احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ کی اہمیت اور اس کے ۲۹ عظیم الشان فوائد
براہین احمدیہ کوئی عام کتاب نہ تھی۔یہ ایک عظیم الشان تصنیف تھی کہ گذشتہ چودہ سوسالوں میں ایسی تصنیف سامنے نہ آئی تھی جیساکہ مشہوراہل حدیث راہنما عالم نے اس پرریویوکرتے ہوئے لکھاتھاکہ ’’ ہماری رائے میں یہ کتاب اِس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔ اور آئندہ کی خبر نہیں۔‘‘(اشاعة السنة جلد ۷نمبر۶ صفحہ ۱۶۹)
بٹالوی صاحب کچی روٹی پکی روٹی پڑھنے والے نیم ملاں نہیں تھے۔وہ مولوی سیدنذیرحسین دہلوی جیسے ہندوستان کے مشہورو معروف عالم دین جنہیں ان کے علم وفضل کی بدولت شیخ الکل کہاجاتاتھا ان کے چوٹی کے شاگردوں میں سے ایک شاگردتھے۔ اور جب بٹالوی صاحب نے یہ ریویوکیااس وقت تک وہ اپنے انہی استاذ کے ہاتھوں دستارفضیلت بندھوا چکے تھے۔ اور کم ازکم پنجاب میں ان کے علم وفضیلت کی شہرت تھی۔ لاہورمیں جب یہ بازارسے گزراکرتے تھے تو دکاندار ادب و احترام سے تعظیماً کھڑے ہوجایاکرتے تھے۔ یہ تھامقام اس عالم دین اور اہل حدیث راہنماکاجس نے براہین احمدیہ کوشروع سے لے کرآخرتک پڑھا اور ایک ایک سطرکوپڑھا جیساکہ ان کے ڈیڑھ سوسے زائد صفحات کے ریویو سے ظاہرہوتاہے۔ یہ ساری کتاب پڑھ کرانہوں نے لکھا اور باخداخوب لکھا۔اور درست لکھا کہ اس جیسی کتاب کی نظیرآج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔
یہ ایک حملہ تھا مخالفین اسلام کے کیمپ پر،ایساحملہ کہ جس نے دشمن کے کیمپ میں ایک کھلبلی مچادی کہ جس کے بعد پھرنہ تب نہ اب اور نہ ہی قیامت تک دشمن کواسلام پریاآنحضرتﷺ کی ذات مبارک پر ایسااعتراض کرنے کاموقع ملے گا کہ جس کا دندان شکن جواب براہین میں موجودنہ ہو۔صداقت اسلام کے دلائل کے لیے باقی تمام کتابوں سے بے نیازکردینے والی یہ کتاب اور بھی بہت سی خوبیوں اور فوائد کاتاج اپنے سرپرسجائے ہوئے قطبی ستارے کی طرح مذاہب کے آسمان پرطلوع ہوئی۔اس کے بہت سے دیگر فوائد میں سے سب سے اہم اورعظیم فائدہ تو یہی ہے کہ یہ کتاب اسلام کی زندگی اورصداقت کاایک ایساابدی اور شیریں پھل ہے کہ تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا،قیامت تک کے لیے اب نہ اس پر خزاں آئےگی اورنہ اس کا پھل ختم ہوگا۔ان شاء اللہ
یہ کتاب ایسی زندگی بخش کتاب ہے کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے تو مرگئے لیکن اس مسیح کے ہاتھ سے تیارکیاگیا یہ جام پینے والاکبھی مرے گانہیں، وہ ابدی زندگی کا وارث بن جاتاہے۔
ایک اوراہمیت اس کتاب کی یہ ہےجیسا کہ حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں : ’’ اور حقیقت میں یہ کتاب طالبان حق کو ایک بشارت اور منکران دین اسلام پر ایک حجت الٰہی ہے کہ جس کا جواب قیامت تک ان سے میسر نہیں آسکتا اور اسی وجہ سے اس کے ساتھ ایک اشتہار بھی انعامی دس ہزار روپیہ کا شامل کیا گیا کہ تاہریک منکر اور معاند پر جو اسلام کی حقیت سے انکاری ہے اتمام حجت ہو اور اپنے باطل خیال اور جھوٹے اعتقاد پر مغرور اور فریفتہ نہ رہے۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۸۳)
حضرت اقدس ؑ اس کتاب کے چھ عظیم الشان فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’بالآخر بعد تحریر تمام مراتب ضروریہ کے اس بات کا واضح کرنا بھی اسی مقدمہ میں قرین مصلحت ہے جو کن کن قسموں کے فوائد پر یہ کتاب مشتمل ہے۔ تاوہ لوگ جو حقانی صداقتوں کے جان لینے پر جان دیتے ہیں اپنے روحانی محبوب کی خوشخبری پاویں۔ اور تا ان پر جو راستی کے بھوکے اور پیاسے ہیں اپنی دلی مراد کا راستہ ظاہر ہوجاوے۔ سو وہ فوائد چھ(۶) قسم کے ہیں۔ جو بہ تفصیل ذیل ہیں:
(۱) اول اس کتاب میں یہ فائدہ ہے کہ یہ کتاب مہمات دینیہ کے تحریر کرنے میں ناقص البیان نہیں بلکہ وہ تمام صداقتیں کہ جن پر اصول علم دین کے مشتمل ہیں اور وہ تمام حقائق عالیہ کہ جن کی ہیئت اجتماعی کا نام اسلام ہے وہ سب اس میں مکتوب اور مرقوم ہیں۔ اور یہ ایسا فائدہ ہے کہ جس سے پڑھنے والوں کو ضروریات دین پر احاطہ ہوجاوے گا اور کسی مغوی اور بہکانے والے کے پیچ میں نہیں آئیں گے۔ بلکہ دوسروں کو وعظ اور نصیحت اور ہدایت کرنے کے لئے ایک کامل استاد اور ایک عیار رہبر بن جائیں گے۔
(۲)دوسرا یہ فائدہ کہ یہ کتاب تین سو محکم اور قوی دلائل حقیت اسلام اور اصول اسلام پرمشتمل ہے کہ جن کے دیکھنے سے صداقت اس دین متین کی ہریک طالب حق پر ظاہر ہوگی بجز اس شخص کے کہ بالکل اندھا اور تعصب کی سخت تاریکی میں مبتلا ہو۔
(۳)تیسرا یہ فائدہ کہ جتنے ہمارے مخالف ہیں یہودی۔ عیسائی۔ مجوسی۔ آریہ۔ برہمو۔ بت پرست۔ دہریہ۔ طبعیہ۔ اباحتی۔ لامذہب سب کے شبہات اور وساوس کا اس میں جواب ہے۔ اور جواب بھی ایسا جواب کہ دروغگو کو اس کے گھر تک پہنچایا گیا ہے اور پھر صرف رفع اعتراض پر کفایت نہیں کی گئی بلکہ یہ ثابت کرکے دکھلایا گیاہے کہ جس امر کو مخالف ناقص الفہم نے جائے اعتراض سمجھا ہے وہ حقیقت میں ایک ایسا امر ہے کہ جس سے تعلیم قرآنی کی دوسری کتابوں پر فضیلت اور ترجیح ثابت ہوتی ہے نہ کہ جائے اعتراض اور پھر وہ فضیلت بھی ایسی دلائل واضح سے ثابت کی گئی ہے کہ جس سے معترض خود معترض الیہ ٹھہر گیا ہے۔
(۴)چوتھا یہ فائدہ جو اس میں بمقابلہ اصول اسلام کے مخالفین کے اصول پر بھی کمال تحقیق اور تدقیق سے عقلی طور پر بحث کی گئی ہے اور تمام وہ اصول اور عقائد ان کے جو صداقت سے خارج ہیں بمقابلہ اصول حقہ قرآنی کے ان کی حقیقت باطلہ کو دکھلایا گیا ہے۔ کیونکہ قدر ہریک جوہر بیش قیمت کا مقابلہ سے ہی معلوم ہوتا ہے۔
(۵)پانچواں اس کتاب میں یہ فائدہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے حقائق اور معارف کلامِ ربانی کے معلوم ہوجائیں گے اور حکمت اور معرفت اس کتاب مقدس کی کہ جس کے نور روح افروز سے اسلام کی روشنی ہے سب پر منکشف ہوجائے گی۔ کیونکہ تمام وہ دلائل اور براہین جو اس میں لکھی گئی ہیں اور وہ تمام کامل صداقتیں جو اس میں دکھائی گئی ہیں وہ سب آیات بینات قرآن شریف سے ہی لی گئی ہیں اور ہریک دلیل عقلی وہی پیش کی گئی ہے جو خدا نے اپنی کلام میں آپ پیش کی ہے اور اسی التزام کے باعث سے تقریباً باراں سیپارہ قرآن شریف کے اس کتاب میں اندراج پائے ہیں۔ پس حقیقت میں یہ کتاب قرآن شریف کے دقائق اور حقائق اور اس کے اسرار عالیہ اور اس کے علوم حکمیہ اور اس کے اعلیٰ فلسفہ ظاہر کرنے کے لئے ایک عالی بیان تفسیر ہے کہ جس کے مطالعہ سے ہریک طالب صادق پر اپنے مولیٰ کریم کی بے مثل و مانند کتاب کا عالی مرتبہ مثل آفتاب عالمتاب کے روشن ہوگا۔
(۶)چھٹا یہ فائدہ ہے جو اس کتاب کے مباحث کو نہایت متانت اور عمدگی سے قوانین استدلال کے مذاق پر مگر بہت آسان طور پر کمال خوبی اور موزونیت اور لطافت سے بیان کیا گیا ہے اور یہ ایک ایسا طریقہ ہے کہ جو ترقی علوم اور پختگی فکر اور نظر کا ایک اعلیٰ ذریعہ ہوگا۔ کیونکہ دلائل صحیحہ کے توغل اور استعمال سے قوتِ ذہنی بڑھتی ہے اور ادراک امور دقیقہ میں طاقت مدرکہ تیز ہوجاتی ہے اور بباعث ورزش براہین حقہ کے عقل سچائی پر ثبات اور قیام پکڑتی ہے۔ اور ہریک امر متنازع کی اصلیت اور حقیقت دریافت کرنے کے لئے ایک ایسی کامل استعداد اور بزرگ ملکہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جو تکمیل قوائے نظریہ کا موجب اور نفس ناطقہ انسان کے لئے ایک منزل اقصیٰ کا کمال ہے کہ جس پر تمام سعادت اور شرف نفس کا موقوف ہے۔ وھٰذا آخرما اردنا بیانہ فی ھذہ المقدمة والحمدللّٰہ الذی ھدانا لھذا وما کنّا لنھتدی لولا ان ھدانا اللّٰہ‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلداول صفحہ ۱۲۸-۳۱۱)
کچھ اورفوائد بیان کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ براہین احمدیہ میں ہی فرماتے ہیں :
(نوٹ: نمبرشمار خاکسار نے تسلسل کی خاطر خود لگائے ہیں۔)
(۷) ’’……کہ تا جو لوگ فی الحقیقةراہ راست کے خواہاں اور جویاں ہیں ان پر بکمال انکشاف ظاہر ہوجائے کہ تمام برکات اور انوار اسلام میں محدود اور محصور ہیں اور
(۸) تا جو اس زمانہ کے ملحد ذرّیت ہے اس پر خدائے تعالیٰ کی حجت قاطعہ اتمام کو پہنچے۔
(۹) اور تا ان لوگوں کی فطرتی شیطنت ہریک منصف پر ظاہر ہو کہ جو ظلمت سے دوستی اور نور سے دشمنی رکھ کر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مراتب عالیہ سے انکار کرکے اس عالی جناب کی شان کی نسبت پر خبث کلمات مونہہ پر لاتے ہیں اور اس افضل البشر پر ناحق کی تہمتیں لگاتے ہیں اور بباعث غایت درجہ کی کور باطنی کے اور بوجہ نہایت درجہ کی بے ایمانی کے اس بات سے بے خبر ہورہے ہیں کہ دنیا میں وہی ایک کامل انسان آیا ہے جس کا نور آفتاب کی طرح ہمیشہ دنیا پر اپنی شعاعیں ڈالتا رہا ہے اور ہمیشہ ڈالتا رہے گا۔
(۱۰) اور تا ان تحریراتِ حقہ سے اسلام کی شان و شوکت خود مخالفوں کے اقرار سے ظاہر ہوجائے۔
(۱۱) اور تا جو شخص سچی طلب رکھتا ہو اس کے لئے ثبوت کا راستہ کھل جائے اور جو اپنے میں کچھ دماغ رکھتا ہو اس کی دماغ شکنی ہوجائے۔
(۱۲) اور……کہ تا اس سے مومنوں کی قُوت ایمانی بڑھے ۔
(۱۳) اور ان کے دلوں کو تثبت اور تسلی حاصل ہو۔
(۱۴) اور وہ اس حقیقت حقہ کو بہ یقین کامل سمجھ لیں کہ صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں۔
(۱۵) اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔
(۱۶) اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔
(۱۷) اور……کہ تا ہمیشہ کے لئے ایک قوی حجت مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے۔
(۱۸) اور جو سفلہ اور ناخداترس اور سیاہ دل آدمی ناحق کا مقابلہ اور مکابرہ مسلمانوں سے کرتے ہیں۔ ان کا مغلوب اور لاجواب ہونا ہمیشہ لوگوں پر ثابت اور آشکار ہوتا رہے۔
(۱۹) اور جو ضلالت اور گمراہی کی ایک زہرناک ہوا آج کل چل رہی ہے اس کی زہر سے زمانہ حال کے طالب حق
(۲۰) اور نیز آئندہ کی نسلیں محفوظ رہیں۔
(۲۱) کیونکہ ان الہامات میں ایسی بہت سی باتیں آئیں گی جن کا ظہور آئندہ زمانوں پر موقوف ہے پس جب یہ زمانہ گزر جائے گا اور ایک نئی دنیا نقاب پوشیدگی سے اپنا چہرہ دکھائے گی اور ان باتوں کی صداقت کو جو اس کتاب میں درج ہے بچشم خود دیکھے گی تو اُن کی تقویت ایمان کے لئے یہ پیشین گوئیاں بہت فائدہ دیں گی ان شاءاللہ تعالیٰ۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ۵۵۵-۵۵۸ بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر۳)
ایک خیال یہ پیدا ہوسکتا تھا کہ اس وقت بہت ساری کتابیں تو پہلے ہی موجود تھیں توایک نئی کتاب لکھنے کی کیاضرورت تھی کیاوہ کتابیں کافی نہ تھیں ؟اس خیال کاجواب بھی براہین احمدیہ کی افادیت کو چارچاندلگادیتاہے اورحضرت اقدسؑ نے خود اس کاجواب دیاہے۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :
(۲۲) ’’شاید بعض صاحبوں کے دل میں اس کتاب کی نسبت یہ وسوسہ گزرے کہ جواب تک کتابیں مناظرات مذہبی میں تصنیف ہوچکی ہیں کیا وہ الزام اور افحام مخاصمین کے لئے کافی نہیں ہیں کہ اس کی حاجت ہے لہٰذا میں اس بات کو بخوبی منقوش خاطر کردینا چاہتا ہوں جو اس کتاب اور ان کتابوں کے فوائد میں بڑا ہی فرق ہے وہ کتابیں خاص خاص فرقوں کے مقابلہ پر بنائی گئی ہیں اور ان کی وجوہات اور دلائل وہاں تک ہی محدود ہیں جو اس فرقہ خاص کے ملزم کرنے کے لئے کفایت کرتی ہیں اور گو وہ کتابیں کیسی ہی عمدہ اور لطیف ہوں مگر ان سے وہی خاص قوم فائدہ اٹھا سکتی ہے کہ جن کے مقابلہ پر وہ تالیف پائی ہیں لیکن یہ کتاب تمام فرقوں کے مقابلہ پر حقیت اسلام اور سچائی عقائد اسلام کی ثابت کرتی ہے اور عام تحقیقات سے حقانیت فرقان مجید کی بپایہ ثبوت پہنچاتی ہے اور ظاہر ہے کہ جو جو حقائق اور دقائق عام تحقیقات میں کھلتے ہیں خاص مباحثات میں انکشاف ان کا ہرگز ممکن نہیں کسی خاص قوم کے ساتھ جو شخص مناظرہ کرتا ہے اس کو ایسی حاجتیں کہاں پڑتی ہیں کہ جن امور کو اس قوم نے تسلیم کیا ہوا ہے ان کو بھی اپنی عمیق اور مستحکم تحقیقات سے ثابت کرے بلکہ خاص مباحثات میں اکثر الزامی جوابات سے کام نکالا جاتا ہے اور دلائل معقولہ کی طرف نہایت ہی کم توجہ ہوتی ہے اور خاص بحثوں کا کچھ مقتضاہی ایسا ہوتا ہے جو فلسفی طور پر تحقیقات کرنے کی حاجت نہیں پڑتی اور پوری دلائل کا تو ذکر ہی کیا ہے بستم حصہ دلائل عقلیہ کا بھی اندراج نہیں پاتا مثلاً جب ہم ایسے شخص سے بحث کرتے ہیں جو وجود صانع عالم کا قائل ہے الہام کا مقر ہے خالقیت باری تعالیٰ کو مانتا ہے تو پھر ہم کو کیا ضرور ہوگا جو دلائل عقلیہ سے اس کے روبرو اثبات وجود صانع کریں یا ضرورت الہام کی وجوہ دکھلاویں یا خالقیت باری تعالیٰ پر دلائل لکھیں بلکہ بالکل بیہودہ ہوگا کہ جس بات کا کچھ تنازع ہی نہیں اس کا جھگڑا لے بیٹھیں مگر جس شخص کو مختلف عقائد مختلف عندیات مختلف عذرات مختلف شبہات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اس کی تحقیقاتوں میں کسی قسم کی فروگذاشت باقی نہیں رہتی۔
علاوہ اس کے جو خاص قوم کے مقابلہ پر کچھ لکھا جاتا ہے وہ اکثر اس قسم کی دلائل ہوتی ہیں جو دوسری قوم پر حجت نہیں ہوسکتیں مثلاً جب ہم بائبل شریف سے چند پیشین گوئی نکال کر صدقِ نبوت حضرت خاتم انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بذریعہ ان کے ثابت کریں تو گو ہم اُس ثبوت سے عیسائیوں اور یہودیوں کو ملزم کردیں مگر جب ہم وہ ثبوت کسی ہندو یا مجوسی یا فلسفی یا برہمو سماجی کے روبرو پیش کریں گے تو وہ یہی کہے گا کہ جس حالت میں مَیں ان کتابوں کو ہی نہیں مانتا تو پھر ایسا ثبوت جو انہیں سے لیا گیا ہے کیونکر مان لوں۔ اسی طرح جو بات مفید مطلب ہم وید سے نکال کر عیسائیوں کے سامنے پیش کریں گے تو وہ بھی یہی جواب دیں گے پس بہرحال ایسی کتاب کی اشد ضرورت تھی کہ جو ہر ایک فرقہ کے مقابلہ پر سچائی اور حقیت اسلام کی دلائل عقلیہ سے ثابت کرے کہ جن کے ماننے سے کسی انسان کو چارہ نہیں۔ (باقی آئندہ)