سورہ کوثر میں اسلام کے چار رُکن (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲؍ستمبر ۱۹۲۱ء) (قسط اول)
حضورؓ نے اس خطبہ میں سورت کوثرکی نہایت لطیف تفسیر بیان فرمائی ہے اوراس میں مذکور اسلام کے چار بنیادی ارکان کو بیان فرمایا۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے ۔(ادارہ)
حضور نے تشہدو تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورہ کوثر کی تلاوت کی اور فرمایا:
میں نے غالباً عید کے موقعہ پر یہ سورہ پڑھی تھی اور گو جو مضمون میں نے اُس خطبہ میں بیان کیا تھا وہ اس کے ساتھ ہی تعلق رکھتا تھا۔ مگر خاص اس سورۃ کا ترجمہ اور تفسیر بوجہ قلّتِ وقت نہ کر سکا۔ اس لیے میں اس جمعہ کے خطبہ میں جو غالباً اِس مقام میں ہمارا آخری جمعہ ہو گا کیونکہ اِنْشَاءَ اللّٰہُ اِسی ہفتہ میں جانے کا ارادہ ہے۔ اِس سورت کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں۔
سورۃ کوثر ایک چھوٹی اور مختصر سورۃ ہے۔ گو اس کی صرف چار آیتیں ہیں لیکن اگر اس کے مضمون پر غور کیا جاوے تو معلوم ہو تاکہ اس کے اندر اسلام کے چار رُکن بیان ہیں جن پر اسلام قائم ہے۔
اور وہ یہ ہیں:(۱)بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ(۲)اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ (۳)فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانۡحَرۡ(۴)اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ۔
یہ چار ٹکڑے چار ستون ہیں جن پر اسلام قائم ہے۔ ہر ایک ٹکڑا ایک ستون کا کام دیتا ہے۔ اور جس طرح اگر کسی عمارت کا کوئی ستون نکال لیا جائے تو عمارت گر جاتی ہے اِسی طرح ان میں سے اگر کوئی حصہ نکال لیا جاوے تو اسلام کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ جب تک یہ چاروں باتیں کسی مذہب میں نہ ہوں وہ مذہب سچا نہیں ہو سکتا۔
یہ چاروں باتیں اسلام کی سچائی بلکہ اسلام کی فضیلت دوسرے مذاہب پر ثابت کرتی ہیں۔
پہلا رکن بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ یعنی ہم اﷲ کا نام لے کر شروع کرتے ہیں ہر ایک کام کو۔ اُس اﷲ کا نام لے کر جو رحمان اور رحیم ہے۔ یعنی وہ بغیر کسی محنت کے اپنی طرف سے فضل اور انعام کرتا ہے۔ خدمت یا محنت کا اس میں کوئی دخل اور تعلق نہیں۔ مثلاً آنکھیں، ناک، کان وغیرہ ہمیں کسی کام کے بدلے میں نہیں ملے۔ روٹی تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ محنت سے حاصل ہوتی ہے۔ مگر آنکھ، کان وغیرہ کسی محنت کے بدلے میں نہیں۔ اسی طرح محنت سے گیہوں پیدا نہیں ہوئی۔ کیونکہ بیج تو خداتعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اگر بیج نہ ہوتا تو انسان کتنی بھی محنت کرتا گیہوں نہ پیدا کر سکتا۔
پھر محنت سے پانی نہیں پیدا ہو سکتا۔ اِسی طرح گٹھلی یا شاخ کے بغیر انسان کتنی بھی محنت کرے درخت نہیں اُگا سکتا۔ تو بندہ عرض کرتا ہے میں اُسی کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بغیر کوشش کے فضل کرنے والا ہے۔پھر جو رحیم بھی ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ چیزیں ایک دفعہ بنا کر چھوڑ دے بلکہ اگر کوئی ان نعمتوں کو اچھی طرح استعمال کرے تو اَور انعام کرتا ہے۔
صدقہ تو بہت لوگ کرتے ہیں مگر اُن کے اور اﷲ کے صدقہ میں بہت فرق ہے۔
لوگ صدقہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام پورا کر لیا مگر اﷲ تعالیٰ صدقہ کرتا ہے اور جب بندہ اچھا استعمال کرتا ہے تو اَور انعام کرتا ہے۔ پھر بندہ کرتا ہے اور اﷲ اَور بڑھاتا ہے۔
پہلوان کی مثال دیکھ لو۔ وہ پہلے دن اکھاڑے میں جاتا ہے تو اُس کا جسم اَور لوگوں کی طرح کا ہوتا ہے۔ لیکن وہ جُوں جُوں خداتعالیٰ کے دیئے ہوئے جسم کو اچھی طرح استعمال کرتا ہے تُوں تُوں اس کا زور بڑھتا ہے۔ یہ تو جسم کے متعلق ہوا۔ اب دماغ کے متعلق دیکھ لو۔
ایک لڑکا محنت کرتا ہے تو اُس کا دماغ خالی نہیں ہو جاتا بلکہ زیادہ تیز ہوتا ہے۔ پھر وہ اَور کوشش کرتا ہے اور دن بدن ترقی ہوتی ہے۔ حتّٰی کہ وہ عالم کہلانے لگتا ہے
اور لوگوں کے نزدیک اپنے علم کی وجہ سے قابلِ تعظیم ہو جاتا ہے۔ پس ہر سچے مذہب کا ایک رکن یہ ہوتا ہے یعنی یہ یقین کہ خدا ہے اور اُس میں تمام طاقتیں ہیں اور وہ بندوں پر فضل کرتا ہے اور اُن کی ہمت کو بڑھاتا ہے اور اُس کا قانون بنا ہوا ہے جس پر چل کر بندہ انعامات کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اس کے سوا مذہب نہیں ہو سکتا۔ تو بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ سے عقیدہ کی درستی کا اظہار ہو گیا یعنی ہم اﷲ کو مانتے ہیں اور تمام صفاتِ حسنہ کا مالک یقین کرتے ہیں۔
دوسرا رکن اسلام کا اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ہے یعنی وہ خدا جو رحمان ہے اور رحیم ہے کہتا ہے کہ اے رسول میں نے تجھ کو کوثر دیا ہے۔
ایک تو کوثر اُس چشمہ کا نام ہے جو جنت میں اﷲتعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے مخصوص فرمایا ہے۔ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاص انعامات میں سے ہے اور اس میں سے پینا معرفتِ الٰہی میں ترقی کرنے کے ذرائع میں سے ہے۔ دوسرے کوثر کے معنی بڑی خیر والے آدمی کے بھی ہیں۔ اس لیے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اے رسول میں نے تیرے لیے ایک ایسا آدمی مقرر کیا ہے جو دنیا کی بڑی اصلاح کرے گا۔ یہ بھی سچے مذہب کی علامت ہے کہ دشمن کے حملہ کو بچا سکے اور جب مذہب کو ضرورت ہو اُس وقت ایسا آدمی بھیجا جاوے جو اصلاح کرے۔
دیکھ لو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے مذہب کی کیا حالت ہے۔ وہ بندہ جو خدا کی توحید قائم کرنے آیا تھا اب اُس کی پرستش ہو رہی ہے۔
ایک سے تین خدا بنا لیے بلکہ بعض تو حضرت مریم علیہاالسلام کو بھی خدا خیال کرتے ہیں تو عیسائیت کی اصل حالت نہیں رہی۔ یہ لوگ شریعت کو لعنت سمجھتے ہیں مسئلہ کفارہ پر یقین کرتے ہیں۔ غرضیکہ یہ عقائد وہ نہیں جو حضرت عیسٰیؑ لائے تھے۔ اور یہ اس لیے ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس مذہب کی حفاظت نہ کی اور اب دورِرسالت آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے واسطے مقرر تھا۔
اگر اب یہ مذہب مقبولِ خدا ہوتا تو ان میں سے کوئی آتا جو اس کو صاف کرتا اور اِس کے اندر جو میل ملا دی گئی تھی اُس کو دور کرتا۔ جس طرح کپڑا میلا ہو جائے تو اُس کو دھو کر صاف کر لیتے ہیں لیکن اگر دوبارہ نہ پہننا ہو تو پھاڑ کر پھینک دیتے یا جلا دیتے ہیں۔ چونکہ اب اﷲ تعالیٰ نے نیادین بھیجنا تھا، ایک نیا جامہ تیار کرنا تھا جس کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم لائے اور جس کو ابوبکرؓ،عثمانؓ،عمرؓ، علیؓ اور دوسرے صحابہ نے پہنااور اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل کیا اس لیے خدا کو اس پرانے کپڑے کا رکھنا منظور نہ ہوا۔ خرابی تو ضرور پیدا ہو جاتی ہے اور ہر مذہب میں ہو جاتی ہے مگر جس طرح کپڑے میلے ہوجاتے ہیں پہننے والے دھوئے جاتے ہیں اور نہ پہننے والے پھینک دیئے جاتے ہیں اِسی طرح جو دین ہمیشہ رکھنا ہو اُس کو صاف کرنے کی غرض سے اﷲ تعالیٰ اپنے نیک بندے بھیجتا رہتا ہے اور اگر کسی دین میں خرابی تو پیدا ہو گئی ہو مگر اس کی اصلاح کرنے والے نہ آئیں تو جان لو کہ اس مذہب کا قیام خداکو منظور نہیں۔ پس
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی تُو نہ گھبرا کہ تیرا جامہ پہلے نبیوں کے جاموں کی طرح نہ ہو گا۔ جو صفا نہ ہوئے بلکہ پھینک دئے گئے۔
ہم نے تیرے لیے ہر ایک قسم کے خزانے مقدّر کیے ہیں حتّٰی کہ ایسے آدمی مقرر کیے ہیں جن کے اندر بڑی پاکیزگی ہو گی۔ جو تیرے دین کی صفائی کریں گے اور دنیا کی اصلاح کی قابلیت رکھتے ہوں گے۔ اور جب کبھی دین کے اندر خرابی پیدا ہو گی وہ اس کی اصلاح کے لیے آئیں گے اور اس طرح یہ مذہب مٹ نہیں سکے گا۔ کہتے ہیں چوں قضا آید طبیب ابلہ شود۔ جب موت آتی ہے حکیم کی عقل ماری جاتی ہے۔ چونکہ مسلمانوں کے لیے ادبار مقدّر تھا اس وجہ سے معمولی عقل کے مسائل بھی ان کے ذہن سے نکل گئے۔ یہ کیسا موٹا مسئلہ ہے۔جس مکان کی مرمت نہ ہو گی وہ کب تک سلامت رہے گا۔جس کھیت کی خبر گیری نہ ہو گی وہ خراب و تباہ ہو جائے گا۔
اِسی طرح جو دین خدا کی طرف سے ہمیشہ قائم رہتا ہے اُس کی حفاظت اور صحت کے لیے ہمیشہ خدا آدمی مقرر کرتا رہتا ہے۔
یہ لوگ مانتے ہیں کہ اسلام ہمیشہ رہے گا مگر اس کی حفاظت کے سامانوں کو نہیں مانتے۔ ہمیشگی کے دو ہی طریق ہیں۔ یا تو وہ خراب ہی نہ ہو اور اس میں تغیر ہی نہ آئے یا اگر اس میں خرابی اور تغیر ہو تو اس کی درستی کے سامان بھی ہوتے رہیں۔ جیسے سورج اور چاند جن میں خرابی نہیں ہوتی ان کو کسی بیرونی اصلاح کی ضرورت نہیں۔ مگر سیب کے درخت تباہ ہو جاتے ہیں اس لیے ان کی حفاظت انسان کے سپرد ہے۔ اگر ایک درخت خراب ہو جاوے تو اُس کی جگہ نیا لگایا جاتا ہے اور اگر نہ لگایا جائے تو آخر ایک دن یہ درخت ہی دنیا سے معدوم ہو جائے۔ پس یا تو وہ چیز قائم رہتی ہے جو خراب ہی نہ ہو۔ یا وہ جس میں بار بار درستی ہوتی رہے۔
مسلمان کہتے ہیں کہ اسلام قیامت تک رہے گا مگر اس پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح رہے گا۔
یا تو یہ کہیں کہ اسلام بدلا نہیں اور آج کل بھی صحابہؓ جیسے ہی مسلمان موجود ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے اسلام بدلا تو ضرور ہے اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ اسلام کی اصلاح کا سامان بھی خدا نے پیدا کیا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو ہمیشگی کا اعتقاد ہے اور دوسری طرف اس کی اصلاح کے سامان نہیں مانتے۔ اگر اسلام نے قیامت تک رہنا ہے تو اس کی درستی اور اصلاح کےلیے آدمی آنے چاہئیں۔
اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ میں یہ پیشگوئی ہے کہ اے رسول تیری قوم بگڑے گی تو سہی مگر تیرے لیے ایک ایسا عظیم الشان مصلح مقرر ہے کہ وہ قوم کی اصلاح کر کے ان کو اصل حال پر لاوےگا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے وعدہ ہے۔
(باقی آئندہ)