شرط بیعت ششم ’’یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گا‘‘
آج کل کی ڈیجیٹل ترقی یافتہ زندگی میں جہاں انسانوں کے پاس وقت بہت کم ہے اور ہر کوئی وقت کی کمی کی شکایت کرتا ہے۔ اگر کبھی فرصت مل جائے تو ہم حالات حاضرہ جاننے کے لیے فوراً اپنے واٹس ایپ کے Status پر جاتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ اس میں کیا نیا شامل ہوا ہے ۔ آج کل کے دورمیں سٹیٹس معلومات کا تیز ترین ذریعہ بن گیا ہے۔ لہٰذا میں بھی سٹیٹس کی ہسٹری چیک کر رہی تھی کہ یک لخت میری نظر ایک اطلاع پر رک گئی، پھر میں نے اس کو دوبارہ پڑھا تو معلوم ہوا کہ ایک نئی رسم شلیمہ رواج پارہی ہے۔ میری متجسس طبیعت نے مزید غور سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ بعض لوگوں نے اب ایک نئی رسم کو راہ دے دی ہے اور وہ کچھ یوں ہے کہ شادی کے موقع پر لڑکی اور لڑکے والے رخصتی اور ولیمہ کا فنکشن علیحدہ علیحدہ کرنے کی بجائے رقم اکٹھی کر کے بڑے بڑے مہنگے ہوٹلوں میں یا شادی ہالز میں ایک ہی فنکشن کر رہے ہیں۔ اس مشترکہ تقریب کو شلیمہ کا نام دیا گیا ہے۔ پھر اسی طرح الٹراساؤنڈ مشین کی ایجاد کے بعد سے جب سے حمل کے چھٹے یا ساتویں مہینے میں بچے کی جنس کا تعین جو کہ امرربّی سے ہو چکا ہوتا ہے ڈاکٹر صاحبان صرف اعلان کرتے ہیں تو والدین اس اطلاع کی خوشی میں جینڈر رویل (Gender Reveal) کی تقریب منانے کی تیاریوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔باقاعدہ کیک تیار کروائے جاتے ہیں، مہمان بلائے جاتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر نے بیٹے کی خوشخبری دی ہے تو نیلے رنگ کا کیک تیار کروایا جاتا ہے اور باقاعدہ ماحول کو نیلے قمقموں اور غباروں سے مزین کیا جاتا ہے اور اگر بچی کی خوشخبری پائی ہے تو ہلکے گلابی رنگ کا کیک مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے اور فضا کو پنک(pink) غباروں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔
ایسے واقعات خلیفہ وقت سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے علم میں آئے تو انہوں نے فوراً ایسی بد رسومات اور لغو کاموں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان لغویات سے باز رہنے کی ہدایت فرمائی اور ان رسموں کی بجائے صدقہ اور خیرات کرنے، غریبوں کا خیال رکھنے یعنی بدیوں کو نیکیوں سے بدلنے کا ارشاد فرمایا۔
یہ ساری پوسٹ جس کا لب لباب میں نے اپنے الفاظ میں تحریر کیا ہے پڑھ کر میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اگر ہم لوگ خلافت کی نعمت سے مالا مال نہ ہوتے جو ہمیں زندگی کے ہر مرحلے پر اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیمات کے قریب تر رکھتی ہے تو آج ہم میں اور دوسرے مسلمانوں میں رتّی بھر بھی فرق نہ ہوتا۔
بدرسومات میں پڑنا اور لغویات کا شکار ہونا یہ تو ایسی نازیبا حرکات ہیں جن کی طرف قرآن مجید فرقان حمید آج سے چودہ سو سال پہلے درس دے چکا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف ۱۵۸ میں فرماتا ہے: اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ وَالۡاِنۡجِیۡلِ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ترجمہ: جواس رسول نبی اُمّی پر ایمان لاتے ہیں جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور اُن کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور اُن پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور اُن سے اُن کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے جو اُن پر پڑے ہوئے تھے۔ پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسے عزت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ )
جن طوقوں کو اتارنے کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نزول ہوا اور دور آخر میں نبی الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی امت محمدیہ ؐکو ایسے طوقوں سے آزاد کرنے کے لیے بھرپور کوشش کی یہاں تک کہ رسومات کے طوقوں سے گردنوں کو آزاد کرنے کے لیے چھٹی شرط بیعت میں اس بات کا ہر ایک احمدی سے یہ عہد لیا گیا۔ ہر ایک احمدی مسلمان جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا جوأ اپنی گردن میں ڈالا اور جس نے اپنے نبی آخر الزماں کی بیعت سے تجدید عہد کیا ہے وہ قرآن شریف فرقان حمید کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر ایک راہ میں دستور عمل قرار دے گا۔
یہ عہد یہ چھٹی شرط بیعت کوئی نئی ایجاد تو نہ تھی۔ یہ دراصل تجدید عہد ہی تھا جس کی طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری توجہ دلا چکے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں کہ فخرموجودات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دین کے معاملہ میں کوئی ایسی نئی رسم پیدا کرتا ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ رسم مردود اور غیر مقبول ہے۔ ( بخاری کتاب الصلح )
اوپر بیان کی گئی حدیث کو پڑھ کرہمارے پاس ’’شلیمہ‘‘ یا ’’جینڈر رویل‘‘ جیسی بدرسوماتتکو منانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر ہم دلدل پر کھڑے ہو جائیں گے اور پھر ہم اپنے پاؤں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو ہماری ایسی کوشش بے سود ہوگی۔ شیخ سعدی نے کہا تھا جب برائی پھیلنے لگے تو اسے ایک سوئی کے ساتھ بند کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اسے پھیلنے دیا جائے تو اس پر ہاتھی بھی کھڑا کر دیں تو اس کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے الحمدللہ ثم الحمدللہ کہ ہمارے پاس خلافت کا گھنا سایہ ہے جو ہمیں چلچلاتی دھوپ سے سایہ نصیب کرتا ہے لیکن افسوس ان قوموں کی حالت پر ہوتا ہے جن کے پاس ایسے گھنے سائے میسر نہیں، جنہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ ایسے لوگ مزید سے مزید کی تلاش میں رسومات کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔اپنی جھوٹی اناؤں اور جھوٹی خوشیوں کی تسکین کے لیے کیا کیا سامان عیش ڈھونڈتے ہیں۔
لیکن سنو اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ۔(الرعد:۲۹) اللہ ہی کے ذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے گلے کا ہار ہو رہی ہیں اور ان بری رسموں اور خلاف شرع کاموں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے۔‘‘( مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ ۸۴)
یہ جماعت احمدیہ کا طرہ امتیاز ہے کہ بد رسومات کا قلع قمع کر دیا جائے۔ چنانچہ ہم میں سے بچہ بچہ آگاہ ہے کہ ہم احمدی لوگ سالگرہ کیسے مناتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو بخوبی علم ہو چکا ہے کہ فضول خرچی کرکے دنیا کے طور طریقوں کے مطابق سالگرہ (Birthday) منانا فضول رسم ہے۔ احمدی لوگ بھی سالگرہ مناتے ہیں لیکن اپنے انداز سے۔اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لا کر اور صدقات دیتے ہوئے۔ اس لیے آج احمدی عورت نے پھر سے اس میدان کارزار میں اترنا ہے اور اپنے گرد و پیش میں یہ جہاد کرتے ہوئے شلیمہ یا جینڈر ریویل جیسی رسموں سے کوسوں دور رہنا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر ایسی بد رسومات میں مبتلا نہ ہوں جو احمدیوں کو زیب نہیں دیتیں اور ایک دفعہ یہ بد رسومات آپ کی تقریبات میں راہ پا گئیں تو پھر یہ بیماریاں ہمیشہ کے لیے چمٹ جائیں گی اور بڑھتی رہیں گی اور پھر ان کا کوئی علاج نہیں کر سکیں گے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍نومبر۱۹۹۳ء)
چنانچہ ہم احمدی مسلمانوں نے دراصل اصلاح نفس کے ایسے جہاد میں حصہ لینا ہے اور ہم نے اپنے عملی نمونوں سے ایسی رسومات کو روکنا ہے کیونکہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسیح محمدی اور نبی آخری الزمان ؐکو مانا ہے۔ اگر ہم لوگ بھی ایسی بدرسومات کا حصہ بن گئے تو پھر دنیا کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے کون بچائے گا۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اب ہم ایک طرف تو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام کو پہچان لیا، مان لیا ہے۔ دوسری طرف جو معاشرے کی برائیاں ہیں باوجود امام کے ساتھ عہد کرنے کے ان برائیوں کو چھوڑنا ہے ہم نہیں چھوڑ رہے۔ تو کہیں ہم پھر پیچھے کی طرف تو نہیں جا رہے۔ ہر ایک کو یہ محاسبہ کرنا چاہیے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ہم اس عہد بیعت پر قائم ہیں اپنے خدا سے ڈرتے ہوئے وساوس سے رُکے ہوئے ہیں اور ہم اس پیارے خدا کی تعریف کرتے ہوئے حمد کرتے ہوئے پھر اس کی طرف جھکتے ہیں تو وہ ہمیں اس کے عوض اپنی جنت کی بشارت دے رہا ہے۔ جیسا کہ فرمایا اور جو اپنے رب کے مرتبے سے خائف ہو اور اس نے اپنے نفس کو ہوس سے روکا تو یقیناً جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔‘‘(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ ۴۹)
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت سے مضبوط تعلق قائم رکھنے اور ہر قسم کی لغویات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین