حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیتِ دعا کا اعجاز
استجابت کے مزے عرشِ بریں سے پوچھئے سجدہ کی کیفیتیں میری جبیں سے پوچھئے
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحفۂ گولڑویہ میں فرماتے ہیں: ’’خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کے لئے تجھ سے ہی اور تیری ہی نسل میں سے ایک شخص کھڑا کیا جائے گا جس میں میں روح القدس کی برکات پھونکوں گا۔ وہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہو گا اور مظہر الحق و العلا ہو گا گویا خدا آسمان سے نازل ہوا۔‘‘(تحفۂ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۱۸۱-۱۸۲)
نواب اکبر یار جنگ بیان کرتے ہیں: (۱۹۱۶ء موسم گرما کی تعطیلات میں)… ’’حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ مسجد مبارک کی چھت پر بعد نمازِ مغرب امامت کے مصلیٰ پر ہم لوگوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے تھے اور کئی لوگ حضورؓ کے ہاتھ اور پاؤں داب رہے تھے۔ میں آپ کے سامنے کچھ فاصلہ پر خاموش بیٹھا رہا۔ آپ بھی آنکھیں نیچی کئے ہوئے خاموش بیٹھے رہے۔ میں کھلی آنکھوں سے سامنے بیٹھا ہوا آپؓ کو دیکھ رہا تھا۔ نہ مَیں نے کوئی مراقبہ کیا تھا۔ نہ گردن جھکائی تھی کہ دفعۃً میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی پشت پر نمودار ہوئے اور میرے دیکھتے دیکھتے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے اندر اس طرح سما گئے جس طرح کوئی ہتھیار اپنے نیام میں سما جاتا ہے۔ …اس نظارہ کے ذریعہ سے میرے دل میں یہ اِذْعان پیدا کیا گیا کہ گویا اپنی جماعت کا کام خود حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہی انجام دے رہے ہیں۔‘‘(بیان نواب اکبر یار جنگ بہادر۔ الفضل جوبلی نمبر صفحہ ۱۴)
الغرض جہاں اللہ تعالیٰ نے خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور اور ان سے وابستہ برکات کو قیامت تک کے لیے دوام بخش دیا وہاں ان الفاظ کو حضرت اقدسؑ کی نسل میں سے ایک عظیم الشان وجود حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات میں من و عن پورا بھی فرمادیا۔ آپؓ کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرنے سےقدم قدم پر آپؓ کے ساتھ روح القدس کی برکات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ آپؓ کی پاک باطنی اور خدا تعالیٰ سے نہایت پاک تعلق کا ثبوت آپ کی خارق عادت قبولیتِ دعا سے عیاں ہوتا ہے۔ آپؓ نے ایک جانب ’’اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف‘‘ فرمایا تو دوسری جانب مختلف مسائل میں گھرے ’’اسیروں کی رستگاری کا موجب‘‘ بنے اور اس لحاظ سے خدا تعالیٰ کی ’’قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان‘‘ ثابت ہوئے۔ آپ کی دعا تیر کی طرح ایسے نشانے پر لگتی گویا ’’مظہر الحق والعلا کَانّ اللّٰہ نزَلَ من السماء‘‘ کے الفاظ کی تفسیر ہو۔ ذیل میں قارئین کے ازدیادِ ایمان کی خاطر حضرت مصلح موعودؓ کی حیاتِ مبارکہ سے قبولیتِ دعا کے بعض واقعات بطور مشتے از خروارے پیش ہیں۔
یہ دعا رائیگاں ان شاء اللہ نہیں جائے گی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی حرم محترم حضرت سیدہ مہر آپا حضرت فضلِ عمر رضی اللہ عنہ کی قبولیتِ دعا کا ایک واقعہ تحریر کرتی ہیں: ’’ایک اور واقعہ زمانہ قریب کا ہے جو اس مستجاب الدعوات کی شانِ نزول کا شاہد ہے۔ پارٹیشن کے بعد خاص مشکلات کا سامنا رہا۔ اسلام دشمنی کے سند یافتہ کب پیچھا چھوڑ سکتے تھے۔ محض اور محض احمدیت کی دشمنی کی بناء پر جب عزیز محترم میاں ناصر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثالثؒ …) اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قید کر لیا گیا آپؓ کا پریشان ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپؓ اس لحاظ سے ضرور مطمئن تھے کہ میرا بیٹا اور بھائی محض اس جرم میں ماخوذ ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور دینِ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے علمبردار ہیں۔ اور دین کے راستہ میں آزمائش بھی سنتِ نبویؐ ہے۔
گرمیوں کے دن تھے اور پھر ربوہ کی گرمی۔ عشاء کے وقت ہم حسبِ معمول صحن میں تھے۔ باوجود اوپر کی منزل میں ہونے کے گرمی کی شدّت میں کمی نہ تھی۔ رات کا کھانا ہم اکٹھے کھا رہے تھے۔ اس دوران میں آپؓ نے گرمی کی شدت اوراس سے بےچینی کا اظہار فرمایا۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا ’’پتہ نہیں میاں ناصر(خلیفۃ المسیح الثالثؒ) اور میاں صاحب کا اس گرمی میں کیا حال ہو گا؟ خدا معلوم انہیں وہاں (جیل میں) کوئی سہولت بھی میسر ہے یا نہیں۔ آپؓ نے جواباً فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے وہ صرف اس جرم پر ماخوذ ہیں کہ ان کا کوئی جرم نہیں۔ اس لئے مجھے اپنے خدا پر کامل یقین و ایمان ہے کہ وہ جلد ہی ان پر فضل کرے گا۔‘‘
اس کے بعد میں نے دیکھاکہ آپؓ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپؓ عشاء کی نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ گریہ و زاری کا وہ منظر میں بھول نہیں سکتی۔ میں اس کیفیت کو قلم بند نہیں کر سکتی جو اس وقت میری آنکھوں نے دیکھا۔ اس گریہ میں تڑپ اور بے قراری بھی تھی، اس میں ایمان و یقین کامل کا بھی مظاہرہ تھا، اس میں ناز اور ناز برداری کی سی کیفیات بھی تھیں۔ یہی منظر پھر میں نے تہجد کے وقت دیکھا۔ اس وقت حضرت مصلح موعودؓ دعائیں بلند آواز سے نہایت عجز اور رقّت کے ساتھ مانگ رہے تھے۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ ساری فضا سوز اور آپؓ کے اس درد و کرب میں ڈوبے ہوئے نالہ و شیون نے مجھ میں ایک ایسا ایمان و یقین پیدا کر دیا کہ میں برملا کہنے لگی کہ یہ دعا رائیگاں ان شاء اللہ نہیں جائے گی۔ اس نے عرش کے پائے ہلا دیئے ہوں گے۔ ضرور ہی دن چڑھتے چڑھتے اللہ تعالیٰ نوید سنائے گا۔ آپؓ کی یہ دعا رات کے سکوت میں اس قدر بلند تھی کہ میں سمجھتی تھی کہ یہ آواز ہمارے اردگرد بچوں کے گھروں تک ضرور پہنچی ہو گی۔
چنانچہ جب دن چڑھا اور ڈاک کا وقت ہوا تو پہلا تار جو ملا وہ یہ خوشخبری لئے ہوئے تھا کہ حضرت میاں صاحب اور عزیز محترم میاں ناصر احمد صاحب رہا ہو چکے ہیں۔ کتنی جلدی میرے خدا نے مجھے قبولیتِ دعا کا معجزہ دکھایا۔ الحمدللہ‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ، فضلِ عمر نمبر ۱۹۶۶ء صفحہ الف، ب)
مَیں دعاکروں گا اور انشاء اللہ اس کے ہاں اولاد ہوگی
مکرم ظہور احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ’’خلافت ثانیہ کاابتدائی زمانہ تھا۔میرے والدمرحوم جناب منشی امام الدین صاحبؓ ان دنوں موضع لوہ چپ میں جوقادیان سے چار میل کے فاصلہ پرجانبِ غرب واقعہ ہے ملازم تھے۔ پاس ایک گاؤں بھاگی ننگل ہے۔ وہاں ایک شخص لچھمن سنگھ رہتاتھا جوابھی تک زندہ ہے۔ اس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن اس نے کہاکہ میرے لئے اپنے حضرت صاحب سے دعا کروائیں کہ خدا مجھے لڑکا دے دے۔ اگر مرزاصاحب سچے ہوں گے تومیرے ہاں اولاد ہوجائے گی۔
والدصاحب مرحوم ومغفور قادیان آئے۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حضورسارا واقعہ عرض کردیا۔حضور نے فرمایا مَیں دعاکروں گا اور انشاء اللہ اس کے ہاں اولاد ہوگی۔ والد صاحب نے اسے یہ خوشخبری سنادی کچھ عرصہ کے بعدا س کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کانام اوردھم سنگھ ہے۔یہ لڑکا میٹرک پاس کر چکاہے اور اپنے گاؤں میں پہلا نوجوان ہے جس نے اتنی تعلیم حاصل کی ہے۔
جلسہ سالانہ قریب تھا۔ لوگ کثرت سے پیدل اور یکّوں میں قادیان آتے تھے۔ لچھمن سنگھ نے اسی خوشی میں بٹالہ سے آنے والی سڑک پر احمدی دوستوں کو [جو]قادیان آتے تھے گنوں کا رس پلایا۔ میں ان دنوں چھوٹا بچہ تھا۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے اسے ایک کاغذ پر یہ واقعہ لکھ کر دیا تھا تاکہ وہ اسے سڑک پر آویزاں کر دے اور آنے والے دوست اسے پڑھ سکیں۔ والد صاحب اس واقعہ کا ذکر بعد میں بھی فرمایا کرتے تھے۔ اس کاغذ پر سارا واقعہ لکھ دیا گیا تھا کہ یہ شخص اس خوشی کا اظہار اس طرح کر رہا ہے کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے احباب کو رَس پلائے۔ دوست اس لیے بھی اس کی دعوت قبول کریں تا کہ وہ اس واقعہ کے گواہ رہیں۔ گو اس واقعہ کو کافی عرصہ گزر چکا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ کئی دوست ہماری جماعت میں ایسے ہوں گے جنہیں یہ واقعہ یا دہو گا۔ ‘‘ (الحکم جوبلی نمبر۲۰ دسمبر ۱۹۳۹ء جلد نمبر۴۲)
قارئینِ کرام کے لیے یہ بات دلچسپی کا باعث ہو گی کہ الفضل ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسی واقعہ کا ذکر موجود ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ نہ صرف لچھمن سنگھ بلکہ اس کا بیٹا بھی گنے کا رس پلا کر جذباتِ تشکّر کے ساتھ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی خدمت کرتا تھا۔ چنانچہ الفضل ۲۸؍ دسمبر ۲۰۱۸ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون ’’یادیں جلسہ سالانہ ربوہ کی‘‘ میں مضمون نگار تحریر کرتے ہیں: ’’تقسیم ہند سے پہلے لوگ دور نزدیک سے پیدل میلوں سفر طے کر کے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوتے تھے۔ میرے والد صاحب اکثر بتایا کرتے تھے کہ ہم کچھ احمدی اکٹھے ہو کر داتہ زید کا (سیالکوٹ) سے بدوملہی اور وہاں سے پھر دریائے راوی کو جو سردیوں میں خشک ہو جاتا تھا اور کہیں کہیں تھوڑا پانی کھڑا ہوتا تھا عبور کر کے بستی بستی گزر کر قادیان جلسہ پر پہنچا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام [غالباً مراد حضرت مصلح موعودؓ ہیں]کی قبولیتِ دعا کا ایک اسی سفر کے دوران ہر سال پیش آنے والا واقعہ بڑے مزے سے سنایا کرتے تھے کہ ایک جگہ سے جب ہم گزرتے تو وہاں ایک سکھ بیٹھے ہوتے تھے۔ ساتھ ان کے کھیت تھے جہاں گنا کاٹ کر اس کا ویلنے پر رس نکالا جا رہا ہوتا اور وہ ہر جلسہ پر جانے والے کو روکتے اور کہتے یہ گنے کا رس پی کر جائیں۔ ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو بتایا کہ میرے والد کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ شادی کو ایک لمبا عرصہ گزر چکا تھا۔ کسی نے میرے والد کو کہا کہ تم مرزا قادیان والے کے پاس جائو ان سے دعا کروائو تو اللہ تمہیں اولاد دے دے گا۔ چنانچہ میرے والد مرزا صاحب کے پاس قادیان گئے اور دعا کے لئے کہا۔ مرزا صاحب نے دعا کا وعدہ کیا اور فرمایا میرا اللہ تمہیں اولاد عطا فرمائے گا۔ چنانچہ مرزا صاحب کی دعا قبول ہوئی اور اللہ نے میرے والد کو بیٹا دیا۔وہ بیٹا مَیں ہوں۔ میں مرزا صاحب کی دعا سے پیدا ہوا۔ اب میرا اتنا تو فرض ہے کہ میں ان کے مریدوں کی یہ تھوڑی سی خدمت کروں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍ دسمبر ۲۰۱۸ء صفحہ ۹)
’’اچھا دعا کروں گا‘‘
سیّد اعجاز احمد شاہ صاحب انسپکٹر بیت المال کہتے ہیں: ’’۱۹۵۱ء کا واقعہ ہے کہ مَیں ربوہ تھا۔ مجھے برادرخورد عزیزم سیّد سجاد احمد صاحب کی طرف سے جڑانوالہ سے تار ملا۔ ’’والد صاحب کی حالت نازک ہے جلدی پہنچو۔‘‘ نماز مغرب کے قریب مجھے تار ملا۔ مغرب کی نماز مَیں نے گھبراہٹ کے عالم میں ادا کی۔ جب حضورؓ نماز پڑھا کر واپس تشریف لے جانے لگے تو مَیں نے عرض کیا۔ ’’جڑانوالہ سے چھوٹے بھائی کا تار ملا ہے۔ ابا جی کی حالت نازک ہے۔ کل صبح جاؤں گا۔ حضور دعا فرماویں‘‘۔ حضور نے فرمایا ’’اچھا دعا کروں گا‘‘۔ حضور پُرنور کے ان چار لفظوں میں وہ سکینت تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ اگلی صبح کو جڑانوالہ پہنچا۔ والد صاحب محترم چارپائی پر حسبِ معمول پان چبا رہے تھے۔ بھائی سے شکوہ کیا کہ تم نے خوامخواہ تار دے کر پریشان کیا تو اُس نے کہا کہ کل مغرب کے بعد سے ابا جی کی حالت معجزانہ طور پر اچھی ہونی شروع ہوئی اور خطرہ سے باہر ہوئی ورنہ مغرب سے پہلے سب علاج بے کار ثابت ہو کر حالت خطرہ والی از حد تشویشناک تھی۔ پھر مَیں نے بتلایا کہ مَیں نے کل مغرب کے بعد حضور سے عرض کیا تھا۔‘‘(روزنامہ الفضل ۱۷؍ اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۴)
شادی کے ساڑھے آٹھ سال بعد اولاد کی نعمت
ایک لمبا عرصہ بطور ایڈیٹر الفضل خدمات سرانجام دینے والے سلسلے کے ایک مخلص اور فدائی خادم مکرم خواجہ غلام نبی صاحب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قبولیتِ دعا کا ایک روشن نشان بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ’’دسمبر ۱۹۱۴ء کو حضرت (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) نے میرا نکاح پڑھا جس کا حضور نے خود ہی انتظام فرمایا تھا۔ اس کے بعد کئی سال تک اولاد نہ ہوئی اور نہ ہی کبھی میں نے اس کے لئے دعا کی درخواست کی، اس خیال سے کہ حضور کو معلوم ہی ہے۔ حتیٰ کہ ۱۹۲۲ء میں حضور کا ایک مکتوب اخبار میں اشاعت کے لئے ملا جس میں درخواستِ دعا نہ کرنے کے متعلق چند باتیں درج تھیں۔ …یہ خط (جو ۲۲؍ مئی ۱۹۲۲ء کے ’’الفضل‘‘ میں شائع کیا گیا) پڑھتے ہی مجھے خیال آیا کہ ان شقوں میں سے کسی نہ کسی کے نیچے میں ضرور آتا ہوں اور اسی وقت میں نے اولاد کے لئے درخواستِ دعا لکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کی۔ اس کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بالکل غیر معمولی طور پر ایسی علامات ظہور پذیر ہونے لگیں جن کے صادق ہونے کا یقین نہ آتا تھا اور آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ۲۳؍ جولائی ۱۹۲۳ء کو شادی کے ساڑھے آٹھ سال بعد لڑکی عطا فرمائی۔ اس کی ولادت کی اطلاع جب میں نے حضورؓ کو دی اور نام تجویز کرنے کی درخواست کی تو حضور نے کنیزاحمد نام تجویز کر کے تحریر فرمایا ’’اللہ تعالیٰ مبارک کرے اور آئندہ فضلوں کا پیش خیمہ بنائے۔‘‘
اس دعا نے گویا میرے لئے خدا تعالیٰ کے مزید فضلوں کا دروازہ کھول دیا۔ اور دینی و دنیوی لحاظ سے میں نے اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے اس قدر افضال دیکھے اور دیکھ رہا ہوں جن کا شمار بھی مشکل ہے۔ یہ حضرت (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) کی قبولیتِ دعا کا ایک کرشمہ ہے…۔ (الفضل ۲۸؍ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۳)
اپنی لائن میں باوجود کم علم ہونے کے اعلیٰ عہدے پر فائز کر دیا گیا
حضرت مصلح موعودؓ کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی ترقی کے حصول کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے مکرم عبدالرحیم صاحب ہیڈ ڈرافٹسمین لاہور لکھتے ہیں: ’’۱۹۳۲ء کے آخر میں جب ہائیڈرو الیکٹرک کی تعمیر ختم ہونے کو تھی مجھے نوٹس ملا کہ یا تو میں چھوٹا گریڈ منظور کر لوں یا نوکری چھوڑ دوں۔ اس وقت میں ۲۶۴ روپے ماہوار لے رہا تھا اور چھوٹا گریڈ حاصل کرنے کے معنی تھے کہ ۱۱۵ روپے منظور کروں۔ میں نے حضرت (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) کی خدمت میں دعا کی درخواست کی اور ساتھ ہی عرض کیا کہ کیا میں چھوٹا گریڈ منظور کر لوں؟ چند دن کے بعد دفتر ڈاک کی طرف سے جواب ملا کہ حضور نے دعا فرمائی ہے لیکن اس بات کا کوئی جواب نہ تھا کہ میں چھوٹا گریڈ منظور کر لوں یا نہیں۔ اس کے بعد میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور نے گریڈ کم ہو جانے کے متعلق دریافت کیا تو میں نے عرض کیا زمینی فیصلہ تو ہو چکا ہے آسمانی کا مجھے علم نہیں۔ حضور دعا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا ہاں میں دعا کروں گا۔ اس وقت مجھے پورا یقین ہو گیا کہ گو پنجاب گورنمنٹ فیصلہ کر چکی ہے لیکن اسے اپنے فیصلہ میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ چنانچہ میرے ربّ نے اپنے محبوب کی دعا کو سنا اور باوجود مایوس کُن حالات کے مجھے اسی گریڈ پر مستقل کر دیا بلکہ میرے اختیارات پہلے سے بھی زیادہ کر دیئے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
یہ حضور ہی کی دعاؤں کا صدقہ ہے کہ میں اپنی لائن میں باوجود کم علم ہونے کے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوں۔‘‘ (الفضل ۲۸؍ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۲)
موت ٹلتی نہیں مگردعاسے
حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی الٰہ دین صاحب آف سکندرآباد الحکم قادیان کی ایک اشاعت میں تحریر فرماتے ہیں:’’۱۹۱۸ء میں مَیں نے اپنے لڑکے علی محمدصاحب اور سیٹھ الٰہ دین ابراہیم بھائی نے اپنے لڑکے فاضل بھائی کو تعلیم کے لئے قادیان روانہ کیا۔علی محمدنے ۱۹۲۰ء میں میٹرک پاس کرلیا۔ان کو لنڈن جاناتھا۔دونوں لڑکے مکان میں واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے کہ یکایک فاضل بھائی کو ٹائیفائیڈ (typhoid)بخار ہوگیا۔نورہسپتال کے معزز ڈاکٹر جناب حشمت اللہ خان صاحبؓ اور حضرت خلیفہ رشید الدین صاحبؓ نے جو کچھ ان سے ہوسکا کیا۔طبیعت درست بھی ہوگئی مگر بدپرہیزی کے بعد پھر ایسی بگڑی کہ زندگی کی کوئی امید نہ رہی۔جب یہ خبر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی کو پہنچی توحضور خود بورڈنگ تشریف لائے اور بہت دیر تک دعافرمائی۔ اس کے بعد طبیعت معجزانہ طور پرسدھرنے لگی اور خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے فاضل بھائی کو نئی زندگی حاصل ہوگئی۔یقیناًحضرت رسول کریم ﷺ نے یہ جو فرمایاکہ موت نہیں ٹلتی مگر دعا سے۔یہ حقیقت ہم نے صاف طور پر اپنی نظر سے دیکھی۔‘‘(الحمدللہ)(الحکم ۲۶دسمبر۱۹۳۹ء صفحہ۳۷)
دعا سےhopeless کیس کا علاج
حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی الٰہ دین صاحبؓ تحریر فرماتے ہیںکہ’’میری تیسری لڑکی عزیزہ ہاجرہ بیگم کے پیٹ میں یکایک در د ہوگیا ہم نے اپنے قریب رہنے والے سرکاری خطاب یافتہ ڈاکٹر کوجو آنریری مجسٹریٹ بھی ہیں بلوایا۔انہوں نے دیکھ کر کہاکہ لڑکی کے پیٹ میں پیپ ہوگیاہے فورًا آپریشن کرکے نکال دیناچاہئےورنہ جان کا خطرہ ہے۔دسمبر کا مہینہ تھا مجھے قادیان جلسہ سالانہ پر دوایک روزمیں جانا تھا اور یہاں یہ حالت ہوگئی۔ پھر ہم نے یہاں کے ہاسپٹل کے بڑے یورپین ڈاکٹرکو بلوایا۔ اس نے خوب معائنہ کیااور کہا کہ نہ پیپ ہے اور نہ آپریشن کی ضرورت۔ہم سب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور خداتعالیٰ کا شکر اداکیامگر وہ ڈاکٹر اپنی رائے پر ہی اڑارہاکہ پیپ یقیناً ہے فورًا آپریشن کی ضرورت ہے اس کے بغیر اگر یہ لڑکی بچ جائے تو میں اپنی ڈاکٹری چھوڑدوں گا۔مگر ہم نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ میں دوسرے دن قادیان روانہ ہوگیا۔وہاں سے واپس آنے تک لڑکی اچھی رہی۔مگر اس کے بعد یکایک لڑکی کی ناف میں سوراخ ہوگیا او را س قدر پیپ نکلاجس کی کوئی حد نہیں۔ہم نے پھر اسی ڈاکٹر کو بلوایاجس نے کہا تھاکہ پیپ ہے۔اب ہم آپریشن کے لئے بھی رضامند ہوگئے مگر ڈاکٹر نے کہا کہ لڑکی کی حالت نازک ہوگئی ہے اب آپریشن کا وقت نہیں رہا۔اب یہ کیس hopeless ہوگیا ہے۔ہم نے دیکھااب کوئی علاج نہیں سوائے دعاکے۔میں نے فورًا ایک تار حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں اور دوسر االفضل کو روانہ کیااور پھر ایک بارحضور کی دعا کا معجزہ دیکھاکہ بغیر کسی ڈاکٹری علاج کے لڑکی صرف ایک معمولی سی دوائی سے صحت پاگئی۔الحمدللہ ثم الحمدللہ‘‘ (الحکم ۲۸دسمبر۱۹۳۹ء صفحہ۳۷)
اگر مجھے مصیبت سے نجات مل گئی تو میں احمدی ہو جاؤں گا
روزنامہ الفضل ۱۰؍ ستمبر ۱۹۳۱ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی قبولیت دعا کا تازہ نشان کے عنوان سے مندرجہ ذیل ایمان افروز واقعہ درج ہے: ’’چند دن ہوئے بنگال سے ایک نوجوان عبدالحفیظ صاحب دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان میں آئے۔ وہ اپنے خاندان میں اکیلے ہی احمدی تھے اور ان کے دوسرے بھائی ان کے سخت مخالف تھے۔ یہاں آنے کے بعد ان کے بڑے بھائی خوندکر عبدالرب صاحب… نے خط لکھا کہ میں ایک مصیبت میں مبتلا ہوں۔ تم اپنے حضرت صاحب سے دعا کراؤ کہ میں اس مصیبت سے نجات پا جاؤں۔ اگر مجھے نجات حاصل ہو گئی تو میں جماعت احمدیہ میں داخل ہو جاؤں گا۔
عبدالحفیظ صاحب نے ان کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے دعا کی درخواست کی۔ اور حضورؓ نے تسلی دلائی۔ اس کی اطلاع انہوں نے اپنے بھائی کو بھیج دی۔ اب ان کی طرف سے خط آیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:
I have been safe from the trouble by the grace of Allah and the dowa of Hazoor (His Holiness). I accepted the ahmadia on the very moment when I was safe from the trouble.
یعنی میں خدا کے فضل اور حضرت صاحب کی دعا سے بچ گیا ہوں اور میں نے اس وقت احمدیت قبول کر لی جس وقت مجھے اس مصیبت سے نجات حاصل ہوئی۔‘‘(الفضل ۱۰؍ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۷)
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی دعا سے مہلک بخار میں مبتلا بچی صحت یاب ہو گئی
الفضل ۲۶؍ جولائی ۱۹۴۵ء میں سیرالیون احمدیہ مشن کی سالانہ رپورٹ کے تحت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قبولیتِ دعا کا درج ذیل واقعہ درج ہے:’’…السید امین خلیل شامی جو کہ یہاں کے شامیوں میں سے ہمارے سب سے زیادہ دوست اور احمدیت کے قریب ہیں اور مشن کو مالی امداد دینے میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ ان کی چھوٹی لڑکی ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئی اور اُسے Black Water Fever جو کہ یہاں کی سب سے زیادہ مہلک بیماریوں میں سے ہے ہو گیا۔ اس بیماری کا مریض عام طور پر چوبیس گھنٹے میں مر جاتا ہے اور صرف دس فیصدی بچنے کا امکان ہوتا ہے۔ انہوں نے کافی علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر لڑکی قریب المرگ ہو گئی۔ اُس وقت خاکسار نے ان کو دعا کی طرف متوجہ کیا اور حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ کو دعا کے لئے تار دیا اور حضور کی دعا کی برکت سے وہ مرتی ہوئی لڑکی اللہ تعالیٰ نے ان کو واپس دیدی۔تار دینے کے دوسرے دن جبکہ میں لڑکی کی حالت دیکھنے کے لئے گیا تو عجیب نظارہ دیکھا۔ میں تو راستے میں خیال کر رہا تھا کہ خدا جانے لڑکی کی اب کیا حالت ہے اور زندہ بھی ہے یا مر چکی ہے؟کیونکہ گزشتہ رات کو میں اُسے بہت خطرناک حالت میں چھوڑ کر گیا تھا۔ لیکن جونہی میں اُن کے گھر میں داخل ہوا میں نے دیکھا کہ لڑکی چارپائی پر بیٹھی اپنے چھوٹے بھائی سے کھیل رہی ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ کی دعا کے ذریعے معجزانہ طور پر وہ لڑکی بچا لی۔ واِنّ فِی ھَذ الْاٰیَۃ لِمَن کَذَّبَ الخِلافۃَ و تولّٰی (روزنامہ الفضل قادیان ۲۶؍ جولائی ۱۹۴۵ء صفحہ ۴)
چند ہی دن بعد قبولیت دعا کے آثار ظاہر ہو گئے
عبدالمجید عزیز، پلگاؤں۔ سی۔ پی نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تحریر کیا کہ ’’نہایت مودبانہ گذارش ہے کہ بندہ نے حضور کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہے۔ دعا فرمائی جائے۔ چند ہی دن بعد قبولیت دعا کے آثار ظاہر ہو گئے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ مجھے یا میری بیوی کو ہر گز امید نہ تھی۔ بلکہ میں تو مایوس سا ہو چکا تھا۔ یہ بات جہاں پر اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی مہربان ہونے کا ثبوت ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے متعلق عقل کو حیران کر دینے والی بات ہے۔ وہاں یہ حقیقت بھی ثابت کر دیتی ہے کہ حضور والا صفات کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر معمولی تعلق ہے۔ اور رب السمٰوٰت والارض آپ کے ساتھ بے انتہا محبت کرتا ہے کیونکہ اس نے حضور کی دعا کو شرفِ قبولیت فرما کر مجھ جیسے ادنیٰ انسان کو اپنے احسان سے سرفراز فرمایا۔‘‘(روزنامہ الفضل ۴؍ اگست ۱۹۴۵ء صفحہ ۲)
مجھے جو شفا ہوئی وہ محض حضور کی معجزانہ دعا کا اثر تھا
روزنامہ الفضل قادیان ۳۰؍ مارچ ۱۹۴۵ء کے صفحہ اول پر خدا تعالیٰ کی جانب سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف فحش گوئی کرنے والے ایڈیٹر روزنامہ ’’حریت‘‘ پر قولنج کے غیرمعمولی حملے اور اُس کے درد سے متاثر ہو کر خودکشی کے لیے تیار ہونے کا ذکر آیا۔ اس پر محترم ملک حبیب الرحمٰن صاحب اے۔ڈی۔آئی سکولز کبیر والا نے الفضل ۱۰؍ اپریل ۱۹۴۵ء میں ایڈیٹر صاحب کو اس شدید بیماری کا روحانی علاج تجویز کرتے ہوئے اپنا ذاتی تجربہ کچھ یوں تحریر کیا: ’’دسمبر ۱۹۳۷ء میں مجھے قولنج کے درد کا دورہ شروع ہؤا۔ اور اپریل ۱۹۳۹ء تک ہر ماہ باقاعدگی سے ہوتا رہا۔ درد کی شدت یقیناً اتنی ہی تھی جتنی کہ ایڈیٹر صاحب حریت نے اپنے بیان میں تحریر کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاک تعلیم کے طفیل خود کشی تو کجا میں اپنی تندرستی سے بھی کبھی مایوس نہیں ہؤا۔ اسی دوران میں مَیں نے بے شمار ڈاکٹری و یونانی علاج کئے لیکن ذرا بھر بھی فائدہ نہ ہؤا۔ حتیٰ کہ ماہ اپریل ۱۹۳۹ء میں مَیں وکٹوریہ جوبلی ہسپتال امرت سر میں داخل ہو گیا۔ جہاں ماہرین فن نے بتلایا کہ میرے اپنڈکس اور پتے کا اپریشن ہو گا تب میں اس موذی مرض سے نجات پا سکوں گا۔ یہ رائے حاصل کر کے میں سیدھا قادیان دارالامان حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچا۔ اور بیماری کا مفصل ذکر کر کے دعا کے لئے درخواست کی جس پر حضور نے فرمایا ان شاء اللہ ہم دعا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ شفا دے گا۔ بعدہٗ میں واپس چلا آیا۔ اور اپریشن کا خیال چھوڑ دیا۔ اور حسبِ سابق ملتان کے ایک حکیم صاحب سے ایک معمولی سی دوا اور عرق لیکر استعمال کیا۔ اور بیماری کے دورے کے انتظار میں رہا۔ لیکن حضور کی معجزانہ دعا کا یہ اثرا ہؤا کہ ماہ اکتوبر تک مجھے کوئی دورہ نہ ہؤا۔ البتہ اکتوبر میں ایک دفعہ پھر درد اٹھا مگر اس کے بعد سے آج تک باوجود سخت سے سخت بدپرہیزی کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی پیٹ بھی نہیں دُکھا۔ حالانکہ تمام دنیا جانتی ہے کہ اپنڈکس اور پتہ کی بیماری بغیر اپریشن کے درست ہو ہی نہیں سکتی۔ مزید یہ کہ اس کے بعد میرے تین دوستوں کو اسی مرض کا شدید دورہ ہؤا۔ اور انہوں نے میرے کہنے پر انہی حکیم صاحب سے وہی دوا لے کر استعمال کی۔ لیکن ان میں سے کسی کو اس سے ذرہ بھر بھی افاقہ نہ ہؤا۔ یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ مجھے جو شفا ہوئی وہ محض حضور کی معجزانہ دعا کا اثر تھا۔ واِلّا کوئی دوا کارگر نہ ہوئی تھی۔ پس میں ایڈیٹر صاحب حریت کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ وہ بھی یہ نسخہ آزما دیکھیں۔ اور اسی پر ہی کیا انحصار ہے ہم نے تو قدم قدم پر حضور کی دعاؤں کا اثر دیکھا۔ اور ہر احمدی کو اس کا بیسیوں دفعہ تجربہ ہو چکا ہے۔ پس اگر وہ صدقِ دل سے آئیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں ناکام نہیں رکھے گا۔‘‘ (روزنامہ الفضل ۱۰؍ اپریل ۱۹۴۵ء صفحہ ۵)
تھوڑے دنوں بعد دریانے پلٹا کھایا
خداتعالیٰ کے پیاروں کی دعاؤں سے دریابھی کس طرح اپنے رخ پھیر لیاکرتے ہیں ۔اس ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ کی دعااور اس کی قبولیت کاذکرکرتے ہوئے حضرت چودھری غلام محمدصاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑتحریرفرماتے ہیں:’’میں تحصیل نکودر میں موضع برہمیان ارائیں قوم کے گاؤں میں عرصہ تک رہا۔ وہاں ایک مسجد تھی۔ عام طورپر لوگ نماز پڑھتے تھے ۔رات کے کسی حصہ میں مَیں جب بھی مسجد میں گیا تومیں نے کسی نہ کسی کو نمازپڑھتے یاوضوکرتے پایا۔مسجدکبھی خالی نہ ہوتی تھی ۔ میں اکثرنماز کے لئے وہاں جاتا اور لوگوں کو اپنے مطلب کی باتیں سناتا۔ مولوی لوگ بھی اکثر وہاں پندونصیحت کے لئے آتے لوگوں کووعظ سناتے۔میرا مکان بھی مسجد کے نزدیک تھا میں بھی اکثر ان کاوعظ سننے کے لئے مسجد میں چلا جاتا۔ میں مولوی صاحبان سے تبادلۂ خیالات کے لئے لوگوں کو بلاتا مگر کوئی ادھر توجہ نہ کرتا۔ تاہم میں تبلیغ ضرور کرتا۔ آخرخدا نے ان لوگوں کو آن پکڑا۔ یوں ہو اکہ دریا نے ان کو گھیرا۔ دریا زمین کو گرانے لگا۔ زمین بہت زرخیز تھی۔ زمینداروں کے نقصانات کو دیکھ کر لوگ تڑپ رہے تھے۔ گلیاں اورمکانات لکڑیوں سے اٹے پڑے تھے کیونکہ جہاں دریا ڈھا لگاتا لوگ درخت کاٹ کاٹ کر لے آتے۔ مَیں اکثر نمازوں کے لئے مسجد جاتا تو لوگوں کوقادیان جاکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے دعاکرانے کے لئے کہتا۔لوگ کہتے اگر ہم قادیان گئے تودوسرے لوگ ہمیں کافر کہنے لگیں گے۔ میں کہتا تم اپنی مرضی دیکھو۔ آخر دو آدمی میرے پاس آئے کہ ہم کودعاکے لئے خط لکھ دو۔ وہ لے کر چلے گئے۔جالندھر شہر میں ان کی رشتہ داری تھی۔ وہ پہلے دن رات جالندھر میں رہے۔ دوسرے دن نمازِظہر سے پہلے قادیان پہنچ گئے اورحضرت صاحب کو میرا عریضہ دے دیا اور خود زبانی بھی عرض کیاکہ حضور ہمارے لئے دعا کریں ۔ حضور پُرنورؓ نے فرمایا کہ جب میں نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں آیا کروں اونچی آواز سے ضرور یاد کرا دیا کرنا۔ ظہر، عصر،مغرب، عشاء ان کے لئے دعاہوئی۔وہ رات کو سوگئے۔ ان کو دریا کے نقصان سے بچاؤ کی اطلاع خواب کے ذریعے مل گئی۔پھر کیا تھا صبح کی نماز کے لئے وہ مسجد میں آئے توحضرت اقدس کو اپنا خواب سنایا کہ ہمارا تویقین ہوگیاہے کہ حضور پُرنور کی دعامنظور ہوگئی ہے۔ ہمیں جانے کی اجازت دے دیں ہمیں بڑی فکرہے۔ اجازت لے کر وہ گھر واپس لوٹے توراستے میں جوکوئی ان سے ملتا۔ ان کوالٹی خبر سناتا مگر ان کا یقین کم نہ ہوا۔سیدھے مسجد میں پہنچے۔ انہوںنے قسم کھائی اور ساراحال سنایا۔ حضرت اقدسؓ سے دعاکرانے اور اپنے خواب اوریقین کا حال سنایا۔ لوگوں نے راستہ میں ہی اورگاؤں کے نزدیک ہمارے خواب کے برخلاف بہت کچھ کہہ ڈالا۔ اس پر ہم مسجد میں کھڑے ہوئے اور قبلہ رخ ہوکر قسم کھائی کہ ہمارا خواب جھوٹانہیں ہوسکتا۔ اب تم لوگ بتاؤ کہ ہمار ا خواب جھوٹاہے یاسچاہے۔ تولوگوں نے برملا کہاکہ جس وقت کی تم بات کرتے ہو اس لمحے سے ایک تولہ بھر مٹی بھی دریا نے نہیں گرائی۔پھر کیا تھا ساراگاؤں کا گاؤں بن بلائے میرے مکان پرآگیا۔اور کہاکہ تم حضور پُرنور کوعرض کرو کہ ان کی دعاکے طفیل دریا نے اب ایک تولہ بھی زمین نہیں گرائی۔ہم عاجزوں کے لئے دعاکریں کہ دریاہم سے دور چلاجائے اور ہماری جو زمین گرائی ہے اس سے بہتر زمین اپنے پیچھے چھوڑ جائے۔میںنے سب گاؤں کے انگوٹھے لگوا کر حضورپرنور مصلح موعودؓکی خدمت میں سب حال عرض کرکے دعاکے لئے درخواست کی۔ حضور نے ازراہِ غرباء پروری جلد ہی جواب سے مشرف فرمایاجس کی اطلاع لوگوں کو کرادی گئی۔ تھوڑے دنوں بعد دریا نے پلٹاکھایا اور ان کی زمینیں چھوڑ کر تین میل پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی اطلاع حضورپُرنورکی خدمت میں ارسال کردی گئی۔ (حضرت چوہدری غلام محمدخان گرد اور قانونگو صفحہ۳۱،۳۲)
آپ کی یہ ناکامی اللہ تعالیٰ کسی اَور رنگ میں پوری کر دے گا
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا:جب سعودی، عراقی، شامی اور لبنانی، ترک، مصری اور یمنی سو رہے ہوتے ہیں مَیں اُن کے لئے دعا کر رہا ہوتا ہوں۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء صفحہ ۹)
مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری مبلغ مغربی افریقہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’سیرالیون میں ہمارے ایک نہایت ہی مخلص دوست پیراماؤنٹ چیف گمانگا ہیں جو سیرالیون جماعت کے پریذیڈنٹ بھی ہیں۔ وہ وہاں کے جنرل الیکشن میں دو دفعہ ناکام ہوئے۔ ۶۲ میں دوسری بار جب ناکام ہوئے تو انہوں نے حضور اقدسؓ کی خدمت میں اس امر کا ذکر کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی جس کے جواب میں حضورؓ نے ان کو تسلی کا خط تحریر فرمایا۔ خاکسار نے بھی انہیں ہمدردی کا خط لکھا جس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے جواب اور آپؓ کے خط سے مجھے بہت تسلّی ہوئی ہے۔ حضورؓ نے فرمایا ہے کہ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ آپ کی اس ناکامی کو کسی اَور رنگ میں کامیابی کا ذریعہ بنا دے گا۔
سیرالیون کو اپریل ۶۱ میں آزادی ملی۔ اس کے بعد انگریزوں کو آہستہ آہستہ اہم عہدوں سے ہٹا کر ان کی جگہ افریکن کو لگایا جا رہا تھا۔ سیرالیون کی پروڈیوس مارکٹنگ بورڈ جس کے ایک ڈائریکٹر ہمارے یہ احمدی دوست بھی تھے اور چیئرمین ایک انگریز تھے۔ اب اس چیئرمین کے جانے کا سوال پیدا ہوا اور اس کی جگہ کسی لوکل کا تقرر ہونا تھا۔ جس کے لئے وزیر اعظم نے دفتر سے نام طلب کئے۔ جب وہ فہرست وزیراعظم کو پیش کی گئی تو اس نے یہ کہہ کر واپس کر دی کہ اس پر پیرامونٹ چیف گمانگا کا نام درج نہیں۔ اس کو بھی درج کیا جائے۔ اس کے بعد جب انتخاب ہؤا تو خدا تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی اور وہ انگریز کی جگہ بورڈ کے چیئرمین مقرر ہوئے۔ جب یہ واقعہ ہؤا تو مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ میں دوپہر کے وقت فری ٹاؤن مشن ہاؤس میں بیٹھا تھا کہ چیف موصوف وہاں تشریف لائے اور جملہ حالات بیان کرنے کے بعد کہنے لگے یہ لیں ۵۰ پونڈ(قریباً ایک ہزار روپیہ) اور میری طرف سے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں فوراً ارسال کر دیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی وہ بات پوری ہو گئی کہ آپ کی یہ ناکامی اللہ تعالیٰ کسی اور رنگ میں پوری کر دے گا۔ مجھے یہ ہر گز امید نہیں تھی کہ میں یہ اہم پوسٹ حاصل کر سکوں گا اور مخالفت بھی کافی تھی مگر خدا تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کے طفیل مجھے اس اہم عہدہ پر سرفراز فرمایا ہے۔ اگر میں الیکشن میں کامیاب بھی ہو جاتا تو زیادہ سے زیادہ وزیر بے محکمہ بن سکتا تھا مگر اب جو عہدہ مجھے ملا ہے وہ ایک رنگ میں وزیر سے بھی زیادہ اہم ہے اور علاوہ معقول تنخواہ کے اور بہت سی سہولتیں بھی دی گئی ہیں۔
پس المصلح الموعودؓ کی قبولیت دعا کے نہ صرف ہم مبلغین شاہد و ناطق ہیں بلکہ افریقن دوست بھی اس پر کامل یقین رکھتے تھے اور ہر مشکل وقت میں حضورؓ کی طرف رجوع کرتے اور قبولیت دعا کا نشان دیکھ کر ان کے ایمانوں میں تازگی پیدا ہو جاتی تھی۔‘‘ (روزنامہ الفضل ۶؍ جولائی ۱۹۶۶ء صفحہ ۵)
ناسور زدہ ٹانگ جسے ڈاکٹرز نے کاٹنے کا مشورہ دیا حضرت مصلح موعودؓ کی دعا سے تندرست ہو گئی
روزنامہ الفضل ربوہ میں مولانا عبدالمالک خان صاحب کی جانب سے محترم سیّد ارتضیٰ علی صاحب لکھنوی مرحوم کی وفات پر ان کے ذکرِ خیر پر مشتمل ایک تحریر شائع ہوئی جس میں عنوان ’حضرت مصلح موعودؓ کی دعا کا معجزانہ اثر‘ کے تحت درج ہے: ’’مرحوم نے اپنے رشتہ داروں اور احباب جماعت کو اور خود مجھے بارہا یہ واقعہ سنایا کہ وہ ایک دفعہ تعطیلات میں قادیان سے لکھنؤ آئے۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ سب رشتہ داروں کے ساتھ وہ صحن میں بیٹھے تھے کہ اچانک کسی پرند کی چونچ سے ایک ہڈی گری جس کی وجہ سے مرحوم کی ٹانگ میں زخم ہو گیا۔ اس کو معمولی زخم سمجھ کر ابتدائی علاج کرایا گیا لیکن وہ زخم روزبروز تشویش ناک صورت اختیار کرتا گیا یہاں تک کہ وہ ناسور بن گیا اور ڈاکٹروں نے آپ کےماموں مرزا اکبرالدین صاحب کو مشورہ دیا کہ بچے کی صحت چاہتے ہو تو فوراً ٹانگ کٹوا دو۔ جناب مرزا صاحب نے حضرت اقدس مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا۔ یہ حضور کی خلافت کا ابتدائی زمانہ تھا۔ حضورؓ نے اجازت دے دی کہ ٹانگ کٹوا دی جائے۔ جب اس بات کی اطلاع سید ارتضیٰ علی صاحب کو ہوئی تو انہوں نے حضرت اقدس المصلح الموعودؓ کی خدمت میں خط لکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ایک طالب علم عبدالکریم صاحب جو یادگیر کے رہنے والے تھے ان کودیوانے کتے نے کاٹ لیا تھا تو حضور کو بہت قلق و اضطراب اس طالب علم کے لئے پیدا ہؤا۔ اس پر حضور نے اس کے لئے دعا کی اور وہ دیوانے کتے کا زخم خوردہ اچھا ہو گیا۔ حضور! مَیں بھی طالب علم ہوں اور حضور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند خدا تعالیٰ کے خلیفہ اور المصلح الموعود ہیں۔ آپ نے اجازت دے دی ہے کہ میری ٹانگ کاٹ دی جائے۔ میری زندگی کس کام کی رہ جائے گی؟ میری حضور سے یہ درخواست ہے کہ حضور دعا فرماویں کہ میری ٹانگ اسی طرح اچھی ہو جائے جس طرح برادرم عبدالکریم اچھے ہوئے۔ اس خط کے جواب میں حضرت اقدس نے یہ حکم دیا کہ تم قادیان چلے آؤ چنانچہ حضور کے حکم کے مطابق سید صاحب قادیان چلے گئے اور وہاں حضور کی دعاؤں کا یہ اثر ہؤا کہ ان کی ٹانگ اچھی ہو گئی اور یہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔ انہوں نے اپنی بیماری کے عرصہ میں ہی میٹرک کے امتحان کی تیاری بھی کی اور آخر اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہو گئے۔
سید صاحب نے ایف۔ اے لکھنؤ سے کیا۔ ڈاکٹروں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ تم شادی نہ کرنا۔ کیونکہ تمہاری ٹانگ کی تکلیف دوبارہ عود کر آنے کا خطرہ ہے لیکن حضرت مصلح موعودؓ کے مشورہ سے سید صاحب نے شادی بھی کی اور خدا تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کے طفیل نو بچے دئے جن میں سے سات زندہ ہیں اور سب سلسلہ کے خادم ہیں اور تعلیم یافتہ ہیں۔ (روزنامہ الفضل ربوہ ۱۵؍ جون ۱۹۶۷ء)
مَیں نے آپ کا علاج کل دوپہر کو کر دیا تھا
مکرم خواجہ محمد گل صاحب آف راولپنڈی نے تحریر کیا کہ ’’غالباً ۱۹۲۲ء کا ذکر ہے کہ مَیں شہر مانڈلے ملک برہما میں بسلسلہ تجارت مقیم تھا۔ میرے چچا حاجی شمس الدین صاحب آف چکوال کا کاروبار بھی مانڈلے میں ہی تھا۔ ہماری رہائش ایک ہی مکان میں تھی۔ میری عمر اس وقت قریباً ۱۶ سال ہو گی۔ مَیں اس وقت احمدی نہ تھا مگر احمدیت کی طرف رجحان ضرور تھا۔ اتفاق سے چچا صاحب موصوف بعارضہ پیچش بیمار پڑ گئے۔ بیماری نے بہت طول پکڑا۔ کسی علاج سے بیماری میں افاقہ کی صورت پیدا نہ ہوئی اور حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ چچا صاحب بہت کمزور اور بالکل صاحبِ فراش ہو گئے۔ ایک روز مَیں دوپہر کے کھانے کے واسطے مکان پر گیا تو دیکھا کہ چچا صاحب زار و قطار رو رہے ہیں۔ مجھے تعجب ہؤا کہ اتنا باہمت اور حوصلہ مند انسان کیوں رو رہا ہے۔ مَیں نے سبب پوچھا تو انہوں نے سرہانہ سے ڈاکٹر غلام جیلانی کی کتاب میٹیریا میڈیکا اردو نکال کر مجھے دکھلائی اور پیچش کا باب پڑھ کر مجھے سنایا۔ اس میں لکھا تھا کہ جب پیچش اس مرحلہ پر پہنچ جائے تو پھر یہ مرض مہلک ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سب کیفیات مجھ میں موجود ہیں اور میرا آخری وقت ہے۔ مَیں موت سے ڈرتا نہیں مگر اس خیال پر بے اختیار رونا ا ٓگیا کہ غریب الوطنی میں ان چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا بنے گا۔ چچا صاحب کی یہ کیفیت دیکھ کر میرے دل پر بہت اثر پڑا اور میں گھبرایا ہؤا ٹیلیگراف آفس پہنچا اور حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں اس مضمون کا تار ارسال کر دیا ’’حضور کے مخلص خادم خواجہ شمس الدین صاحب موت و حیات کے مرحلہ میں ہیں۔ صحت یابی اور درازیٔ عمر کے لئے دعا فرمائی جائے۔‘‘ اُس روز چچا صاحب کی حالت مخدوش رہی اور رات دیر تک ہم لوگ اُن کے سرہانے بیٹھے رہے۔ بہت رات گئے انہیں نیند آ گئی اور ہم لوگ بھی آرام کرنے کے لئے بستروں پر دراز ہو گئے۔ علی الصبح نمازِ فجر کے وقت انہوں نے مجھے آواز دی اور فرمایا کہ آؤ تمہیں ایک عجیب بات بتاؤں۔ وہ یہ کہ کل دن بھر میری کیفیت مخدوش رہی اور رات کو سوتے وقت تک میرا وہی حال تھا۔ کوئی نیا علاج نہیں کیا اور کوئی دوائی بھی نہیں لی۔ اب جب مَیں بیدار ہؤا تو مجھے فکر دامنگیر ہوئی کہ پھر پیچش کی اجابت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اور مَیں نے ڈرتے ڈرتے اپنا جائزہ لیا۔ کیونکہ مَیں تیمم کر کے نماز ادا کرنا چاہتا تھا۔ میری حیرت اور خوشی کی انتہاء نہ رہی جبکہ مَیں نے محسوس کیا کہ مَیں بفضلہ تعالیٰ بالکل شفایاب ہو چکا ہوں۔ مَیں نے چچا صاحب کو اُس وقت بتلایا کہ مَیں نے آپ کا علاج کل دوپہر کو کر دیا تھا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ مَیں نے کل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں دعا کے لئے تار دے دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعا کے نتیجہ میں آپ کو صحت عطا فرمائی ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کیا۔ ‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۸؍ اپریل ۱۹۶۶ء)
خداوند تعالیٰ آپ سب کو نرینہ اولاد دے گا
مکرم فتح محمدصاحب مٹھیانوی تحریرفرماتے ہیں:۱۹۲۱ء میں جب میں خداتعالیٰ کے فضل و کرم سے احمدیت کی نعمت سے مشرف ہوا اور میرے ساتھ ہی ہمارے گاؤں مٹھیانہ ہوشیارپور کے چار اَور افراد بھی احمدیت کے حلقہ بگوش ہوگئے توگاؤں بلکہ علاقہ بھر میں ہماری مخالفت شروع ہوگئی۔ جگہ جگہ ہمارے خلاف چرچا ہونے لگا۔بحث مباحثہ ہوتارہتاتھااوراختلافی مسائل پرگفتگو شروع رہتی۔جب دشمن ہمارے اعتراضات کے جواب دینے سے عاجز آگئے اوراپنے عقائد کی کمزوری ان کونظرآنے لگی توگاؤں کے بوڑھوں نے یوں کہنا شروع کردیا ’’کیا ہواکہ یہ لوگ مرزائی ہوگئے ہیں، ان کو ملتی تولڑکیاں ہی ہیں‘‘۔ اتفاق سے ہم پانچوں کے ہاں جواس وقت تک احمدی ہوئے تھے لڑکیاں ہی لڑکیا ں تھیں۔ نرینہ اولاد کسی ایک کے پاس بھی نہ تھی۔ اس بات کا میرے دل پربڑا صدمہ ہوا اور میں نے اسی صدمہ کے زیر اثر اپنے پیارے امام حضرت مصلح موعودؓکے حضور نہایت عاجزی سے دعاکی درخواست کی کہ حضور ہم سب کے ہاں نرینہ اولاد ہونے کی دعاکریں۔ تااس بارہ میں بھی مخالفین کے منہ بند ہوجاویں۔ حضور نے جواب دیاکہ خداوند تعالیٰ آپ سب کو نرینہ اولاد دے گا۔ چنانچہ حضور پرنور کی دعاسے خداوند تعالیٰ نے ہم سب کو نرینہ اولاد سے نوازا۔(روزنامہ الفضل ۲۸؍اپریل ۱۹۶۶ء)
جس بزرگ کی دعا سے آپ کو یہ لڑکا ملا تھا اسی بزرگ کی دعا سے اس کو صحت ہو گی
مکرم فتح محمد صاحب مٹھیانوی مزید تحریر کرتے ہیں ’’میرا بڑا لڑکا صالح محمد جب سات آٹھ برس کا ہؤا تو اچانک اس کی آنکھیں خراب ہونا شروع ہو گئیں اور اس حد تک خراب ہو گئیں کہ بالآخر ماہر امراض چشم ڈاکٹروں نے بھی آنکھوں کی بینائی کے چلے جانے اور ضائع ہو جانے کا فیصلہ دے دیا اور کہہ دیا کہ اب مرض لاعلاج ہے اور بینائی کا عود کر آنا ناممکن ہے۔ مَیں نے اس کے علاج میں مقدور بھر سعی و کوشش کی اور اپنی جمع شدہ پونجی علاج کی نذر کر دی لیکن ڈاکٹروں کے مذکورہ بالا فیصلہ نے میری کمر ہمّت توڑ دی۔ ہر طرف سے یاس و نامیدی کی اس حالت میں مَیں نے خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑاکر اور حد درجہ عاجزی اور انکساری سے دعا کرنا شروع کی تو مجھے خواب میں بتایا گیا کہ جس بزرگ کی دعا سے آپ کو یہ لڑکا ملا تھا اسی بزرگ کی دعا سے اس کو صحت ہو گی۔ اور اس کی بینائی عود کرے گی۔ چنانچہ مَیں نے اس خواب کے پیش نظر ایک درجن کے قریب خطوط خرید لئے اور ہر تیسرے دن ایک خط حضورؓ کی خدمت میں اپنے نورِنظر کی صحت یابی اور اس کی بینائی کی درستی کے لئے لکھنے لگا۔ حضور بھی جواب میں تحریر فرماتے تھے دعا کی گئی ان شاء اللہ العزیز آنکھیں درست ہو جائیں گی۔
بالآخر حضور کی دعاؤں اور خدا تعالیٰ کی عنایات بے پایاں سے میرا لڑکا عزیز صالح محمد صحت یاب ہو کر بینا ہو گیا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس واقعہ کے بعد آج تک اس کی آنکھیں کبھی دکھنے نہیں آئیں اور نہ اسے آج تک عینک لگانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ربوہ ۲۸؍ اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۴)
اسی واقعہ کو مکرم صالح محمد صاحب نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ میں حضور کی خدمت میں بقلم خود تحریر کیا: ’’میرے آقا سیدنا وامامنا حضرت المصلح الموعود ایّدہ اللہ الودود۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اللہ تعالیٰ آپ پر ہزاروں رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ آپؓ کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر رکھے۔ اورآپ کی ذات والا صفات ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھے۔ پہلے اس عاجز کو بالکل نظر نہیں آتا تھا۔ یہاں تک کہ دن اور رات کا پتہ نہ چلتا تھا۔ اور جب یہ عاجز کھانا کھانے لگتا تو لقمہ تھالی کی بجائے زمین پر لگ جاتا۔ میرے والد بزرگوار بہت جگہ علاج کے لئے گھومے۔ مگر سب کے سب ڈاکٹروں نے صاف جواب دے دیا کہ اب اس بچہ کی آنکھیں بالکل بند ہو گئی ہیں۔ ان میں بنگہ اور پھگواڑہ کے مشہور ڈاکٹر بھی تھے۔ اس پر میرے والد صاحب مایوس ہو کر بیٹھ گئے کہ ان کو کشفی طور پر دکھایا گیا کہ جس کی دعا سے یہ لڑکا پیدا ہؤا اسی کی دعا سے شفا پائے گا۔ اس کے بعد میرے والد صاحب نے بہت سے خط لے کر رکھ لئے اور ہر روز حضور کی خدمتِ اقدس میں ارسال کر دیا کرتے۔ آخر خداوند کریم نے رحم فرمایا اور اب یہ عاجز اپنے ہاتھ سے یہ خط لکھ رہا ہے اور رات کو لمپ کی روشنی میں پڑھ لیتا ہے۔
آپ کے ادنیٰ خادموں میں سے خادم صالح محمد احمدی ولد چودھری فتح محمد ساکن مٹھیانہ ضلع ہوشیارپور‘‘(روزنامہ الفضل قادیان ۵؍ ستمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۲)
قارئین کرام! آج خلافتِ احمدیہ کے پانچویں مظہر ایّدہ اللہ کے وجود میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وابستہ برکات کا سلسلہ ایک ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے کی صورت جاری و ساری ہے اور اس سے ہر وہ شخص سیراب ہو سکتا ہے جو اس پر اخلاص اور وفا کے ساتھ حاضر ہو۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ’’نظامِ خلافت سے اپنے آپ کو پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رکھو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’مَیں خدا کی ایک مجسّم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود بھی ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے‘‘ … تمہارے لیے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے …جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا… قیامت تک خلافت کے ساتھ وابستہ رہو تاکہ قیامت تک خدا تعالیٰ کے تم پر بڑے بڑے فضل نازل ہوتے رہیں۔‘‘ (الفضل ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۵۹ء)