حضرت مصلح موعودؓ کے علمی کارنامے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍ فروری ۲۰۲۳ء)
جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ ۲۰؍فروری کا دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے اور اس مناسبت سے جماعتوں میں جلسےبھی ہوتے ہیں۔ …یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں ایک لڑکے کی ولادت کی تھی جو بہت سی خوبیوں کا مالک ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت اسے حاصل ہو گی۔…
چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق اُس مدت کے اندر جو آپؑ نے بیان فرمائی تھی بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خلیفة المسیح الثانی کے مقام پر بھی بٹھایا۔ پھر ایک لمبے عرصےبعد خلیفہ ثانیؓ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ اعلان فرمایا کہ جس بیٹے کی مصلح موعود ہونے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خبر دی تھی وہ مَیں ہی ہوں۔
اس بیٹے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیے جانے، ذہین و فہیم ہونے اور دوسری خصوصیات کے اپنے بھی اور غیر بھی معترف ہیں اور خوب جانتے ہیں اور اس کا اعتراف غیروں نے کھل کر کیا ہے۔
اس وقت میںحضرت مصلح موعودؓ کے علمی اور متفرق کارناموں میں سے بعض کا ذکرپیش کروں گا۔
ان باتوں کے سننے سے پہلے جو پیش کرنے لگا ہوں اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ آپؓ کا بچپن صحت کے لحاظ سے نہایت کمزوری میں گزرا، بیماری میں گزرا۔ آنکھوں کی تکلیف وغیرہ بھی رہی۔ نظر بھی ایک وقت میں ایک آنکھ سے جاتی رہی۔
پھر دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے بھی آپؓ کی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ آپؓ نے خود فرمایا کہ مشکل سے میری پرائمری تک تعلیم ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا آپؓ کو دینی و دنیوی علوم سے پُر کرنے کا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے زبردست اور عقل کو دنگ کر دینے والے خطابات اور خطبات آپؓ سے کروائے اور ایسے ایسے مضامین آپؓ نے لکھے کہ جو اپنی مثال آپ ہیں اور غیر بھی ان کے معترف ہیں۔
آج کچھ حوالے میں پیش کروں گا۔ مَیں یہ حوالے پیش کرنے سے پہلےآپؓ کی تصنیفات، تقاریر، مضامین، خطبات اور مجالس عرفان وغیرہ کی تعداد اور حجم کا ایک جائزہ پیش کرتا ہوں۔ جو کتب، خطابات، لیکچرز، مضامین پیغامات وغیرہ کی شکل میں شائع ہوئے یا اب تقریباً مکمل ہیں ا ور وہ جو تقاریر، خطابات وغیرہ انوار العلوم کی شکل میں شائع ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی کل اڑتیس (۳۸) جلدیں بن جائیں گی اور ان کی تعداد چودہ سو چوبیس (۱۴۲۴) ہے اور اس کے کُل صفحات بیس ہزار تین سو چالیس(۲۰۳۴۰) ہیں۔ اتنے ہو جائیں گے اندازاً۔ تفسیر کبیر ،تفسیر صغیر سمیت دیگر تفسیری مواد کے صفحات اٹھائیس ہزار سات سو پینتیس(۲۸۷۳۵)ہیں۔ ۱۸۰۸خطبات جمعہ ہیں جن کے صفحات اٹھارہ ہزار سات سو پانچ(۱۸۷۰۵)ہیں۔ اکاون(۵۱)خطباتِ عید الفطر ہیں جن کے صفحات پانچ سو تین(۵۰۳)ہیں۔ بیالیس(۴۲)خطباتِ عید الاضحی ہیں جن کے صفحات چار سو پانچ(۴۰۵)ہیں۔ ۱۵۰خطباتِ نکاح ہیں جن کے صفحات چھ سو چوراسی(۶۸۴)ہیں۔ خطاباتِ شوریٰ جلد اوّل تا سوم بھی شائع ہوئی ہے اس کے صفحات دو ہزار ایک سو اکتیس(۲۱۳۱)ہیں یہ سارے اور جو مختلف اور بھی ہیں ان صفحات کو اکٹھا کیا جائے، جمع کیا جائے تو کُل تقریباً پچہتر ہزار(۷۵۰۰۰) صفحات بنتے ہیں۔ ریسرچ سیل نے الحکم اور الفضل کے ۱۹۱۳ء سے ۱۹۷۰ء تک کے شماروں کو دیکھا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کچھ مزید مواد سامنے آیا ہے جو ابھی تک انوارالعلوم یا کسی کتاب میں شائع نہیں ہو سکا۔ اس تفصیل کے مطابق پچپن(۵۵)مضامین، ستائیس(۲۷)تقاریر، ایک سو تینتالیس(۱۴۳)مجالس عرفان، دو سو بائیس(۲۲۲) عناوین ملفوظات اور ایک سو اکتیس(۱۳۱) مکتوبات ابھی تک مل چکے ہیں۔ ایک بڑا وسیع علمی ذخیرہ ہے۔
اس وقت میں پہلے آپؓ کے علمی کارناموں میں سےقرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے کچھ کوائف اور غیروں کے اس بارے میں آرا ،تبصرے پیش کرتا ہوں۔ تفسیر کبیر میں حضرت مصلح موعودؓ نے اُنسٹھ (۵۹) سورتوں کی تفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ دس جلدوں اور پانچ ہزار نو سو سات (۵۹۰۷) صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے تفسیری نوٹ بھی آپؓ کے ملے ہیں جن کے صفحات کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے اور امید ہے کسی وقت یہ بھی شائع ہو جائے گی۔ بامحاورہ ترجمہ قرآن کا ایک بہت بڑا کام آپؓ کا تفسیرِ صغیر کی صورت میں ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی عمر کے آخری دَور میں سب سے بڑی یہ خواہش تھی کہ آپؓ کی زندگی میں آپؓ کے ذریعہ پورے قرآنِ مجید کا ایک معیاری اور بامحاورہ اردو ترجمہ مع مختصر مگر جامع نوٹوں کے شائع ہو جائے۔
سفرِ یورپ ۱۹۵۵ء سے واپسی کے بعد اگرچہ حضورؓ کی طبیعت اکثر ناساز رہتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ موعود کی روح القدس سے ایسی زبردست تائید فرمائی کہ جون ۱۹۵۶ء میں گرمیوں میں مری کے پہاڑوں پر گئے تو وہاں آپؓ نے ترجمہ قرآن املا کرانا شروع کیا جو خدا کے فضل سے ۲۵اگست ۱۹۵۶ء کی عصر تک مکمل ہو گیا اور یہ نخلہ ایک جگہ تھی جو کلر کہار کے قریب چھوٹا سا پُرفضا مقام ہے وہاں آپؓ نے چھوٹی سی ایک بستی بنائی تھی جہاں یہ کام کیا۔ اس کے بعد پھر اس کی نظرِثانی ہوئی۔ پھر نظر ثالث ہوئی۔ کتابت ہوئی۔ پروف ریڈنگ وغیرہ ہوئی۔ اس کے بہت سارے کام ہوئے اور تفسیر صغیر ۱۵؍نومبر ۱۹۵۷ء کو طبع ہو کر مکمل تیار ہو گئی۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد۱۹صفحہ۵۲۲تا۵۳۱)
حضرت مصلح موعودؓ نےتفسیر صغیر کے بارے میں ایک جگہ فرمایا کہ’’میری رائے یہ ہے کہ اس وقت تک قرآن کریم کے جتنے ترجمے ہو چکے ہیں ان میں سے کسی ترجمہ میں بھی اردو محاورے اور عربی محاورے کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا جتنا اس میں رکھا گیا ہے۔‘‘
عام طور پر دیکھیں اور خصوصاً اس کے نوٹس میں بھی نظر آ جاتا ہے کہ آپؓ نے ترجمہ میں محاورے کا خیال رکھا ہے۔ ’’یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اتنے تھوڑے عرصہ میں ایسا عظیم الشان کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرما دی۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’… اللہ تعالیٰ نے اس بڈھے اور کمزور انسان سے وہ عظیم الشان کام کروا لیا جو بڑے بڑے طاقتور بھی نہ کر سکے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’گذشتہ تیرہ سو سال میں بڑے بڑے قوی نوجوان گزرے ہیں مگر جو کام اللہ تعالیٰ نے مجھے سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے اس کی ان میں سے کسی کو بھی توفیق نہیں ملی۔ درحقیقت یہ کام خدا کا ہے اور وہ جس سے چاہتا ہے کروا لیتا ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد۱۹صفحہ۵۲۵-۵۲۶)
پھر ایک اَور جگہ آپؓ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے …قرآنِ شریف کا سارا ترجمہ مکمل ہو گیا۔ یعنی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ سے وَالنَّاس تک مع تفسیر صغیر کے جس کے متعلق تفسیر کبیر سے مقابلہ کرنے سے یہ پتہ لگا ہے کہ کئی مضامین اختصاراً اس میں ایسے آئے ہیں کہ تفسیر کبیر میں بھی نہیں۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد۱۹صفحہ۵۳۰)
پھر تفسیر القرآن انگریزی کا بھی ایک اہم کام ہوا جسے ہم فائیو والیم کمنٹری (Five Volume Commentary)کہتے ہیں۔ اس تفسیر کے شروع میں حضرت مصلح موعودؓ کے قلم سے لکھا ہوا ایک نہایت پُرمعارف دیباچہ بھی شامل ہے جس میں دوسرے صحفِ سماوی کی موجودگی میں قرآن مجید کی ضرورت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور جمع القرآن اور قرآنی تعلیمات پر بالکل اچھوتے اور دلآویز پیرائے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس دیباچے کے آخر میں
شکریہ و اعتراف کے زیر عنوان
تحریر فرمایا کہ مَیں اس دیباچے کے آخر میں مولوی شیر علی صاحب کی ان بے نظیر خدمات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے باوجود صحت کی خرابی کے قرآن کریم کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے متعلق کی ہیں۔ اسی طرح ملک غلام فرید صاحب، خان بہادر چودھری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم اور مرزا بشیر احمد صاحب بھی شکریہ کے مستحق ہیں۔ انہوں نے ترجمےپر تفسیری نوٹ میری مختلف تقریروں اور کتابوں اور درسوں کا خلاصہ نکال کر درج کیے ہیں۔ پھر اس میں آپؓ نے یہ بھی لکھا کہ میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کا شاگرد ہونے کی و جہ سے کئی مضامین میری تفسیر میں لازماً ایسے آئے ہیں جو مَیں نے اُن سے سیکھے۔ اس لیے اس تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر بھی، حضرت خلیفہ اوّلؓ کی تفسیر بھی اور میری تفسیر بھی آ جائے گی اور چونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی روح سے ممسوح کر کے ان علوم سے سرفرا زفرمایا تھا جو اس زمانے کے لیے ضروری ہیں اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ یہ تفسیر بہت سے بیماروں کو شفا دینے کا موجب ہو گی۔
بہت سے اندھے اس کے ذریعہ سے آنکھیں پائیں گے۔ بہرے سننے لگ جائیں گے۔ گونگے بولنے لگ جائیں گے۔ لنگڑے اور اپاہج چلنے لگ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے مضامین کو برکت دیں گے اور یہ اس غرض کو پورا کرے گی جس غرض کے لیےیہ شائع کی جا رہی ہے۔ اللّٰھم آمین۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد۲۰صفحہ۵۰۷-۵۰۸)
اور اَب تک جو لوگ بھی اس کو پڑھتے ہیں تو بعض غیر بھی، عیسائی بھی بڑی تعریف کرتے ہیں۔
علامہ نیاز فتح پوری صاحب
جو کہ مشہور اہلِ قلم ہیں، محقق ہیں، ادیب تھے۔ماہنامہ نگار کے مدیر تھے۔ احمدی نہیں ہیں۔ انہوں نے تفسیر کبیر کا مطالعہ کیا تو حضرت مصلح موعود ؓکو ایک خط میں لکھا کہ ’’تفسیرِ کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہےاور میں اسے بڑی نگاہِ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحرِ علمی، آپ کی وسعتِ نظر، آپ کی غیر معمولی فکر و فراست، آپ کا حسنِ استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا۔‘‘ یہ بڑے پڑھے لکھے اور عالم آدمی ہیں جو بات کر رہے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’…کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا ۔ آپ نے هٰٓؤُلَآءِ بَنَاتِيْ (ہود:۷۸) کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحہ ۱۵۷-۱۵۸)
پھر ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں کہ ’’رات کو تو بالالتزام اسے دیکھتا ہوں… میرے نزدیک یہ اردو میں بالکل پہلی تفسیر ہے جو بڑی حد تک ذہنِ انسانی کو مطمئن کر سکتی ہے۔‘‘ پھر کہتے ہیں کہ ’’… اس تفسیر کے ذریعہ سے جو خدمت اسلام کی انجام دی ہے وہ اتنی بلند ہے کہ آپ کے مخالف بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے۔وَذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۷ تعارفی صفحہ)
پھر سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآبادی ہیں۔ یہ احمدی تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ’’برصغیر ہندو پاکستان کی معروف شخصیت نواب بہادر یار جنگ(جن سے سیٹھ صاحب کے بڑے دوستانہ تعلقات تھے)‘‘ یہ بہادر یار جنگ صاحب احمدی نہیں تھے۔ ان کے ان سے تعلقات تھے۔ ’’سیٹھ صاحب کہتے ہیں کہ نواب بہادر یار جنگ اپنی صحبتوں میں تفسیرِ کبیر کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے اور اس کی عظمت کا ہمیشہ اعتراف کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کے بیان کردہ معارف سے انہوں نے بہت استفادہ کیا ہے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحہ ۱۵۸)