بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۷۱)
٭…کیا مسلمان اپنے گھروں کے اندر کتے رکھ سکتے ہیں؟
٭…حضرت آدم علیہ السلام پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی لیکن وہ تشریعی نبی کیوں کہلاتے ہیں؟
سوال: یوکے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ میری ایک غیراحمدی دوست کہتی ہے کہ ہم گھروں کے اندر کتے نہیں رکھ سکتےکیونکہ فرشتے کتوں کو پسند نہیں کرتے۔ میرا سوال ہے کہ کیا ہم مسلمان اپنے گھروں کے اندر کتے رکھ سکتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۰۶؍دسمبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطاء فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ جس گھر میں کتا ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةُ تَمَاثِيْلَ۔(بخاری کتاب بدء الخلق باب بَاب ذِكْرِ الْمَلَائِكَةِ)یعنی فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہواور نہ اس میں جس میں تصاویر یعنی بت ہوں۔
لیکن اس کے برعکس بعض احادیث میں یہ بھی ملتا ہے کہ تین اغراض کی خاطر کتے رکھے جا سکتے ہیں۔ بھیڑ بکریوں کے گلہ کی حفاظت کے لیے، کھیت کی نگرانی کے لیے اور شکارکرنے کی خاطر۔ (بخاری کتاب المزارعۃ باب اقتناء الکلب للحرث )
اسی طرح قرآن مجید سے بھی پتہ چلتا ہے کہ سدھائے گئے شکاری جانوروں کے ذریعہ کیا گیا شکار جائز ہے۔ (سورۃ المائدہ:۵) اور حدیث میں آتا ہے کہ شکاری کتے کا مارا ہوا شکار حلال ذبیحہ ہے اگر شکار کرتے وقت بسم اللہ پڑھ لی جائے۔چنانچہ حضرت عدی بن حاتمؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضور ﷺ سے کتے کے ذریعہ شکار کرنے کی بابت دریافت کیاتو آپ نے فرمایا کہ جب تم اپنے سدھائے گئے کتے کو شکار پکڑنے کے لیے بھیجو اور تم نے اس پر بسم اللہ پڑھ لی ہو تو اگر کتا اس میں سے خود کچھ نہ کھائے اور تمہارے لیے روک رکھے تو اس کاپکڑا ہوا شکار تم کھالو۔ اگرچہ کتے نے شکار کو مار دیا ہو پھر بھی وہ تمہارے لیے حلال ہے۔ (بخاری کتاب الذبائح والصید باب اذا اکل الکلب )
پس میرے نزدیک ان ارشادات سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ بلا وجہ کتے رکھنا منع ہے۔ لیکن اگر کوئی کسی جائز ضرورت کے لیے کتے رکھتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں،لیکن ایسی صورت میں کتوں کو اپنے ساتھ گھروں کے اندر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ انہیں گھر سے باہر کسی الگ جگہ پر رکھنا چاہیے۔
کتے والے گھر میں فرشتوں کے داخل نہ ہونے والی حدیث کے ایک یہ معانی بھی ہو سکتے ہیں کہ جس گھر میں گندی فطرت اورغلاظت بھری خصلتوں والے دنیاوی لالچوں میں پڑے ہوئے لوگ رہتے ہوں جن کی ہر وقت اس طرح رالیں ٹپکتی رہتی ہوں جس طرح غیر تربیت یافتہ کتوں کی رالیں ٹپکتی ہیں اور وہ ہر آنے جانے والے پر بھونکتے رہتے ہیں وہاں خدا تعالیٰ کی برکات اور فضل نازل نہیں ہوا کرتے۔ قرآن کریم نے بھی ایسے لوگوں کے لیے کتے ہی کی مثال بیان فرمائی ہے، جو صرف دنیاوی خواہشات اور ذاتی ہوس کا شکار ہوتے ہیں اور روحانی ترقی کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی مثال اس کتے کی مانند ہے کہ اگر اسے مارنے کے لیے کوئی چیز اٹھائی جائے تو بھی وہ ہانپتا رہتا ہے اور اگر اسے چھوڑ یا جائے تو بھی وہ ہانپتا رہتا ہے۔(سورۃ الاعراف:۱۷۷)
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ کتا اس وجہ سے رکھنے کی ممانعت ہے کہ وہ ایسا پلید جانور ہے کہ اس کے مس کر جانےسے چیزیں اور کپڑے وغیرہ ناپاک ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں کتے کے کسی برتن میں منہ ڈالنے پر اسے سات دفعہ دھونے، ایک شخص کے ایک پیاسے کتے کو جو شدت پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا اپنے موزہ میں پانی لا کر پلانے پر اللہ تعالیٰ کے اس بندہ کو جنت میں داخل کر دینے، آنحضور ﷺ کے عہد مبارک میں کتوں کے مسجد کے صحن میں آنے جانے اور وہاں پیشاب کردینے اور صحابہؓ کا اس پر پانی نہ بہانے، اور سدھائے ہوئے کتے کے مارے ہوئے شکار کو کھانے کے جواز کے مضامین پر مشتمل احادیث کو ایک ہی جگہ درج کر کےاپنے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ فی ذاتہ کتا کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کے ساتھ بلا وجہ نفرت کی جائے، وہ بھی دوسرے جانوروں کی طرح کا ہی ایک جانور ہے۔البتہ چونکہ اس کے لعاب میں بعض ایسے بیکٹیریا ہوتے ہیں جو بعض اوقات انسانی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں، اس لیے اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو انسانی استعمال میں لانے سے قبل اچھی طرح دھونا ضروری ہے۔ لیکن اگر کتا انسان کی کسی چیز سے مس کر جائے تو وہ چیز پلید نہیں ہوتی اور قرآن کریم اور احادیث کی رُو سے سدھائے ہوئے کتوں سے تو مختلف کام لینا بھی جائز ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الوضوء بَاب الْمَاءِ الَّذِي يُغْسَلُ بِهِ شَعَرُ الْإِنْسَانِ)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کی تشریح کی ہے۔ چنانچہ ایک سوال کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:یہ غلط ہے۔ یہ تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ فرشتے آتے ہیں جہاں کتا بھی ہوتا ہے اور تصویریں بھی ہوتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے گھر بھی تصویریں لٹکی ہوتی تھیں اور کتا بھی پھرا کرتا تھا، وہاں تو فرشتے کوئی نہیں ڈرتے تھے۔ یہاں کتے سے مراد یہ ہے کہ کتا دل نہ ہو۔دل اگر کسی کا کتا ہو،بھونکنے والا ہو تو فرشتے وہاں نہیں آتے۔اور دوسرا ایک اَور معنی بنتے ہیں ظاہر ی طور پر کہ انگریزوں میں تو کتے بہت تربیت یافتہ ہوتے ہیں وہ یونہی حملہ نہیں کرتے، ہمارے ملک میں کتے ٹرینڈ نہیں ہوتے اور اگر غلطی سے چلے جاؤ تو وہ وحشیانہ طورپر آکے زخمی کر دیتے ہیں، حملہ کر دیتے ہیں۔جو نیک لوگ ہیں بیچارے وہ تو ایسے گھروں میں جانے سے توبہ ہی کرتے ہیں۔ فرشتوں کی طرح وہ ایسے گھروں میں نہیں جاتے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ۲۴؍مارچ۲۰۰۰ء صفحہ۴۔ ریکارڈنگ ۲۴؍اکتوبر۱۹۹۹ء)
اسی طرح ایک اَور جگہ حضور ؒنے فرمایا :’’مراد صرف یہ ہے کہ اگر کتے کاٹنے والے ہوں اور پوری طرح ٹرینڈ نہ ہوں تو جو بھی مہمان بے چارہ شریف آدمی جائے گا اس کو کتا بھونک کے پڑتا ہے۔ فرشتے سے مراد نیک دل آدمی، اچھے لوگ بھی ہیں۔ جس کے گھر میں کتا بدتمیز ہوگا وہاں تمیز والے لوگ نہیں جاتے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ۱۷؍جون ۲۰۰۰ء صفحہ۴۔ ریکارڈنگ ۱۰؍نومبر ۱۹۹۹ء)
پس کسی جائزمقصد کے لیے کتے رکھنا اور انہیں تربیت دےکر سدھا لینا جائز ہے۔تربیت یافتہ اور سدھائے ہوئے کتے بہت سمجھدار ہوتے ہیں اور اپنے مالک کے ساتھ نہایت وفادار اور اس کی حفاظت کے لیے بہت مستعد ہوتےہیں۔اپنے مالک کی بات اچھی طرح سمجھتے اور اپنی شکایت بھی مالک کے پاس ہی کرتے ہیں۔
سوال: ربوہ سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام پر الہامی کتاب نازل ہوئی، پھر بھی وہ تشریعی نبی کیوں نہیں کہلاتے۔ حضرت آدم علیہ السلام پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی لیکن وہ تشریعی نبی کہلاتے ہیں۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۰۶؍دسمبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لیے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کلام بھی کیا،انہیں لوگوں کی راہنمائی کے لیے ہدایات سے بھی نوازا اور بعض انبیاء کو صحف بھی عطا فرمائے۔ لیکن شریعت اللہ تعالیٰ نے اسی وقت نازل فرمائی جب اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان اس کا متحمل ہو سکتا تھا۔ اور پھر جب انسان آخری شریعت کی ذمہ داریوں کو برداشت کرنے کے قابل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور ہمارے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ جنہوں نے انسان کامل کے درجہ کو پایا، کے قلب مطہر پر اپنی آخری اور دائمی شریعت یعنی قرآن کریم کا نزول فرمایا۔ اس سے قبل مختلف زمانوں میں نازل ہونے والی شریعتیں اپنے اپنے زمانہ کے انسانوں کے حالات اور ان کی قابلیتوں کے مطابق اور ایک مخصوص وقت کے لیے ہوتی تھیں۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کے زمانہ کے مطابق اور اُس دور میں پائے جانے والے انسانوں کی قابلیت کے مطابق شریعت عطا فرمائی گئی۔ اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام پر ان کے زمانہ اور حالات کے مطابق شریعت نازل ہوئی۔ جس کی اتباع میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی مبعوث ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قبل تک مبعوث ہونے والے تمام انبیاء اسی شریعت کے پیروکار رہے۔ اور پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا تو آپ کو شریعت موسوی سے نوازا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے نبی جو اپنے وقت کے دنیاوی بادشاہ بھی تھےاسی شریعت موسوی کے متبعین میں سے تھے۔ اس موسوی شریعت کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جاری رہا جو موسوی شریعت کے آخری نبی تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی شکل میں اپنی آخری شریعت نازل فرمائی اور اس کے متعلق وعدہ فرمایا کہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ۔(سورۃ الحجر:۱۰)یعنی اس ذکر (یعنی قرآن) کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم یقیناً اس کی حفاظت کریں گے۔
پس قرآن کریم کی صورت میں نازل ہونے والی شریعت آخری شریعت ہے جس میں قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہدایت اور راہنمائی کے سامان موجود ہیں۔لیکن اس سے پہلے حضرت آدم اور حضرت نوح اور حضرت موسیٰ علیہم السلام پر جو شریعتیں نازل ہوئیں وہ ایک مخصوص زمانہ کے لیے تھیں اور ایک شریعت کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت نازل ہونے والے انبیاء اسی پہلی شریعت کے تابع رہے تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے نئی شریعت نازل فرما دی۔حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام موسوی شریعت ہی کی تائید اور تجدید کے لئے مبعوث ہوئے تھے، انہیں کوئی الگ شریعت نہیں دی گئی تھی۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ البقرہ کی آیت ۸۸ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:لفظ قَفَّیْنَا کے معنے ہیں ’’ہم نے پیچھے چلایا۔‘‘ اِس لفظ سے نہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اور بھی بہت سے انبیاء آئے۔ بلکہ یہ ظاہر کرنا بھی مطلوب ہے کہ وہ صاحب شریعت نبی نہ تھے۔ بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متبع تھے اور اُسی راستہ پر چلتے تھے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام چلے تھے…عام طور پر مفسرین یہ خیال کرتے ہیں کہ ہر رسول نئی شریعت لے کر آتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنحضرت ﷺ تک جس قدر انبیاء آئے وہ سب کے سب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع اور ان کی شریعت پر عمل کرنے والے تھے۔(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۲۰)
اس زمانہ کے حَکَم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے۔ (براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۴)
اپنی تصنیف شہادت القرآن میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ جل شانہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَقَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ۔ (البقرہ:۸۸)یعنی موسیٰ کو ہم نے توریت دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے تا توریت کی تعلیم کی تائید اور تصدیق کریں اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے ثُمَّ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا تَتۡرَا۔(المومنون:۴۵) یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے۔ پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اس کی تائید اور تصدیق کے لئے ضرور انبیاء بھیجا کرتا ہے چنانچہ توریت کی تائید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آیا جن کے آنے پر اب تک بائبل شہادت دے رہی ہے۔(شہادۃالقرآن، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۳۴۱،۳۴۰)
خود عیسائی اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے پاس کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی تائید کے لئے اُس زمانہ کے لاہور کے بشپ جے اے لیفرائے کی درج ذیل شہادت اپنی تصنیف خطبہ الہامیہ میں درج فرمائی ہے:
The lord Jesus Christ was certainly not a lawgiver, in the sense in which Moses was, giving a complete descriptive law about such things as clean and unclean food etc. That he did not do this must be evident to anyone who reads the New testament with any care or thought whatever.
خداوند یسوع مسیح ہرگز شارع نہ تھا جن معنوں میں کہ حضرت موسٰی صاحب شریعت تھا۔ جس نے ایک کامل مفصل شریعت ایسے امور کے متعلق دی کہ مثلاً کھانے کے لئے حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے وغیرہ۔ کوئی شخص انجیل کو بغیر غور کے سرسری نگاہ سے بھی دیکھے تو اس پر ضرور ظاہر ہو جائے گا کہ یسوع مسیح صاحب شریعت نہ تھا۔ (خطبہ الہامیہ،روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۱۲ و ۱۴)
اس کے ساتھ ساتھ اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ ہر زمانہ میں مبعوث ہونے والے انبیاء مختلف مراتب اور مختلف فضیلتوں کے حامل تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعۡضَہُمۡ دَرَجٰتٍ۔ (البقرہ:۲۵۴)کی تفسیر میں اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:یہ رسول جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ایسے ہیں کہ ان میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی تھی۔یعنی ان میں سے بعض اللہ تعالیٰ کےحضور زیادہ بلند مقام رکھتے تھے اور بعض نسبتاً کم۔یہ اس لئے کہا گیا ہے کہ پچھلے انبیاء کے ذکر پر طبعی طور پر یہ سوال ہو سکتا تھا کہ پہلے انبیاء تو ایک ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور ان کا مقابلہ بھی صرف اپنی اپنی قوم کے افراد سے تھا۔کو ئی عالمگیر مخالفت ان کی نہیں ہوئی۔ لیکن آنحضرتﷺ کا تو یہ دعویٰ ہے کہ میں ساری دنیا کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر آپ ساری دنیا کے مقابلہ میں کس طرح فتح پا سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ پہلے رسولوں میں بھی توآپس کے درجہ اور مقام کے لحاظ سے فرق تھا۔ یہ تو نہیں کہ سب ایک ہی درجہ رکھتے تھے۔ آ خر کمال کے بھی ہزاروں درجے ہیں اور خود انبیاء میں بھی مدارج فضیلت میں فرق ہوتا ہے۔ پس ان میں سے ہو نے کے یہ معنے نہیں کہ ان جیسا ہی درجہ ہو۔ اور کو ئی فضیلت نہ ہو۔ مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام جن کا یہاں ذکر کیا گیاہے وہ نبی ہو نے کے علاوہ بادشاہ بھی تھے۔ اور اس طرح ان کو بعض انبیاء کے مقابلہ میں ایک ظاہری فضیلت حاصل تھی۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کو بھی فضیلت عطا کی گئی۔ مگر داؤد کی فضیلت تو صرف چند نبیوں پر تھی۔ اور آنحضرتﷺ کی فضیلت سب انبیاء پر ہے۔ بلکہ آپ نے تو یہاں تک فر مایا کہ اگر موسٰیؑ اور عیسٰیؑ بھی میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میری اطاعت کرتے۔
مِنْھُمْ مَنْ کَلَّمَ اللّٰہُ سے بعض لوگوں نے بالمشافہ گفتگو کرنا مراد لیا ہے۔یعنی ایسے طریق پر کلام کر نا کہ درمیان میں جبرائیلی واسطہ نہ ہو۔ مگر میرے نزدیک مِنْھُمْ مَنْ کَلَّمَ اللّٰہُ سے تشریعی نبی مراد ہیں اور رَفَعَ بَعۡضَہُمۡ دَرَجٰتٍ سے غیر تشریعی انبیاء مراد ہیں۔ اس لئے کہ کلام تو ہر ایک رسول سے ہوتا ہے۔ بغیر کلام کے وہ نبی کیو نکر ہو سکتا ہے اور درجہ بھی ہر ایک کا بلند ہوتا ہے۔لیکن جب مقابلہ ہو تو اس کے یہی معنے ہونگے کہ بعض کو شریعت دی اور بعض کو صرف نبوت کا درجہ دیا گیا۔جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ان کو شریعت نہیں دی گئی محض نبوت عطا کی گئی ہے۔ اس کا ثبوت قرآن کریم سے بھی ملتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت فرما تاہے وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْ سٰی تَکْلِیْمًا( نسا ء آیت ۱۶۵) اللہ تعالیٰ نے موسٰی سے خوب اچھی طرح کلام کیا۔
یہ کہ کَلَّمَ اللّٰہُ کے معنے شریعت کے ہیں اس کا ثبوت ایک حدیث سے بھی ملتا ہے۔ امام احمدؒ نے ابوذرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فر مایا۔پہلے نبی آدم تھے۔وہ کہتے ہیں میں نے کہا کہ وَنِبیٌّ کَانَ۔کیا وہ نبی تھے؟ آ پ نے فرما یا۔ ہاں! نَبِیٌّ مُکَلَّمٌ( تفسیر فتح البیان جلد اوّل صفحہ۳۳۳) وہ مکلَّم نبی تھے۔اس سے معلوم ہوا کہ بعض نبی مکلَّم نہیں ہوتےاور چو نکہ اللہ تعالیٰ نے کلا م تو سب انبیاء سے کیا ہے اس لئے اس جگہ کلام سے مرا د کلام شریعت ہے۔ اور رَ فَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ کے معنے یہ ہیں کہ بعض کو شر یعت نہیں دی۔ ہاں نبوت کے درجہ ٔرفیع پر ان کو سر فراز فر ما یا۔ جیسے دوسری جگہ فر ما تاہے وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَٰی الْکِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِ ہ بِالرُّسُلِ۔(بقرہ آیت ۸۸) یعنی ہم نے موسیٰ ؑ کو کتا ب دی اور اس کے بعد ہم نے اس کی تعلیم کی اشاعت کے لئے پے درپے انبیاء بھیجے۔یہ تمام انبیاء غیر تشر یعی تھے جو مو سوی شر یعت کے تا بع تھے۔
پھر فر ماتا ہے وَ اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیْنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُ وْحِ الْقُدُسِ ہم نے عیسٰی بن مریم کو کھلے کھلے نشانات دیے اور روح القدس کے ساتھ اس کی تا ئید کی۔ اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنے والا ہے کہ اس سورۃ میں چونکہ یہود مخاطب ہیں۔ اس لئے حضرت مسیحؑ کے ذکر کے سا تھ ہی ان کی بعض صفات بھی بتا دی جا تی ہیں تا کہ دشمن پر حجت ہو۔ اس سے ان کی کسی خا ص فضیلت کا اظہار مقصور نہیں ہوتا۔ جیسا کہ مسیحیوں نے سمجھا ہے۔
اَیَّدْ نٰہُ بِرُ وْحِ الْقُدُسِ فر ما کر اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ئی نئی شریعت نہیں لائے تھے بلکہ انہوں نے تورات کے بعض مضامین کو نما یاں طور پر دنیا کے سا منے پیش کیا تھا اور روح القدس سے اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید فر ما ئی تھی۔ کیونکہ گو مو سوی دور میں شر یعت کی تکمیل ہو گئی تھی لیکن آ ہستہ آ ہستہ لو گوں کی نگاہ مغز سے ہٹ کر صرف چھلکے کی طرف آ گئی۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تا کہ ایک طرف تو تورات کے احکام پر عمل کرا ئیں جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے:’’یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتا بوں کو منسو خ کر نے آ یا ہوں۔ منسوخ کر نے نہیں بلکہ پورا کرنے آ یا ہوں۔‘‘ (متی باب ۵ آ یت ۱۷) اور دوسری طرف وہ لوگ جو بالکل اس کے چھلکے کو پکڑ کر بیٹھ گئے تھے ضروری تھا کہ ان کی اصلاح کی جاتی۔ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۵۷۲ تا ۵۷۴)
پس خلاصہ کلام یہ کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت داؤد علیہماالسلام پر اللہ تعالیٰ نے کوئی شرعی کتاب نہیں نازل فرمائی تھی بلکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے ہی تابع نبی تھے، انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو صحف ملے وہ دراصل موسوی شریعت ہی کی فرع تھے، کوئی نئی شریعت نہیں تھی۔ اس کے برعکس حضرت آدم علیہ السلام تشریعی نبی تھے لیکن ان پر نازل ہونے والی شریعت اُس زمانہ کے لوگوں کی قابلیت اور حالات کے مطابق اور ایک مخصوص زمانہ کے لیے تھی۔