آنحضورﷺ اور مقام محمود
وَمِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا۔ وَقُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّاَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّاجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا۔ وَقُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَزَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ۔ (بنی اسرائیل ۸۰-۸۲) اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس (قرآن)کے ساتھ تہجّد پڑھا کر۔ یہ تیرے لئے نفل کے طور پر ہوگا۔ قریب ہے کہ تیرا ربّ تجھے مقامِ محمود پر فائز کردے۔اور تُو کہہ اے میرے ربّ! مجھے اس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ میرا نکلنا سچائی کے ساتھ ہو اور اپنی جناب سے میرے لئے طاقتور مددگار عطا کر۔ اور کہہ دے حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔ یقیناً باطل بھاگ جانے والا ہی ہے۔
مرتبہ ہر دو جہاں
ان تین مختصر سی آیات میں اللہ تعالیٰ کا اس عظیم الشان ہستی کو دیا گیاحکم بھی موجود ہے،دعا بھی سکھائی گئی ہے،عظیم الشان پیشگوئی بھی کی گئی ہے اور آپﷺ کا مرتبہ بھی بیان کیا گیاہے یعنی مقام محمود،تعریف و ستائش کا ایساعالی شان مرتبہ جو ہر دو جہاں میں اپنے جلوے دکھائے گا۔
حضرت مسیح موعودؑمندرجہ بالا اس آیت کی تشریح میں بیان فرماتےہیں : ’’عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی یعنی گو اول میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بد ظنی کی راہ سے بد گوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں لیکن آخر خدا تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سےتعریف ہو گی۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۸۷)
آنحضرتﷺ کی ساری زندگی عبادت سے بھری ہوئی ہے لیکن تہجد کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ رات کی عبادت اور تہجد کی ادائیگی میں اللہ کے حضور کھڑے کھڑے آپﷺ کے پاؤں متورم ہو جایا کرتے،ام المومنین رات کے پہر بسترپرنہ پا کے متجسس ہوتیں تو آپﷺ کو اندھیرے میں اپنے رب کے حضور جھکا ہوا پاتیں۔ یہ اس مقام کےلیے تھا جس کا آپ کو وعدہ دیا گیا تھا اور جس مقام پر آپ کی رحمت کا عروج ہونا تھا اور سب مومنین اور انسانوں نے اس سے فیض پانا تھا۔ اس مقام کی اہمیت بتانے کے لیے اور مومنین کو بھی اس دعا میں شامل کرنے کے لیے جو آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے سکھائی تھی،بخاری میں ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر کہے: اے اللہ! جو اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کا رب ہے۔محمدﷺ کو ہر وسیلہ اور ہر قسم کی برتری عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر کھڑا کر دے جس کا تُو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔ تو قیامت کے روز میری سفارش اس کے لیے لازم ہو جائے گی۔ (صحیح البخاری جلد ۱۰۔ باب التفسیر بنی اسرائیل، صفحہ ۵۳۳) اس کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ’’ آخرت میں بھی آنحضرتﷺ کو یہ مقام محمود حاصل ہو گا اور دنیا میں بھی جب نمونہ قیامت گھڑی برپا ہو گی اور تمام قومیں بالآخر مجبور ہو کر آپﷺ کے سایہ رحمت میں جگہ ڈھونڈیں گی اور گواہی دیں گی کہ ان کے لیے سوائے دین اسلام کے کوئی راہ نجات نہیں۔‘‘(صحیح البخاری جلد ۱۰۔ باب التفسیر بنی اسرائیل، صفحہ ۵۳۳) تقریباًپندرہ سو سالوں سے مسلمان روز پانچ بار اللہ سے یہ دعا مانگتے ہیں۔ مگر یہ مقام ہے کیا؟
اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی
اگرہم اس مرتبہ کو آخرت کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے پیارے نبیﷺ کی رحمت اسی دنیا تک محدود نہیں ہےبلکہ آخرت میں بھی ہماری دلداری کے لیے موجود ہو گی اور یہ مقام اپنی بلند ترین کیفیت میں یوم حشر میں اپنی تجلی دکھائے گا۔ اگر ہم اس دنیا میں اس مقام کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ ﷺ کا ایک صفاتی نام ’’حاشر‘‘ بھی بیان ہوا ہے یعنی جمع کرنے والا صرف آپﷺ کی ذات ہی ہے جس نے بکھرے ہوئے قبائل، بکھرے ہوئے مذاہب اور انسانوں کو ایک پر امن جھنڈے تلے جمع کیااور تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ صرف آپﷺ کی ذات ہی نے رحمت و مغفرت کے نمونے اس دنیا میں دکھائے ہیں مثال کے طورپر فتح مکہ کے دشمن بھی آپﷺ کی حمد کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ اس لیے ضرور ہے کہ آپ ﷺ کی اس صفت اور مقام محمود کا بلند تر جلوہ اس دنیا میں بھی اپنا رنگ دکھائے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ چشمۂ معرفت میں فرماتے ہیں کہ کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے
محمدؐ عربی بادشاہ ہر دو سرا
کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی
اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۳۰۲)
بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کو ایک دعا دی گئی جس چیز کی اس نے دعا مانگی پھر اسے قبول کیا گیا لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہوئی ہے۔(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب نمبر ۱ باب وَلِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ)حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت سے ستّر ہزار افراد کو بغیر حساب و عذاب کے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار کو داخل کرے گا نیز اللہ تعالیٰ (اپنے حسب حال) اپنے چلووں میں سے تین چلو (جہنمیوں سے بھر کر) بھی جنت میں ڈالے گا۔ (جامع الترمذی، جلد ۲، صفحہ ۶۶)
اب میں آپ کے سامنے چند احادیث کا خلاصہ پیش کروں گا اوروہ ایسی احادیث ہیں جو آنحضرتﷺ کے مقام محمود کو بھی واضح کر دیں گی اور ہمارے دلوں کی مایوسیوں کو بھی دھو دیں گی۔
مایوس دلوں کی تسکین
رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ مومن قیامت کے دن اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے:اگر ہم اپنے رب کے پاس کسی کی سفارش حاصل کریں۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے: آپ اپنے رب سے ہماری شفاعت کیجیے، وہ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں، تم نوح کے پاس جائو کیونکہ وہ پہلے رسول ہیں جن کو اللہ نے زمین والوں کی طرف بھیجا۔ وہ ان کے پاس آئیں گے۔ حضرت نوحؑ کہیں گے میں اس مقام پر نہیں کہ سفارش کروں اور کہیں گے کہ خلیل الرحمان یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پس لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے: میرا منصب یہ نہیں ہے تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے وہ فرمائیں گے: میرا منصب یہ نہیں ہے تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ بھی فرمائیں گے: میرا یہ مقام نہیں ہے تم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔
پس لوگ میرے پاس آئیں گے میں چلا جائوں گا۔ جاکر اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا میں سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔جب تک اللہ چاہے گا مجھے سجدہ ریز رہنے دے گا۔ سو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو! تمہیں سنا جائے گا، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ تب میں اپنا سر اٹھائوں گا اور میں اس کی وہ حمد بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا۔ اور اس کے بعد میں سفارش کروں گا اور وہ میرے لیے حد مقرر کرے گا۔ اور میں اس حد کے اندر اندر لوگوں کو جنت میں داخل کروں گا۔ پھر میں اس کی طرف دوبارہ جائوں گا اور جب اپنے رب کو دیکھوں گا تو اسی طرح سجدہ میں گر پڑوں گا۔ اس کے بعد میں سفارش کروں گا تو وہ میرے لیے حد مقرر کردے گا اور میں اس حد کے اندر اندر لوگوں کو جنت میں داخل کروں گا۔ پھر تیسری دفعہ اور چوتھی دفعہ اس کے پاس واپس جائوں گا اور میں کہوں گا: اب آگ میں وہی باقی ہیں جن کے رہنے کی بابت قرآن نے کہا ہے اور جن کا دیر تک رہنا ضروری ہے۔ (صحیح البخاری جلد ۱۰۔ باب التفسیر البقرہ، صفحہ ۱۰،حدیث نمبر ۴۴۷۶)
ایک اور روایت ہے کہ میں عرض کروں گا: یا رب! مجھے ان کی (شفاعت کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے صرف لَااِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہا ہے، پس وہ فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلال اور اپنی کبریائی وعظمت کی قسم! میں انہیں ضرور دوزخ سے نکال دوں گا جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہا ہے۔ (متفق علیہ) ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: ’’میں مسلسل شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ میں (اپنی امت کے) ان افراد (کی رہائی) کا پروانہ بھی حاصل کر لوںگا جنہیں دوزخ میں بھیجے جانے کا فیصلہ ہو چکا ہو گا۔ جہنم کا داروغہ عرض کرے گا: یا محمد!ﷺ آپ نے اپنی تمام امت کو جہنم کی آگ اور عذاب الٰہی سے بچا لیاہے۔‘‘ (مستدرک للحاکم، ۱ / ۲۴۲)
آنحضرتﷺ کے ایک صحابی نے ایک روز کہا کہ یارسول اللہ! میری ایک حاجت ہے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا تمہاری حاجت کیا ہے؟ خادم نے عرض کی۔ میری حاجت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز میری شفاعت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اس بات کی طرف کس نے توجہ دلائی؟ خادم نے عرض کیا میرے ربّ نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیوں نہیں، پس تم سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد۵صفحہ۵۱۷ حدیث خادم النبیؐ حدیث نمبر۱۶۱۷۳عالم الکتب بیروت ۱۹۹۸ء)
پھر ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ آپؐ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہؐ! قیامت کے روز لوگوں میں سے وہ کون خوش قسمت ہے جس کی آپ سفارش فرمائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،قیامت کے روز میری شفاعت کے ذریعے لوگوں میں سے خوش قسمت وہ شخص ہو گا جس نے اپنے دل یا فرمایا اپنے نفس کے اخلاص سے یہ کہا۔ اللہ کے سوا اور کوئی معبودنہیں۔ (صحیح البخاری کتاب العلم باب الحرص علی الحدیث حدیث: ۹۹)
آنحضورﷺ کی شفاعت کا اثر
آنحضرتﷺ کی شفاعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ’’جب ہم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر ڈالتے ہیں تو آپؐ …کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ آپؐ نے غریب صحابہ کو تخت پر بٹھا دیا اور آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ وہ لوگ باوجود اس کے کہ بت پرستی اور شرک میں نشو و نماپائی تھی ایسے موحد ہو گئےجن کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں ملتی اور پھر آپؐ کی شفاعت کا ہی اثر ہے کہ اب تک آپؐ کی پیروی کرنے والے خدا کا سچا الہام پاتےہیں خدا ان سے ہم کلام ہوتا ہے۔‘‘ (عصمت انبیاء علیھم السلام، روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۶۹۹-۷۰۰)
مقام محمود سے مراد خروج مہدی بھی ہے
حضرت مصلح موعودؓ مقام محمود کی تشریح کرتےہوئے تفسیر کبیر میں فرماتےہیں : ’’ کسی شخص کو بھی اتنی گالیاں نہیں دی گئیں۔ جتنی کہ آنحضرتﷺ کو دی گئیں…مقام محمود عطا فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان گالیوں کا آپ کو صلہ دیا ہے۔ فرماتا ہے کہ جس طرح دشمن گالیاں دیتا ہے۔ ہم مومنوں سےتیرے حق میں درود پڑھوائیں گے اسی طرح عرش سے خود بھی تیری تعریف کریں گے۔‘‘آپ مزید فرماتے ہیں : ’’مقام محمود سے مراد میرے نزدیک خروج مہدی بھی ہے۔ کیونکہ اس کے ظہور کا وقت وہی بیان ہوا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۴۰۷ ایڈیشن ۲۰۲۳ء)مزید فرماتے ہیں کہ’’ آپﷺ کے لیے جو مختلف مقامات محمودہ مقرر ہیں۔ ان میں سے سب سے پہلا مقام محمود جو اس آیت کے نزول کے بعد آپﷺ کو ملا۔ مدینہ منورہ تھا۔ وہاں کی زندگی سے آپ کی حمد و ستائش دنیا میں پھیل گئی…دوسرےمعنی اس آیت کے یہ بھی ہو سکتے ہیں۔ کہ دخول سے مراد آپ کا دوبارہ مکہ میں واپس آنا ہے۔ اورخروج سے مراد آپﷺ کی ہجرت ہے…مکہ سے نکلنے کے صدمہ کو اس خبر سے کم کر دیا۔ کہ آپ پھر مکہ میں آنے والے ہیں۔ اور اس کے بعد مکہ سے نکلنےکا ذکرکیا۔ تا تسلی پہلے ہو جائے۔ اور غم کی خبربعد میں بتائی جائے۔اس صورت میں مقام محمود کے معنی یہ ہوں گے کہ فتح مکہ کے بعد دشمنوں کے سب اعتراضات دور ہو جائیں گے۔اور عربوں پر آپ کی سچائی ظاہرہو جائے گی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۴۰۹ تا ۴۱۱ ایڈیشن ۲۰۲۳ء)
حضرت مسیح موعودؑ آئینہ کمالات اسلام میں لکھتے ہیں: اے میرے ربّ! تُو میری قوم کے بارے میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارے میں میری تضرعات کو سُن۔ میں تیرے نبی خاتم النبیین اور گناہگاروں کی مقبول شفاعت کرنے والے کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔
مقام محمود اور سلطان نصیر کا تعلق
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ انہی آیات جو مضمون کے ابتدا میں تحریر ہوئی ہیں کی تفسیر کرتے ہوئےترجمۃالقرآن کلاس میں فرماتے ہیں کہ: یہاں مُقام نہیں ہے بلکہ مَقام لفظ ہےاور مقام سے مراد مرتبہ ہوتا ہے … یہ جو مقام محمود ہے یہ کوئی کھڑا مقام نہیں ہے کیونکہ ایک مکان نہیں ہے جہاں ایک جگہ پہنچ کے آدمی کھڑا رہ جائے۔ مکان اورمقام میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہےکہ مقام ایک متحرک چیز کا نام ہو سکتا ہے جو درجہ بدرجہ بڑھتا ہے اورمکان ایک محدود دائرے میں جگہ کا نام ہے اوروہ اس دائرے کے اندر رہتی ہے۔تو چونکہ مضمون یہ بیان ہونا ہے کہ تیرے مرتبے ہمیشہ بڑھتے رہیں گے اور یہی دعا سکھائی جا رہی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے لفظ مقام استعمال فرمایا ہے یہاں عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا کہ ایسے مقام میں تجھے تیرا رب پہنچا دے جو ہمیشہ قابل تعریف رہے گا۔ وہ مقام تنزل نہیں پکڑے گا کبھی کیونکہ وہ مقام جو حاصل ہونے کے بعد گرے وہ محمود نہیں رہتا۔ پس دائمی ترقی کرنے والا مقام مراد ہے جو ہمیشہ قابل تعریف رہے گا اوریہ دعا کر وَقُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّاَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ کہ اے میرے رب! تُو ہمیشہ مجھے صدق کے ساتھ داخل فرما یعنی ہراعلیٰ مقام کی طرف جس کا تو نے وعدہ کیا ہے مقام محمود اس میں ہمیشہ صدق کے ساتھ داخل فرما اور صدق کے ساتھ نکال۔ کیونکہ جب مقام محمود سے بڑھ کراور مقام کی طرف قدم بڑھے گا تو وہ صدق کے اوپرہی قدم رہے ہمیشہ، سچائی کے ساتھ ہی ہرمقام حاصل کروں اورسچائی کے ساتھ ہی اگلے مقام کی طرف بڑھوں۔ یہ دعا سکھائی گئی ہے وَاجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا اور میرے لیے اپنی جناب سے غالب نصرت والے مددگارعطا فرما۔ سلطان کہتے ہیں وہ شخص جسے غلبہ ہو اسی لیے بادشاہ کے لیے لفظ سلطان استعمال ہوتا ہے۔ وہ دلیل جو غالب ہواوراپنی اندرونی قوت کے ساتھ وہ ہرباطل دلیل کو شکست دے دے وہ بھی سلطان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ کے روحانی مقامات ہیں ان کے لیے سلطان نصیر کی کیا ضرورت ہے۔ اصل میں مقام محمود جو ہے آپ کا اس کا دنیا میں ہمیشہ بڑھتے ہوے غلبے سے بھی تعلق ہے۔ آنحضرتﷺ کا ایک مقام تو وہ ہے جواللہ جانتا ہے اوراللہ سے ہم نے سیکھا اور یہ مقام وہ بھی ہے جو مومن سچے بندے رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے ہیں جانتے ہیں مگر یہ جب دائرہ پھیلتا ہے تو یہ مقام اوربلند ہوتا جاتا ہے۔ایک آدمی کو اگرصرف ایک آدمی مانے تو مانا تو گیا مگراس کی عزت اس کے مقابل پرکچھ بھی نہی جسے کروڑ آدمی مانیں۔ پس لوگوں کے ماننے سے مقام محمود بڑھتا ہے اسی لیے آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ایسی عورتوں سے شادی کرو جو محبت کرنے والی ہوں اورزیادہ بچے پیدا کریں تاکہ میری امت بڑھے اورامت کے بڑھنے سے متعلق رسول کریم ﷺ نے اوربھی اظہارفرمائے ہیں تو جتنے زیادہ متبعین اورصاحب عرفان بڑھیں اتنا مقام محمود بلند ہوتا ہے۔ تو اس موقع پر سلطان نصیر کی ضرورت پڑتی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑبھی ان سلاطین نصیر میں سے ہیں جو آنحضرت ﷺ کو عطا کیے گئے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کو ایک الہام یہ بھی ہوا کہ آپ کے آنے کی غرض گویا یہ تھی تاکہ محمد مصطفیٰ ﷺ کا قدم بلند تر مینار پر مستحکم ہو تو یہ مقام محمود کا بڑھنا ہی ہے۔جتنے زیادہ انسان آنحضور ﷺ کی غلامی میں داخل ہوں گے جتنے زیادہ مذاہب آپؐ کی غلامی میں داخل ہوں گے اتنا ہی آپ کا مقام بلند تر ہو گا اوراس کے لیے سلطان نصیر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہر صدی پر مجدد سلطان نصیر بن کے آتے رہے اوراگرسلطان نصیرکوایک عظیم الشان سلطان نصیر کے طورپر لیا جائے توجیسا کہ عین موقع پر سجتی ہے یہی بات کہ کوئی بہت بڑا مددگاربھی مجھے عطا فرما جو میرے مقاصد کو آگے بڑھانے میں میرا مددگارثابت ہو اورغلبے کی طاقت رکھتا ہو۔ پس یہ پیش گوئی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ظہورکے ساتھ تعلق رکھنے والی پیشگوئی بن جاتی ہے۔ وَقُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَزَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا۔ یہ اعلان کر کیوں کہ تیرے مقام محمود اور سلطان نصیر کے ساتھ یہ بات وابستہ ہے کہ حق پھیلتا چلا جائے گا اورباطل بھاگتا چلاجائے گا۔‘
اللہ کرے کہ ہم حضرت اقدس محمد مصطفیٰ،خاتم الانبیاء رحمۃ للعالمین ﷺ کے مقام محمود کو صحیح طرح پہچان کر اس سے صحیح فیض اٹھانے والے ہوں اور دنیا کو بھی اس مقام کا صحیح ادراک دینے والے اور اس کے جھنڈے تلے لانے والے ہوں اور اُس شفیع دوجہان، محسن انسانیت پر دلی محبت کے ساتھ درود پڑھنے والے ہوں جو ہمیں اس دنیا میں بھی اپنے اسوہ حسنہ سے بچائے ہوئے ہے اور آخرت میں بھی ہمیں انشاء اللہ رسوا ہونے سے بچائے گا۔ اَللّٰھُمَّ فَصَلِّ وَسَلِّمْ عَلَی ذٰلِکَ الشَّفِیْعِ الْمُشَفَّعِ الْمُنَجِّی لِنَوْعِ الْاِنْسَانِ۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵صفحہ۵) یعنی اے اللہ! تُو فضل اور سلامتی نازل فرما اس شفاعت کرنے والے پر، جس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے اور جو نوعِ انسان کا نجات دہندہ ہے۔آمین
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ