اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
اگست، ستمبر۲۰۲۳ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
ملائوں نے لاہور میں احمدیہ مسجد کونشانہ بنایا
اسلامیہ روڈ۔اگست ۲۰۲۳ء: یہاں پر مقامی احمدیوں نے مسجد کے کچھ خستہ حال حصوں کی مرمت کا آغاز کیا ۔ ایک دوپہر کو CCTVکیمرے کی فوٹیج کی جانچ کرتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ کوئی مسجدکی خفیہ نگرانی کر رہا ہے اور تصاویر بنا رہا ہے۔ تحقیق پر پتا چلا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے ایک مقامی احمدی عہدیدار سے گذشتہ برس جھگڑا کیا تھا اور اسے قتل کی دھمکی دی تھی۔احمدیوں نے پولیس کو اطلاع دے دی۔ جب پولیس نے اس شخص کو بلایا تو وہ اپنے ساتھ بیس مفسد مولویوںکو لے آیا اور انہوں نے پولیس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ احمدیوں پر مقدمہ درج کیا جائے کیونکہ انہوں نے مسجد میں مینارے بنا رکھے ہیں۔پولیس نے مسجد کا دورہ کیا اور ان کو بتایا کہ یہاں کوئی بھی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔ ان مذہبی انتہا پسندوں نے جمعہ کے دن احمدیہ مسجد کے سامنے مظاہرہ کر کے امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان میں سے اکثریت قریبی علاقے شام نگر سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔شام نگر میں یہ پہلے ہی جماعتی سنٹر کو بند کروا چکے ہیں۔
قربانی سے متعلق ایک مقدمہ کی پیش رفت
لاہور۔جولائی،اگست ۲۰۲۳ء:اس بات کا پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے کہ کس طرح مذہبی انتہا پسندوںنے جماعت احمدیہ کو قربانی سے روکا اور مقدمات بنائے۔ ایسا ہی ایک مقدمہ گوجرہ میں ایک احمدی اور ان کے بیٹے کے خلاف درج کیا گیا تھا جس میں توہین رسالت کی دفعات شامل کر دی گئی تھیں۔ سول جج گوجرہ اور ایڈیشنل سیشن جج نے ان کی ضمانت خارج کر دی تھی۔اس پر انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تو جسٹس امجد رفیق کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔لیکن امجد رفیق نے مقدمہ سننے سے معذرت کر لی۔ اب کوئی اَور جج ا س مقدمہ کی سماعت کرے گا۔
لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے ایک منصفانہ فیصلہ
لاہور۔۳۱؍اگست ۲۰۲۳ء:وزیر آباد میں ۱۹۱۵ء میں بنی ایک مسجد کے میناروں کے معاملے میں پانچ احمدی احباب کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے جسٹس طارق سلیم شیخ صاحب نے جو فیصلہ سنایا اس کے چند نکات پیش خدمت ہیں۔جسٹس طارق نے کہا درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ احمدیوں نے اپنی عبادت گاہ (مسجد) کے مینارے اسلامی طرز پر بنائے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ مینارے اسلامی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔لیکن یہ ایک تعمیراتی فن کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ابتدائی دور کی مساجد میں کوئی مینارے نہیں تھے۔ بلکہ آنحضورﷺ کے دور میں سب سے اونچی عمارت کی چھت پر چڑھ کے اذان دی جاتی تھی۔میناروں کے متعلق مختلف روایات ہیں۔کچھ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے یہ فن یونانیوں سے مستعار لیا جو کہ ان میناروں کو نگرانی کے لیے استعمال کرتے تھے اور مسلمان ان کو اَور مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ مینارے بابل کے زگورٹ ٹاور کی طرز پر بنائے گئے ہیں۔نیز میں اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکا کہ توہین کے مقدمات کس طرح قادیانیوں(احمدیوں) کو مسجد کی طرز پر عمارت کی تعمیر سے روکتے ہیں۔اور میں نہیں سمجھتا کہ اس آرڈیننس سے قبل بنی ہوئی عمارتوں کو مسمار کیا جائے یا کسی بھی طرح سے تبدیل کیا جائے۔ یہ عمارت قادیانیوں(احمدیوں) نے ۱۹۲۲ء میں تعمیر کی۔ میں اس بات پر حیران ہوں کہ کیسے ان کو ایک سو سال پہلے کی گئی تعمیر کے باعث سزا دی جاسکتی ہے۔اور اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ وہ پہلے اس عبادتگاہ کو مسجد ہی کہا کرتے تھے۔اور اس سے اگر کسی مسلمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو کس طرح یہ توہین کی دفعات کے زمرے میں آتا ہے۔ درخواست گزار نے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ ۱۹۸۳ء میں اس قانون کے بننے کے بعد ۳۸ سال تک کیوں خاموش رہا۔ اور اب کس چیز نے اس کو اس پر انگیخت کیا ہے۔درخواست گزار شاید ا س سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اگر قانون بننے سے پہلے کوئی کام ہوا ہے تو قانون اس پر لاگو نہیں ہوتا۔ نیز پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔ اسی طرح اقلیتوں کو بھی برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ان افراد کی ضمانت منظور کی گئی ہے۔
پنجاب پولیس کی جانب سے ۷۴؍ احمدیوں کی قبروں کو مسمار کر دیا گیا
بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن۔۲۳؍ستمبر ۲۰۲۳ء: انسانی حقوق کمیشن نے اعلامیہ جاری کیا۔جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پنجاب پولیس کی جانب سےڈسکہ کلاں سیالکوٹ میں سر ظفراللہ خانؓ کے خاندان کے افرادکی قبروں کے کتبے مسمار کر دیے گئے۔ اس سے قبل ہم اس بات کا بارہا ذکر کرچکے ہیں کہ آغاز ۲۰۲۳ء سے ہی احمدیوں کے خلاف پُر تشدد واقعات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
یہ اندوہناک واقعہ ۲۲؍ستمبر کی رات کو پیش آیا اور اس میں پنجاب پولیس نے شدت پسند ملائوں کے ساتھ مل کر یہ کام سر انجام دیا۔قبروں کے ۷۴ کتبے مسمار کیے گئے۔ سر ظفراللہ خانؓ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ،یونائیٹڈ نیشنز کے صدر اور انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عالمی عدالت انصاف کے سربراہ رہ چکے ہیں۔چنانچہ پاکستانی انتظامیہ نے نہ صرف اپنی تاریخ کو مسخ کیا بلکہ زندہ اور وفات شدگان کی بے حرمتی بھی کی۔لہٰذا اب احمدی مرنےکے بعد بھی محفوظ نہیں رہے۔ اس علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر نے پولیس اور مذہبی غنڈوں کے ساتھ مل کر رات کی تاریکی میں یہ قبیح فعل سر انجام دیا۔ انہوں نے گلیوں کو بند کر دیا اور کسی احمدی کو نزدیک نہ آنے دیا اور کتبوں کو مسمار کرنے کا نفرت انگیز کام کرنے کےبعد ملبہ بھی اٹھا کر لے گئے۔او راس کے بعد کے واقعات کو ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔
بدقسمتی سے بارہا ہم ان واقعات کی نشاندہی کر چکے ہیں اور آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ سننے میں آرہا ہے۔قبروں کی بے حرمتی جیسے مخالفین احمدیت کا محبوب مشغلہ بنتا جا رہا ہے۔اس قابل نفرین عمل سے اس بات کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے کہ احمدی اب مرنےکے بعد بھی محفوظ نہیں رہے۔
احمدیوں کے ساتھ اس ظلم و استبداد کا سلسلہ تو دہائیوں پر محیط ہے۔لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے تو ریاستی سرپرستی میں اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ایک منظم طریق پر احمدیوں کا زندگی کے ہر شعبے میں مقاطعہ کیا جارہا ہے اور اس کو برا نہیں سمجھا جاتا۔احمدیوں کے ساتھ ایک ایسے گروہ کی طرح کا سلوک کیا جارہا ہے جس کے کوئی بنیادی حقوق نہیں ہیں۔
ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے اورقرار واقعی سزا دینی چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے ریاست خود ان گھناؤنے کاموں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ریاست کو ارزاں سیاسی فوائد کے حصول کے لیے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز رہنا چاہیے۔
انسانی حقوق کمیشن کئی ماہ سے احمدیوں کی مساجد اور قبروں پر حملوں کے واقعات کی طرف ریاست کی توجہ مبذول کروا رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں احمدی احباب پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ زیادہ تر واقعات این جی اوز یا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئے ہیں۔
ہم ایک بار پھر بین الاقوامی قوتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ریاست پاکستان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ جھوٹے مقدموں میں گرفتار احمدیوں کو رہا کریں اور اپنی ذمہ داری کا پاس کرتے ہوئے احمدیوں کی حفاظت اور ان کی مذہبی آزادی کو یقینی بنائے۔اور آرٹیکل XXاور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی پاسداری کرے۔
فرائیڈے ٹائمز نے یہ خبر شائع کی کہ تحریک لبیک کے کارکن پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کی بنائی ہوئی مسجد کو مسمار کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جمعہ کے روز بیسیوں افراد نے جماعت احمدیہ کے خلاف ڈسکہ میں ایک ریلی نکالی جس کا انعقاد مذہبی سیاسی پارٹی تحریک لبیک نے کیا تھا۔یہ مسجد سر ظفر اللہ خانؓ نے بنائی تھی جو پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ اور تحریک پاکستان کے اہم رکن تھے۔تحریک لبیک کے ارکان نے جمعرات کو شہر بھر میں اشتہار لگا دیے اور سوشل میڈیا پر ویڈیو بھی نشر کی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ لاؤڈسپیکر پر احمدیوں کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اور ساتھ ہی نعتیں بھی پڑھ رہے ہیں۔
اس بات کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا انہوں نے مسجد پر حملہ کیا یا نہیں لیکن انہوں نےاحمدیہ قبرستان پر حملہ ضرور کیا۔جماعت احمدیہ کے ایک ترجمان سلیم الدین نے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ نے ناکا بندی کر کے قبروں کے کتبے مسمار کر دیے۔اس سے قبل تحریک لبیک نے احمدیہ مسجد کی انتظامیہ کے خلاف پولیس کو شکایت درج کروائی تھی لیکن پولیس نے کہا کہ یہ معاملہ اسسٹنٹ کمشنر کی عملداری کے تحت ہے۔ لیکن تحریک لبیک نے اپنے کارکنوں کو کہا کہ وہ خود قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ا س عمارت کے مینارے واضح نظر نہیں آتے اور کسی بھی صورت نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کوئی مسجد ہے۔ اور یہ عمارت سر ظفر اللہ خانؓ کے آبائی گھر سے ملحقہ ہے۔
سیالکوٹ کے ضلعی پولیس افسر نے کہا کہ انہوں نے عمارت کی حفاظت کے لیے پولیس کی نفری بڑھا دی ہے۔اور بات چیت کا سلسلہ جاری ہے تا کہ تمام معاملات امن و امان کے ساتھ حل ہو جائیں۔
اس کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ نے اسی ماہ کے آغاز میں ایک فیصلہ دیا ہے جس کے مطابق ۱۹۸۴ءسے قبل بنی عمارتوں کے مینار نہیں توڑے جا سکتے اور نہ میناروں اور اسلام کا آپس میں کوئی واضح تعلق ہے۔ اور ۱۹۸۴ء سے قبل بنی عمارتوں پر اس قانون کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔
جماعت احمدیہ نے بارہا ان فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس کی توجہ ان پر عمل درآمد کی طرف دلائی ہے۔ لیکن بے سود! اور ساتھ ہی جماعت احمدیہ کی مساجد پر حملوں میں دہشتگرد تحریک لبیک کی جانب سے پریشان کن حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )