اے چھاؤں چھاؤں شخص !تری عمر ہو دراز (دورہ کینیڈا۔ اکتوبر،نومبر۲۰۱۶ء کے چند واقعات۔ حصہ پنجم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
حضورِانورکی عاجزی
(گذشتہ سے پیوستہ) اس ملاقات کے اختتام پر حضورِانورجُوڈی سگرو صاحبہ سے ملے جو ابھی کمرے میں داخل ہوئی ہی تھیں۔ نہایت شائستگی سے حضورِانور نے فرمایا: پارلیمانی نشست کے دوران مجھے پہلے سے علم نہیں تھا کہ جب وہ میرا نام لیں گے تو مجھے کھڑا ہونا پڑے گا۔ تاہم میں ایک لمحہ کے لیے کھڑا ہوا تھا، میں معذرت خواہ ہوں اگر یہ دورانیہ کم تھا۔
جواب میں جُوڈی سگرو صاحبہ نے کہاکہ جس طرح آپ کھڑے ہوئے وہ برمحل تھا، اس لیے معذرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں خوش تھی جس طرح یہ نشست مکمل ہوئی اور یہ بھی کہ احمدی خواتین وحضرات کی ایک بڑی تعداد اس تاریخی موقع پر موجود تھی۔
حضورِانورنے مسکراتے ہوئے فرمایا: ہاں،چیمبر میں کئی احمدی موجود تھے۔ پھر کھانے کے بعد میں تازہ ہوا لینے کے لیے باہر نکلا تو کئی احمدی باہر گلیوں میں بھی چل پھر رہے تھے اور وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش تھے اور میں انہیں دیکھ کر خوش تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہاں اوٹاوا میں پیس ویلج جیسا سماں ہو۔
محترمہ جُوڈی سگرو صاحبہ نے بتایا کہ دن کے پچھلے حصے میں وقفہ ہوگا اور ان کا خیال ہے کہ حضورِانورشام کی استقبالیہ تقریب سے قبل کچھ آرام فرما سکیں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پارلیمان کی دو تقریبات جو اس شام منعقد ہونی تھیں وہ حضورِانورکی تشریف آوری کی وجہ سے منسوخ کر دی گئی ہیں کیونکہ پارلیمان کے کئی ارکان نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ حضورِانورکے خطاب سے غیر حاضر نہیں رہنا چاہتے۔
حضورِانورکی جذباتی گفتگو
ملاقات کے اختتام پر حضورِانورنے مجھے اپنے دفتر میں طلب فرمایا اور الحمدللہ، حضورِانوراپنے Ottawaکے دورہ سے نہایت خوش لگ رہے تھے۔ اکثر خاکسار حضورِانورسے ایسے مواقع یا تقریبات کے بعد لوگوں کی گفتگو یا ان کے تبصرے عرض کرتا رہتا ہے لیکن اس موقع پر حضورِانور نے ازراہِ شفقت گذشتہ روز شام کے وقت پارلیمنٹ میں مہمانوں سے ہونے والی کچھ گفتگو کے احوال سنائے۔
خاص طور پر یہ کہ حضور نے بہت سا وقت جماعت اور عقائد کا تعارف کروانے میں گزارا جو آپ نے کرسٹی ڈنکن صاحبہ کو بتائے جو کینیڈا کی وزیر سائنس ہیں اور رات کے کھانے کے دوران حضورِانور کے ساتھ تشریف فرما تھیں۔ آپ نے انہیں پاکستان میں جماعت پر ہونے والے مظالم کے بارے میں بھی بتایا اور چند انسانی فلاح و بہبود پر مبنی منصوبوں سے آگاہ فرمایا جو افریقہ میں جاری ہیں۔ حضورِانورنے ان کو (افریقہ میں قیام سے متعلق) اپنے ذاتی تجربات اور واقعات بھی سنائے۔ حضورِانورنے فرمایا: میں نے وزیرسائنس کو اس وقت کے بارے میں بھی بتایا جب ۱۹۹۹ء میں مجھے (پاکستان میں ) گرفتار کیا گیا تھا اور جیل کے حالات سے بھی آگاہ کیا جس میں ہمیں رکھا گیا تھا۔ میں نے انہیں گھانا میں اپنی خدمات کے بارے میں بھی آگاہ کیا اور ان حالات کے بارے میں بھی جن میںمَیں اپنے گھر والوں کے ساتھ وہاں رہا تھا۔
حضورِانور نے مزید فرمایا:مثال کے طور پر میں نے انہیں بتایا کہ کس طرح کبھی کبھار مجھے کچھ دُور کا سفر کرنا پڑتا تھا تاکہ گھریلو استعمال کے لیے پانی لا سکوں اور اس کے باوجود وہ پانی گندا اور میلا ہوتا تھا۔ ایک موقع پر (عزیزہ) فرح اور (عزیزم) وقاص (حضورِانورکے بچے)،جو دونوں اُس وقت بہت چھوٹے تھے،نے مجھے گندے پانی کا کنٹینر گھر لاتے دیکھا۔ یہ دیکھنے پر (عزیزم) وقاص خوشی سے بھاگ کر اندر گیا اور اپنی والدہ (محترمہ) کو بتایا کہ آج،ابا ہمارے لیے مالٹے کا جوس لائے ہیں۔ اس نے غلطی سے گندے پانی کو مالٹے کا جوس سمجھ لیا۔
جب میں کرسٹی ڈنکن کو یہ سب بتا رہا تھا تو وہ مجھے کہنے لگیں ’آپ مسکرا رہے ہیں لیکن آپ کے الفاظ سے میری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں۔‘
خاکسار محترمہ کرسٹی ڈنکن کے اس تبصرے سے مکمل طور پر متفق تھا کیونکہ اکثر حضورِانورنہایت خوبصورت اور جذباتی الفاظ بیان فرماتے ہیں جس سے سننے والا حیرت زدہ یا جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے تاہم حضورِانورمسکرا رہے ہوتے ہیں اور اپنے جذبات پر مکمل طور پر قابو رکھتے ہیں۔
یقینی طور پر جب حضورِانورنے مجھے اس گفتگو کے بارے میں بتایا تو میرے لیے بھی اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہو گیا تھا اورآپ مسکرا رہے تھے۔ یہ واقعہ بتاتے ہوئے کہ آپ کو کس طرح اپنی فیملی کے لیے پانی لانے کے لیے ایسی مشکلات کا سامنا تھا اور آپ کے بیٹے نے اس کو غلطی سے جوس سمجھ لیا۔
حضورِانورنے فرمایا: دوپہر کے کھانے پر میں نے سالمن (مچھلی)کے کچھ لقمے کھائے جبکہ شام کے استقبالیہ میں دیا جانے والا سُوپ میری پسند کا نہ تھا کیونکہ میں چکن زیادہ نہیں کھاتا۔ یوں میں نے تھوڑے سے mashed potatoesکھائے۔ ممکن ہے کہ میں میٹھا بھی چکھ لیتا لیکن اس کے لائے جانے سے پہلے ہم رخصت لے چکے تھے۔
حضورِانورنے فرمایا :جب ہم بالآخر دس بجے گھر پہنچے تو مجھے بھوک لگ رہی تھی کیونکہ میں دن کے دوران زیادہ نہیں کھا سکا تھا اس لیے میں نے تین چوتھائی روٹی کے ساتھ دال ماش کھائی۔میں نے عرض کی کہ سارے دن کے اختتام پر کھانا کھانا بہت مزیدار لگتا ہے لیکن اپنے دل میں مَیں مغموم تھا کہ حضورِانورسارا دن اچھی طرح کھانا تناول نہیں فرماسکے اور آپ کو بھوکا رہنا پڑا۔
چند غیر رسمی لمحات
چونکہ ہمیں پیس ویلج پہنچتے پہنچتے بہت تاخیر ہو جانی تھی اس لیے حضورِانورنے اجازت مرحمت فرمائی کہ نماز ہوٹل میں ہی ادا کر لی جائے۔ ہم سب اس اجازت پر حضورِانورکے بے حد ممنون تھے کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ پیس ویلج پہنچتے ہی ہم فوری طور پر اپنی رہائش گاہوں میں جا سکتے تھے۔ جب حضورِانورنماز کے لیے نیچے تشریف لائے تو چند احباب ابھی بھی کھانا کھا رہے تھے۔ نہایت شفقت سے حضورِانورنے انہیں کھانا مکمل کرنے کی اجازت دی اور نماز سے پہلے چند منٹ وہاں تشریف فرما رہے۔
اس دوران حضورِانورنے وہاں موجود چند احمدی احباب سے غیر رسمی گفتگو فرمائی اور انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ چند غیرمتوقع لمحات جو حضورِانورکی مصاحبت میں گزرے وہ ان کے لیے سب سے قیمتی اور یادگار لمحات تھے۔
محترم امیر صاحب کینیڈا نے ان لمحات میں حضورِانورسے درخواست کی کہ کیا وہ آنے والے جمعہ کی ادائیگی کے بعد بیعت کی تقریب رکھ سکتے ہیں؟ حضورِانورنے اس کی اجازت مرحمت فرمائی لیکن فرمایا کہ بہتر تو یہ تھا کہ اس بیعت کی تقریب کو جلسہ کے موقع پر منعقد کیا جاتا تاکہ زیادہ لوگ اس میں شامل ہوسکتے۔
جب جملہ احباب نے اپنا کھانا مکمل کرلیا تو حضورِانورنے نماز کی امامت فرمائی۔ اس کمرے کے پچھلے حصہ میں لجنہ اماء اللہ کی ممبرات نے بھی نماز ادا کی اور یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دور میں قائم ہونے والی مثال کو دہرایا گیا۔ نمازوں کی ادائیگی سے قبل حضورِانورنے خاص طور پر یقین دہانی کی کہ خواتین کے لیے آرام دہ اور مناسب جگہ موجود ہے۔
نماز کی ادائیگی کے بعد قافلہ سیدھا پیس ویلج کی طرف بڑھا جہاں ہم رات کو گیارہ بجے پہنچے۔ الحمدللہ،حضورِانورکے دورے کا دوسرا ہفتہ بھی کامیابی و کامرانی کے ساتھ تکمیل کو پہنچا۔ مجھے پیس ویلج پہنچنے پر بے حد خوشی تھی جو اس وقت (ہمارا) دوسرا گھر معلوم ہوتا تھا اور میں بے تابی سے اگلے ہفتوں کا انتظار کرنے لگا۔
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)