امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جماعت احمدیہ بیلجیم کے ایک وفد کی ملاقات
مورخہ۱۱؍فروری۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ بیلجیم سے تشریف لانے والے ۷۸؍احباب پر مشتمل ایک وفد کو جس میں نَو مبائعین اور ایک غیر از جماعت دوست بھی شامل تھے اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں واقع مسرور ہال میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ وفد نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے بیلجیم سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔
ملاقات کا آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم و ترجمہ سے ہوا جس کے بعد شاملینِ مجلس کو حضور انور سے شرفِ گفتگو حاصل ہوا۔حضورانور نے سب سے پہلے لجنہ ممبرات کی تعداد کے بارے میں استفسار فرمایا، جس پر عرض کیا گیا کہ شریک خواتین کی کُل تعداد تیس ہے جن میں بائیس لجنہ، سات ناصرات اور ایک چھوٹی بچی شامل ہے نیز اڑتالیس کی تعداد میں مرد احباب شریکِ مجلس ہیں۔
اس کے بعد حضور انور نے ایک نَو مبائع کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے دریافت فرمایا کہ انہوں نے کب اور کیوں احمدیت قبول کی تھی؟ موصوف نے عرض کیا کہ دس مہینے قبل وہ جماعتِ احمدیہ مسلمہ میں شامل ہوئے۔ نیز قبولِ احمدیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ جب میں نےاپنے پڑوس میں جماعت کا ماٹو’’ محبّت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ‘‘پڑھا تو مجھے اپنے دل سے ایک پکارنے والی آواز آئی، یہ بات میرے دل کو لگی اور میرے اندر مسجد جانے کی تڑپ پیدا ہوئی۔پھر میری امام مسجد سے بات ہوئی۔اس پر حضور انور نے موصوف کی بات میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پھر آپ نے احمدیت قبول کر لی۔مزید دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘پڑھی ہے؟ اس پر انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے عرض کیا کہ ان کے پاس یہ تصنیف کتابی شکل اور آڈیو ٹیپ دونوں صورت میں موجود ہے۔
حاضرینِ مجلس میں سے اگلے شخص کا تعلق روانڈا (Rwanda)سے تھا جنہوں نے حضور انور کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ وہ بیلجیم میں تقریباً عرصہ تیس سال سے مقیم ہیں۔ اس پر حضورانور نے مزید دریافت فرمایا کہ آپ کے بچے یہاں پیدا ہوئے ہیں؟ کیا وہ سب احمدی ہیں؟ موصوف کے اثبات میں جواب دینے پر حضور انور نے اچھا ماشاءالله! کہتے ہوئےمزید استفسار فرمایا کہ آپ نے احمدیت کب قبول کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ۱۹۸۲ء میں۔ جس پر حضور انور نے فرمایا کہ پھر تو آپ پرانے احمدی ہیں بلکہ آپ تو ایک پیدائشی احمدی کی طرح ہیں۔
ایک شریکِ مجلس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئےعرض کیا کہ ان کا تعلق بینن سے ہے جو گھانا کےپاس ہے۔اس پر حضور انور نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے، میں وہاں گیا ہوا ہوں۔ موصوف نے عرض کیا کہ اب میں بیلجیم میں مقیم ہوں اور آپ کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہمیں یہاں خوش آمدید کہا، ہم یہاں آ کر بہت خوش ہیں اور آپ سے ملنا بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ نے کب احمدیت قبول کی تھی؟ موصوف نے عرض کیا کہ میں نے چند مہینے قبل احمدیت قبول کی تھی۔ جب آپ بیلجیم تشریف لائے تھے، مجھے اس وقت آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔
پھر حضورانور نے خواتین کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے دریافت فرمایا کہ ان کا دورہ کیسا رہاہے؟ ایک نومبائع لجنہ ممبر نے حضورانور کی خدمت میں عرض کیا کہ انہوں نے ۲۰۲۲ء میں احمدیت قبول کی تھی نیز انہوں نے اپنے جذبات و محبت کا مزید اظہار اس پیرائے میں کیا کہ میں پہلی دفعہ یہاں آئی ہوں اور میرے لیے یہ بڑا خاص موقع ہے۔ ادھر موجود ہونا بڑی سعادت کی بات ہے۔ یہاں سب کچھ بہت خوبصورت لگتا ہے۔ میں نے یہاں کی مسجد پہلی دفعہ دیکھی ہے۔ میں ہمیشہ یہاں کے مناظر یوٹیوب(YouTube) پر دیکھتی تھی اور اب خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ بڑی برکت کی بات ہے۔ حضور انور نے اچھا ماشاء الله! کے مبارک الفاظ سے اس پر اظہار خوشنودی فرمایا۔
بعدازاں موصوفہ کو اس مجلس کا پہلا سوال پوچھنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی، انہوں نے جسمانی اعضاء کے عطیہ کے بارے میں جماعتی موقف دریافت کیا؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ ہم اعضاء عطیہ کر سکتے ہیں اورتجربات کے ساتھ ساتھ ہم پیوند کاری کے لیے بھی اپنے اعضاء عطیہ کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی کام، کوئی بھی عمل جو دوسرے لوگوں کے فائدے کے لیے ہو آپ اسے سرانجام دے سکتے ہیں، یہی اسلامی تعلیم ہے۔
اگلی نومبائع لجنہ ممبر نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ان کے شوہر پاکستانی ہیں، جس پر حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ اچھے شوہر ہیں؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آپ کی شادی کب ہوئی تھی اور کیا آپ کے بچے ہیں؟ موصوفہ نے عرض کیا کہ ان کی شادی ۲۰۱۶ء میں ہوئی تھی نیز دو بیٹیاں ہیں جن کے نام نور اور عائشہ ہیں۔
حضور انور سے اجازت طلب کرنے کے بعد انہوں نے سوال کیا کہ آپ اپنی روز مرہ کی مصروفیت میں سے اپنے اہل و عیال کے لیے کیسے وقت نکالتے ہیں؟
اس پرحضورانور نے فرمایا کہ میں اپنے اہل و عیال کے لیے دوپہر اور شام کے کھانے کے اوقات میں وقت نکالتا ہوں۔چند منٹ کے لیے ہم اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں اور باتیں کرلیتے ہیں۔
حضور انور کے استفسار فرمانے پرنصف بیلجین اور نصف انگلش نژاد ایک نومبائع نے عرض کیا کہ انہوں نے تقریباً ایک سال قبل احمدیت قبول کی تھی نیز اپنی اہلیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ان کے ہمراہ برطانیہ تشریف نہیں لاسکیں۔ اسی طرح اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے مجھے اور میری اہلیہ کو اپنی دعاؤں سے نوازا۔
حضور انور نے موصوف سے دریافت فرمایا کہ قبول احمدیت آپ کی شادی کا نتیجہ ہے یا آپ کےدلی رجحان کی وجہ سے ہے؟ بایں ہمہ حضور انور نے اس سوال کے امکانی تاثر کو زائل کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ اس قسم کے دوٹوک سوالات پوچھنے کا مقصد آپ یاکسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں بلکہ یہ سوالات حضورمحض اپنی معلومات کے اضافہ کے لیے پوچھ رہے ہیں۔
موصوف نے انتہائی عاجزی سے عرض کیا کہ حضور انور کا استفسارفرمانا انہیںہرگز گراں نہیں گزرا۔چنانچہ انہوں نے اپنے قبول احمدیت کے روحانی سفر کا پس منظر بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ پہلے وہ ایکatheistتھے اور پھرProtestantismکی طرف مائل ہوئے، لیکن بعد ازاں ان کا تعارف اپنی زوجہ کے ذریعے احمدیت سے ہوا جو کہ پیدائشی احمدی ہیں۔
موصوف نے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ مجھے جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا ہے، بعض اوقات فیملی اور دوستوں کو اس بات کو سمجھنے میں کچھ مشکل پیش آتی ہے کیونکہ وہ مجھے میرے قبول احمدیت سے پہلے کے جانتے ہیں، ہو سکے تو میری اس سلسلہ میں راہنمائی فرما دیں، جس سے وہ میری اس تبدیلی کو سمجھ پائیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ آپ ان کو یہ بتا سکتے ہیں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد میں اپنے آپ کو زیادہ پُرسکون محسوس کرتا ہوں اور میرا دل مطمئن ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ پہلے کی نسبت میرا خدا تعالیٰ سے زیادہ بہتر تعلق پیدا ہو گیا ہے نیز اگر آپ ان کو اسلام احمدیت کے بارے میں اپنے ذاتی تجربات کے متعلق بتائیں گے تو ان کو بھی پتا چل جائے گا۔
تبلیغ کا بہترین ذریعہ ذاتی تجربات ہیں۔ اپنے آپ کو مختلف بحث مباحثوں میں الجھانے یعنی ہستیٔ باری تعالیٰ، وفات مسیح ؑ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد، قرآن و بائبل میں پیشگوئیوں وغیرہ کی بجائے پہلے اپنی مثال پیش کریں۔ اگر وہ آپ کی مثال دیکھ کر آپ کے اخلاق سے راضی ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے سے اب آپ ایک بہتر انسان ہیں تو وہ پوچھیں گے کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ پھر آپ ان کو بتا سکتے ہیں کہ یہ ہے وہ وجہ، یہ اسلامی تعلیم ہے، اسلام قبول کرنے کے بعد میری توجہ اللہ تعالیٰ اور مذہب کی طرف مبذول ہوئی اور میرا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ذاتی تعلق قائم ہو گیا ہے اور آپ کو یہ ذاتی تعلق خود قائم کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو صحیح رنگ میں تبلیغ نہیں کر سکیں گے۔
مبلغ انچارج صاحب بیلجیم کے بیٹے کو حضور انور کی خدمت میں اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، انہوں نے عرض کیا کہ وہ آرتھوڈونٹسٹ(orthodontist) ہیں اور ان کی اہلیہ مراکشی نژاد ہیں۔ حضور انورنے ان کے بھائی کی بابت دریافت کیا تو موصوف نےکھڑے ہو کر عرض کیا کہ وہ سائبرسیکیورٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
حضور انور سے ایک دوست نے راہنمائی طلب کی کہ بحیثیت احمدی کیا آپ ہمیں اسرائیل کی کمپنیوں کے boycott کے رجحان پر عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ اگر آپ سہولت سے ان کمپنیوں کا بائیکاٹ کرسکتےہیں تو آپ بےشک کرلیں، اس میں کوئی ہرج نہیں، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کچھ نہیں خریدیں گے تو کیا ہو گا؟فائدہ تو تب ہی ہے اگر حکومتیں اقدامات اٹھائیں، خاص طور پر اگر اسلامی حکومتیں اسرائیل کی مصنوعات کے خلاف کارروائی کریں، پھر وہ ان کی معیشت کو متاثر کر سکیں گے یا کسی حد تک اسرائیلی کمپنیوں کی پیداوار اور نفع کو، ورنہ ایک فرد کی کارروائی ان کی مصنوعات یا ان کے کاروبار پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالے گی۔
لیکن اگر آپ سہولت سے ایسا کرسکتے ہیں تو بےشک کرلیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے، کوئی ہرج نہیں ہے۔ اگر احمدی اسرائیلی کمپنیز کا بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔کیا ان پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی پروڈکٹ(product) ہے؟کسی کو نہیں پتا۔یہاں تک کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کھانے کی اشیاء کے ingredientsتک تو پڑھتے نہیں۔ بعض اوقات لوگ بیلجیم سے چاکلیٹ لاتے ہیں اور جب میں ان کے اجزائے ترکیبی پڑھتا ہوں تو ان میں شراب ہوتی ہے، کبھی کبھی وہ جیم(jam) لاتے ہیں اور اس میں سؤر کی چربی ہوتی ہے اور اگر وہ یہ چیزیں میرے لیے لاتے ہیں تو اس کا مطلب پھر یہ ہوا کہ وہ خود بھی اسے کھاتے ہوں گے۔ اگر آپ ان چیزوں کو کھانے میں محتاط نہیں ہیں اور ان اشیاء کے اجزائے ترکیبی کو جاننے میں vigilantنہیں ہیں جو دراصل حرام ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ ہر چیز کے بارے میں معلوم کریں کہ آیا وہ اسرائیل سے ہے یا نہیں؟ کوئی بھی یہ پڑھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اسے کون تیار کر رہا ہے، وہ اس کو لیتے ہیں اور کھالیتے ہیں، اس لیے آپ کو پہلے اسرائیلی اشیاء کی ایک فہرست تیار کرنی پڑے گی۔ پھر اسے عوام الناس میں تقسیم کریں تا کہ احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کو معلوم ہو کہ یہ اسرائیلی اشیاء ہیں اور وہ ان کو نہ لیں۔ پھریقیناً ان کے کاروبار پر بڑا اَثر پڑےگا، ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ایک احمدی نے حضور انور سےعربی میں مخاطب ہوتے ہوئے عرض کیا کہ وہ اصل میں یمن کے رہنے والے ہیں اور انہوں نے یمن کے احمدیوں کی طرف سے حضور انورکو سلام کا عقیدت مندانہ تحفہ پیش کیانیز یمن کے احمدیوں بالخصوص ان اسیرانِ راہِ مولیٰ کے لیے جو محض احمدی ہونے کی بنا پر قیدو بند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں عاجزانہ درخواستِ دعا کی۔
حضورانور نے فرمایا کہ یمن سے جو تھوڑا بہت ہمارا رابطہ ہے اس سے مجھے بھی پتا لگتا رہتا ہے جو حوثی علاقہ ہے وہاں تو تقریباً سارے مرد ہی جیل میں ہیں۔دعا کے لیے تو مَیں جماعت کو بھی تحریک کرتا رہتا ہوں،جمعہ پر بھی میں نے کی۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے، جلد ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ بعض جگہ سے شنید ہے کہ ان کی جلدی رہائی ہو جائے گی لیکن اللہ بہتر جانتا ہے انہوں نے کیا کرنا ہے یا نہیں کرنا۔ لیکن بہرحال تکلیف میں ہیں ۔ہم سب کو ان کے لیے دعا کرنی چاہیے اور اگر آپ کا رابطہ ہو تو ان کوبھی میری طرف سے السلام علیکم اور دعائیہ کلمات پہنچا دیں۔
ایک اور نومبائع جن کو امسال ماہِ جنوری میں شرفِ بیعت حاصل ہوا نےحضور انور سے دریافت کیاکہ وہ کس طرح ایک بہتر مسلمان بن سکتے ہیں؟
حضورانور نے فرمایا کہ بعض لوگوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ہمیں یہ اجازت مل سکتی ہے کہ ہم باقاعدہ پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی نہ کریں یا ہم بعض نمازیں ادا کریں اور بعض کو چھوڑ دیں؟ اس پر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا اور عبادت کے بغیر کوئی دین نہیں ہے۔ تو ایک عام مسلمان بننے کےلیے جو بنیادی چیز ہے وہ یہ ہے کہ آپ اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ادا کریں۔ اس بات کو اپنے پلّے باندھ لیں کہ آپ کبھی بھی کسی نماز کو نہیں چھوڑیں گے اور اگر آپ پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی کریں گے تو ظاہر ہے آپ اس کے الفاظ کو بھی سیکھنے کی کوشش کریں گے اور سب سے اہم سورة الفاتحہ ہے، تو سورة الفاتحہ کو سیکھنے کی کوشش کریں اور اپنی نمازوں میں اسے پڑھیں اور جب آپ کو سورة الفاتحہ کے معنی آ جائیں تو وہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس کے مطابق ہم عمل کر سکتے ہیں۔
اگر آپ ان احکام، ہدایات اور تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے سورة الفاتحہ میں بیان کیے ہیں، وہ ایک بنیادی راہنما اصول ہے، جس کے ذریعہ ایک شخص اچھا مسلمان بن سکتا ہے۔
بیلجین نژاد پہلے احمدی رضوان وانڈن بروک صاحب کے صاحبزادے نے عمدہ مہمان نوازی کے لیے حضور انور کی خدمت میں اپنی جانب سے اظہار تشکر کیا نیز اس سفر کے اہتمام کے حوالے سے مبلغ انچارج صاحب بیلجیم اور انتظامی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔
موصوف نے حضور انور سے دریافت فرمایا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
اس پرحضور انور نے فرمایا کہ بنیادی چیز یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ میں نے جنّ و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اگر ہم ان احکام کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہے ہیںجو اس نے نازل کیےہیں، جن میں روزانہ کی پنج وقتہ نمازیں بھی شامل ہیں اور اگر ہم اس کے معنی بھی جانتے ہوں تو اس کے ساتھ ایک اچھا تعلق پیدا کر سکتے ہیں۔ سورة الفاتحہ میں ایک آیت اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَہے۔یعنی اے اللہ! ہمیں سیدھے راستہ پر چلا۔ جب آپ اس دعا کو بار بار دُہرائیں گے تو وہ آپ کے دل سے نکلے گی اور اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت دے گا، آپ اللہ تعالیٰ کو محسوس کریں گے۔ جب آپ سجدہ میں جائیں گے، اس کے حضور سجدہ ریز ہو رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آنسو بہائیںکہ اے اللہ! مجھے اپنا وجود دکھا، تو پھر آپ اپنے اندر ہی اندر کچھ محسوس کریں گے اور وہ اپنا ثبوت دے گا، بہت سارے لوگوں نے اس کا تجربہ کیا ہے۔
ایک مراکشی نژاد شریکِ مجلس نے اس ملاقات کی اجازت مرحمت فرمانےپر حضور انور کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے نیک جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ احمدیت کا یہ حسن ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک جھنڈے تلے جمع ہو سکتے ہیں نیز موصوف نے عرض کیا کہ میں نے احمدیت کو اسی وجہ سے قبول کیا ہے کیونکہ احمدیت ہی وہ چھتری ہے جس نے تمام مذاہب کو اکٹھا کرتے ہوئے انہیں اسلام کے تحت متحد کیا ہے۔
حضور انور نے اس پر تبصرہ فرمایا کہ یہی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تمام مسلمانوں کو عَلیٰ دِیْنٍ وَاحِدٍ جمع کرو۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تھا اور اسی کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے اور اسی کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ ایک زمانے میں جب دین بگڑ جائے گا، لوگ دنیا کی طرف چلے جائیں گے، مسلمان بھی اپنی تعلیم کو بھول جائیں گے، صرف نام کے مسلمان ہوں گے اور اس وقت کے علماء جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا، بہت سارے سکالرز اور بڑے درد رکھنے والے مسلمان بھی یہ کہا کرتے تھے کہ مسیح و مہدی کے زمانے کی ضرورت ہے تا کہ ہم مسلمان ایک ہاتھ پر جمع ہوں، لیکن جب مسیح موعود ؑنے دعویٰ کیا تو ان میں سے بہت سارے اس بات کو سمجھ نہیں سکے اور بگڑ گئے۔
لیکن بہرحال یہی ہمارا مقصد ہے اور اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آئے تھے کہ اسلام میں جو بہتّر فرقے بن گئے ہیں، ان فرقوں کو بھی جمع کریں اور اس کے علاوہ دوسرے اَدیان، عیسائیت ہے، یہودیت ہے، ہندوازم ہے، بدھ ازم ہے یا دہریہ لوگ ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ کے دینِ واحدپر جمع کریں اور اسی مقصد کے لیےجماعت قائم کی گئی تھی اور اسی مقصد کے لیے ہمارا مشن جاری ہے۔اور یہی مقصد ہر احمدی کو اب اپنانا چاہیے کہ جب اس نے بیعت کر لی، جس دینِ واحد پر وہ مسیح موعود علیہ السلام کو مان کے جمع ہو گیا، اب اس کو اس نے پھیلانا بھی ہے اور دنیا کو بھی اس برکت سے حصہ دلانے کی کوشش کرنی ہے۔
بعدازاں حضور انور نے خواتین کو مزید سوالات پوچھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
ایک لجنہ ممبر نے اپنی گزارشات کے آغاز میں حضورانور اور منتظمین کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ بفضلہ تعالیٰ یہ ملاقات اور سفر ممکن ہوا۔ انہوں نے اٰن نو مبائعات کی جانب سے جذبات محبّت و اخلاص سے پُر پیغام پہنچایا جو بوجوہ اس ملاقات میں شمولیت اختیار کرنے سے قاصر رہیں نیز ان جملہ خواتین کی خیر و عافیت کے لیے خصوصی دعاؤں کی درخواست کرتے ہوئے ان کی جانب سے حضور انور کی خدمت اقدس میں السلام علیکم کا تحفہ پیش کیا۔
اس پر حضور انور نے ان کے لیے دعائیہ کلمات ادا فرمائےنیز حاضرینِ مجلس سے آج صبح کے ناشتے کے انتظامات کے بارے میں استفسار فرمایا۔
موصوفہ نے حضور انور کی خدمت میں بیرونی عوامی سرگرمیوں کے حوالے سےاحمدی خواتین کے کردار کے بارے میں راہنمائی طلب کی کہ کیا احمدی خواتین کو ایسے پروگرام منعقد کروانے یا ان کے شرکا سے خطاب کرنے کی اجازت ہے جو باہر سے ہوں؟
حضور انور نے اس ضمن میں جامع ہدایات سے نوازتے ہوئے اس بات کی توثیق فرمائی کہ احمدی خواتین کو درحقیقت بیرونی تقریبات میں شرکت کرنے کی مشروط اجازت حاصل ہے بشرطیکہ ایسی سرگرمیوں کا مقصد عوام الناس کو فائدہ پہنچانا اور اسلام احمدیت کی حقیقی تعلیمات کو عام کرنا ہو۔ حضور انور نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ اگر ایسے مواقع پر خطاب کا بھی کہا جائے تو اسلامی تعلیمات کو بیان کرنے کے لیےزیادہ موزوں یہ ہو گا کہ اسٹیج پر آنے والی خواتین بالغ نیز پختہ عمر کی تجربہ کار ہوں۔ تاہم حضور انور نے mixed-gender gatheringsکے حوالے سے احتیاط برتنے کی نصیحت کرتے ہوئے تلقین فرمائی کہ اگر صرف خواتین کی تقریب ہو تو بہتر ہوگا لیکن اگر یہ mixed gathering ہو تو ہمیں اس سے احتراز کرناچاہیے۔ حضور انور نے اس کی بابت مزید راہنمائی فرمائی کہ مَیں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ آپ خود ایسی تقریبات منعقد کریں جن میں دوسرے لوگوں اور مسلمانوں کومدعو کیا جائے اور اس میں ان سے مخاطب ہوں۔
ایک خادم کی جانب سےسوا ل کیا گیا کہ مغربی ممالک میں تین یا چار سال سے بچوں کو یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آپ لڑکی ہیں یا لڑکا؟ اگر ایک لڑکی، لڑکا ہونے کا جواب دے دے اور والدین اس کو تسلیم نہ کریں تو گورنمنٹ ان سے بچے اپنی تحویل میں لے سکتی ہے۔ حضور انور راہنمائی فرمائیں کہ کیسے ماں باپ یا مستقبل کے ماں باپ اپنے بچوں کو اس صورت حال سے بچا سکتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ بہتر ہے کہ گھروں میں بچوں کی تربیت کرو اور ان بچوں کو گھروں میں بتاؤ کہ دیکھو تمہیں اللہ تعالیٰ نے لڑکا پیدا کیا ہے تم لڑکے ہو۔
ماحول کے زیر اثر، اپنے سکول کے زیر اثر یا اپنے گھر کے ماحول کے زیر اثر بعض دفعہ لڑکیاں دیکھتی ہیں کہ مثلاً ایشین سوسائٹی میں ہمارے گھروں میں لڑکیوں کو کم ترجیح دیتے ہیں اور لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔تو لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ میں لڑکا بن جاؤں گی تو مجھے زیادہ اہمیت مل جائے گی۔ یہ غلط طریقہ ہے۔ ماں باپ کو تو شروع سے ہی اپنی تربیت ایسی رکھنی چاہیے کہ اسلام کہتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کےمساوی حقوق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر تین لڑکیاں کسی کے ہاں پیدا ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے اور ان کو اچھی تعلیم دلوائے تو وہ جنت میں چلا جاتا ہے۔تو یہ چیزیں ہیں۔پہلے تو ماں باپ کو خود اپنے گھر سے اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔
اب زیادہvigilantہونا پڑے گا، زیادہ محتاط ہونا پڑے گا کہ جو گھر کا ماحول ہے اس میں ہر ایک لڑکے کو بھی اور لڑکی کو بھی اہمیت ملے، دونوں سےبرابر کے سلوک ہوں، نہ لڑکا اپنے آپ کو لڑکی سمجھے کہ لڑکی کو زیادہ اہمیت مل رہی ہے اور نہ لڑکی اپنے آپ کو لڑکا سمجھے۔
پھر یہ بتاؤ کہ اسلامی تعلیم کیا کہتی ہے۔بچپن سے ہی ماں باپ گھر میں بتاتے رہیں۔توہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج اب یہ ہے کہ گھر میں ماں باپ کو زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ جب یہ تربیت ہو گی تو باہرکے لوگوں کا اثر نہیں ہو گا۔
باقی تو اب یہ مذاق بن گیا ہے۔انہوں نے یہاں بھی یہی قانون بنایا تھا، اب انہوں نےاس کے برخلاف کہنا شروع کردیا ہے۔پہلے یہ تھا کہ پرائمری سکول جانے والابچہ اگر کہتا ہے کہ میں لڑکی ہوں تو بھی ماننا پڑے گا۔ لیکن اب ایجوکیشن منسٹر اور دیگر لوگوں نے بھی سوال اٹھانے شروع کیےتو انہوں نےعمر بڑھا دی ہے۔ انہوں نے کہہ دیا ہے کہ اب سیکنڈری سکول میں جا کے اختیار ہو گا، اس سے پہلے ماں باپ سے پوچھنا پڑے گا کہ آیا اس کو ہم لڑکی یا لڑکا مانیں کہ نہ مانیں، اگر ماں باپ اتفاق کریں گے تب ماناجائے گا ورنہ نہیں۔ تو یہاں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے تو باقی یورپ میں بھی ان شاء الله پیدا ہو جائے گا۔ اس لیے ایک تو یہ ہے کہ گھر میں ماں باپ زیادہ توجہ دیں۔
دوسرےجو اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو بنایا ہے وہ وہی رہ سکتا ہے۔ اگر ایک لڑکی اپنے آپ کو لڑکا کہتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا جو تولیدی نظام بنایا ہے، نسل چلانے کا سسٹم بنایا ہے، اس میں اس کو وہ اعضاءتو نہیں مل سکتے جو لڑکے کے ہیں۔ نہ لڑکے کو رحم ملے گا، نہ وہ بچہ پیدا کر سکے گا، صرف ظاہری طور پر شکل ہی بن جائے گی یا کچھ ہارمونزدے کے اس کو اس کی شیپ دے دیں گے کہ وہ بن جائے۔
مجھے نہیں پتا کہ ڈاکٹروں نے کہاں تک ریسرچ کی ہے۔ کسی لڑکے سے کوئی آج تک بچہ نہیں پیدا کر سکا اور ہونا بھی نہیں۔دوسروں سے جا کے بچے لیتے ہیں۔ تو یہ چیزیں دجالی چالیں ہیں، یہ دجالی چالیں اللہ تعالیٰ کے خلاف چلنے کےلیے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس لیےپہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم لوگ اس قسم کی چالیں چل کے انسانی ہیئت میں تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرو گے اور جو کرے گا وہ اس طرح جہنم میں جائےگا۔ اللہ تعالیٰ آگے معاف کرنے والا ہے،وہ جہنم میں لے جاتا ہے یا نہیں یہ وہ جانتا ہے، لیکن وارننگ تو اللہ تعالیٰ نے دے دی ہے، اس لیے ہمیں بہرحال محتاط ہونا چاہیے۔
مزید برآں حضورانور نے شرکا کے کھانے کے انتظامات وغیرہ کے بارے میں دریافت فرمایا۔
ملاقات کے اختتام پر امیر صاحب بیلجیم نے شرکا کے ساتھ اجتماعی تصاویر بنوانے کی غرض سے حضور انور کی خدمت میں درخواست کی۔حضور انور نے از راہِ شفقت اس کی اجازت مرحمت فرماتے ہوئے مردوں اور عورتوں کے ہمراہ الگ الگ گروپ فوٹوز بنوانے کا شرف بخشا نیز بچوں میں چاکلیٹ تقسیم فرمائیں۔
حضور انورنے آخر پر سب شاملین کو اللہ حافظ کہتے ہوئے السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ کہا اوراس طرح سے یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔