جماعت احمدیہ کے منفرد لہجے کے صاحب طرز اور نامور شاعر مکرم و محترم عبدالسلام اسلام صاحب وفات پاگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون
محترمہ رفعت اسلام صاحبہ پٹنی لندن سے تحریر کرتی ہیں کہ احباب جماعت کو بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ خبر دی جاتی ہے کہ جماعت احمدیہ کے منفرد لہجے کے صاحب طرز، پُرجوش اور نامور شاعر خاکسار کے والدمکرم و محترم عبدالسلام اسلام صاحب مورخہ ۷؍فروری ۲۰۲۴ء بروز بدھ بعمر ۸۶سال لندن میں انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
مرحوم مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۳۷ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے نانا حضرت منشی احمد بخش صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے جنہوں نے قادیان جاکر جلسہ سالانہ ۱۹۰۳ء کے موقع پر بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ مرحوم کے بڑے تایا جی نے ۱۹۱۶ء میں، والد صاحب نے ۱۹۲۱ء میں اور چھوٹے تایا جی نے ۱۹۳۳ء میں بیعت کرنے کی توفیق پائی۔
مکرم عبدالسلام اسلام صاحب بچپن سے ہی ذہین اور قابل شخصیت کے مالک تھے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ جو کام بھی کیا اس میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ آپ نے بی اے تک تعلیم حاصل کی تاہم اپنی عملی زندگی میں اور ملازمت کے دوران انتھک محنت کے نتیجہ میں بہت کامیابی سمیٹی۔ آپ لاہورکے دوبزنس اداروں میں مینیجر رہے، نیشنل سِلک ملز فیصل آباد میں امپورٹ آفیسراور آفس سپرنٹنڈنٹ کے طور پر متعیّن رہے، اس کے علاوہ آپ ملز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری بھی رہے۔ نیز آپ نے کئی اور جگہوں پر بھی کام کیا۔ جہاں بھی ملازمت کی اپنی نیک نامی اور احمدی ہونے کی وجہ سے اچھے کردار سے دوسروں پر اثر انداز رہے۔
اللہ تعالیٰ نے آ پ کو شاعری کا ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ نے طالبعلمی کے دور سےہی شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ آپ نے شروع سے ہی شاعری کو احمدیت کی صداقت کے اظہار کا ذریعہ بنایا تھا۔ آپ کوربوہ اور پاکستان بھر میں مختلف جماعتی مشاعروں میں اپنا منظوم کلام پڑھنے کا موقع ملا جہاں سے آپ نے ڈھیروں داد اور پسندیدگی کے جذبات وصول کیے۔ علاوہ ازیں آپ کا کلا م جماعتی اور غیر جماعتی ملکی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتا رہا، ان میں روزنامہ الفضل ربوہ، ماہنامہ انصاراللہ، ماہنامہ خالد، ماہنامہ مصباح، ہفت روزہ لاہور، ہفت روزہ تقاضےاور الفضل انٹرنیشنل شامل ہیں۔ آپ کی شاعری جماعت احمدیہ کی صداقت کے دلائل اور خلافت سلسلہ کی محبت میں گُندھی ہوتی تھی۔ کلام میں عزم وہمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھراہوتا تھااور پھر آ پ کا پُرجوش انداز محفل پر ایک عجیب کیف و سرور اور خاموشی کی چادر تان دیتا تھا، سامعین یکسوئی اور توجہ سے سنتے اور ہر شعر پر دل کھول کر داد دینے پر مجبور ہوجاتے۔آپ کو اپنے درج ذیل دو اشعار پسند تھے۔ ؎
سُہانا ہے سماں تازہ جہان معلوم ہوتے ہیں
بشکلِ نَو زمین و آسماں معلوم ہوتے ہیں
نہ جانے کیوں ٹپک جاتے ہیں جا کر اُن کی آنکھوں سے
مری آنکھوں سے جو آنسو رَواں معلوم ہوتے ہیں
آپ کو جماعتی خدمات کی بھی توفیق حاصل ہوئی۔ آپ نائب زعیم مجلس انصاراللہ ناصر آباد کے علاوہ اپنے محلہ دارالفتوح شرقی ربوہ میں سیکرٹری وصایا اور منتظم اشاعت مجلس انصاراللہ دارالفتوح شرقی کے طور پر خدمات کی توفیق ملی۔ آپ ۲۰۱۶ء سے لند ن میں مقیم تھے۔ مرحوم صوم و صلوٰۃ کے پابند اور خلافت سے عشق کا تعلق رکھتے تھے، انفاق فی سبیل اللہ آپ کا خاص وصف تھا۔
مرحوم نے اپنے پسماندگان میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین