خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍ فروری 2024ء
اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں ماراگیا تو آپؐ کی روح بے تاب ہوگئی اور آپؐ نے نہایت جوش سے صحابہؓ کی طر ف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔ اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔ تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی۔ یہ جھوٹ ہے تمہارا۔ اللّٰہ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک ہی معزز ہے اوراس کی شان بالا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی مجھ سے ہے اور مَیں علی سے ہوں۔ تو جبرئیلؑ نے کہا کہ مَیں آپ دونوں میں سے ہوں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا کر لوگوں کو دیکھتے تو حضرت ابوطلحہؓ کہتے۔ بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّیْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، لَا یُصِیْبُکَ سَہْمٌ،نَحْرِیْ دُوْنَ نَحْرِکَ۔ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، سر اٹھا کر نہ دیکھیں مبادا ان لوگوں کے تیروں میں سے کوئی تیر آپؐ کو لگے۔ میرا سینہ آپؐ کے سینے کے سامنے ہے
حضرت طلحہؓ نے کہا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کُلُّ مُصِیْبَةٍ بَعْدَہٗ جَلَلٗ۔کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں۔ ہر مصیبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھوٹی ہے
اُحد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہؓ سے پوچھا کہ جب تیر آپؐ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے جواب دیا۔ درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہل جائے اور تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر آگرے
سعدؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے جو تیر بھی چلایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ یہ فرماتے: اے اللہ! اس کے نشانے کو درست کر دے اور اس کی دعا کو قبول کر لے۔ حتی کہ جب مَیں اپنے ترکش کے تیر چلا کر فارغ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش کے تیر پھیلا دیے
غزوۂ اُحد میں حضرت ابودجانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں آپ کی ڈھال بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوگئے۔ جو تیر بھی آتا وہ حضرت ابودجانہؓ کی کمر پر لگتا ۔ وہ جھکے ہوئے کھڑے تھے اور تمام تیر اپنی کمر پر لے رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی کمر میں بےشمار تیر پیوست ہو گئے
جنگ اُحدمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جاں نثار قربانیوں کا تذکرہ
فلسطین کے عمومی حالات نیز یمن اور پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 02؍فروری2024ء بمطابق 02؍ تبلیغ 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
جنگِ اُحد کے واقعات میں صحابہؓ کی قربانیوں اور ان کے عشقِ رسولؐ کی مثالیں
مَیں نے دی تھیں۔ ان میں
حضرت علیؓ کی بہادری کے واقعات
کا بھی ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ کے بارے میں روایت میں آتا ہے کہ غزوۂ اُحد کے موقع پر جب ابنِ قَمِئہ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو شہید کیا تو اس نے یہ گمان کیا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیاہے۔چنانچہ وہ قریش کی طرف لَوٹا اور کہنے لگا کہ مَیں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا ہے۔ جب حضرت مصعب ؓشہید ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علیؓ کے سپرد کیا۔ چنانچہ حضرت علیؓ اور باقی مسلمانوں نے لڑائی کی۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ529 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت علیؓ نے یکے بعد دیگرے کفار کے علمبرداروں کو تہ تیغ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی ایک جماعت دیکھ کر حضرت علی ؓکو ان پر حملہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت علیؓ نے عمرو بن عبداللہ جمحی کو قتل کردیا اور انہیں منتشر کر دیا۔ پھر آپؐ نے کفار کے دوسرے دستے پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت علیؓ نے شَیْبَہ بن مالک کو ہلاک کیا تو
حضرت جبرئیلؑ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یقیناً یہ ہمدردی کے لائق ہے یعنی حضرت علیؓ کے بارے میں یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں علی مجھ سے ہے اور مَیں علی سے ہوں۔ تو جبرئیلؑ نے کہا کہ مَیں آپ دونوں میں سے ہوں۔
( تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 65 دار الکتب العلمیۃ بیروت )
اس بات کو شیعہ حضرات مبالغہ آرائی کر کے بہت زیادہ بڑھا چڑھا بھی لیتے ہیں ۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ اُحد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوگ ہٹ گئے تو مَیں نے شہداء کی لاشوں میں دیکھنا شروع کیا تو ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا۔ تب مَیں نے کہا خدا کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھاگنے والے تھے اور نہ ہی مَیں نے آپؐ کو شہداء میں پایا ہے لیکن اللہ ہم سے ناراض ہوا اور اس نے اپنے نبی کو اٹھا لیا ہے۔ پس اب میرے لیے بھلائی یہی ہے کہ مَیں لڑوں یہاں تک کہ قتل کر دیا جاؤں۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ پھر مَیں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کفار پر حملہ کیا۔ وہ اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان میں ہیں۔
(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ94 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
سعید بن مُسَیِّبؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ اُحد میں حضرت علی ؓکو سولہ زخم لگے تھے۔
(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ93 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے کہ مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں، یہ بیان فرمایا کہ ’’حضرت علیؓ نے اُحد سے واپس آ کر حضرت فاطمہؓ کو اپنی تلوار دی اور کہا اس کو دھو دو۔ آج اس تلوار نے بڑا کام کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ کی یہ بات سن رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: علیؓ! تمہاری ہی تلوار نے کام نہیں کیا۔ اَور بھی بہت سے تمہارے بھائی ہیں جن کی تلواروں نے جوہر دکھائے ہیں۔ آپؐ نے چھ سات صحابہؓ کے نام لیتے ہوئے فرمایا۔ ان کی تلواریں تمہاری تلوار سے کم تو نہ تھیں۔‘‘
(مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں ،انوار العلوم جلد 19صفحہ 59)
حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کے بارے میں
اس حوالے سے ذکر ملتا ہے کہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اُحد کی جنگ ہوئی تو لوگ شکست کھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو گئے اور
حضرت ابوطلحہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپؐ کو اپنی ڈھال سے آڑ میں لیے کھڑے رہے
اور حضرت ابوطلحہؓ ایسے تیر انداز تھے کہ زور سے کمان کھینچا کرتے تھے۔ انہوں نے اس دن دو یا تین کمانیں توڑیں۔ یعنی اتنی زور سے کھینچتے تھے کہ کمان ٹوٹ جاتی تھی اور اس وقت صحابہؓ میں سے جو کوئی آدمی تیروں کا ترکش اپنے ساتھ لیے گزرتا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرماتے کہ ابوطلحہ کے لیے تیر پھینک دو۔ یعنی یہ اچھے تیر انداز ہیں۔ اپنے تیر بھی انہیں دے دو۔ یہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے تھے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا کر لوگوں کو دیکھتے تو حضرت ابوطلحہؓ کہتے۔ بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّیْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، لَا یُصِیْبُکَ سَہْمٌ،نَحْرِیْ دُوْنَ نَحْرِکَ۔ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، سر اٹھا کر نہ دیکھیں مبادا ان لوگوں کے تیروں میں سے کوئی تیر آپؐ کو لگے۔ میرا سینہ آپؐ کے سینے کے سامنے ہے۔
بخاری میں سے یہ حوالہ اخذ کیا گیا ہے۔
(ماخوذ ازصحیح البخاری کتاب المغازی باب اذ ھمت طائفتان منکم… حدیث 4064)
(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 384-385 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہؓ ایک ہی ڈھال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے تھے اور حضرت ابوطلحہؓ اچھے تیر انداز تھے۔ جب وہ تیر چلاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جھانکتے اور ان کے تیر پڑنے کی جگہ کو دیکھتے۔
(صحیح البخاری کتاب الجہاد باب المجن ومن یترس بترس صاحبہٖ حدیث 2902)
غزوۂ اُحد میں حضرت ابوطلحہؓ کے اس شعر کے پڑھنے کا بھی ذکر آتا ہے کہ
وَجْہِیْ لِوَجْہِکَ الْوِقَاءُ
وَ نَفْسِیْ لِنَفْسِکَ الْفِدَاءُ
میرا چہرہ آپؐ کے چہرے کو بچانے کے لیے ہے اور میری جان آپؐ کی جان پر قربان ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 665 مسند حدیث 13781عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ لکھا ہے کہ ’’ابوطلحہ انصاریؓ نے تیر چلاتے چلاتے تین کمانیں توڑیں اوردشمن کے تیروں کے مقابل پر سینہ سپر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کو اپنی ڈھال سے چھپایا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 495)
پھر
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کا ذکر
ہے۔ وہ (حضرت ابوطلحہؓ) انصاری تھے۔ یہ قریش میں سے تھے۔ جنگ اُحدکے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بچاتے ہوئے یہ تیر اپنے ہاتھوں پہ لیتے تھے۔ حضرت طلحہؓ اُحد کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ثابت قدم رہے اور آپؐ سے موت پر بیعت کی۔ مالک بن زُھَیْرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیر مارا تو حضرت طلحہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے بچایا۔ تیر اُن کی چھوٹی انگلی پر لگا جس سے وہ بےکار ہو گئی۔ جس وقت انہیں پہلا تیر لگا تو تکلیف سے سی کی آواز نکلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ بسم اللہ کہتے تو اس طرح جنت میں داخل ہوتے کہ لوگ انہیں دیکھ رہے ہوتے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 162-163 طلحہ بن عبید اللّٰہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
اسی واقعہ کی تفصیل سیرت الحلبیہ میں ایک روایت میں اس طرح بھی ہے: قیس بن ابو حازم کہتے ہیں کہ مَیں نے اُحد کے دن حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے ہاتھ کا حال دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیروں سے بچاتے ہوئے شل ہو گیا تھا۔ ایک قول ہے کہ اس میں نیزہ لگا تھا اور اس سے اتنا خون بہا کہ کمزوری سے بےہوش ہو گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان پر پانی کے چھینٹے ڈالے یہاں تک کہ ان کو ہوش آیا۔ ہوش آنے پر انہوں نے فوراً پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے کہا کہ وہ خیریت سے ہیں اور انہوں نے ہی مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔
حضرت طلحہؓ نے کہا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کُلُّ مُصِیْبَةٍ بَعْدَہٗ جَلَلٗ۔کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں۔ ہر مصیبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھوٹی ہے۔
(سیرۃ حلبیہ جلد 2 صفحہ 324 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
عائشہ اور ام اسحاق جو حضرت طلحہ کی بیٹیاں تھیں۔ ان دونوں نے بیان کیا کہ اُحد کے دن ہمارے والد کو چوبیس زخم لگے جن میں سے ایک چوکور زخم سر میں تھا اور پاؤں کی رگ کٹ گئی تھی۔ انگلی شل ہوگئی تھی اور باقی زخم جسم پر تھے۔ ان پر غشی کا غلبہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے تھے۔ آپؐ کا چہرہ بھی زخمی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی غشی کا غلبہ تھا۔ حضرت طلحہ ؓآپؐ کو اٹھا کر اپنی پیٹھ پر اس طرح الٹے قدموں پیچھے ہٹے کہ جب کبھی مشرکین میں سے کوئی ملتا تو وہ اس سے لڑتے یہاں تک کہ آپؐ کو گھاٹی میں لے گئے اور سہارے سے بٹھا دیا۔
(الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ163 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
غزوۂ اُحد اور جانبازاور وفا دار صحابیوںؓ کا ذکر
حضرت مصلح موعودؓ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ اُحد کے دن جب خالد بن ولید نے مسلمانوں پر اچانک حملہ کیا اور مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا تو ’’چند صحابہؓ دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ تیس تھی۔ کفار نے شدت کے ساتھ اس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے۔ یکے بعد دیگرے صحابہؓ آپؐ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے۔ علاوہ شمشیر زنوں کے تیر انداز اونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے۔‘‘ یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن اس وقت بے تحاشہ تیر مارتے تھے ’’اس وقت طلحہؓ نے جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے، یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا۔ تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھا وہ طلحہؓ کے ہاتھ پر گرتا تھا مگر جانباز اور وفادار صحابی اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا۔ اِس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہ ؓکا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بےکار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ ان کا باقی رہ گیا۔
سالہا سال بعد اِسلام کی چوتھی خلافت کے زمانہ میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی واقع ہوئی تو کسی دشمن نے طعنہ کے طور پر طلحہؓ کو کہا۔ ٹُنڈا۔‘‘ یعنی ہاتھ تمہارا کام نہیں کر رہا۔ ’’اِس پر ایک دوسرے صحابیؓ نے کہا۔ ہاں ٹُنڈا ہی ہے مگر کیسا مبارک ٹنڈا ہے۔ تمہیں معلوم ہے طلحہؓ کا یہ ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی حفاظت میں ٹُنڈا ہوا تھا۔ اُحد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہؓ سے پوچھا کہ جب تیر آپؐ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے جواب دیا۔ درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہل جائے اور تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر آگرے۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن ، انوار العلوم جلد 20صفحہ 250)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ
ان جاںنثاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے بڑی بہادری اور وفا کا مظاہرہ کیا۔ عائشہ بنت سعد نے اپنے والد سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب لوگوں نے یعنی دشمنوں نے پلٹ کر حملہ کیا تو مَیں ایک طرف ہو گیا۔ مَیں نے کہا ان کو خود سے ہٹا دوں گا یا تو مَیں خود نجات پا جاؤں گا اور یا مَیں شہید ہو جاؤں گا تو اچانک مَیں نے ایک سرخ چہرے والے شخص کو دیکھا۔ قریب تھا کہ مشرکین ان پر غالب آ جائیں تو اس نے اپنا ہاتھ کنکریوں سے بھر کر ان کو مارا تو اچانک میرے اور اس شخص کے درمیان مِقْدَاد آ گئے تو مَیں نے ان سے پوچھنے کا ارادہ کیا۔ اس نے مجھے کہا اے سعد! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، تجھے بلا رہے تھے۔ تو مَیں کھڑا ہوا اور مجھے ایسا لگا گویاکہ مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپؐ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا۔ مَیں تیر چلانے لگا اور مَیں کہتا کہ اے اللہ! تیرا تیر ہے تُو اس کو اپنے دشمن کو مار دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے: اے اللہ! تُو سعد کی دعا قبول کر لے۔ اے اللہ! سعد کے نشانے کو درست کر دے۔ اے سعد! تجھ پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں۔ سعد کہتے ہیں یعنی کہ یہ واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ اس طرح مَیں کر رہا تھا لیکن اس وقت نظارہ ایسا تھا کہ مجھے لگتا تھا کوئی فرشتہ ہمارے بیچ میں آ گیا ہے اور وہ بھی ساتھ لڑ رہا ہے لیکن اس وقت مجھے کسی نے بتایا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ لگتا ہے مختلف کشفی حالتیں لوگوں میں تھیں یا پھر حقیقت تھی۔ لیکن آخر میں یہ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ چنانچہ
سعدؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے جو تیر بھی چلایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ یہ فرماتے اے اللہ! اس کے نشانے کو درست کر دے اور اس کی دعا کو قبول کر لے۔ حتی کہ جب مَیں اپنے ترکش کے تیر چلا کر فارغ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش کے تیر پھیلا دیے اور مجھے ایک بغیر پیکان اور بغیر پر کے تیر دیا اور وہ دوسرے تیروں سے زیادہ تیز تھا۔
علامہ زہریؒ نے لکھا ہے کہ اس دن سعدؓ نے ایک ہزار تیر چلائے تھے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 200-201 دارالکتب العلمیۃ)
غزوۂ اُحد کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثابت قدم صحابہؓ تھوڑے رہ گئے اس وقت حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ سعد بن وقاص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تیر پکڑاتے جاتے تھے اور حضرت سعدؓ یہ تیر دشمن پربےتحاشا چلاتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے فرمایا: تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں برابر تیر چلاتے جائو۔ سعداپنی آخری عمر تک ان الفاظ کونہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 495)
ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اُحد کے دن اپنے ترکش سے تیر نکال کر میرے لیے بکھیر دیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیر چلاؤ تجھ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب اذ ھمت طائفتان منکم… حدیث 4055)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لیے اپنے ماں باپ فدا کرنے کی دعا دیتے نہیں سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے غزوۂ اُحد کے موقع پر فرمایا تھا کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں تیر چلاتے جاؤ۔ اے بھرپور طاقتورجوان تیر چلاتے جاؤ۔
(جامع ترمذی کتاب المناقب باب ارم فداک ابی و امی حدیث 3753)
لیکن بخاری میں ایک اَور روایت بھی ہے کہ حضرت سعدؓ کے علاوہ تاریخ میں حضرت زُبیر بن عوام ؓکا نام بھی ملتا ہے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ یعنی تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔
(صحیح بخاری کتاب فضائل النبیؐ باب مناقب الزبیر بن العوامؓ حدیث 3720)
اسی طرح
حضرت ابودُجانہؓ کی قربانی
کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ
غزوۂ اُحد میں حضرت ابودُجَانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں آپ کی ڈھال بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ جو تیر بھی آتا وہ حضرت ابودجانہؓ کی کمر پر لگتا ۔ وہ جھکے ہوئے کھڑے تھے اور تمام تیر اپنی کمر پر لے رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی کمر میں بےشمار تیر پیوست ہو گئے۔
(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ314 دارالکتب العلمیۃ بیروت2008ء)
حضرت ابودُجَانہؓ کی ثابت قدمی کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ ’’ابودُجَانہؓ نے بڑی دیرتک آپؐ کے جسم کواپنے جسم سے چھپائے رکھا اورجو تیر یا پتھر آتا تھا اسے اپنے جسم پرلیتے تھے۔ حتی کہ ان کا بدن تیروں سے چھلنی ہو گیا مگر انہوں نے اُف تک نہیں کی تاایسا نہ ہوکہ ان کے بدن میں حرکت پیدا ہونے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کاکوئی حصہ ننگا ہو جاوے اور آپؐ کو کوئی تیر آلگے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ495)
پھر
حضرت سَہْل بن حُنَیفؓ
ہیں۔ یہ بھی عظیم المرتبت صحابہؓ میں سے تھے جنہوں نے اُحد کے روز ثابت قدمی دکھائی۔ اس روز انہوں نے موت پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ آپؓ اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ڈھال بن کر ڈٹے رہے۔ جب دشمن کے شدید حملے کی وجہ سے مسلمان بکھر گئے تو اس دن انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تیر چلائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سہل کو تیر پکڑاؤ کیونکہ تیر چلانا اس کے لیے آسان امر ہے۔
(الاستیعاب جلد2 صفحہ 662-663 دار الجیل بیروت 1992ء)
پھر ایک خاتون صحابیہ
حضرت اُمّ عُمَارہؓ
کا بھی ذکر ملتا ہے جنہوں نے جنگ اُحد میں بہادری کے جوہر دکھائے اور یہ بہادری کے جوہر دکھانے والی بڑی باوفا جاںنثار صحابیہ ؓتھیں۔ ان کا پورا نام اُمّ عُمَارہ، عمارہ مَازِنِیَہتھا۔ حضرت اُمّ عُمَارہؓ کا نام نُسَیْبَہتھا۔ نُسَیْبَہان کا اصل نام تھا۔ یہ حضرت زید بن عاصم ؓکی بیوی تھیں۔ حضرت اُمّ عمارہؓ خود بیان کرتی ہیں کہ غزوۂ اُحد کے موقع پر مَیں یہ دیکھنے کے لیے روانہ ہوئی کہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ میرے پاس پانی سے بھرا ہوا ایک مشکیزہ بھی تھا جو مَیں نے زخمیوں کو پلانے کے لیے ساتھ لے لیا تھا یہاں تک کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئی۔ اُس وقت آپؐ صحابہؓ کے درمیان میں تھے اور اس وقت مسلمانوں کا پلہ بھاری تھا یعنی جنگ کا شروع کا حصہ تھا۔ پھر اچانک صحابہؓ افراتفری میں اِدھر اُدھر ہو گئے۔ وہی جو درّہ چھوڑنے والوں کا واقعہ ہوا اور مشرکوں نے پیچھے سے حملہ کیا۔ کہتی ہیں کہ ادھر مشرکوں نے چاروں طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یلغار کر دی۔ یہ صورتحال دیکھ کر مَیں کھڑی ہو کر جنگ کرنے لگی۔ مَیں تلوار کے ذریعہ دشمنوں کو آپؐ کے قریب آنے سے روک رہی تھی۔ ساتھ ہی مَیں کمان سے تیر بھی چلا رہی تھی یہاں تک کہ مَیں خود بھی زخمی ہو گئی۔ ان کے کندھے پر بہت گہرا زخم لگا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے زخمی کیا تو انہوں نے کہا ابنِ قمئہ نے۔ حضرت اُمّ عمارہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب اچانک مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے تتر بتر ہو گئے تو وہ یہ کہتا ہوا آگے بڑھا کہ مجھے محمدؐ کی نشاندہی کر دو کیونکہ اگر آج وہ بچ گئے تو سمجھو کہ مَیں نہیں بچا۔ یعنی یا تو آج وہ رہیں گے اور یا میں رہوں گا۔ وہ جب قریب آیا تو کہتی ہیں کہ مَیں نے اور مصعب بن عمیرؓ نے اس کا راستہ روکا۔ اس وقت اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ حملہ کر کے یہ زخم لگایا۔ یہ جو کندھے کا زخم پوچھ رہے ہو ناں یہ اس نے مجھے لگایا تھا۔ مَیں نے اس پر کئی وار کیے مگر وہ خدا کا دشمن دو زرہیں پہنے ہوئے تھا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ غزوۂ اُحد کے موقع پر نُسَیْبَہ، ان کے شوہر حضرت زید بن عاصمؓ اور اُن کے دونوں بیٹے خُبیب اور عبداللہ سب کے سب جنگ کے لیے گئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ تم گھر والوں پر رحمتیں نازل فرمائے۔ ایک روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گھرانے میں برکت عطا فرمائے۔ بہرحال
یہ جو دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تو حضرت اُمّ عُمَارہ یعنی نُسَیْبَہنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ ہم جنت میں آپؐ کے ساتھ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ! ان کو جنت میں میرا رفیق اور ساتھی بنا۔ اسی وقت حضرت اُمّ عُمَارہؓ نے کہا کہ اب مجھے اس کی پروا نہیں ہے کہ دنیا میں مجھ پر کیا گزرتی ہے۔ یہ دعا مجھے مل گئی میرے لیے بہت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ اُحد کے دن میں دائیں یا بائیں جدھر بھی دیکھتا تھا ان کو دیکھتا تھا کہ میری حفاظت کے لیے دشمن سے لڑ رہی ہیں۔ غزوۂ اُحد میں حضرت اُمّ عمارہؓ کو بارہ زخم آئے جن میں نیزوں کے زخم بھی تھے اور تلواروں کے بھی تھے۔
(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ313-314 دارالکتب العلمیۃ2008ء)
حضرت اُمّ عمارہؓ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ ’’ایک مسلمان خاتون جس کا نام اُمّ عمارہ تھا تلوار ہاتھ میں لے کر مارتی کاٹتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی۔ اس وقت عبداللہ بن قَمِئہ آپؐ پر وار کرنے کے لئے آگے بڑھ رہا تھا۔ مسلمان خاتون نے جھٹ آگے بڑھ کر وہ وار اپنے اوپر لے لیا اور پھر تلوار تول کر اس پر اپنا وار کیا، مگر وہ ایک دوہری زرہ پہنے ہوئے مرد تھا اور یہ ایک کمزور عورت۔ اس لئے وارکاری نہ پڑا۔ اور ابنِ قمئہ دَرّاتا ہوا اور مسلمانوں کی صفوں کو چیرتا ہوا آگے آیا اورصحابہؓ کے روکتے روکتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا اورپہنچتے ہی اس زور اور بے دردی کے ساتھ آپؐ کے چہرہ مبارک پر وار کیا کہ صحابہؓ کے دل دہل گئے۔ جاں نثار طلحہؓ نے لپک کر ‘‘ وہ وار ’’اپنے ننگے ہاتھ پر لیا مگر ابنِ قمئہ کی تلوار ان کے ہاتھ کو قلم کرتی ہوئی آپؐ کے پہلو پر پڑی۔ زخم توخدا کے فضل سے نہ آیا کیونکہ آپؐ نے اوپر تلے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں اوروار کازور بھی طلحہ کی جاں نثاری سے کم ہوچکا تھا مگر اس صدمہ سے آپؐ چکر کھا کر نیچے گرے اور ابنِ قمئہ نے پھر خوشی کانعرہ لگایا کہ مَیں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کومار لیا ہے۔ ابنِ قمئہ توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پروار کرکے خوشی کانعرہ لگاتا ہوا پیچھے ہٹ گیا اور اپنے زعم میں یہ سمجھا کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مار لیا ہے مگر جونہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گرے حضرت علیؓ اورطلحہؓ نے فوراً آپؐ کواوپر اٹھا لیا اور یہ معلوم کر کے مسلمانوں کے پژمردہ چہرے خوشی سے تمتما اٹھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ سلامت ہیں۔ اب آہستہ آہستہ لڑائی کازور بھی کم ہونا شروع ہو گیا کیونکہ ایک توکفار اس اطمینان کی وجہ سے کچھ ڈھیلے پڑگئے تھے کہ محمد رسول اللہ شہید ہوچکے ہیں اوراس لئے انہوں نے لڑائی کی طرف سے توجہ ہٹا کر کچھ تواپنے مقتولین کی دیکھ بھال اورکچھ مسلمان شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے کی طرف پھیر لی تھی اور دوسری طرف مسلمان بھی اکثر منتشر ہو چکے تھے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےصفحہ496-497)
جنگ میں ابوسفیان کے ساتھ مکالمے کا ذکر
ملتا ہے اور قریش کس طرح واپس ہوئے۔ غزوۂ اُحد کے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے ساتھ پہاڑ پر چڑھ گئے تو کفار بھی آپؐ کے پیچھے آئے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ابوسفیان نے تین بار پکار کر کہا:کیا ان لوگوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو اسے جواب دینے سے روک دیا۔ پھر اس نے تین بار پکار کر پوچھا: کیا لوگوں میں ابوقحافہ کا بیٹا یعنی ابوبکر ہے؟ پھر تین بار پوچھا :کیا ان لوگوں میں ابنِ خطاب یعنی عمر ہے؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور کہنے لگا یہ جو تھے وہ تو مارے گئے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ اپنے آپ کو قابو میں نہ کر سکے اور بولے اے اللہ کے دشمن! بخدا! تم نے جھوٹ کہا ہے۔ جن کا تم نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں۔ جو بات ناگوار ہے اس میں سے ابھی تیرے لیے بہت کچھ باقی ہے۔ یہ بھی بخاری کی روایت ہے۔
(صحیح البخاری۔ کتاب الجہاد والسیر باب مایکرہ من التنازع والاختلاف فی الحرب)
ابوسفیان بولا یہ معرکہ بدر کے معرکہ کا بدلہ ہے۔ لڑائی تو ڈول کی طرح ہے۔ کبھی اس کی فتح اور کبھی اس کی فتح۔ تم لوگوں میں سے کچھ ایسے مُردے پاؤ گے جن کے ناک کان کاٹے گئے ہیں یعنی مُثْلہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ مَیں نے اس کا حکم نہیں دیا لیکن مَیں نے اسے بُرا بھی نہیں سمجھا۔ پھر اس کے بعد وہ یہ رجزیہ فقرہ پڑھنے لگا کہ اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔ہبل کی جے، ہبل کی جے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اب اسے جواب نہیں دو گے؟ صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! ہم کیا کہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ اللہ ہی سب سے بلند اور بڑی شان والا ہے۔ پھر ابوسفیان نے کہا عُزّیٰ نامی بت ہمارا ہے اور تمہارا کوئی عُزّیٰ نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا تم اسے جواب نہیں دو گے؟ حضرت بَرَاء بن عازِبؓ کہتے ہیں کہ صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! ہم کیا کہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو کہ اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ۔کہ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔
(صحیح بخاری کتاب الجھاد والسیرباب ما یکرہ من التنازع والاختلاف فی الحرب… حدیث 3039)
اس کے بعد ابوسفیان نے پکار کر مسلمانوں سے کہا کہ آئندہ سال میدانِ بدر میں ہم تم سے پھر ملیں گے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ میں سے ایک شخص سے فرمایا۔ کہہ دو کہ ہاں ہمارا تمہارا ملنے کا وعدہ رہا۔
(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ 333 دارالکتب العلمیۃ بیروت2008ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ ’’اِدھر مسلمان اپنی مرہم پٹی میں مصروف تھے تو اُدھر دوسری طرف یعنی نیچے میدان جنگ میں مکہ کے قریش مسلمان شہیدوں کی نعشوں کی نہایت بے دردانہ طور پربے حرمتی کررہے تھے۔ مُثْلہ کی وحشیانہ رسم پوری وحشت کے ساتھ اداکی گئی اور مسلمان شہیدوں کی نعشوں کے ساتھ مکہ کے خونخوار درندوں نے جو کچھ بھی ان کے دل میں آیا وہ کیا۔ قریش کی عورتوں نے مسلمانوں کے ناک کان کاٹ کران کے ہار پروئے اور پہنے۔ ابوسفیان کی بیوی ہند حضرت حمزہؓ کا جگر نکال کر چبا گئی۔ غرض بقول سرولیم میور ’’مسلمانوں کی نعشوں کے ساتھ قریش نے نہایت وحشیانہ سلوک کیا‘‘ اور مکہ کے رؤساء دیر تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش میدان میں تلاش کرتے رہے اور اس نظارے کے شوق میں ان کی آنکھیں ترس گئیں مگر جو چیز کہ نہ پانی تھی نہ پائی۔‘‘ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا۔ آپؐ تو وہاں تھے ہی نہیں۔ ’’اس تلاش سے مایوس ہوکر ابوسفیان اپنے چند ساتھیوں کوساتھ لے کر اس دَرَّہ کی طرف بڑھا جہاں مسلمان جمع تھے اور اس کے قریب کھڑے ہو کر پکار کر بولا۔ ’’مسلمانو! کیا تم میں محمدؐ ہے؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی جواب نہ دے۔ چنانچہ سب صحابہؓ خاموش رہے۔ پھر اس نے ابوبکرؓ وعمرؓ کا پوچھا مگر اس پر بھی آپؐ کے ارشاد کے ماتحت کسی نے جواب نہ دیا۔ جس پر اس نے بلند آواز سے فخر کے لہجہ میں کہا کہ یہ سب لوگ مارے گئے ہیں کیونکہ اگروہ زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ اس وقت حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا اور وہ بے اختیار ہو کر بولے۔ اے عدواللہ! تُو جھوٹ کہتا ہے ہم سب زندہ ہیں اور خدا ہمارے ہاتھوں سے تمہیں ذلیل کرے گا۔ ابوسفیان نے حضرت عمرؓ کی آواز پہچان کر کہا ’’عمر! سچ سچ بتاؤ کیا محمدؐ زندہ ہے؟‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا۔ ’’ہاں ہاں! خدا کے فضل سے وہ زندہ ہیں اورتمہاری یہ باتیں سن رہے ہیں۔‘‘ ابوسفیان نے کسی قدر دھیمی آواز میں کہا۔ توپھر ابنِ قمئہ نے جھوٹ کہا ہے کیونکہ مَیں تمہیں اس سے زیادہ سچاسمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ابوسفیان نے نہایت بلند آواز سے پکار کر کہا۔ اُعْلُ ھُبَلْ یعنی ’’اے ہبل تیری بلندی ہو۔‘‘ ’’صحابہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کاخیال کر کے خاموش رہے‘‘ کیونکہ آپؐ نے پہلے روکا تھا ناں۔ ’’مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جواپنے نام پر تو خاموش رہنے کا حکم دیتے تھے اب خداتعالیٰ کے مقابلہ میں بت کانام آنے پربےتاب ہوگئے اور فرمایا ’’تم جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہؐ! کیا جواب دیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلّ ۔ یعنی ’’بلندی اوربزرگی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔‘‘ ابوسفیان نے کہا۔ لَنَاالْعُزّٰی وَلاَ عُزّیٰ لَکُمْ۔’’ہمارے ساتھ عزیٰ ہے اور تمہارے ساتھ عزیٰ نہیں ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہو اَللّٰہُ مَوْلانا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ۔ عزیٰ کیا چیز ہے۔ ’’ہمارے ساتھ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارے ساتھ کوئی مدد گار نہیں۔‘‘ اس کے بعد ابوسفیان نے کہا۔ ’’لڑائی ایک ڈول کی طرح ہوتی ہے جو کبھی چڑھتا اور کبھی گرتا ہے۔ پس یہ دن بدر کے دن کا بدلہ سمجھو اور تم میدان جنگ میں ایسی لاشیں پاؤگے جن کے ساتھ مثلہ کیا گیا ہے۔ مَیں نے اس کا حکم نہیں دیا مگرجب مجھے اس کا علم ہوا تو مجھے اپنے آدمیوں کا یہ فعل کچھ بُرا بھی نہیں لگا۔‘‘ اورہمارے اور تمہارے درمیان آئندہ سال انہی ایام میں بدر کے مقام میں پھر جنگ کا وعدہ رہا۔ ایک صحابیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے ماتحت جواب دیا کہ ’’بہت اچھا۔ یہ وعدہ رہا۔‘‘ یہ کہہ کرابوسفیان اپنے ساتھیوں کو لے کر نیچے اترگیا اورپھر جلد ہی لشکر قریش نے مکہ کی راہ لی۔‘‘
آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش کواس موقعہ پر مسلمانوں کے خلاف غلبہ حاصل ہوا تھا اورظاہری اسباب کے لحاظ سے وہ اگر چاہتے تواپنی اس فتح سے فائدہ اٹھا سکتے تھے اور مدینہ پر حملہ آور ہونے کا راستہ تو بہرحال ان کے لئے کھلا تھا مگر خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ قریش کے دل باوجود اس فتح کے اندر ہی اندر مرعوب تھے اور انہوں نے اسی غلبہ کوغنیمت جانتے ہوئے جو اُحد کے میدان میں ان کوحاصل ہوا تھا مکہ کو جلدی جلدی لوٹ جانا ہی مناسب سمجھا مگر بایں ہمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید احتیاط کے خیال سے فوراً ستر صحابہؓ کی ایک جماعت جس میں حضرت ابوبکرؓ اورحضرت زبیرؓبھی شامل تھے تیار کر کے لشکر قریش کے پیچھے روانہ کر دی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ عام مؤرخین یوں بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت علیؓ یابعض روایات کی رُو سے سعدبن وقاص ؓکو قریش کے پیچھے بھجوایا اور ان سے فرمایا کہ اس بات کاپتہ لاؤ کہ لشکرِ قریش مدینہ پر حملہ کرنے کی نیت تو نہیں رکھتا اور آپؐ نے ان سے فرمایا اگر قریش اونٹوں پر سوار ہوں اور گھوڑوں کو خالی چلا رہے ہوں تو سمجھنا کہ وہ مکہ کی طرف واپس جارہے ہیں، مدینہ پرحملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اور اگر وہ گھوڑوں پر سوار ہوں تو سمجھنا ان کی نیت بخیر نہیں اور آپؐ نے ان کو تاکید فرمائی کہ اگر قریش کالشکر مدینہ کا رخ کرے تو فوراً آپؐ کواطلاع دی جاوے اور آپؐ نے بڑے جوش کی حالت میں فرمایا کہ
اگر قریش نے اس وقت مدینہ پرحملہ کیا تو خدا کی قسم! ہم ان کا مقابلہ کرکے انہیں اس حملہ کامزا چکھا دیں گے۔
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے آدمی آپؐ کے ارشاد کے ماتحت گئے اوربہت جلد یہ خبر لے کر واپس آگئے کہ قریش کا لشکر مکہ کی طرف جارہا ہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ498تا500)
حضرت مصلح موعودؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہو کر بےہوش ہونے اور اس کے بعد کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آگیااور صحابہؓ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں۔ بھاگا ہو الشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔ جب دامنِ کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیاتا ایسا نہ ہو دشمن حقیقتِ حال سے واقف ہوکر حملہ کردے اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں۔ جب اِسلامی لشکر سے اِس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابو سفیان کو یقین ہو گیا کہ اس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں۔ پھر ابو سفیان نے آواز دی ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا۔ تب عمرؓ جو بہت جوشیلے آدمی تھے انہوں نے اس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو۔ اب کفار کو یقین ہو گیا کہ اِسلام کے بانی کو بھی اور ان کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے۔ اِس پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اُعْلُ ھُبَل ۔ اُعْلُ ھُبَل ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اس نے آج اِسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکرؓ کی موت کے اعلان پر اور عمرؓ کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرما رہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفار کا لشکر لوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں
اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں ماراگیا تو آپؐ کی روح بے تاب ہوگئی اور آپؐ نے نہایت جوش سے صحابہؓ کی طر ف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔ اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی۔‘‘ یہ جھوٹ ہےتمہارا۔ ’’اللّٰہ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک ہی معزز ہے اوراس کی شان بالا ہے۔
اوراس طرح آپؐ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی۔ اِس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑا کہ باوجود اِس کے کہ ان کی امیدیں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ ان کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے ان کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکے اور جس قدر فتح ان کو نصیب ہوئی تھی اسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن ،انوارالعلوم جلد20صفحہ 252-253)
حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف زاویوں سے اس واقعہ کو مختلف جگہ بیان فرمایا ہے جو ان شاء اللہ آئندہ بھی بیان کروں گا۔
اس وقت جیساکہ میں عموماً دعا کے لیے کہتا ہوں،
فلسطینیوں کے عمومی حالات کے لیے دعائیں جاری رکھیں۔
سنا ہے کہ شاید غزہ میں تو جنگ بندی کی کوشش ہو رہی ہے۔ شاید اسرائیلی حکومت بھی کچھ حد تک مان جائے لیکن لبنان کی سرحد کے ساتھ جنگ بھڑکنے کے امکان زیادہ بڑھ رہے ہیں اور اس کا اثر جو ہے پھر ویسٹ بنک کے فلسطینیوں پر بھی ہو گا۔ مغربی حکومتوں میں انصاف کا کوئی نام و نشان ہی نہیں۔ اب تو ان کے اپنے لکھنے والے مزید کھل کر لکھنے لگ گئے ہیں کہ ظلم کی انتہا ہو رہی ہے۔ امریکہ کے لیڈر صرف اپنی معیشت بہتر کرنے کے لیے ان جنگوں کو ہوا دے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی آمد بڑھ رہی ہے کیونکہ ان کے اسلحہ کے کارخانے زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔ اب تو ان کے اپنے تجزیہ نگار بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اپنی اکانومی کو بہتر کرنے کے لیے اس جنگ کو طول دینے کی کوشش کر رہا ہے اور دنیا میں فساد پھیلا رہا ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کی پکڑ سے یہ لوگ بچ نہیں سکتے۔
احمدی بہرحال اپنی دعاؤں اور رابطوں سے تباہی سے بچنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
گذشتہ دنوں یہ خبر بھی تھی کہ یو این کی مدد کرنے والی جو ایجنسی ہے امریکہ اور یوکے وغیرہ نے انہیں مالی مدد دینا بند کر دیا ہے۔ انکار کر دیا ہے کہ ان کے گیارہ یا بارہ لوگ حماس کے ساتھ ملے ہوئے تھے اس کی وجہ سے یہ ظلم کہ فلسطینیوں کی مدد نہ کرو۔ یہ اس لیے ہے کہ ان کو مجبور کیا جائے اور کچھ بھی نہیں۔لیکن حیرت اس بات پہ ہے کہ اگر مغربی ملکوں نے مدد بند کی ہے تو یہ کوئی خبر نہیں آرہی کہ تیل کی دولت رکھنے والے مسلمان ممالک نے یہ اعلان کیوں نہیں کیا کہ ہم یہ مدد کریں گے کیونکہ یواین ایجنسی نے تو اعلان کیا ہے کہ اگر مدد نہ ملی تو فروری کے بعد ہم کوئی aidنہیں پہنچا سکتے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ ان مسلمان ملکوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کا فساد بھی ختم ہو۔
اَب ایران کے ساتھ بھی جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح
یمن کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں۔
ایک ہمارے مخلص احمدی کی وہاں قید یا نظر بندی کے دوران علاج صحیح نہ ہونے کی صورت میں وفات بھی ہوئی ہے۔ تفصیلات تو مشکل سے ہی ملتی ہیں۔ بہرحال ان لوگوں کے لیے دعا کریں جو مشکلات میں گرفتار ہیں۔ مزید تفصیلات ملنے پر ان شاء اللہ مرحوم کا پھرجنازہ بھی پڑھاؤں گا۔
پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں۔
اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہمیشہ احمدیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسی طرح بعض شدت پسند تنظیموں سے بھی جماعت کو خطرہ ہے۔ جماعت کو، افرادِ جماعت کو تو ہر جگہ دوہرا خطرہ ہوتا ہے۔ ایک شہری ہونے کی حیثیت سے اور ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے۔ ربوہ اور باقی شہروں کے احمدیوں کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ شریروں کے شر اُن پر الٹائے اور
اللہ تعالیٰ ہر ملک میں احمدیوں کی حفاظت فرمائے۔ اور یہ دنیااس حقیقت کو پہچان لے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیے بغیر ان کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں ہے۔ ان کی بقا اسی میں ہے کہ اللہ کو پہچانیں اور اللہ کے بھیجے ہوئے کو مانیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی توفیق دے۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍ فروری ۲۰۲۴ء