امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فضیلت
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے: کُنْتُمْ خَیرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنۡہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ (اٰلِ عمران:۱۱۱) ترجمہ: تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو۔تم اچھی باتوں کا حکم دیتےہو او ربری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔ان میں مومن بھی ہیں مگر اکثر ان میں سے فاسق لوگ ہیں۔
خدا تعالیٰ نے امت محمدیہ کو بہترین امت بنا یا ہے کیونکہ یہ امت تمام انسانوں کے فائدہ کے لیے نکالی گئی ہے ۔آنحضورﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق اس امت میں مسیح موعود و مہدی معہود آیا۔ چنانچہ مسیح موعودومہدی معہود کو ماننے اور اس کی بتائی ہوئی تعلیمات پرعمل کرکے، ہم ہی بہترین مسلمان ہیں۔اور ہر احمدی بہترین مسلمان اس وقت کہلائےگاجب وہ اپنے علاوہ دوسروں کا بھی خیال رکھے گا۔ اول خود نیکیوں کو اپناتے ہوئے اور بدیوں سے بچتے ہوئے دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تلقین کرے گا اور تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی(ترجمہ: نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو) سے کام لےگا۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اچھے لوگ اس لئے ہو کہ صرف اپنے متعلق یا اپنے بیوی بچوں کے متعلق نہیں سوچتے یا اپنے خاندان کے متعلق یا اپنے قبیلے سے متعلق یا صرف اپنے ملک کے لوگوں کے متعلق نہیں سوچتے، بلکہ یہ سوچ رکھتے ہو کہ کوئی شخص چاہے وہ کسی خاندان کا ہو، کسی قبیلے کا ہو، کسی ملک کا ہو تم نے ہر ایک سے نیکی کرنی ہے اور ہر ایک کا دل جیتنا ہے۔ اور یہ تم پر فرض ہے کہ اس دل جیتنے کے لئے کبھی کسی سے کسی قسم کی برائی نہیں کرنی، بلکہ تمہارے ہر عمل سے محبت ٹپکتی ہو۔ اور یہ سب کام تم نے اس لئے کرنے ہیں کہ یہ خداتعالیٰ کا حکم ہے اور اس کے بغیر تمہارا اللہ تعالیٰ پر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ تو دیکھیں بہترین امت اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے نہیں بنایا کہ ہم مسلمان ہو گئے۔ جس طرح بہت سے مسلمانوں کو آپ دیکھتے ہیں، جن سے اگر تم پوچھو کہ مسلمان ہو تو کہتے ہیں کہ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن اگر ان کے عمل کو دیکھو تو نظر آئے گا کہ شیطان بھی ان لوگوں سے دور بھاگتا ہے۔ تو امت مسلمہ کا بہترین فرد ہونے کے لئے ضروری ہے کہ نیک عمل کرو اور برائیوں کو چھوڑو۔ جب اپنے عمل ایسے بناؤ گے تبھی تم دوسروں کو نیکیوں کا حکم دے سکتے ہو اور برائیوں سے روک سکتے ہو۔ ورنہ تو جب بھی تم اصلاح کی کوشش کرو گے تو تمہیں یہی جواب ملے گا کہ پہلے اپنے آپ کو درست کرو، اپنی اصلاح کرو۔‘‘(خطبہ جمعہ ۶؍مئی ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍مئی ۲۰۰۵ء)
حضرت محمد مصطفیٰﷺفرماتےہیں کہ جو شخص کسی نیک کام اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتاہے جتنا اس بات پر عمل کرنے والےکو ملتا ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔اور جو شخص کسی گمراہی اور برائی کی طرف بلاتا ہے اس کو بھی اسی قدر گناہ ہوتا ہے جس قدر کہ اس برائی کےکرنے والے کو ہوتا ہے اوراس کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔(مسلم کتاب العلم باب من سنۃ حسنۃ او سیئۃ)
پھر آنحضورﷺ نے ان لوگوں کو جو نیکی کے کرنے اور بدی سے بچنے کی تلقین نہیں کرتے سخت عذاب کی وعید سنائی ہے اوریہ بھی فرمایا کہ ان کی کوئی دعا قبول نہیں کی جاتی۔آنحضورﷺفرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،یاتو تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو،ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب سے دو چار کرلے گا۔پھر تم دعائیں کرو گے لیکن کوئی دعا قبول نہیں کی جائے گی۔(ترمذی ابوا ب الفتن باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کی بہت سی علامتوں میں سے ایک علامت امر بالمعروف اور نہی عن المنکربیان کی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اَلتَّآئِبُوۡنَ الۡعٰبِدُوۡنَ الۡحٰمِدُوۡنَ السَّآئِحُوۡنَ الرّٰکِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَالنَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَالۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔(سورۃالتوبہ:۱۱۲)ترجمہ: توبہ کرنے والے،عبادت کرنے والے،حمد کرنے والے،(خدا کی راہ میں ) سفر کرنے والے،سجدہ کرنے والے،نیک باتوں کا حکم دینے والے،اور بری باتوں سے روکنے والے، اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے،(سب سچے مومن ہیں)اور تو مومنوں کو بشارت دے دے۔پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کی اس علامت کے متعلق فرماتاہےکہ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِوَیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِوَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَاُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ(اٰل عمران:۱۱۵)ترجمہ: وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور یوم آخر پر اور اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی ہیں وہ جو صالحین میں سے ہیں۔
پھر حضرت لقمان ؑاپنے بیٹے کواس عمل کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَانۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَاصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ(لقمان:۱۸)ترجمہ: اے میرے پیارے بیٹے!نماز کو قائم کر اور اچھی باتوں کا حکم دے اور ناپسندیدہ باتوں سے منع کر اور اس (مصیبت ) پر صبر کر جو تجھے پہنچے۔ یقیناًیہ بہت اہم باتوں میں سے ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نیکیوں کے کرنے اور برائیوں سے رکنے کے بارے میں فرماتے ہیں :’’یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (آل عمران:۱۱۵) مومنوں کی شان ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثابت کر دکھائے کہ وہ اس قوت کو اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے۔ پس یاد رکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو۔ ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے اور انداز بیان ایسا ہونا چاہیے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو اور ایسا ہی تقویٰ کے خلاف بھی زبان کا کھولنا سخت گناہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ۳۸۲۔۳۸۳ ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ہر ایک شخص کو چاہیئے کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور دیکھے کہ میں نے آٹھ پہر میں لوگوں کی بھلائی کے لئے کیا کام کیا۔ امت محمد یہ کا منشاء ہی یہی ہے کہ لوگوں کی بھلائی کے لئے جان تک لڑا دی جائے سر ہندی بزرگ نے لکھا ہے کہ میں جب رات کو سونے لگتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اپنے فرض منصبی کو کہاں تک ادا کیا ہے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ ۵۲۰)
برائی چھوڑنا اور نیکی کو کس طرح اختیار کیا جائے؟ اس کے متعلق ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:’’ پس ہم جو احمدی مسلمان ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے حکموں پر چلیں گے اور سب برائیوں کوچھوڑیں گے اور تمام نیکیوں کو اختیار کریں گے۔ ہمیں ہر برائی کو چھوڑنے کی بھرپورکوشش کرنی چاہئے۔ اگرانسان کا ارادہ پکا ہو، اوراللہ تعالیٰ سے فضل مانگ رہے ہوں تو یہ ہو نہیں سکتاکہ برائیاں نہ چھٹیں اور آپ اس قابل نہ ہوسکیں کہ دوسروں کو نیکیوں کی تلقین کرنے والے بنیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۶؍مئی ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍مئی ۲۰۰۵ء)
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان بابرکت ارشادات پر کماحقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور سب کو خلافت سے تادم آخر منسلک رکھے آمین۔