کہ اس لفظ سے ان کی شان کی بزرگی اور ان کے دل کی پاکیزگی کھل جائے اور وہ عنقریب قیامت کو اس لقب سے پکارے جائیں گے تا کہ خدا تعالیٰ لوگوں پر ان کا مقام انقطاع ظاہر کرے اور تاکہ خبیثوں اور طیبوں میں فرق کر کے دکھلا وے اور بخدا یہی بات حق ہے۔
(نور الحق حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد ۸صفحہ۹۸-۹۹)