یاجوج ماجوج کے بارے میں وضاحت
یہ خیال کہ یاجوج ماجوج بنی آدم نہیں بلکہ اَور قسم کی مخلوق ہے یہ صرف جہالت کا خیال ہے کیونکہ قرآن میں ذوالعقول حیوان جو عقل اور فہم سے کام لیتے ہیں اور مورد ثواب یا عذاب ہو سکتے ہیں وہ دو ہی قسم کے بیان فرمائے ہیں (۱)ایک نوع انسان جو حضرت آدم کی اولاد ہیں (۲)دوسرے وہ جو جنات ہیں۔ انسانوں کے گروہ کا نام معشر الانس رکھا ہے اور جنات کے گروہ کا نام معشر الجن رکھا ہے۔ پس اگر یاجوج ماجوج جن کے لئے مسیح موعود کے زمانہ میں عذاب کا وعدہ ہے معشر الانس میں داخل ہیں یعنی انسان ہیں تو خواہ نخواہ ایک عجیب پیدائش ان کی طرف منسوب کرنا کہ ان کے کان اس قدر لمبے ہوں گے اور ہاتھ اس قدر لمبے ہوں گے اور اس کثرت سے وہ بچے دیں گے ان لوگوں کا کام ہے جن کی عقل محض سطحی اور بچوں کی مانند ہے۔ اگر اس بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت ہو تو وہ محض استعارہ کے رنگ میں ہوگی جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کی قومیں ان معنوں میں ضرور لمبے کان رکھتی ہیں کہ بذریعہ تار کے دُور دُور کی خبریں ان کے کانوں تک پہنچ جاتی ہیں اور خدا نے برّی اور بحری لڑائیوں میں ان کے ہاتھ بھی نبرد آزمائی کی وجہ سے اس قدر لمبے بنائے ہیں کہ کسی کو ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں… پس جبکہ موجودہ واقعات نے دکھلا دیا ہے کہ ان احادیث کے یہ معنے ہیں اور عقل ان معنوں کو نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ ان سے لذت اٹھاتی ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ خواہ نخواہ انسانی خلقت سے بڑھ کر ان میں وہ عجیب خلقت فرض کی جائے جو سراسر غیر معقول اور اس قانون قدرت کے برخلاف ہے جو قدیم سے انسانوں کے لئے چلا آتا ہے۔ اور اگر کہو کہ یاجوج ماجوج جنات میں سے ہیں انسان نہیں ہیں تو یہ اَور حماقت ہے کیونکہ اگر وہ جنات میں سے ہیں تو سَدِّ سکندری ان کو کیونکر روک سکتی تھی۔ جس حالت میں جنات آسمان تک پہنچ جاتے ہیں جیسا کہ آیت فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ ثَاقِبٌ(الصّٰفّٰت:۱۱) سے ظاہر ہوتا ہے تو کیا وہ سَدِّ سکندری کے اوپر چڑھ نہیں سکتے تھے جو آسمان کے قریب چلے جاتے ہیں۔ اور اگر کہو کہ وہ درندوں کی قسم ہیں جو عقل اور فہم نہیں رکھتے تو پھر قرآن شریف اور حدیثوں میں ان پر عذاب نازل کرنے کا کیوں وعدہ ہے کیونکہ عذاب گنہ کی پاداش میں ہوتا ہے اور نیز ان کا لڑائیاں کرنا اور سب پر غالب ہوجانا اور آخر کار آسمان کی طرف تیر چلانا صاف دلالت کرتا ہے کہ وہ ذوالعقول ہیں بلکہ دنیا کی عقل میں سب سے بڑھ کر۔
(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد۲۳صفحہ۸۴-۸۵،حاشیہ)