متقی خدا تعالیٰ کےلئے اپنی جانوں کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں گراتے ہیں
قرآن کریم … میں جو یہ آیت ہے۔ وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا۔ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡہَا جِثِیًّا۔(مریم:۷۳،۷۲)یہ بھی درحقیقت صفت محمودۂ ظلومیت کی طرف ہی اشارہ کرتی ہے اور ترجمہ آیت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نفس نہیں جو آگ میں وارد نہ ہو۔ یہ وہ وعدہ ہے جو تیرے رب نے اپنے پر امر لازم اور واجب الادا ٹھہرا رکھا ہے۔ پھر ہم اس آگ میں وارد ہونے کے بعد متقیوں کو نجات دے دیتے ہیں اور ظالموں کو یعنی ان کو جو مشرک اور سرکش ہیں جہنم میں زانو پر گرے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں…اس آیت میں بیان فرمایا کہ متقی بھی اس نار کی مس سے خالی نہیں ہیں۔ اس بیان سے مراد یہ ہے کہ متقی اسی دنیا میں جو دارالابتلا ہے انواع اقسام کے پیرایہ میں بڑی مردانگی سے اس نار میں اپنے تئیں ڈالتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جانوں کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں گراتے ہیں اور طرح طرح کے آسمانی قضاء و قدر بھی نار کی شکل میں ان پر وارد ہوتے ہیں وہ ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے ہیں اور اس قدر بڑے بڑے زلزلے ان پر آتے ہیں کہ ان کے ماسوا کوئی ان زلازل کی برداشت نہیں کر سکتا اور حدیث صحیح میں ہے کہ تپ بھی جو مومن کو آتا ہے وہ نار جہنم میں سے ہے اور مومن بوجہ تپ اور دوسری تکالیف کے نار کا حصہ اسی عالم میں لے لیتا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے اس دنیا میں بہشت دوزخ کی صورت میں متمثل ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف شاقہ جہنم کی صورت میں اس کو نظر آتی ہیں پس وہ بطیب خاطر اس جہنم میں وارد ہو جاتا ہے تو معاً اپنے تئیں بہشت میں پاتا ہے۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۱۴۲ تا ۱۴۵)