وقف زندگی کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓکی تحریکات
جماعت احمدیہ کی ایک امتیازی خصوصیت جو اس کو ہر دوسری جماعت سے جدا کرتی ہے وہ وقف زندگی کا نظام ہے۔ دنیا میں بے شمار ادارے اور تنظیمیں موجود ہیں اور اپنے اپنے مقاصد کے لیے بہت قربانیاں کرنے والے بھی ہیں مگر جس عظمت اور فدائیت کے ساتھ جماعت احمدیہ میں وقف زندگی کا نظام جاری ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں … اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلبگار ہے تو وہ اللہ کے لیے اپنی زندگی وقف کرے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ۳۷۰)
اس ارشاد کے تابع جماعت میں وقف زندگی کا بے مثال نظام جاری ہوا۔ جو اپنے اندر کئی سطحیں اور جہات رکھتا ہے۔ وقف کی سب سے اعلیٰ قسم وہ ہے جس میں ایک احمدی اپنی ساری زندگی کلیةً امام وقت کے حضور پیش کرتا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ کا مشن عالمگیر غلبہ اسلام تھا جس کے لیے قلمی اور لسانی جہاد ایک لمبی مدت اور مناسب وجود چاہتاہے اس لیے حضرت مسیح موعودؑ کی قریباً ۱۹۰۱ء سے خواہش تھی کہ جماعت کے واعظین مقرر کرکے پیغام احمدیت ہر جگہ پہنچایا جائے اور آپ متفرق مجالس میں اس کا ذکر فرماتے رہے۔ ستمبر ۱۹۰۷ء میں آپ کی توجہ خاص طور پر اس طرف مبذول ہوئی۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ ایڈیٹر بدر لکھتے ہیں:چند روز سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے دل میں یہ خاص جوش ڈالا ہے کہ واعظین سلسلہ حقہ کے جلد تقرر کے واسطے جماعت کے خواندہ اور لائق آدمیوں سے جو اس کام کے واسطے اپنے آپ کو وقف کرسکیں انتخاب کیا جائے اور ایسے آدمیوں کو خدمت اسلام سپرد کرکے مختلف مقامات پر بھیجا جائے۔ دسمبر ۱۹۰۵ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے بھی اس قسم کی تجویز پیش کی تھی کہ مدرسہ میں باقاعدہ طورپر واعظین تیار کرنے سے پہلے سردست جماعت کے خواندہ اور لائق آدمیوں کو کچھ عرصہ قادیان میں رکھ کر اور دینی تعلیم دے کر یہ خدمت ان کے سپرد کی جائے۔ ہر ایک امر کے واسطے ایک وقت ہوتا ہے اور اب جبکہ خداتعالیٰ نے اپنے مامور کو اس کام کے جلد پورا کرنے کے واسطے جوش عطا فرمایا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا وقت آگیا ہے۔
اس کے بعد آپؓ نے واعظین کی صفات کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد درج کیا ہے اور لکھا ہے کہ حضورؑ کے اس فرمان کو سن کر ۱۳؍احباب نے وقف کیا ہے۔ حضورؑ نے سب پر خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے مگر سردست کسی کو مقرر نہیں فرمایا۔(ماخوذ از بدر ۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء)
واعظین کا باقاعدہ تقرر خلافت اولیٰ میں شروع ہوا۔ مگر اس مضمون کو عروج تک حضرت مصلح موعودؓ نے پہنچایا۔
۱۹۱۴ء میں جب اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو منصب خلافت پر فائز کیا تو آپ نے جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ وہ قوم ہیں جس کو خدا نے چن لیا اور یہ میری دعاؤں کا ایک ثمرہ ہے…اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہو گی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ گزرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے۔‘‘ آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ میں ہر قوم اور ہر زبان میں تبلیغ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ (منصب خلافت صفحہ ۱۶تا ۱۷)یہ کیسا حیرت انگیز اعلان ہے جو ایک بظاہر امی،کمزور،بےبس،مال و دولت اور جتھے سے عاری شخص کر رہا ہے مگر خدا اس کی خواہش اور پیشگوئی کو تمام نامساعد حالات میں پورا کرنا شروع کر دیتا ہے آپ کی خلافت میں ۴۶؍ ملکوں میں احمدیہ مشن قائم ہوئے اوراب یہ سلسلہ ۲۱۳؍ ممالک میں پھیل گیا ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا تھا: ’’وہ دن دور نہیں جبکہ افواج در افواج لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے۔ مختلف ملکوں سے جماعتوں کی جماعتیں داخل ہوں گی اور وہ زمانہ آتا ہے کہ گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر احمدی ہوں گے۔‘‘ (انوار خلافت۔انوارالعلوم جلد۳ صفحہ۱۶۵)
اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ واعظین،مبلغین اور واقفین کی ایک فوج تیار ہوتی جو حضورؓ کے حکم پر زمین کے کناروں تک احمدیت کے پیغام کو پہنچانے میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتی چنانچہ جماعت کے بڑھتے اور پھیلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے وقف زندگی کی متعدد تحریکات فرمائیں اور جماعت میں وقف کے نظام کو نہایت مضبوط بنیادوں پر قائم کردیا۔ان میں سے چند ایک کا ذکر درج ذیل ہے۔
پیشے سیکھ کر خدمت دین کریں
حضرت مصلح موعودؓ نے وقف زندگی کی پہلی باقاعدہ تحریک خطبہ جمعہ ۷؍دسمبر ۱۹۱۷ءمیں فرمائی۔حضور نےتبلیغ اسلام کے لیے صحابہ رسولﷺ اور بزرگان دین کی طرف سے زندگیاں وقف کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:یہ وہ طریق ہے جس کے ذریعہ اسلام نے دنیا میں ترقی کی تھی اور جسے حضرت مسیح موعودؑ نے بھی پسند فرمایا تھا۔ حضرت صاحب کے وقت اس مسئلہ پر غور کیا گیا تھا اور آپؑ نے قواعد بنانے کے لیے سید حامد علی شاہ صاحب کو مقرر فرمایا تھا۔ سید صاحب نے جو قواعد مرتب کرکے دیے تھے وہ حضرت صاحب نے مجھ کو دیکھنے کے لیے دیے تھے کہ درست ہیں یا نہیں۔ تو میں نے عرض کیا تھا کہ درست ہیں۔ حضرت صاحب نے بھی ان کوپسند کیا تھا۔ ان قواعد پر عمل کرنے کے لیے تجویز ہوا تھا کہ دوستوں کو اپنی زندگیاں وقف کرنی چاہئیں تاکہ سلسلہ پر ان کا کوئی بوجھ نہ ہو اور وہ خود محنت کرکے اپنا گزارہ بھی کریں اور اسلام کی اشاعت میں بھی مصروف رہیں اور وہ ایک ایسے انتظام کے ماتحت ہوں کہ ان کو جہاں چاہیں، جس وقت چاہیں بھیج دیں اور وہ فوراً چلے جائیں۔ …ان تجاویز کو حضرت صاحب نے پسند فرمایا تھا اس وقت کچھ لوگوں نے اپنی زندگی وقف بھی کی تھی۔ مگر پھر معلوم نہیں کہ کیا اسباب ہوئے کہ وہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔ …
پس ہمارے دوست اپنی زندگیاں وقف کریں اور مختلف پیشے سیکھیں۔ پھر ان کو جہاں جانے کے لیے حکم دیا جائے وہاں چلے جائیں اور وہ کام کریں جو انہوں نے سیکھا ہے۔ کچھ وقت اس کام میں لگے رہیں تاکہ ان کے کھانے پینے کا انتظام ہوسکے اور باقی وقت دین کی خدمت میں صرف کریں۔ مثلاً کچھ لوگ ڈاکٹری سیکھیں کہ یہ بہت مفید علم ہے۔ بعض طب سیکھیں۔ اگرچہ طب جہاں ڈاکٹری پہنچ گئی ہے کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔ مگر ابھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں طب کو لوگ پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح اور کئی کام ہیں۔ ان تمام کاموں کو سیکھنے سے ان کی غرض یہ ہو کہ جہاں وہ بھیجے جائیں وہاں خواہ ان کاکام چلے یا نہ چلے۔ لیکن کوئی خیال ان کو روک نہ سکے۔ …
میرے دل میں مدت سے یہ تحریک تھی لیکن اب تین چار دوستوں نے باہر سے بھی تحریک کی ہے کہ اسی رنگ میں دین کی خدمت کی جائے پس میں اس خطبہ کے ذریعہ یہاں کے دوستوں اور باہر کے دوستوں کومتوجہ کرتا ہوں کہ دین کے لیے جوش رکھنے والے بڑھیں اور اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ جو ابھی تعلیم میں ہیں اور زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مجھ سے مشورہ کریں کہ کس ہنر کوپسند کرتے ہیں۔ تا ان کے لیے اس کام میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔ لیکن جو فارغ التحصیل تو نہیں لیکن تعلیم چھوڑ چکے ہیں۔ وہ بھی مشورہ کرسکتے ہیں۔ (الفضل ۲۲؍دسمبر۱۹۱۷ء۔خطبات محمود جلد۵صفحہ ۶۱۰-۶۱۱)
اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ۶۳؍ نوجوانوں نے اپنے نام پیش کیے جن میں حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمسؓ، مولوی ظہور حسین صاحب، مولوی ابوبکر سماٹری صاحب، خان بہادر مولوی ابوالہاشم خان صاحب ایم اے اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس بنگال۔ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل بھی تھے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ۲۰۴)
مبلغین کے لیے تحریک
حضورؓ نے ۴؍مئی ۱۹۲۸ء کو جماعت کے نوجوانوں سے دوسری بار وقف زندگی کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا:کچھ عرصہ ہوا میں نے تحریک کی تھی کہ نوجوان خدمت دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اس پر بہت سے نوجوانوں نے کیں جن میں کئی ایک عربی کی تعلیم حاصل کیے ہوئے تھے اور کئی انگریزی کی۔ اس وقت جتنے آدمیوں کی ضرورت تھی وہ پوری ہوگئی لیکن اب پھر بعض کاموں کے لیے ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ … پہلے میں نے مدرسہ احمدیہ میں اس بات کا ذکر کیا ہے اور بعض نوجوانوں نے مجھے درخواستیں پہنچائی ہیں اور بعض نے دفتر میں دی ہیں۔ اب میں باقی جماعت کو اس خطبہ کے ذریعہ مطلع کرتا ہوں خصوصاً کالجوں کے طلباء کو اور ان طلباء کو جو اپنی تعلیم ختم کر چکے یا کرنے والے ہیں۔ اس وقت غیرمذاہب میں مبلغ بھیجنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ایسے نوجوان ہوں جو دین کے متعلق واقفیت رکھتے ہوں یا واقفیت پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہوں۔ اس وقت چند آدمیوں کی ضرورت ہے جن کو لے کر کام پر لگا دیا جائے گا یا تیاری کرائی جائے۔ (الفضل ۱۵؍مئی ۱۹۲۸ء۔ خطبات محمود جلد۱۱ صفحہ ۳۷۷)
تحریک جدید کے لیے وقف
تبلیغ اور تربیت کا نظام ایک مستقل توجہ اور پائیدار پالیسیاں چاہتا ہے۔ اس کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ محض اسی کام کے لیے سر گرم عمل رہیں۔گذشتہ ۱۴۰۰ سال میں بزرگان امت نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر یہ سب انفرادی یا وقتی کوششیں تھیں خلافت احمدیہ کے ذریعہ تبلیغ کا جو نظام قائم ہواہے وہ ایک مربوط اور دائمی نظام ہے جو مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔اس کی پائیدار بنیاد حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک جدید کے ذریعہ ڈالی۔آپؓ کیا خوب فرماتے ہیں:’’تحریک جدید کے پیش کرنے کے موقع کا انتخاب ایسا اعلیٰ انتخاب تھا جس سے بڑھ کر اور کوئی اعلیٰ انتخاب نہیں ہوسکتا اور خداتعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں جو خاص کامیابیاں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں ان میں ایک اہم کامیابی تحریک جدید کو عین وقت پر پیش کرکے مجھے حاصل ہوئی اور یقیناً میں سمجھتا ہوں جس وقت میں نے یہ تحریک کی وہ میری زندگی کے خاص مواقع میں سے ایک موقع تھا اور میری زندگی کی ان بہترین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی تھی جبکہ مجھے اس عظیم الشان کام کی بنیاد رکھنے کی توفیق ملی‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد۷ صفحہ۲)
تحریک جدید محض وقتی یا محدود تقاضے پورے نہیں کرتی بلکہ دعوت الی اللہ کی اس عالمگیر سکیم کا نام ہے جس نے جماعت احمدیہ کو تمام مذہبی جماعتوں میں ممتاز کردیا ہے۔ ۱۴۰۰ سال میں مسلمانوں نے بڑے بڑے معابد بنائے، مدارس بھی قائم کیے، علماء کو بھی جنم دیا، کتب کی اشاعت بھی کی، الٰہی صحیفوں کے تراجم بھی کیے۔ مگر تحریک جدید کے ذریعہ دعوت الی اللہ کے جس نظام کو جنم دیا گیا ہے وہ ایک لامتناہی جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ وہ آنے والی تمام نسلوں، قوموں اور زبانوں تک پھیلا ہوا ہے جو وقت کے تازہ تقاضوں اور زبانوں کی تمام ضرورتوں سے ہم آہنگ ہے۔
۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کے آغاز پر حضورؓ نے وقف زندگی کا بڑے زور سے مطالبہ فرمایا جس پر بیسیوں احباب نے لبیک کہا اور دنیا بھر میں دعوت الی اللہ کی ایک مربوط اورمنظّم سکیم کا آغاز ہوا۔ تحریک جدید کا آٹھواں مطالبہ یہ تھا کہ ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو تین سال کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ (الفضل ۹؍ دسمبر۱۹۳۴ء)اس پر مولوی فاضل، بی اے، ایف اے اور انٹرنس پاس قریباً دوسو نوجوانوں نے تین سال کے لیے وقف کردیا۔ (الفضل ۲۲؍ دسمبر ۱۹۳۷ء)
۱۹۳۷ء میں حضورؓ نے اس تحریک میں اضافہ کرتے ہوئے مستقل وقف زندگی کی تحریک فرمائی۔ حضور نے فرمایا:دور اول میں مَیں نے کہا تھا کہ نوجوان تین سال کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر دور ثانی میں وقف عمر بھر کے لیے ہے۔ میری کوشش یہ ہے کہ اس دور میں سو واقفین ایسے تیار ہو جائیں جو علاوہ مذہبی تعلیم رکھنے کے ظاہری علوم کے بھی ماہر ہوں اور سلسلہ کے تمام کاموں کو حزم و احتیاط سے کرنے والے اور قربانی و ایثار کا نمونہ دکھانے والے ہوں۔ (الفضل ۲۴؍نومبر۱۹۳۸ء)
یکم فروری ۱۹۴۵ء کو حضورؓ نے ۲۲؍ واقفین کو بیرونی ممالک میں بھجوانے کے لیے منتخب فرمایا۔ (تاریخ احمدیت جلد۷ صفحہ۱۰۷) چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر ۱۹۴۵ء میں ۱۶؍ مربیان بیرونی ممالک کے لیے روانہ ہوئے اور یہ سلسلہ کسی تعطل کے بغیر آج تک جاری ہے۔ آپ کے زمانہ خلافت میں ۴۶؍ ملکوں میں مشن قائم ہوئے۔
ملک ملک جامعہ کھولنے کی خواہش
حضرت مصلح موعودؓ کے دل میں تبلیغ کا سمندر بیکراں جذبہ موجزن تھا۔ آپ جماعت کے ہر فرد کو مبلغ بنانا چاہتے تھے۔ واقفین کی تعداد بڑھانے کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے دیکھتے مبلغین کو ۲۰لاکھ تک پہنچا دیتے تھے۔ (الفضل ۲۸؍اگست ۱۹۵۹ء) حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۴۵ء میں بیرونی ممالک میں مدرسے جاری کرنے کی سکیم پیش کرتے ہوئے فرمایا:خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی تبلیغ کے نئے رستے جلد کھولنے والا ہے اور ہمیں ہزاروں مبلغین کی ضرورت ہوگی… اس لیے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ گریجوایٹ اور مولوی فاضل نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں تا انہیں جلد سے جلد کام پر لگایا جاسکے…اس کا دوسرا قدم یہ ہوگا کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہم ایسے ہی مدرسے جاری کریں گے اور پھر مختلف ملکوں میں عرب، مصر، فلسطین، شام اور دیگر ممالک میں اسی طرز پر اور اسی کورس پر مدرسے جاری کیے جائیں گے… حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ میں بھی۔ (خطبات محمود جلد ۲۶ صفحہ ۱۷) پھر حضورؓ نے خطبہ جمعہ اپریل ۱۹۴۶ء میں فرمایا:ہمیں دنیا کے گوشہ گوشہ میں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ قائم کرنے پڑیں گے۔ بلکہ ہر براعظم میں ہمیں ایک بہت بڑی یونیورسٹی قائم کرنی پڑے گی جو دینیات کی تعلیم دینے والی ہو اور جس سے تبلیغ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جاسکے۔(خطبات محمود جلد ۲۷ صفحہ ۱۶۶)
چنانچہ آپ نے مدرسہ احمدیہ کو ترقی دیتے ہوئے جامعہ احمدیہ کو مضبوط بنیادوں پر قائم فرمایا۔خلافت خامسہ میں بیرون ہند اس کی شاخیں کھلنی شروع ہوئیں اور اب ان کی دنیا بھر میں تعداد چودہ ہوچکی ہے۔ سینکڑوں بچے ان سے فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ ۱۹۸۷ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے تحریک وقف نو کی بنیاد ڈالی اس میں اب تک ۸۰؍ہزارسے زیادہ بچے شریک ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ لامتناہی ہے۔خلافت خامسہ میں جامعہ احمدیہ کینیڈا کا آغاز ۲۰۰۳ء میں ہوا، جامعہ احمدیہ یوکے کا افتتاح یکم اکتوبر ۲۰۰۵ء کو ہوا۔ ۲۰؍اگست ۲۰۰۸ء کو جامعہ احمدیہ جرمنی کا افتتاح ہوا۔اگست ۲۰۱۲ء میں جامعہ احمدیہ انٹر نیشنل گھانا کا آغاز ہوا۔
دیہاتی مبلغین کے لیے تحریک
ایک تجربہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے جب دیکھا کہ ہم اتنے مربی فورا ًتیار نہیں کرسکتے جو دنیا کی ضرورت کو پورا کرسکیں تو اللہ تعالیٰ نے حضور کے دل میں دیہاتی مربیان کی سکیم ڈالی اور حضورؓ نے ۲۹؍جنوری ۱۹۴۳ء کو وقف برائے دیہاتی مربیان جاری کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دو قسم کے مبلغ ہونے چاہئیں۔ ایک تو وہ جو بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں جا کر تبلیغ کرسکیں۔ لیکچر اور مناظرے وغیرہ کرسکیں۔ اپنے ماتحت مبلغوں کے کام کی نگرانی کرسکیں۔ اور ایک ان سے چھوٹے درجہ کے مبلغ دیہات میں تبلیغ کے لیے ہوں۔ جیسے دیہات کے پرائمری سکولوں کے مدرس ہوتے ہیں ایسے مبلغ دیہات کے لوگوں میں سے ہی لیے جائیں۔ ایک سال تک ان کو تعلیم دے کر موٹے موٹے مسائل سے آگاہ کر دیا جائے۔ اور پھر ان کو دیہات میں پھیلا دیا جائے اور جس طرح پرائمری مدرس اپنے اردگرد کے دیہات میں تعلیم کے ذمہ وار ہوتے ہیں اسی طرح یہ اپنے علاقہ میں تبلیغ کے ذمہ دار ہوں … انہیں ایک سال میں موٹے موٹے دینی مسائل مثلاً نکاح، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، جنازہ وغیرہ کے متعلق احکام سکھا دیے جائیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیا جائے۔ کچھ احادیث پڑھائی جائیں۔ سلسلہ کے ضروری مسائل پر نوٹ لکھا دیے جائیں۔ تعلیم و تربیت کے متعلق ان کو ضروری ہدایات دی جائیں۔ اور انہیں سمجھا دیا جائے کہ بچوں کو کس قسم کے اخلاق سکھانے چاہئیں۔ اور اس غرض سے انہیں ایک دو ماہ خدام الاحمدیہ میں کام کرنے کاموقع بہم پہنچایا جائے اور یہ سارا کورس ایک سال یا سوا سال میں ختم کراکے انہیں دیہات میں پھیلا دیا جائے … پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس سکیم کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے۔ اور اپنے اپنے ہاں کے ایسے نوجوانوں کے جو پرائمری یا مڈل پاس ہوں اور لوئر پرائمری کے مدرسوں جتنا ہی گزارہ لے کر تبلیغ کا کام کرنے پر تیار ہوں۔ ان کے نام فوراً بھجوا دیں تا ان کے لئے تعلیم کا کورس مقرر کرکے انہیں تبلیغ کے لئے تیار کیا جاسکے‘‘۔ (الفضل ۴؍فروری۱۹۴۳ء)
چونکہ جنگ کا زمانہ تھا اور گرانی بہت تھی اس لیے ابتدا میںصرف پندرہ واقفین منتخب کیے گئے جن کی ٹریننگ باقاعدہ ایک کلاس کی شکل میں جنوری ۱۹۴۵ء تک جاری رہی۔ انہیں علمائے سلسلہ کے علاوہ خود سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ بھی تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ حضور نے مجلس مشاورت (منعقدہ ۹،۸،۷؍ اپریل ۱۹۴۴ء) میں بتایا کہ ’’میں دیہاتی مبلغین کو آجکل تعلیم دے رہا ہوں۔ یہ لوگ مدرس بھی ہوں گے اور مبلغ بھی۔ چھ مہینہ تک یہ لوگ فارغ ہو جائیں گے۔ پندرہ بیس ان کی تعداد ہے، ٹریننگ کا دور ختم ہوا تو ان میں سے چودہ کو فروری ۱۹۴۵ء سے پنجاب کے مختلف دیہاتی علاقوں میں متعین کر دیا گیا۔
دیہاتی مبلغین کے وقف کی یہ سکیم بہت کامیاب رہی اور حضورؓ نے دیہاتی مبلغین کی نسبت اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ۱۷؍جنوری ۱۹۴۷ءکو خطبہ جمعہ میں فرمایا:خداتعالیٰ کے فضل سے ہمارا یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے۔ کئی جماعتیں ایسی تھیں جو کہ چندوں میں سست تھیں اب ان میں بیداری پیدا ہوگئی۔ پہلے سال صرف پندرہ آدمی اس کلاس میں شامل ہوئے تھے اور پچھلے سال پچاس شامل ہوئے۔ (الفضل ۳۰؍جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ۴)
دیہاتی مربیان کی تیسری کلاس ۱۹۴۷ء میں کھولی گئی جس میں ۵۳ واقفین داخل کیے گئے۔ ابھی پڑھائی کا گویا آغاز ہی تھا کہ ملک فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر طلباء قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے رہ گئے اور صرف چھ پاکستان آئے جنہیں تکمیل تعلیم کے بعد دعوت الی اللہ پر لگا دیا گیا۔ (سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمدیہ پاکستان ۱۹۴۷ء – ۱۹۴۸ءصفحہ۶)
خاندان حضرت مسیح موعودؑ کو وقف کی تحریک
حضورؓ نے دعویٰ مصلح موعود کے بعد ۱۰؍مارچ ۱۹۴۴ء کے خطبہ جمعہ میں خاندان حضرت اقدس مسیح موعودؑکو وقف کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیں کہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گھس جائیں، ہمارے ہاتھوں کی ہڈیاں گھس جائیں تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا ہے اور اس فخر کے لیے اس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے۔ پس ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے۔ دنیا کے لوگوں کے لیے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں مگر ہماری زندگی تو کلیةً دین کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لیے وقف ہونی چاہئے۔‘‘ (الفضل ۱۴؍مارچ ۱۹۴۴ء صفحہ۱)
اس تحریک وقف پر سب سے پہلے حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے لبیک کہا۔ چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے انہی دنوں فرمایا:’’سب سے پہلے ہمارے خاندان میں سے عزیزم مرزا ناصر احمد نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا۔‘‘(الفضل ۱۲؍جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ۳کالم۲)حضورؓ کے ۱۳؍ بیٹے تھے حضور نے سب کو خدمت دین کے لیے وقف کر دیا ان میں سے دو وہ بھی ہوئے جن کو خدا نے منصب خلافت کے لیے چن لیا۔آپ کے نواسے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے بھی وقف کیا اور خدا نے انہیں بھی خلافت عطا فرمائی۔ان کے علاوہ خاندان مسیح موعودؑ کے بیسیوں واقفین متعدد خدمات پر مامور ہیں۔
وقف زندگی کی وسیع تحریک
حضرت مصلح موعودؓ کی دوربین نگاہوں نے قبل از وقت دیکھ لیا تھا کہ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر ہمیں فوری طور پر تبلیغ کی طرف توجہ دینا پڑے گی۔ اس لیے حضور نے ۲۴؍ مارچ ۱۹۴۴ء کو وقف زندگی کی پُرزور تحریک کی اور فرمایا:’’میرا اندازہ ہے کہ فی الحال دو سو علماء کی ہمیں ضرورت ہے تب موجودہ حالات کے مطابق جماعتی کاموں کو تنظیم کے ماتحت چلایا جاسکتا ہے لیکن اس وقت واقفین کی تعداد ۳۰-۳۵ ہے۔ …اس کے علاوہ گریجویٹوں اور ایم اے پاس نوجوانوں کی بھی کالج کے لیے ضرورت ہے تا پروفیسر وغیرہ تیار کیے جاسکیں۔ ایسے ہی واقفین میں سے آئندہ ناظروں کے قائم مقام بھی تیار کیے جاسکیں گے۔ آگے ایسے لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ناظروں کا قائم مقام بنایا جاسکے۔ میری تجویز ہے کہ واقفین نوجوانوں کو ایسے کاموں پر بھی لگایا جائے اور ایسے رنگ میں ان کی تربیت کی جائے کہ وہ آئندہ موجودہ ناظروں کے قائم مقام بھی ہوسکیں پس ایم اے پاس نوجوانوں کی ہمیں ضرورت ہے۔‘‘ (الفضل ۳۱؍مارچ ۱۹۴۴ء)
اس عظیم الشان تحریک پر بھی مخلصین جماعت نے شاندار جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر قادیان اور بیرونی مقامات کے ۳۳۵ مخلصین نے (جن میں ہر طبقہ، ہر عمر اور ہر قابلیت کے افراد شامل تھے) اپنے آقا کے حضور وقف زندگی کی درخواستیں پیش کردیں۔ (الفضل ۱۱؍مئی۱۹۴۴ء صفحہ۶)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی اس تحریک پر نوجوانان احمدیت خدمت دین کے لیے جس طرح دیوانہ وار آگے بڑھے اور اپنی زندگیاں وقف کیں اس نے غیروں تک کو متاثر کیا۔ چنانچہ اخبار ’’پرکاش‘‘(جالندھر) نے لکھا:’’آپ احمدیت، تحریک قادیان کی طرف دھیان دیں اور آنکھیں کھولیں۔ قادیان میں بڑے سے بڑے احمدی نے اپنے لخت جگروں کو احمدیت کی تبلیغ کے لیے وقف کردیا ہے اور اس پیشہ کو بڑی آدر کی درشٹی سے دیکھا جاتا ہے۔ تحریک دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے کیونکہ ان کے لیڈر عالم باعمل ہیں اور سپرٹ مخلصانہ ہے‘‘(بحوالہ الفضل ۱۰؍مئی ۱۹۴۷ء)
اس تحریک کا غیرازجماعت نوجوانوں پر کیا اثر ہوا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ایک مکتوب درج کیا جاتا ہے۔ ایک غیراحمدی دوست اقبال احمد صاحب زبیری بی اے بی ٹی علیگ نے حضور کی خدمت میں لکھا:آپ کی جماعت میں ایک صاحب بنام مبارک احمد صاحب میرے ہم پیشہ دوست ہیں۔ میرا اور موصوف کا قریباً دو اڑھائی سال سے ساتھ ہے اور ہمارے درمیان بہت گہرے اور مخلصانہ تعلقات قائم ہیں۔ … موصوف کے ساتھ دو جمعہ کی نمازوں میں شریک ہوا جبکہ علاوہ وقتاً فوقتاً الفضل پڑھنے کے آپ کا دیا ہوا خطبہ میں نے سنا۔ وہ خطبے جو میں نے سنے ان میں سے دو قابل ذکر ہیں۔ ایک جو ہندوستان اور برطانیہ کے مابین مصالحت کے متعلق تھا اور دوسرا جس میں آپ نے جماعت کے لوگوں سے زندگی وقف کر دینے کے لیے خدا اور اس کے رسول کی راہ میں تاکید فرمائی۔ مبارک احمد صاحب نے تو آپ کی آواز پر فوراً لبیک کہا اور ان کا خط اور درخواست غالباً اس وقت آپ کے زیر غور ہوگی۔ میں آپ کی جماعت کا باقاعدہ رکن تو اس وقت نہیں ہوں۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول کی خدمت کسی نظام کے ماتحت کرنے میں مجھے عذر بھی نہیں۔(تاریخ احمدیت جلد۸ صفحہ۱۰۲)
خاندانی وقف کی تحریک
۵؍جنوری ۱۹۴۵ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے خاندانی وقف کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’تحریک جدید کے پہلے دور میں، مَیں نے اس کی تمہید باندھی تھی۔ مگر اب دوسری تحریک کے موقعہ پر میں مستقل طور پر دعوت دیتا ہوں کہ جس طرح ہر احمدی اپنے اوپر چندہ دینا لازم کرتا ہے۔ اسی طرح ہر احمدی خاندان اپنے لیے لازم کرے کہ وہ کسی نہ کسی کو دین کے لیے وقف کرے گا‘‘۔ (الفضل ۱۰؍جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ۵)
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے دوسرے سفر یورپ ۱۹۵۵ء کے دوران یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ مغربی دنیا اسلام کی طرف مائل ہورہی ہے اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ وقت آگیا ہے کہ وقف زندگی کی تحریک کو پہلے سے زیادہ منظم، مؤثر اور دائمی شکل دی جائے کیونکہ جب تک جماعت احمدیہ میں دین کی خدمت کرنے والے مسلسل اور متواتر پیدا نہ ہوں غلبۂ حق کے اہم مقصد کی تکمیل ہرگز ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نے سفر یورپ سے واپسی کے بعد کراچی اور ربوہ میں جو ابتدائی خطبات ارشاد فرمائے ان میں بار بار وقف زندگی کی پُرجوش تحریک فرمائی۔ چنانچہ ۱۶؍ستمبر ۱۹۵۵ءکے خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’جب تک جماعت میں وقف کی تحریک مضبوط نہ ہو اس وقت تک ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ناممکن ہے۔… وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لیے ایک عظیم الشان تحریک ہے۔ اگر وقف کی تحریک مضبوط ہو جائے اور نسلاً بعد نسلٍ ہماری جماعت کے نوجوان خدمت دین کے لیے آگے بڑھتے رہیں تو سینکڑوں نہیں ہزاروں سال تک تبلیغ اسلام کا سلسلہ قائم رہ سکتا ہے۔ اس غرض کے لئے میں نے متواتر جماعت پر وقف کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے مگر اب میرا ارادہ ہے کہ جماعت سے خاندانی طور پر وقف اولاد کا مطالبہ کروں یعنی ہر خاندان کے افراد اپنی طرف سے ایک ایک نوجوان کو اسلام کی خدمت کے لیے پیش کرتے ہوئے عہد کریں کہ ہم ہمیشہ اپنے خاندان میں سے کوئی نہ کوئی فرد دین کی خدمت کے لیے وقف رکھیں گے اور اس میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔ جب خاندانی وقف کی تحریک مضبوط ہوجائے توپھر اس کو وسیع کرکے ہم وقف کرنے والوں کو تحریک کرسکیں گے کہ وہ اپنے اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں سے ایک ایک، دو دو، تین تین، چار چار کو وقف کرنے کی کوشش کریں اس طرح یہ سلسلہ خداتعالیٰ کے فضل سے ممتد ہوتا چلا جائے گا اور قیامت تک جاری رہے گا۔‘‘
اسی سلسلہ میں حضورؓ نے ۱۴؍اکتوبر ۱۹۵۵ء کو ایک زوردار خطبہ میں فرمایا:’’خاندانی طور پر اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کرو اور عہد کرو کہ تم اپنی اولاد دراولاد کو وقف کرتے چلے جاؤ گے۔ پہلے تم خود اپنے کسی بچے کو وقف کرو۔ پھر اپنے سب بچوں سے عہد لو کہ وہ اپنے بچوں میں سے کسی نہ کسی کو خدمت دین کے لیے وقف کریں گے۔ اور پھر ان سے یہ عہد بھی لو کہ وہ اپنے بچوں سے عہد لیں گے کہ وہ بھی اپنی آئندہ نسل سے یہی مطالبہ کریں گے۔ چونکہ اگلی نسل کا وقف تمہارے اختیار میں نہیں اس لیے صرف تحریک کرنا تمہارا کام ہوگا۔ اگر وہ نہیں مانیں گے تو یہ ان کا قصور ہوگا۔ تم اپنے فرض سے سبکدوش سمجھے جاؤ گے اگر تم یہ کام کرو گے اور یہ روح جماعت میں نسلاً بعد نسلٍ پیدا ہوتی چلی جائے گی اور ہر فرد یہ کوشش کرے گا کہ اس کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرے تو خداتعالیٰ کے فضل سے لاکھوں واقف زندگی دین کی خدمت کے لیے مہیا ہو جائیں گے۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وصیت کی تحریک فرمائی ہے۔ تمہیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص وصیت کرے۔ اور پھر اپنی اولاد کے متعلق بھی کوشش کرے کہ وہ بھی وصیت کرے۔ اور وہ اولاد اپنی اگلی نسل کو وصیت کی تحریک کرے۔ یہ بھی دین کی خدمت کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہے۔ اگر ہم ایسا کرلیں تو قیامت تک تبلیغ اور اشاعت کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے‘‘۔(الفضل ۲۵؍نومبر۱۹۵۵ء)
تحریک وقف تجارت
۵؍اکتوبر ۱۹۴۵ء کو حضورؓ نے وقف تجارت کی تحریک فرمائی جس کا مقصد تجارت کے ذریعہ تبلیغی سنٹر قائم کرنا تھا۔ چنانچہ حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’وہ نوجوان جو فوج سے فارغ ہوں گے اور وہ نوجوان جو نئے جوان ہوئے ہیں اور ابھی کوئی کام شروع نہیں کیا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اپنی زندگی وقف کریں۔ ایسے رنگ میں نہیں کہ ہمیں دین کے لیے جہاں چاہیں بھیج دیں چلے جائیں گے بلکہ ایسے رنگ میں کہ ہمیں جہاں بھجوایا جائے ہم وہاں چلے جائیں گے اور وہاں سلسلہ کی ہدایت کے ماتحت تجارت کریں گے۔ اس رنگ میں ہمارے مبلغ سارے ہندوستان میں پھیل جائیں گے۔ وہ تجارت بھی کریں گے اور تبلیغ بھی۔ (الفضل ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحہ۶)
وقف تجارت کے تحت واقفین تجارت کو مختلف مقامات پر متعین کیا گیا جہاں سے وہ دفتر کی ہدایات کے ماتحت تجارت کرتے اور اپنی باقاعدہ رپورٹیں بھجواتے تھے۔ اس وقف کے تحت سرمایہ واقفین خود لگاتے تھے۔ (الفضل ۷؍نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ۴ کالم ۴)
طلبہ کو وقف کی تحریک
قیام پاکستان کے ابتدائی چند سالوں میں جہاں انڈونیشیا، سیلون (سری لنکا)اور افریقہ وغیرہ ممالک کے احمدی جوانوں میں وقف زندگی کی طرف رجحان پہلے سے بڑھ گیا وہاں پاکستان میں اس کی طرف بتدریج توجہ کم ہوگئی۔ ۱۹۵۴ء میں صرف ایک پاکستانی احمدی نوجوان مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوا۔ جس کی ایک وجہ یہ ہوئی کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے سابق ہیڈ ماسٹر حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم سال بھر کوشش کرتے رہتے تھے اور حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کی خدمت بابرکت میں یہ اطلاع بھی پہنچاتے رہتے تھے کہ میں نے اتنے طلبہ سے وقف کا وعدہ لیا ہے مگر ان کے بعد یہ التزام و اہتمام نہ رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک میں صرف ایک احمدی نوجوان کو وقف کرنے کی توفیق مل سکی۔ اس تشویش انگیز صورتحال کا سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے فوری نوٹس لیا اور ۸ اور۱۵؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کے خطبات وقف زندگی کی تحریک کے لیے وقف کردیے جن میں جماعت کے سامنے اصل حقائق رکھے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور تعلیم الاسلام کالج کے احمدی پروفیسروں کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہمیشہ ہی طلبہ کو دین کی خاطر زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کرتے رہیں۔۱۵؍اکتوبر کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے واضح کیا کہ دینی جماعتیں وقف کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتیں۔ چنانچہ حضورؓ نے ارشاد فرمایا:بغیر وقف کے دین کا کام کرنا مشکل ہے جس جماعت میں وقف کا سلسلہ نہ ہو وہ اپنا کام کبھی مستقل طور پر جاری نہیں رکھ سکتی۔ ہم نے تو وقف کی ایک شکل بنا دی ہے ورنہ زندگی وقف کرنے والے رسول کریمﷺ کے زمانہ میں بھی موجود تھے۔ حضورؓ نے خطبہ کے آخر میں تحریک فرمائی کہ’’تم ضرورت ِوقت کو سمجھو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے اپنے اپنے خاندان کے نوجوانوں کو وقف کرو اور یہ وقف اتنی کثرت سے ہونا چاہئے کہ اگر دس نوجوانوں کی ضرورت ہو تو جماعت سو نوجوان پیش کرے‘‘۔ (الفضل ۲۰؍اکتوبر ۱۹۵۴ء صفحہ۶،۴)
حضرت مصلح موعودؓ کی اس تحریک پر کئی مخلص خاندانوں نے لبیک کہا اور متعدد احمدی نوجوانوں نے اپنی جانیں اپنے مقدس امام کے حضور پیش کردیں۔
صدر انجمن احمدیہ کے لیے تحریک واقفین
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۵ء کے شروع میں تحریک فرمائی کہ مخلص احباب تحریک جدید کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے لیے بھی اپنی زندگیاں وقف کریں۔ فرمایا: ’’احباب کی اطلاع کے لیے اعلان کیا جاتا ہے کہ اب تک صرف تحریک جدید کے لیے واقفین لیے جاتے تھے۔ اب ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ صدر انجمن کے لیے بھی واقفین زندگی کی تحریک کی جائے۔ پس اس بارےمیں مَیں اعلان کرتا ہوں کہ مخلص احباب اپنے آپ کو سلسلہ کی خدمت کے لیے پیش کریں۔ عام راہنمائی کے لیے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مندرجہ ذیل قسم کے احباب کارآمد ہو سکیں گے:
اول: ایم اے ایل ایل بی۔ ڈاکٹر… دوم: بی اے بی ٹی… سوم: ایسے افراد جن کو انتظامی کاموں کا تجربہ ہو۔ خواہ پنشنر ہوں… چہارم: ایسے احباب جو تجارتی یا صنعتی دلچسپی رکھتے ہوں۔ خواہ مڈل تک کی تعلیم ہو۔ گزارہ کے متعلق ہر ایک واقف کو صدر انجمن احمدیہ اطلاع دے گی کہ کس اصل پر وہ گزارہ دے سکتی ہے۔‘‘اس تحریک پر کئی مخلصین جماعت نے اپنی زندگیاں اپنے پیارے امام کے حضور پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ (الفضل ۸؍فروری ۱۹۵۵ء صفحہ۳)
قادیان کے لیے واقفین
حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۶ءمیں قادیان میں سلسلہ کے کاموں کے لیے وقف کی تحریک فرمائی۔ آپ نے فرمایا: ’’قادیان میں کارکنان کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہندوستان میں پیدا کیا۔ اس لیے یہ ہندوستانیوں کا حق ہے۔ کہ وہ سلسلے کے کاموں کے لئے قربانیاں کریں۔ اس لئے تمام جماعتوں کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے۔ کہ اول ڈاکٹر۔ دوم گریجوایٹ سوم میٹرک پاس اگر اپنی زندگیاں ساری عمرکے لیے نہیں تو دس ہی سال کے لیے وقف کریں تاکہ ان کو قادیان میں رکھ کر دینی تعلیم دلائی جائے اور پھر سلسلہ کے کاموں پر لگایا جائے‘‘۔ (الفضل ۱۶؍مارچ ۱۹۵۶ء)
تحریک وقف جدید
۱۹۵۷ء کے جلسہ سالانہ پر حضور نے وقف جدید کی سکیم کے ماتحت زندگی وقف کرنے کی تحریک کی۔ جس پر اب تک سینکڑوں نوجوان لبیک کہہ کر خدمت دین میں مشغول ہیں۔متعدد ممالک میں شارٹ کورسز پر مشتمل جامعات یا جامعۃ المبشرین کے نام سے ادارے قائم ہیں یہ ایک الگ تفصیلی مضمون کا متقاضی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق یہ پیشگوئی بھی تھی کہ قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ اس کی تعبیر اس طرح بھی ظاہر ہوئی کہ حضور نے جماعت میں وقف زندگی کا ایک مستقل نظام جاری فرمایاجس پر لبیک کہتے ہوئے سینکڑوں نوجوانوں نے دیارغیر میں ڈیرے ڈال دیے۔ اور بعضوں نے تو وہیں پر قبروں کی جگہ حاصل کی۔
آپؓ کے زمانہ میں ۴۶ ممالک میں جماعت کے مشن قائم ہوئے جو آج ۲۱۳کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مشن کی تاریخ لازوال قربانیوں اور عظیم مصلح کی پر شوکت قیادت کا نشان ہے۔