وہ حُسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا (قسط دوم۔ آخری)
والدہ سے بے انتہا محبت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی اور حضورؑ اپنی والدہ کو نم آنکھوں سے یاد فرماتے تھے۔
’’حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی والدہ ماجدہ سے محبت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد آپ جب کبھی ان کا ذکر فرماتے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔‘‘ (حیات طیبہ صفحہ ۲۷)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’حضرت اُمّ المؤمنینؓ کی عزت اور احترام کا مشاہدہ تو اپنی آنکھوں سے کیا ہے۔ایک دفعہ ایک عورت نےآپ سے شکایت کی کہ میرا بیٹا میرا خیال نہیں رکھتا آپ سمجھائیں۔آپ بے اختیار رو پڑےاور کہنے لگے مجھےسمجھ نہیں آتی کہ کوئی بیٹا ماں سے بُرا سلوک کر ہی کیسے سکتا ہے۔حضرت اُمّ المؤمنینؓ کا خود باوجود عدیم الفُرصتی کے بہت خیال رکھتےتھےاور اپنی بیویوں سے بھی یہی امید رکھتےتھےکہ وہ حضرت اماں جانؓ کا خیال رکھیں۔کبھی فراغت ہوئی تو حضرت اماں جانؓ کے پاس بیٹھ جاتے۔آپ کو کوئی واقعہ یا کہانی سناتے۔سفروں میں اکثر اپنےساتھ رکھتے۔جس موٹر میں خود بیٹھتے اُس میں حضرت اماں جانؓ کو اپنے ساتھ بٹھاتے۔کہیں باہر سے آنا تو سب سے پہلے حضرت اماں جانؓ سے ملتے اور آپ کی خدمت میں تحفہ پیش کرتے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۳۲)
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ نے اپنی ڈائری میں تحریر کیا کہ حضورؓ نے فرمایا کہ’’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ خواہ بیوی کتنی ہی پیاری ہو ماں کے برابر نہیں ہوسکتی۔بعض لوگ ماں سے برا سلوک کیوں کرتے ہیں۔کہتے کہتے آواز بھرّا گئی اور اماں جانؓ کو یاد کرکے آنسوؤں سے رونے لگے۔چائے پی رہے تھے، دونوں آنکھوں سے لڑیاں جاری تھیں۔‘‘ (ڈائری سفر ۱۹۵۵ء)
جمعہ کے دن کا اہتمام
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت اماں جانؓ روایت فرماتی ہیں کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگاتے اور کپڑے بدلتے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی، روایت نمبر ۸۴ جلد اوّل صفحہ ۶۱)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ’’حافظ روشن علی صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن نماز میں سجدہ کیا کرتے تھے وہاں سے کئی کئی دن تک بعد میں خوشبو آتی رہتی تھی۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ بہت کثرت سے خوشبو کا استعمال فرماتے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی، جلد اوّل صفحہ ۳۰۲ تا ۳۰۳ روایت نمبر ۳۲۷)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’جمعہ کے دن خاص اہتمام فرماتے تھے باقاعدگی سے نہانا،خوشبو لگانا،اچھی اور نفیس خوشبو بہت پسند تھی…جمعہ کے دن صرف غسل کرنے یا کپڑے بدلنے کا ہی اہتمام نہ فرماتے بلکہ کھانے وغیرہ کے متعلق بھی فرمایا کرتے تھے مسلمانوں کے لیے یہ عید کا دن ہے۔دوسرے دنوں سے ہمیں اچھا کھانا کھانا چاہئے تا خوشی کا اظہار ہو۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۵۱ تا ۵۲)
بچوں سے دل داری،اندازِتربیت اور اولاد کے خادمِ دین ہونے کی خواہش
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارےمیں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ تحریر کرتے ہیں کہ’’آپ بچوں کی خبرگیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمارداری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اور کوئی فکر ہی نہیں۔مگر باریک بین دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور خدا کے لیے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مد نظر ہے۔آپ کی پہلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی آپ اس کے علاج میں یوں دوا دوی کرتے کہ گویا اُس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف و اصلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی کر نہیں سکتا۔مگر جب وہ مر گئی آپ یوں الگ ہوگئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اور جب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی۔‘‘ (سیرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ صفحہ ۵۳-۵۴)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ تحریر کرتے ہیں کہ’’اولاد کے متعلق حضورؑ کی خواہش و تمنّا ایک دنیا دار کے حصول و مقاصد کی طرح نہ تھی کہ وہ بہت بڑے عہدہ دار ہوں یا ان کے پاس ڈھیروں ڈھیر سونا اور دنیا کے متاع ہوں۔آپ کی غرض واحد اور تمنائے اعظم محض یہ تھی کہ وہ خادم دین ہوں۔یہ امر آپ کی دعاؤں سے جو اولاد کے متعلق آپ نے کی ہیں ظاہر ہے اور واقعات بھی اس کی شہادت دیتے ہیں۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ ۳۶۵-۳۶۶)
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر کرتی ہیں کہ’’میری ہمشیرہ امۃ الحفیظ بالکل چھوٹی سی تھی۔کسی جاہل خادمہ سے ایک گالی سیکھ لی اور توتلی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے کسی کو دی۔آپ نے بہت خفگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ اس چھوٹی عمر میں جو الفاظ زبان پر چڑھ جاتے ہیں وہ دماغ میں محفوظ بھی رہ جاتے ہیں اور بعض دفعہ انسان کی زبان پر مرتے وقت جاری ہوجاتے ہیں۔بچے کو فضول بات ہرگز نہیں سکھانی چاہئے۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ ۳۱۱-۳۱۲)حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے۔اس لیے جمعہ کے لیے مسجد میں نہ جاسکے۔میں اس وقت بالغ نہیں تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں۔تاہم میں جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد کو آرہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا۔اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل صورت یاد نہیں رہ سکتی۔مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے۔محمد بخش ان کا نام ہے۔وہ اب قادیان میں ہی رہتے ہیں۔میں نے ان سے پوچھا آپ واپس آرہے ہیں۔کیا نماز ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا آدمی بہت ہیں مسجد میں جگہ نہیں تھی میں واپس آگیا۔میں بھی یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی۔حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے۔خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب ان کے نبی ہونے کی وجہ سے کرتا تھا۔میں نے دیکھا کہ آپ کے پوچھنے میں سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا…اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نماز باجماعت کا کتنا خیال تھا۔‘‘ (خطبات محمود جلد ۹ صفحہ ۱۶۳-۱۶۴)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’بچوں کے لیے انتہائی شفیق باپ تھے۔تربیت کی خاطر لڑکوں پر وقتاً فوقتاً سختی بھی کی لیکن ان کی عزت نفس کا خیال رکھا…بیٹیوں سے بھی بہت زیادہ اظہار محبت کرتے تھے۔لیکن جہاں دین کا معاملہ آجائے آنکھوں میں خون اتر آتا تھا۔نماز کی سستی بالکل برداشت نہ تھی۔اگر ڈانٹا ہے تو نماز وقت پر نہ پڑھنے پر۔بچوں کے دلوں میں شروع دن سے یہی ڈالا کہ سب دین کے لیے وقف ہیں۔ان کو دینی تعلیم دلوائی۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۳۳ تا ۳۴)
بچوں کو تربیتی کہانیاں سنانا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تحریر کرتے ہیں کہ’’عام طور پر بچوں میں کہانیاں کہنے اور سننے کا شوق ہوتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچے بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہ تھے۔خصوصاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہوتا تھا۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ان کی دلداری نہیں بلکہ تربیت کے خیال سے کہانیاں سننے کی اور دوسروں کو سنانے کی اجازت ہی نہ دیتے تھے بلکہ خود بھی بعض اوقات سنا دیا کرتے تھے۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت مولوی یعقوب علی صاحب عرفانیؓ حصہ سوم صفحہ ۳۶۹)
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر کرتی ہیں کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تو بات ہی اَور تھی آپ کا نمونہ ہی کافی تھا۔پھر بھی آپ وقتِ فرصت بزرگوں کے واقعات اور ایسی باتیں سناتے جن سے دل پر بہت اچھا اثر ہوتا۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ ۳۱۰)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’بچوں کی مجالس میں اکثر لطائف سنایا کرتے اور بچوں سے لطیفے سنتے۔ہزاروں لطیفے اور چٹکلے یا د تھے۔کبھی کبھی رات کو بچوں کو لے کر بیٹھ جانا اور کوئی کہانی سنا دینی۔کئی دفعہ ایک ایک کہا نی کا سلسلہ ہفتوں چلا کرتا۔اوروہ اتنی دلچسپ ہوتی کہ بچے چھوڑ سارے گھر کے بڑے بھی گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے اور کہانی سنتے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۸۱)
بچوں کا رات کے وقت گھر سے باہر نکلنے پر ناپسندیدگی
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے فرمایا کہ’’میرے بھائیوں کو خاص طور پر فرماتے تھے کہ نماز مغرب اور عشاء کے بعد باہر نہیں پھرنا۔گھر پر رہو اگر باہر دیر ہوجائے تو اس کو ناپسند فرماتے۔حضرت چھوٹے بھائی صاحب (مرزا شریف احمد) پر مَیں نے ایک بار کافی ناراض ہوتے دیکھا کہ تم شام کے بعد باہر کیوں پھرے؟‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ ۳۰۱)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’بچوں کا شام کے بعد گھر سے باہر رہنا سخت نا پسند تھا اُس کی پابندی کروانے کی ہمیشہ تاکید رکھتے کہ مغرب کے بعد اِدھر اُدھر نہیں پھرنا،رات کو اگر دیر سے کوئی بچہ کہیں سے آتا تو ناراض ہوتے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۸۱)
بچوں کو دعا کے لیے کہنا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر کرتی ہیں کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دُعاؤں کی جانب بہت متوجہ کیا ہے اور کثرت سے جماعت کو دعاؤں کی تاکید کی ہے۔احمدیوں کو دعا کرنے کی عادت، دعا کی اہمیت کو واضح فرماکر جو آپ نے عطا فرمائی وہ بھی ان خزانوں میں سے ایک بڑا بھاری خزانہ ہے جو مہدئ آخر زمان نے لٹانا تھا۔خود مجھے دعاؤں پر بیحد زور دینا یاد آتا ہے۔معلوم ہوتا تھا کہ یہ بھی آپ کے مشن کا ایک خاص اور اہم رکن ہے مجھے اکثر فرمایا کہ جب رات کو آنکھ کھلے دعا کیا کرو تمہاری تہجد ہوجائے گی۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ ۲۳۲)
آپؓ مزید تحریر کرتی ہیں کہ’’جب مَیں چھوٹی سی لڑکی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی بار فرمایا کہ میرے ایک کام کے لیے دعا کرو یا دعا کرنا۔ذرا غور کرو! کہاں وہ ہستی برگزیدہ عالی شان اور کہاں مَیں۔مگر آپ مجھے دعا کو کہتے ہیں! یہ اس لیے ہوتا تھا کہ بچوں کے ذہن نشین ہوجائے کہ ہم نے بھی دعائیں کرنی ہیں اور تا دعاؤں کی عادت پڑے اور بچے جان لیں کہ اللہ کا درِ رحمت کھلا ہے۔مانگو گے تو پاؤگے۔یہ آپ کی تربیت تھی دعا کے متعلق۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ ۶۹-۷۰)
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ مزید فرماتی ہیں کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر دعا کو کہتے یہ نہیں کہ میں کوئی بڑی اور بزرگ تھی۔آپ کا مطلب دعائیں سکھانا اور دعا کی اہمیت دلوں میں بٹھادینا تھا۔آپ نے مجھے کہا کہ ایک خاص بات ہے دعا کرو۔رات کو دو نفل پڑھو۔دعا کرو کہ جو معاملہ میرے دل میں ہے اس کے متعلق تم کو کچھ اشارہ ہوجائے۔مَیں نے دعا کی اور اسی شب خواب دیکھا…آپ نے مجھے صبح پوچھا۔آپ ٹہل رہے تھے۔مَیں نے کہا مَیں نے تو مولوی صاحب کو اس طرح دیکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ’میں ابو بکر ہوں‘آپ نے ایسے الفاظ فرمائے کہ جیسے جو دعا کی تھی اسی کا جواب ہے۔آپ مطمئن ہوگئے تھے۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ ۲۸۱)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’جب کسی خاص امر کے لیے دعا کررہے ہوتے تو بیویوں اور بچوں کو بھی دعا کے لیے کہا کرتے تھے۔اور یہ بھی کہنا کہ آجکل اس معاملہ میں دعا کی بہت ضرورت ہے تم بھی دعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۵۵)
دین کو اولاد کی محبت پر مقدم رکھنا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارےمیں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ تحریر کرتے ہیں کہ’’ہر بچہ اپنے ماں باپ کو پیارا ہوتا ہے۔قدرتی طور پر مبارک احمد کو حضرت صاحب بہت پیار کرتے تھے۔وہ خدا تعالیٰ کی ایک آیت تھا۔اس سے ایک مرتبہ قرآن مجید کے متعلق سہواً ایک بے ادبی ہوگئی۔قرآن مجید ان سے گر گیا تھا۔حضرت اقدس نے جب دیکھا تو آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا وہ شخص گویا بالکل بدل گیا تھا۔باوجودیکہ آپ بچوں کو تعلیمی معاملات میں سزا دینے کے بہت خلاف تھے، مگر اس کو برداشت نہ کرسکے اور مبارک احمد کو ایک تھپڑ مارا جس سے نشان ہوگیا۔اور اظہار رنج فرمایا کہ قرآن مجید کی بے ادبی ہوئی ہے۔وہ بچہ ہے ابھی ان آداب سے واقف نہیں لیکن آپ اس کو برداشت نہیں کرسکتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی حرکت کسی سے دانستہ یا نادانستہ ایسی سرزد نہ ہو جو استخفافِ شریعت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلّم یا قرآن مجید کی ہتک اور تحقیر کا موجب ہو۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ ۲۶۴)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’اولاد سے باوجود انتہائی محبت کے اگر کوئی ایسی بات ملاحظہ فرماتے جس میں احمدیت کے لیے غیرت کا سوال ہوتا تو بے حد ناراض ہوتے۔
ایک بچی کی شادی تھی۔خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر کے سب بچے بچیوں کی شادیاں بہت ہی سادگی سے ہوئیں کبھی کوئی رسم وغیرہ نہیں ہوئی۔اُس نے سہیلیوں سے سنا کہ سہرا بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو باندھتے ہیں۔سہرا منگوا لیا۔حضورؓ کو پتہ لگا۔ ناراض ہوئے کہ ہم نے تو دنیا کے لیے نمونہ بننا ہے اور رسوم اور بدعتوں کو مٹانا ہے ابھی سہرا میرے پاس لاؤ۔آپ کے پاس پہنچا دیا گیا کہنے لگے میں ابھی جلاؤں گا تا ہمارے گھر میں آئندہ سبق حاصل ہو کہ رسم نہیں ہوگی۔آپ سہرا ہاتھ میں پکڑے ہوئے باورچی خانہ کی طرف جا رہے تھے کہ چولہے میں ڈال دیں۔راستہ میں صحن میں حضرت اُمّ المؤمنینؓ بیٹھی تھیں آپ نے دریافت فرمایا کیا معاملہ ہے؟ آپ نے سارا واقعہ بتا دیا۔حضرت اُمّ المؤمنینؓ فرمانے لگیں ’میاں شادی کا سامان تو سہاگ کی نشانی ہوتا ہے۔جلاؤ نہ پھینک دو۔‘آپ نے اس پر جلایا تو نہیں مگر قینچی منگوا کر ذرّہ ذرّہ کر کے کُوڑے کے پیپا میں ڈال دیا۔اس واقعہ میں دو بڑے سبق ہیں ایک تو یہ کہ سہرا صرف گھر میں آیا تھا لگایا نہیں گیا تھا لیکن آپ نے اس غرض سے کہ جماعت اور خاندان کی تربیت ہو وہ رسوم چھوڑیں اس کو جلانے کا ارادہ کر لیا اور دوسری طرف حضرت اُمّ المؤمنینؓ کا کتنا احترام تھا کہ جب آپ نے جلانے سے منع فرمایا تو آپ کے فرمانے کے مطابق عمل کیا۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۵۴ تا ۵۵)
ایتاء ذی القربیٰ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیشہ اپنے عزیزوں سے حسنِ سلوک فرمایا گو ان میں سے بعض حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے سخت مخالف بھی تھے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ اطلاع ملی کہ…نظام الدین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشد ترین مخالف تھے بیمار ہیں۔اِس پر حضور ان کی عیادت کے لیے بلا توقّف اُن کے گھر تشریف لے گئے۔اس وقت ان پر بیماری کا اتنا شدید حملہ تھا کہ اُن کا دماغ بھی اس سے متاثر ہوگیا تھا۔آپ نے اُن کے مکان پر جاکر اُن کے لیے مناسب علاج تجویز فرمایا جس سے وہ خدا کے فضل سے صحت یاب ہوگئے۔‘‘ (سیرت طیبہ صفحہ ۲۹۰)
اسی طرح حضرت اماں جانؓ کے والدین اور دیگر اقرباء کا بہت ہی خیال فرمایا کرتے تھے۔قادیان ہجرت کرنے کے بعد حضرت سید میر ناصر نواب صاحبؓ مع اہل و عیال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دارالمسیح میں ہی رہتے تھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بہت سے ذاتی کاموں کی نگرانی بھی فرماتے تھے اور حضور علیہ السلام کی شفقتوں سے فیضیاب ہوتے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’اِیتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی جس پر بڑا زور قرآن مجید میں دیا گیا اور کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن کےتحت جس کا عملی نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے ظاہر ہوا تھا اُس پر جو عمل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےکیا وہ عدیم المثال ہے۔مَیں نےکئی بار آپ کےمنہ سے یہ بات سنی آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ رشتہ داروں کی مدد بطور احسان کے کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نےذی القربیٰ کی مدد انسان پر فرض رکھی ہے۔تمہارےمالوں میں اُن کا حق ہے اُن کا حق اُن کو دو۔اپنےعزیز،بیویوں کے عزیز،عزیزوں کےعزیز،کوئی بھی ایسا نہیں نکلےگا کہ کسی کو کوئی ضرورت پیش آئی ہو اور آپؓ نے اُس کی طرف دستِ مروّت نہ بڑھایا ہو۔اُس کو کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی خود ہی خیال رکھا۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۳۵)
اِیتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت مصلح موعودؓ میں ایک مماثلت یہ بھی تھی کہ ان دونوں بزرگان نے اپنے سسرالی رشتہ داروں کا بہت خیال رکھا اور ان کو ہر طرح کا آرام بہم پہنچانے کی پوری کوششیں فرمائیں۔حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ ریٹائرمنٹ کے بعد قادیان منتقل ہوگئے اور دارالمسیح کے گول کمرے میں رہائش اختیار کی اور بمع فیملی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر کے فرد کے طور پر ہی رہے۔اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ بھی اپنے سسرالی رشتہ داروں سے بہت تعلق نباہتے تھے۔یہاں صرف یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی بڑی والدہ مکرمہ سیدہ شوکت سلطان صاحبہ اپنی آخری عمر میں حضرت مصلح موعودؓ کے مکان میں ہی رہائش پذیر تھیں اور اسی طرح حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کی والدہ بھی ان کے ساتھ ہی حضرت مصلح موعودؓ کے گھر میں مقیم تھیں۔
افرادِ جماعت سے محبت اور تعلق
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے دوستوں کا تعلق ہمارے ساتھ اعضاء کی طرح سے ہے اوریہ بات ہمارے روز مرہ کے تجربہ میں آتی ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے عضو مثلاً انگلی ہی میں درد ہو تو سارا بدن بے چین اوربے قرارہو جاتاہے۔اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ ٹھیک اسی طرح ہروقت اور ہر آن مَیں ہمیشہ اسی خیال اور فکرمیں رہتاہوں کہ میرے دوست ہر قسم کے آرام و آسائش سے رہیں۔ یہ ہمدردی اور یہ غم خواری کسی تکلّف اور بناوٹ کی رُو سے نہیں بلکہ جس طرح والدہ اپنے بچوں میں سے ہر واحدکے آرام و آسائش کے فکرمیں مستغرق رہتی ہے خواہ وہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں۔اسی طرح مَیں للّہی دل سوزی اورغمخواری اپنے دل میں اپنے دوستوں کے لیے پاتاہوں۔اور یہ ہمدردی کچھ ایسی اضطراری حالت پرواقع ہوئی ہے کہ جب ہمارے دوستوں میں سے کسی کا خط کسی قسم کی تکلیف یا بیماری کے حالات پر مشتمل پہنچتاہے تو طبیعت میں ایک بے کلی اور گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے اورایک غم شامل حال ہوجاتاہے۔ اور جوں جوں احباب کی کثرت ہوتی جاتی ہے اسی قدر یہ غم بڑھتا جاتاہے اورکوئی وقت ایسا خالی نہیں رہتا جب کہ کسی قسم کا فکراور غم شامل حال نہ ہو۔ کیونکہ اس قدر کثیر التعداد احباب میں سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی غم اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتاہے اوراس کی اطلاع پر ادھر دل میں قلق اور بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ مَیں نہیں بتلا سکتا کہ کس قدر اوقات غموں میں گزرتے ہیں۔چونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا اورکوئی ہستی ایسی نہیں جو ایسے ہموم اور افکار سے نجات دیوے۔ اس لیے مَیں ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہتاہوں اورسب سے مقدم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کوہموم اور غموم سے محفوظ رکھے کیونکہ مجھے تو ان ہی کے افکار اوررنج،غم میں ڈالتے ہیں۔اور پھریہ دعا مجموعی ہیئت سے کی جاتی ہے کہ اگر کسی کوکوئی رنج اور تکلیف پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے اُس کو نجات دے۔ ساری سرگرمی اور پوراجوش یہی ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاکروں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۶۶)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’جماعت کےافراد کا تو کہنا ہی کیا۔یہ حقیقت ہے کہ جماعت کے افراد آپ کو اپنی بیویوں،اپنے بچوں اور اپنےعزیزوں سے بہت زیادہ پیارےتھے۔اُن کی خوشی سے آپ کو خوشی پہنچتی تھی اور اُن کےدکھ سے میں نے بارہا آپؓ کو کرب میں مبتلا ہوتے دیکھا…
لیکن جہاں جماعت سے بے حد محبت تھی اور جو ان سے محبت رکھتےتھے ان کی قدر فرماتے تھےوہاں معمولی سی بات بھی جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو یا نظام سلسلہ کے خلاف ہو یا خلافت پر زدپڑتی ہو برداشت نہ کر سکتےتھے۔عورتوں میں جہالت سے پیروں کو احتراماً ہاتھ لگانے کی عادت ہوتی ہے۔کئی دفعہ گاؤں کی عورتیں ملاقات کے لئےآتیں تو پاؤں کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتیں۔آپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور سختی سے منع فرماتے کہ یہ شرک ہے۔مصلح موعودؓ کے متعلق پیشگوئی تھی کہ دل کا حلیم ہو گا۔کارکنوں کو صحیح رنگ میں کام نہ کرنے پر اکثر ناراض بھی ہوئے سزا بھی دی مگرمجھےمعلوم تھا کہ ناراض ہو کر خود افسردہ ہو جاتے تھے۔مجبوری کی وجہ سے سزا دیتےکہ ان کو صحیح طریق پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی عادت پڑے۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی کام وقت پر ختم نہ ہونے پر دفتر کے بعض کارکنوں کو ہدایت دی کہ جب تک کام ختم نہ ہو گھر نہیں جانا اور پھر اندر آکر کہنا کہ فلاں کے لیے کچھ کھانےکو بھجوا دو وہ گھر نہیں گیا بیچارہ دفتر میں کام کر رہا ہے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۳۵-۳۶)
آپؒ مزید تحریر کرتی ہیں کہ’’اپنی زیادہ بیماری کے ایام میں بھی کسی کی تکلیف کا معلوم ہو جاتا تو بہت کرب محسوس فرماتے تھے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۳۷)
قدیمی تعلق داروں کا خصوصی احترام
قدیمی احمدیوں اور تعلق رکھنے والوں کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں بڑا احترام تھا اور حضورؑ ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔حضرت سید فضل شاہ صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ’’ایک دفعہ میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ آئے ہوئے تھے۔جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام باہر تشریف لاتے تو مَیں دیکھتا تھا جب حضرت صاحب کسی بات میں مشغول ہیں خواہ کیسے ہی معزز آدمی سے بات کرتے ہوں مگر عبداللہ صاحب بول پڑتے تو حضرت صاحب فوراً عبداللہ صاحب کی طرف متوجہ ہوجاتے۔مجھے اس بات سے رشک پیدا ہوا کہ حضرت صاحب کو میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ سے زیادہ تعلق ہے۔جس کی وجہ سے زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔جب بھی یہ بات کرتے ہیں تبھی حضور متوجہ ہوجاتے ہیں۔دل میں یہ خیال اکثر دفعہ آتا تھا۔اتنے میں ہی حضرت صاحب میری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے آپ ان کو جانتے ہیں۔مَیں نے عرض کیا ہاں حضور جانتا ہوں۔یہ بھائی عبداللہ صاحب سنوری ہیں۔آپ نے فرمایا کیا آپ نے یہ مصرعہ سنا ہے کہ’قدیمان خود را بیفزائی قدر‘۔
یہ آپ سے بھی قدیمی ہیں۔جب کوئی ہمارے پاس نہ آتا تھا تب بھی یہ ہمارے پاس آیا کرتے تھے۔‘‘ (سیرتِ احمد مرتبہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوریؓ صفحہ ۱۷۵-۱۷۶)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’قادیان کا ذکر ہے میری شادی کے شاید ایک سال بعد کا،حضور نمازپڑھ کر مسجد سے آرہے تھے حضرت اماں جانؓ کے صحن میں کسی گاؤں کی ایک بوڑھی عورت آپ کے انتظار میں کھڑی تھی آپ آئے تو اس نےبات شروع کر دی جیسا کہ گاؤں کی عورتوں کا قاعدہ ہے کہ لمبی بات کرتی ہیں۔اس نےخاصی لمبی داستان سنانی شروع کر دی حضور کھڑے ہوئے توجہ سے سنتے رہے میری طبیعت خراب تھی میں کھڑی نہ رہ سکی پاس تخت پر بیٹھ گئی جب وہ عورت بات ختم کر کےچلی گئی تو آپ نے فرمایا کہ تم کیوں بیٹھ گئی تھیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی ماننےوالوں اور قربانی کرنے والوں میں سے ہیں۔مَیں تو اُس کےاحترام کے طور پر کھڑا ہو گیا اور تم بیٹھ گئی۔مَیں نےبتایا کہ میری طبیعت بہت خراب تھی آپ نے فرمایا طبیعت خراب تھی تو تم چلی جاتیں۔اس واقعہ سے بھی آپ کو جو جماعت کے لوگوں سے محبت تھی اس پر روشنی پڑتی ہے اور یہ بھی کہ آپ اصلاح اور تربیت کے کسی موقع کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتےتھے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۳۷)
نمازِ فجر کے بعد آرام کرنا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت اماں جانؓ روایت فرماتی ہیں کہ’’حضرت مسیح موعودؑ عام طور پر صبح کی نماز کے بعد سو جاتے تھے کیونکہ رات کا زیادہ حصہ آپ جاگ کر گزارتے تھے۔جس کی وجہ یہ تھی کہ اول تو آپ کو اکثر اوقات رات کے وقت بھی مضامین لکھنے پڑتے تھے جو عموماً آپ بہت رات تک لکھتے رہتے تھے۔‘‘ (سیرۃ و سوانح حضرت اماں جان صفحہ ۴۱۰)
حضرت مصلح موعودؓ کی روز مرہ کی زندگی پرحضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ نے روشنی ڈالی ہے۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے حضورؓ بھی صبح کی نماز کے بعد کچھ دیر آرام کرتے تھے۔کیونکہ رات کو آپ علمی و دفتری کام میں مصروف ہوتے تھے اور اس کے بعد نمازِ تہجد کے لیے بیدار ہوجاتے تھے۔(گلہائے محبت صفحہ ۲۸)
علاج کے بارےمیں طریق
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ’’علاج کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ کبھی ایک قسم کا علاج نہ کرتے تھے۔بلکہ ایک ہی بیماری میں انگریزی دوا بھی دیتے رہتے تھے اور ساتھ ساتھ یونانی بھی دیتے جاتے تھے۔پھر جو کوئی شخص مفید بات کہہ دے اس پر بھی عمل فرماتے تھے…اور ایک ہی وقت میں ڈاکٹروں اور حکیموں سے مشورہ بھی لیتے تھے اور طب کی کتاب دیکھ کر بھی علاج میں مدد لیتے تھے…اور اصل بھروسہ آپ کا خدا پر ہوتا تھا۔‘‘ (سیرۃالمہدی جلد اوّل صفحہ ۷۸۶ روایت نمبر ۹۰۶)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’دیسی طب اور ہومیوپیتھک سے بہت دلچسپی تھی۔ہر دوا میں علاج کرتے تھے۔بہت سے طب کے نسخے آپ نے تجویز کیے اُن کو آزمایا جو آج بھی محفوظ ہیں۔عام طور پرہومیو پیتھک یا دیسی طبیب اپنی دوائی دیتے وقت ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ انگریزی دوائی نہ کھانا۔آپؓ کا یہ طریق نہ تھا۔فرماتے تھے سب کھاؤ جو طریق علاج پسند ہو شفا تو اللہ تعالیٰ نے دینی ہے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۸۲)
خواب و الہامات لکھوانا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ’’جس سفر میں حضرت اُمّ المؤمنینؓ حضور کے ساتھ نہیں ہوتی تھیں۔اُس میں مَیں حضور کی قیام گاہ میں حضور کے کمرے کے اندر ہی چھوٹی سی چارپائی لےکر سو رہتا تھا۔تاکہ حضور کو رات کے وقت کوئی صورت پیش آئے تو میں خدمت کرسکوں…حضور کو جب کوئی الہام ہوتا تھا، حضور مجھے جگا کر نوٹ کروادیتے تھے۔چنانچہ ایک رات مجھے ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت نےمجھے الہام لکھنے کےلیے جگایا۔مگر اُس وقت اتفاق سے میرے پاس کوئی قلم نہیں تھا۔چنانچہ مَیں نے ایک کوئلہ کا ٹکڑا لےکر اس سے الہام لکھا۔‘‘ (ذکر حبیب صفحہ ۳۱۹)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’آپ کا دستور تھا کہ جب بھی کبھی کوئی رؤیا دیکھتےعموما ً اُسی وقت جگا کر لکھوادیتےتھے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۲۵)
طبیعت میں شگفتگی اور مزاح
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت نہایت بامذاق واقع ہوئی تھی اور بعض اوقات اپنے صحابہؓ سے خوش طبعی کے طریق پر کلام فرماتے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۳۱۸ روایت نمبر ۳۴۹)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی اپنے بچوں کو پیار سے چھیڑا بھی کرتے تھے اور وہ اس طرح سے کہ کبھی کسی بچہ کا پہنچہپکڑ لیا۔اور کوئی بات نہ کی خاموش ہورہے یا بچہ لیٹا ہوا ہو تو اس کا پاؤں پکڑ کر اس کے تلوے کو سہلانے لگے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب کی اس روایت نے میرے دل میں ایک عجیب درد آمیز مسرت و امتنان کی یاد تازہ کی ہے کیونکہ یہ پہنچہپکڑ کر خاموش ہوجانے کا واقعہ میرے ساتھ بھی (ہاں اس خاکسار عاصی کے ساتھ جو خدا کے مقدس مسیح کی جوتیوں کی خاک جھاڑنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا) کئی دفعہ گزرا ہے۔ وذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء ورنہ ’ہم کہاں بزمِ شہر یار کہاں‘۔‘‘(سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۳۰۵ روایت نمبر ۳۳۲)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارےمیں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’بچوں سے مذاق بھی فرمالیتے طبیعت میں مزاح بہت تھا۔لیکن ایسا مزاح نہیں کہ دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہو۔بامذاق طبیعت کو پسند فرماتے۔بچوں کو کئی دفعہ جادو کے تماشے بھی کرکے دکھائے۔جس سے بچے بہت محظوظ ہوتے تھے۔
اپنے بچوں کے بچوں سے بھی بہت پیار اور محبت کا سلوک کیا۔ان کی پسند کے تحائف دینے کا خیال رہتا تھا۔کسی بچہ کی خواہش کا علم ہوتا تو حتی الوسع اسے پوری کرتے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۸۲)
دلچسپ اور باموقع شعر سنانا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر کرتی ہیں کہ’’ہمشیرہ امۃ الحفیظ کے لیے ایک کھلائی کا، آپ علیہ السلام نے، کسی احمدی بھائی کو لکھ کر انتظام کروایا تھا۔پنڈی سے کسی بھائی نے ایک بہت صاف ستھری ہوشیار عورت کو بھجوادیا تھا۔وہ ساتھ تھیں، بہت معتبر معلوم ہوتی تھیں۔وفا بیگم نام تھا۔وعدہ لیا گیا تھا کہ بچی کو چھوڑ کر نہیں جانا ہوگا اور جب تک ہوشیار نہ ہوجائے اس کو پالنا ہوگا۔وفا بیگم نے بڑے وثوق سے عہد کیے تھے کہ ہرگز چھوڑ کر نہیں جاؤں گی، وغیرہ۔کام بھی اچھا کرتی تھیں۔مگر ایک روز صبح دیکھا گیا کہ وفا بیگم چپکے سے رات کو لڑکی کو چھوڑ کر غائب ہوگئیں جب یہ خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوپر پہنچائی گئی تو آپ نے فی البدیہہ فرمایا
عجب ہے رنگ دنیا کا، وفا نے بے وفائی کی
بہت وعدے کیے اس نے پر آخر میں برائی کی
آپ کا یہ شعر کہنا مجھے برابر یاد رہا ہے۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ ۲۶۳-۲۶۴)
حضرت مصلح موعود ؓکے بارےمیں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’جب ہم۱۹۵۵ء میں حضور کے علاج کے لیے یورپ گئے، ایک ہفتہ دمشق میں بھی ٹھہرے۔وہاں مکرمی بدر الحصنی صاحب جن کے گھر ہمارا قیام تھا کی ایک بیٹی اپنے بچہ کو لے کر آئیں کہ حضورؓ اس کے سر پر ہاتھ پھیر دیں اور دعا فرمادیں۔آپ ؓ نے کہا بچہ کا نام کیا ہے کہنے لگیں ہم اسے پیار سے ’’لؤلؤ‘‘ کہتے ہیں۔اس پر حضورؓ نے اُسى وقت بے ساختہ مندرجہ ذیل شعر پڑھا۔
رَاَیْتُ ظَبْیًا عَلٰی کَثِيْبٍ
یُخَجِّلُ الْوَرْدَ وَالْہِلَالَا
فَقُلْتُ مَاسْمُکْ فَقَالَ لُؤْلُؤْ
فَقُلْتُ لِی لِی فَقالَ لَا لَا
میں نے ایک ٹیلہ پہ ہرن کو دیکھا جو(اتنا خوبصورت تھا کہ وہ) گلاب کے پھول بلکہ ہلال(چاند ) کو بھی شرماتا تھا۔مَیں نے اُس سے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے تو اُس نے کہا لؤلؤ۔میں نے کہا(کیا یہ) میرے لیے ہے میرے لیے؟ تو اُس نے کہا نہیں نہیں۔
(گلہائے محبت صفحہ ۷۸)
طب سے شغف
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ’’آپ خاندانی طبیب تھے۔آپ کے والد ماجد اس علاقہ میں نامی گرامی گزر چکے ہیں اور آپ نے بھی طِب سبقاً سبقاً پڑھی ہے مگر باقاعدہ مطب نہیں کیا۔کچھ تو خود بیمار رہنے کی وجہ سے اور کچھ چونکہ لوگ علاج پوچھنے آجاتے تھے۔آپ اکثر مفید اور مشہور ادویہ اپنے گھر میں موجود رکھتے تھے نہ صرف یونانی بلکہ انگریزی بھی۔‘‘ (حیات طیّبہ صفحہ ۳۷۸)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’حکمت کے متعلق فرمایا کرتے تھے سب کو سیکھنی چاہئے یہ ہمارا خاندانی علم ہے۔اس کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔بہت سے طب کے نسخے آپ نے تجویز کیے اُن کو آزمایا جو آج بھی محفوظ ہیں۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۸۳)
ٹہلتے ہوئے پڑھنا اور لکھنا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان کرتی ہیں کہ’’وقت میں اتنی برکت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی کہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ چوبیس گھنٹہ کے شب و روز تھے کہ ۴۸ گھنٹہ سے بھی زیادہ تھے۔دن بھر بیٹھ کر بھی لکھنا اور ٹہل کر بھی لکھنا۔آپ زیادہ تر تحریر فرماتے اور ٹہلتے جاتے۔ایک اونچی تپائی پر دوات رکھی رہتی۔نب ٹیڑھی نوک کا باریک ہوتا تھا۔چلتے چلتے ہولڈر ڈبو لیتے اور لکھتے رہتے۔اسی میں دوسروں کی بات سننا جواب بھی دینا لوگوں کو دوا دارو بھی دینا اور پھر وہی روانی۔آپ کا قلم گویا خدائے کریم کے ہاتھ میں تھا۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ ۲۱۹)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’ٹہلنے کی عادت تھی اور یہ عادت آپ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آئی تھی۔گھنٹوں ٹہلتے ہوئے پڑھنا اور لکھنا۔کمرے کے اندر ہی اتنا ٹہل لیتے تھے کہ اگر ناپا جاتا تو کئی میل بن جاتا۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۸۳)
زراعت سے دلچسپی
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’حدیثوں کو پڑھو کہ وہ آخری زمانہ میں آنے والا اور اس زمانہ میں آنے والا کہ جب قریش سے بادشاہی جاتی رہے گی اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک تفرقہ اور پریشانی میں پڑی ہوئی ہوگی، زمیندار ہی ہوگا۔اور مجھ کو خداتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ مَیں ہوں۔احادیث نبویہؐ میں صاف لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک مؤیّد دین و ملّت پیدا ہوگا اور اس کی یہ علامت ہوگی کہ وہ حارث ہوگا یعنی زمیندار ہوگا۔‘‘ (آئینۂ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۰۳)
حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ تحریر کرتی ہیں کہ’’زمیندارہ سے دلچسپی خاندانی چیز تھی۔سب پیشوں میں سے یہی آپ کو پسند تھا اور اکثر اس کا اظہار فرماتے تھے کہ میری خواہش ہے کہ میرے بچے دین کی خدمت کریں اور ساتھ زمیندارہ کریں، آزاد پیشہ ہے۔اس کے ساتھ خدمتِ دین کی طرف پوری توجہ دے سکتا ہے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ ۸۳)
حضرت مسیح موعودؑ کے مندرجہ بالا اقتباس اور حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی خدمت کرنے کے لیے جتنے وقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ایک زمیندار دوسرے پیشوں سے وابستہ ہونے والوں کے مقابلہ پر زیادہ آسانی سے صَرف کرسکتا ہے۔
اپنی حرم کی طرف سے منظوم کلام لکھنا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت اماں جانؓ کی طرف سے ایک نظم تحریر فرمائی تھی، جو درثمین میں شامل ہے اور جس کا ایک مشہور شعر درج ذیل ہے؎
چُن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لیے
سب سے پہلے یہ کرم ہے میرے جاناں تیرا
اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ایک غزل حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ؒکی طرف سے لکھی تھی جس کا پہلا شعر یہ ہے ؎
کیسے بچاؤں نوح کے طوفان سے گھر کو مَیں
رکتی نہیں ہے،کیا کروں اس چشمِ تر کو مَیں
حرفِ آخر
خاکسار نے اس مختصر مضمون میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کی ایک خبر ’’وہ حُسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا‘‘ پر صرف ایک پہلو سے روشنی ڈالی ہے اور مجھے یقین ہے کہ صرف اسی فقرہ پر کئی طرح سے اور کئی پہلوؤں سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف یہی ایک الہامی فقرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے نشان کے لیے کافی ہے۔حضورؑ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے کہ
صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوفِ کردگار
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے حُسن و احسان کے واقعات بیان کرنے والے بزرگان کا ہم پر احسانِ عظیم ہے۔ان واقعات سے نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت مصلح موعودؓ کے پاکیزہ اخلاق پر ہمیں اطلاع ملی بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی ’’وہ حُسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا‘‘ کی صداقت پر بھی ایک بیّن شہادت ملی، فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ اور اس طرح ہم بھی اس پیشگوئی کی صداقت پر گواہ بن رہے ہیں۔اُن کی یہ خدمت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، ان شاء اللہ۔فجزاہم اللّٰہ احسن الجزاء فی الدنیا و الآخرۃ
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو بھی ان پاکیزہ اخلاق کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین