تذکرۃ المہدی مؤ لفہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ سے دلچسپ اور معلوماتی انتخاب
تذکرۃ المہدی کا جتنی بار بھی مطالعہ کریں ہر دفعہ اس سے ایک احمدی کو عجیب جِلا حاصل ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق فائدہ حاصل کرتا ہے۔ افادۂ احباب کے لیے چند انتخاب تقریباً اصل الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
۱:ایک صحابی کے بارےمیں لکھا ہے کہ احمدیت قبول کرنے سے قبل آپ قادیان میں حضرت امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت سے مُشرَّف ہوئے تو ایک دم افیون ترک کر دی وہ افیون بھی مقدار سے زیادہ کھاتے تھے۔ اُن کو کوئی نقصان نہ ہوا بلکہ اور زیادہ تندرست اور قوی ہوگئے۔ (صفحہ ۷)
۲: حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ لکھتے ہیں کہ …رمضان شریف کا ذکر ہے کہ جب میرے دانتوں میں درد ہوا۔ حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین صاحب اور ڈاکٹر عبد اللہ صاحب نو مسلم نے بہت دوائیں لگائیں اور کھلائیں کچھ آرام نہ ہوا۔ جب سخت درد ہوااَور میری حالت درد سے متغیر ہوئی تو میں صبح ہی اٹھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے درد کو دیکھ کر آ پ بیتاب سے ہوگئے اور صندوق کھول کر کونین کی شیشی نکالی اپنے ہاتھ میں پانی ڈال کر جلدی جلدی گولی بنائی اور فرمایا منہ کھولو۔ میں نے کھولا تو حضرت نے اپنے ہاتھ سے کونین کی گولی میرے منہ میں ڈال دی۔ فرمایا نگل جائومیں نگل گیا۔ پھر پانی کاگلاس اپنے ہاتھ مبارک سے بھر کر لائے اور مجھے پلایا۔ پھر فرمایا کونین ہر ایک بیماری کے دورہ کو روکنے والی ہے۔ خدا شفادے۔ پس دو منٹ کے بعد درد کو آرام ہوگیا۔ پھر جو ایک دفعہ درد ہوا اور میں نے کونین کھائی کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔ تب میں نے جانا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے دستِ مبارک کی تاثیر تھی۔ (صفحہ ۱۰)
۳: آپؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھے نزلہ زکام کی بہت شکایت تھی۔ چار برس یا کچھ کم و بیش میں اس مرض میں مبتلا رہا۔ دودھ پینا۔ خوشبو سونگھنا میرے لیے زہر تھا۔ ایک روز بعد نمازِ عشاء مسجد مبارک کی چھت پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف رکھتے تھے اور سب احباب جیسے چاند کے چار طرف ستارے کوئی شہ نشین پر اور کوئی نیچے اور دائیں اور بائیں بیٹھے تھے۔ آپ نے دودھ پینے کے لیے طلب کیا اور ایک گھونٹ دودھ پی کر گلاس کو میرے ہاتھ دے دیا۔ اور فرمایا پی لو۔ میں نے عرض کیا کہ مجھ کو نزلہ اور زکام کی سخت شکایت ہے۔ میں نہیں پی سکتا۔ اگر کسی وقت پی لیتا ہوں تو مجھے زہر ہو جاتا ہے اور نزلہ بڑھ جاتا ہے۔ فرمایا خیر پی بھی لو کاہے کا زُکام وُکام ۔ میں نے ادب سے انکار نہ کیا اور گلاس پی لیا۔ پھر مجھے اس کے بعد کبھی نزلہ نہیں ہوا چاہے جتنا دودھ پیا اور جس وقت چاہا پیا اور اس سے پہلے یہ حالت رہتی تھی کہ اگر قدر قلیل بھی پی لیتا تو پندرہ پندرہ بیس بیس روز تک نزلہ رہتا اور لکھنے پڑھنے سے بیکار ہوجاتا تھا اور اب دودھ پی لیتا ہوں تو خدا کے فضل اور آپ کے پس خوردہ کی تاثیر سے کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ یہ حضرت اقدسؑ کے پس خوردہ کی تاثیر تھی جو اب تک اس کا اثر ہے۔ (صفحہ ۱۰ ۔۱۱)
۴: شہر سہارنپور میں ایک حکیم صاحب کے ساتھ آپؓ کا مباحثہ
ہوا۔ یہ حکیم صاحب مولویت میں بھی دم مارتے تھے اور اُن کا سرمُنڈا اور گھٹا ہوا تھا۔ وہ میری صورت دیکھ کر بہت بگڑے اور کہنے لگے کدھر سے آئے عیسائی صاحب؟ میں نے کہا کہ میں قادیان سے آیا ہوں یہودی صاحب۔ انہوں نے کہا ہم یہودی کیسے ہوئے۔ میں نے کہا حضرت مسیح علیہ السلام کے دشمن یہودی تھے… علاوہ اس کے ایک اور بیّن نشان تم میں نفاق کا موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا سرمُنڈا ہوا ہے اور داڑھی منڈانا منافق کی ایک علامت ہے۔ اس کو سن کر وہ بہت دَرہَمْ بَرْہَمْ ہوئے اور کہنے لگے کہ سر مُنڈانا تو سنت ہے۔ میں نے کہا کہ یہی تو کھلم کھلا علامتِ منافق ہے کہ چوری اور سینہ زوری۔ نفاق کی علامت کا نام سنت رکھنا۔ اس کے جواب میں انہوں نے یہ کہا کہ بہت مولوی۔ عالِم بلکہ مولوی رشید احمد گنگوہی بھی سر منڈاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ مولویوں کا فعل سنت ہے؟ یا آنحضرتﷺ کا فعل سنت ہے؟ ایک مُلّا بول اٹھے اچھا صاحب تم ہی بتلائو کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ سرمُنڈانا منافق کی علامت ہے۔ میں نے کہا کہ مشکوٰۃ شریف اور صحیح بخاری شریف میں لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت پر ایک وقت آنے والا ہے کہ لوگ دین سے نکل جائیں گے۔ قرآن شریف پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق کے نیچے نہیں اُترےگا۔ ( یعنی اس پر عمل نہیں کریں گے) نہ اُن سے ملاقات کرنا چاہیے۔ نہ ان کی صحبت اختیار کرنا چاہیے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ اُن کی شناخت اور علامت فرمایئے تا کہ ہم اُن سے بچیں تو آنحضرتﷺ نے فرمایا سِیْمَا ھُمُ التَّحْلِیقُ اَوِالتَّسْبِیْدُ۔ اُن کی شناخت یہ ہے کہ ان کے سر کے بال منڈے ہوئے ہوں گے۔داڑھی بھی اس میں شامل ہے۔ (صفحہ ۲۹ تا ۳۲)
۵: وجہ تصنیف نور الحق اور بُلّہ شاہ کا احوال
کتاب نور الحق جو حضرت اقدس علیہ السلام نے لکھی ہے اُس کے لکھنے کی یہ وجہ پیش آئی کہ ایک دفعہ میں سر ساوہ میں تھا کہ پادری عماد الدین امرتسری ہماری ملاقات کے لیے سرساوہ آیا اور تَوْزِیْنُ الْاَقْوال اور تعلیمِ محمدی اور دو ایک کتاب اپنی تصنیف لایا۔ مجھے یہ کتابیں اسلامی ردّ میں پڑھ کر سخت رنج ہوا۔میں نے توزین الاقوال کتاب مذکور۔ پلندہ کرکے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کردی۔ پھر پندرہ سولہ روز کے بعد میں خود حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے بعد سلام و مصافحہ فرمایا کہ پادری عماد الدین کی کتاب جو آپ نے بھیجی تھی رکھی ہے۔ ہاتھ میں کتاب لی اور باہر مکان کے تشریف لائے۔اتنے میں جناب چودھری منشی رستم علی صاحب مرحوم کورٹ انسپکٹر یکہ میں آگئے۔ حضرت اقدس ان کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے اور اس کتاب عماد الدین کا ذکر فرمایا۔ منشی صاحب …نے عرض کیا کہ میں بھی وہ کتاب لایا ہوں۔ کتاب کے دیکھنے اور پڑھنے سے مجھ کو بہت رنج ہوا ہے کہ پادری عماد الدین نے وہ باتیں لکھی ہیں جو اسلام سے ان کو کوئی تعلق اور لگائو نہیں۔ صرف افترا اور بہتان سے پُر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت اسی کتاب میں عماد الدین نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ولی نہیں ہوا۔ہاں ایک شخص کو سنا ہے کہ بُلِّہ شاہ قصور میں ہوا ہے۔ اس کی کافیاں سننے اور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کو کوئی چیز نہیں سمجھتا ہے اور برے لفظوں سے یاد کرتا ہے اور شراب اور اِباحت کو پسند کرتا ہے اور اسلام کی جابجا کافیوں میں توہین کرتا ہے…۔ آخر کار منشی صاحب مرحوم نے چند جگہ سے مضمون کتاب کا سنایا اور کچھ میں نے سنایا۔ پھر فرمایا کہ ہم اسکو اول سے آخر تک پڑھ کر کافی جواب لکھیں گے۔ (صفحہ ۴۵ تا ۴۷)
۶: مجھے ہمیشہ سے آپ سے محبت ہے اور میں دل سے تم کو دوست رکھتا ہوں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں لدھیانہ میں مقیم تھے۔حضرت پیر سراج الحق صاحب ہانسی سے لدھیانہ میں حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر آپ لکھتے ہیں:حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھےد ور سے آتے ہوئے دیکھا اور ہنسے اور کھڑے ہوگئے اور دو چار قدم آگے بڑھے اور مصافحہ کیا اور فرمایا اسباب کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نواب علی محمد خان صاحب جھجری … کے مکان پر ہے۔فرمایا ساتھ کیوں نہ لائے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور علیک الصلوٰۃ والسلام لے آئوں گا۔ فرمایا کب آئے؟ میں نے عرض کیا کہ آج ہی حاضر ہوا ہوں۔ فرمایا ٹھہر وگے؟ میں نے عرض کیا کہ آمْدَنْ بَارَاوَتْ وَرَفَتَن باجازت۔ جب تک حضور کی خوشی ہوگی اور اجازت جانے کی نہیں ملے گی ٹھہروں گا۔ حضرت اقدس یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور ہاتھ پکڑے پکڑے بیٹھ گئے۔ …فرمایا الحمد للہ آپ کو کوئی ابتلا نہیں آیا اور آ پ اس وقت میں ثابت قدم رہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ خدا کے بھیجے کو اُس کی آواز سنتے ہی قبول کر لیا اور فرمایا مجھے ہمیشہ سے آپ سے محبت ہے اور میں دل سے تم کو دوست رکھتا ہوں۔ ( صفحہ ۶۸۔۶۹)
۷: میں آپ کی خدمت میں تین ماہ رہا۔ اُس زمانہ میں حضرت اقدس علیہ السلام سخت بیمار تھے اور نماز باجماعت کا اُس حالتِ بیماری اور ضعف میں نہایت اِلتزام رکھتے تھے۔ (صفحہ ۶۹)
۸: اذان کی پابندی
حضرت پیر سراج الحق صاحب ’’نماز باجماعت کی پابندی‘‘کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں:میں ۱۸۸۲ء سے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تھا… تب سے وفات کے کچھ ماہ پیشتر تک حاضر خدمت رہا۔ ہمیشہ نماز باجماعت کا حضرت کو پابند پایا اور جب حضرت اقدس علیہ السلام نماز پڑھتے خواہ مسجد میں یا مکان میں یا جنگل میں اذان ضرور کہلواتے حالانکہ لدھیانہ میں جس مکان میں حضرت کا قیام تھا اس کے قریب ہی مسجد تھی اور اس مسجد میں برابر اذان ہوتی تھی لیکن پھر بھی آپ اذان نماز کے وقت دلوا لیتے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت مسجد میں اذان ہوتی ہے اور اس کی برابر آواز یہاں اِس مکان میں پہنچتی ہے۔ وہی اذان کافی ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا۔ نہیں اذان ضرور دو۔ جہاں نماز وہاں اذان ضروری ہے۔ (صفحہ ۷۰)
۹: اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں ڈالنے کی حکمت
ایک شخص نے عرض کیا کہ اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں کیوں دیتے ہیں۔ فرمایا اس میں حکمت یہ ہے کہ کان میں انگلی دینے سے آواز کو قوت ہوجاتی ہے۔ پہلے آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اذان بغیر کانون میں انگلی دئے دیا کرتے تھے۔ ایک روز حضرت بلالؓ کی آواز میں آپ نے ضعف پایا تو فرمایا۔ بلال کانوں میں انگلی دے کر اذان کہو۔ سو بلال نے ایسا کیا تو آواز میں قوت پیدا ہوگئی اورضعف جاتا رہا۔ پھر یہ فعل حسب فرمودہ آنحضرتﷺ سنت ٹھہر گیا۔ پھر فرمایا کہ اکثر گویوںاور کلامتوں کو دیکھا گیا ہوگا کہ وہ گانے کے وقت جو اونچی اور بلند آواز اُٹھاتے ہیں تو کان پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔ تاکہ آواز کی کمزوری جاتی رہے اور قوت پیدا ہو جائے۔ یہ کہہ کر اور میری طرف دیکھ کر ہنسے شاید اس واسطے ہنسے کہ میں اس زمانہ میں قوالی سنا کرتا تھا۔ ( صفحہ ۷۰)
۱۰:میر عباس علی صاحب کا اعتراض اور حضور علیہ السلام کا جواب
ایک روز عباس علی نے کہا کہ آپ زیادہ باتیں کرتے ہیں اور مخالفوں کی نسبت ایسے الفاظ کہتے ہیں کہ جن سے ان کی پردہ دری ہوتی ہے۔حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ حق بات تو کہی جاتی ہے۔اس میں اگر کسی کی پردہ دری ہو تو ہم کیا کریں۔
ہم پر اللہ تعالیٰ کی دو قسم کی وحی ہوتی ہے۔ ایک خفی اور دوسری جلی۔ جلی وحی تو وہ ہے جو صاف صاف الفاظ میں ہوتی ہے اور دوسری وحی خفی وہ ہے جو ہر وقت ہوتی ہے جس سے ہمارا چلنا پھرنا۔ بیٹھنا اُٹھنا۔ بات کرنا ہے۔ ہم ہر وقت اُسی کے بُلائے بولتے ہیں۔اور اُسی کے چلائے چلتے ہیں۔اور اس کے بٹھائے بیٹھتے ہیں۔ غرض ہر ایک حرکت و سکون اُسی سے اور اُسی کے حکم سے ہے (صفحہ ۷۲)
۱۱: نواب علی محمد خان مرحوم لودھیانوی
موصوف حکمت اور تصوف میں اور علوم شرعیہ میں یدطولیٰ رکھتے تھے اور خصوصاً تصوف میں ایسی معرفت رکھتے تھے کہ میں نے سینکڑوں درویش صوفی دیکھے مگر یہ معلومات اور یہ دستگاہ نہیں دیکھی۔ نواب صاحب اہل اللہ کے بڑے معتقد تھے اور آنحضرتﷺ کے عاشق جانباز تھے۔ ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے…۔ حضرت اقدس علیہ السلام سے اعلیٰ درجہ کا عشق تھا اور پورا اعتقاد رکھتے تھے۔ نواب صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بات میں نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی میں دیکھی وہ کسی میں نہیں دیکھی۔ بعد آنحضرتﷺ کے اگر کوئی شخص ہے تو یہی ہے۔ اسکی تحریر میں نور اور ہدایت۔ اس کے کلام میں… اس کے چہرہ میں نور ہے… حضرت اقدسؑ نے نواب صاحب کی نماز جنازہ اپنے مکان پر پڑھی اور دعا مغفرت و رحمت بہت کی۔ (صفحہ ۷۲ تا ۷۵)
۱۲: دو زرد چادروں کی تعبیر
(لدھیانہ میں قیام کا ذکر ہے) اُن دنوں جناب شاہزادہ عبد المجید صاحب امامت کرایا کرتے تھے اور حضرت اقدس علیہ السلام نہایت کمزور نحیف اور ضعیف ہورہے تھے۔ رنگ آپ کا ایسا زرد تھا کہ جیسے ہلدی میں کپڑا رنگا ہوتا ہے اور دوران درد سر اور پیشاب کی کثرت تھی…۔ اس ضعف و ناتوانی اور شدتِ مرض میں بھی نماز باجماعت ادا کرتے اور جب مردانہ مکان سے زنانہ میں تشریف لے جاتے تو ایک آدمی ساتھ ہوتا تھا کہ کبھی راستہ میں باعث دوران درد سر چکر کھا کر گر نہ پڑیں۔ اکثر ضعف سے پسینہ پسینہ ہوجاتے لیکن تقریر اور تحریر کے وقت خدا جانے کہاں سے طاقت آجاتی تھی۔ اور دماغ میں قوت اور آنکھوں میں روشنی پیدا ہوجاتی۔ یہ سب روح القدس کی تائید تھی۔ ایک اور بالا ہستی تھی جو یہ کام ایسے ضعیف اور ناتواں انسان سے لے رہی تھی۔ حدیث دِمِشقی جو صحیح مسلم میں ہے آیا ہے کہ مسیح موعود زرد رنگ کپڑوں میں نزول فرمائے گا اور وہ جب نیچی گردن کرلے گا تو قطرات موتی کے دانوں جیسے اس کے چہرہ سے گریں گے یعنی وہ بیمار ہوگا اور اس قدر نقیہ اور ضعیف ہوگا کہ پسینہ کے قطرے بباعث ضعف اُس کے چہرے سے ٹپکیں گے اور جب وہ مُنہ اوپر اٹھائے گا تو اُس کے چہرہ سے نور نمایاں ہوگا اور کافر اُس کے سانس سے مریں گے یعنی اوپر منہ کرنے سے توجہ اِلی اللہ اور دعا کا مطلب ہے اور سانس سے کافروں کا مرنا اس کے کلمات طیبات ہیں کہ اُسکی دلائل بینہ اور براہین ساطعہ سے مطلب ہے سو ایسا ہی ہوا۔ (صفحہ ۷۰۔۷۱)
۱۳: میاں جان محمد مرحوم و مغفور قادیانی کی وفات
جنازہ کی نماز جو حضرت اقدس علیہ السلام پڑھاتے تھے،سبحان اللہ سبحان اللہ کیسی عمدہ اور باقاعدہ موافق سنت پڑھاتے تھے۔ سینکڑوں دفعہ آپ کو جنازہ حاضر و غائب پڑھانے اور آپ کے پیچھے پڑھنے کا اس خاکسار کو اتفاق ہوا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے میاں جان محمد مرحوم و مغفور قادیانی فوت ہوگئے تو حضور علیہ السلام جنازہ کے ساتھ تشریف لے گئے۔یہ مرحوم آپ کے معتقدوں اور عاشقوں اور فدائیوں میں سے تھا…۔ الغرض جب مرحوم کا جنازہ قبرستان میں گیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھائی اور خود امام ہوئے۔ نماز میں اتنی دیر لگی کہ ہمارے مقتدیوں کے کھڑے کھڑے پیر دکھنے لگے اور ہاتھ باندھے باندھے درد کرنے لگے اوروں کی تو میں کہتا نہیں کہ ان پر کیا گذری لیکن میں اپنی کہتا ہوں کہ میرا حال کھڑے کھڑے بگڑ گیا اور یوں بگڑا کہ کبھی ایسا موقع مجھے پیش نہیں آیا کیونکہ ہم نے تو دو منٹ میں نماز جنازہ ختم ہوتے دیکھی ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا: حضور (علیک الصلوٰۃ والسلام) اتنی دیر نماز میں لگی کہ تھک گئے۔ حضور کا کیا حال ہوا ہوگا۔ یعنی آپ بھی تھک گئے ہوں گے۔
حضرت اقدس علیہ السلام ! ہمیں تھکنے سے کیا تعلق۔ ہم تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے تھے۔ اُس پر اِس مرحوم کے لیے مغفرت مانگتے تھے۔ مانگنے والا بھی کبھی تھکا کرتا ہے۔ جو مانگنے سے تھک جاتا ہے وہ رہ جاتا ہے۔ ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا پھر تھکنا کیسا۔ جس سے ذرہ سی بھی امید ہوتی ہے وہاں سائل ڈٹ جاتا ہے۔(صفحہ ۷۶تا ۷۸)