سفید منارہ کے پاس مسیح موعود کے نزول کا مطلب
حدیث نبویؐ میں جو مسیح موعود کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ منارہ بیضاء کے پاس نازل ہو گا اس سے یہی غرض تھی کہ مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے کہ اس وقت بباعث دنیا کے باہمی میل جول کے اور نیز راہوں کے کھلنے اور سہولت ملاقات کی وجہ سے تبلیغ احکام اور دینی روشنی پہنچانا اور ندا کرنا ایسا سہل ہو گا کہ گویا یہ شخص منارہ پر کھڑا ہے….غرض مسیح کے زمانہ کے لئے منارہ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی روشنی اور آواز جلد تر دنیا میں پھیلے گی۔ اور یہ باتیں کسی اَور نبی کو میسر نہیں آئیں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۵۱ مطبوعہ ۲۰۱۹ء)
خود اس منارہ کے اندر ہی ایک حقیقت مخفی ہے اور وہ یہ کہ احادیث نبویہؐ میں متواتر آچکا ہے کہ مسیح آنے والا صاحب المَنَارہ ہو گا یعنی اُس کے زمانہ میں اسلامی سچائی بلندی کے انتہا تک پہنچ جائے گی جو اس منارہ کی مانند ہے جو نہایت اونچا ہو۔ اور دین اسلام سب دینوں پر غالب آ جائے گا اُسی کے مانند جیسا کہ کوئی شخص جب ایک بلند منار پر اذان دیتا ہے تو وہ آواز تمام آوازوں پر غالب آ جاتی ہے۔ سو مقدر تھا کہ ایسا ہی مسیح کے دنوں میں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ۔(الصف:۱۰) یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے اور اسلامی حجت کی وہ بلند آواز جس کے نیچے تمام آوازیں دب جائیں وہ ازل سے مسیح کے لئے خاص کی گئی ہے اور قدیم سے مسیح موعود کا قدم اس بلند مینار پر قرار دیا گیا ہے جس سے بڑھ کر اَور کوئی عمارت اونچی نہیں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۵۲ مطبوعہ ۲۰۱۹ء)
یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا پیغمبر خداﷺکی پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اسی غرض کے لئے پہلے دو دفعہ منارہ دمشق کی شرقی طرف بنایا گیا تھا جو جل گیا۔ یہ اسی قسم کی غرض ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی کو کسریٰ کے مال غنیمت میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تا ایک پیشگوئی پوری ہو جائے۔
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۸۰ مطبوعہ ۲۰۱۹ء حاشیہ)