اختلاف کے موضوع پر حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ دلچسپ واقعات
دل سر بہ مہر، کانوں میں روئی بھری ہوئی
آنکھوں میں اختلاف کے جالے پڑے ہوئے
باہر اٹھا کے پھینک دیے بت غرور کے
کب سے تھے یہ مکان میں سالے پڑے ہوئے
(چودھری محمد علی مضطر عارفی)
قول و فعل یا نظریات وغیرہ میں ناموافقت،الگ الگ ہو نے کی کیفیت،صورت یا وصف میں یکسانیت نہ ہونے کی صورتحال، جس سے حال یا محل میں فرق یا دوئی پیدا ہو جائے اسے اختلاف کہتے ہیں۔
جزوی اختلاف سے مواخات و مواسات میں فرق نہ آئے
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: اکھڑپن چھوڑ دواور آپس میں جو اختلاف ہوجاتے ہیں ان کو خواہ مخواہ طوالت نہ دو۔لڑائی تو بعض وقت بھائیوں میں ہو ہی جاتی ہے۔
دیکھو ایک وقت حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ میں جھگڑا ہوگیا۔ بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ باتیں کرتے کرتے ہاتھ کو بھی حرکت دے لیتے ہیں اس طرح نادانستہ طور پر حضرت ابوبکرؓ کا تہ بند پھٹ گیا۔ بایں ہمہ حضرت ابوبکرؓ باوجود بزرگ ہونے کے حضرت عمرؓ سے معافی چاہی۔ وہ اس وقت جو ش میں تھے۔لہٰذا حضرت ابوبکرؓ رسول کریمﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے اور آکر یہ شکایت نہیں کی کہ عمر نے مجھ سے لڑائی کی یا مجھے د کھ د یا بلکہ یہ کہا کہ عمر مجھے معاف نہیں کرتا۔حضرت عمرؓ بھی آگئے اور معذرت کی۔ (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیؐ لو کنت متخذا خلیلاً )
دیکھو یہ تھے خیرالقرون کے مسلمان۔تمہیں بھی ایسا ہی بننا چاہئے کہ اگر کبھی بتقاضائے بشریت جھگڑا ہو جائے تو فوراً صلح کر لو اور دل میں کینہ نہ بٹھا چھوڑو۔
ابن تیمیہ کا ذکر ہے کہ کسی نے ان کو آکر مبارکباد دی۔آپ کا فلاں جانی دشمن جو آپ کو بہت گالیاں دیا کرتا تھا مر گیا۔آ پ اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اس کا اور میرا اختلاف تو زندگی کا تھا۔ فوراًاس کے گھر حاضر ہوئے تجہیزو تکفین کے بعد اس کے گھر والوں سے کہا کہ جو بھی ضرورت ہو میں اس کا کفیل ہوں اور ہر کام اطلاع ہونے پر کردیا کروں گا۔پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ایک دوسرے سے ہمدردی کرو۔کسی بھائی کی عداوت دل میں نہ بٹھا لو بلکہ تم میں ایسی محبت اور اخوت ہو جو باہر کے لوگوں کے لئے نمونہ ہو۔وہ اگرایک شہر یا گاؤں کے ہو کر صرف محلّوںیا دروازوںیا رشتوں کے متفرق ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی مواخات یا مواسات میں سرگرم نہیں تو انہیں نمونہ سے یہ سبق پڑھاؤ کہ دیکھو دور دراز کے مختلف ملکوں کے مختلف المذاق باشند ے کس طرح مسیح موعود کی قوت قدسیہ سے ایک دوسرے کی ہمدردی اور غمگساری کرتے ہیں اور جب ان کا یہ حال ہے تو ہم ایک شہریا ایک قبیلہ کے ہو کر کیوں ایک دوسرے سے بیگانہ رہیں۔ (جماعت قادیان کو نصائح، انوارالعلوم جلد۴صفحہ۲۷-۲۸)
انجیل کا ماہر پادری قرآن،انجیل اور تورات میں کوئی اختلاف پیش نہیں کر سکا
دشمن کو کبھی حقیر نہ سمجھنا چاہیے بلکہ بہت بڑا سمجھنا چاہیے ہاں ساتھ ہی یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیےکہ اگر دشمن قوی ہے تو میرا مددگار بھی بہت قوی ہے اس لئے دشمن میرے مقابلہ میں کچھ نہیں کر سکتا جب یہ دونوں باتیں انسان میں پیدا ہو جائیں تو اوّل تو خدا اس کے دشمن کی زبان پر کوئی اعتراض ہی جاری نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو اس کا جواب بھی سمجھا دے گا۔ایک دفعہ یہاں ایک انگریز پادری آیا۔والٹر اس کا نام تھا۔ احمدیت کے متعلق ایک کتاب بھی اس نے لکھی ہے۔اب مر گیاہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن انجیل اور توریت کی تصدیق کرتا ہے مگر ان میں آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے اگرچہ میں قرآن کی تصدیق کرنے کے اَور معنے کیا کرتا ہوں اور میرے نزدیک جب ایسے موقع پر لام صلہ آئے تو اس کا اَور ہی مطلب ہوتا ہے۔مگر اس وقت میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ کہو ہاں تصدیق کرتا ہے۔اور بتایا گیا کہ وہ کوئی اختلاف پیش ہی نہیں کر سکے گا۔اس نے کہا کہ ان میں تو اختلاف ہے پھر تصدیق کے کیا معنی؟ میں نے کہا کوئی اختلاف پیش تو کرو۔اس پر وہ خوب قہقہہ مار کر ہنسا اور کہا ایک اختلاف! اختلاف تو بیسیوں ہیں۔مَیں نے کہا ایک ہی پیش کرو۔ یہ باتیں میرے منہ سے خدا ہی کہلوا رہا تھا۔ورنہ اختلاف تو فی الواقع موجود ہیں۔گو اس قسم کے اختلاف نہیں ہیں جس قسم کے اس کی مراد تھی۔ وہ پادری تھا اور انجیل کا ماہر۔ اگر کوئی اختلاف پیش کر دیتا تو بات لمبی جا پڑتی۔مگر چونکہ میرے دل میں ڈالا گیا تھا کہ وہ کوئی اختلاف پیش نہیں کر سکے گا۔اس لئے میں نے زور دے کر کہا کہ کوئی اختلاف تو پیش کرو۔اس نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا۔قرآن کریم میں لکھا ہے کہ مسیح ؑ پرندہ پیدا کیا کرتا تھا انجیل میں اس طرح نہیں لکھا۔میں نے کہا۔پادری صاحب آپ تو سمجھدار آدمی ہیں اور تاریخ نویسی کا ارادہ رکھتے ہیں۔آپ بتائیں کیا اگر ایک مؤرخ کچھ واقعات کواپنی کتاب میں درج کر دے اور دوسرا ان کو درج نہ کرے۔تو یہ کہا جائے گا کہ ان کتابوں کا آپس میں اختلاف ہے۔ یہ سن کر اس کے ساتھ جو دوانگریز تھے ان کی بے اختیار ہنسی نکل گئی اور انہوں نے کہا فی الواقع یہ کوئی اختلاف نہیں اس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا۔پس جب انسان خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر لیتا ہے تو خدا خود اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دشمن پر خواہ اس کا دشمن کتنا ہی قوی ہو کامیاب کر دیتا ہے۔( ہدایات زریں، انوار العلوم جلد ۵صفحہ۵۹۰)
مذہبی اختلافات دنیاوی معاملات میں مانع اتحاد نہیں
قرآن کریم نے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے آپ کے تعلقات اور سلوک میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے۔چنانچہ آتاہے۔ وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا ؕ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ؕ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(العنکبوت:۹) خداتعالیٰ فرماتاہے کہ اے مسلمان ! اگر تیرے ماں باپ مشرک ہوں تو تجھے یہ نہیں چاہیے کہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ دے ان سے کوئی سلوک نہ کرے۔ان سے ہر طرح کا اچھا سلوک کر اور ان کے احکام کی اطاعت کر ہاں شرک کے معاملہ میں ان کی بات نہ ماننا کیونکہ تیری عقل نے اس بارے میں اور فیصلہ کیا ہے اور ان کی عقل نے اور مگر دنیاوی معاملات میں تیرا فرض ہے کہ تو ان سے نیک سلوک کرے۔
تو شرک جس کو اسلام نے بد ترین گناہ قرر دیا ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی کہا ہے کہ اگر تیرے ماں باپ مشرک ہوں تو بھی ان سے تعلق منقطع نہ کر بلکہ ان سے حسن سلوک کر اور اچھے تعلقات رکھ۔
یہ تو قرآن کریم کا حکم ہے اب ہم رسول کریمﷺ کے متعلق دیکھتے ہیں۔
ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کی لڑکی کے پاس جو رسول کریمﷺ کی بیوی کی بہن تھیں ان کی والدہ آئی تو انہوں نے رسول کریمﷺ سے پوچھا کہ میری ماں آئی ہے اور چاہتی ہے کہ میں اس سے کچھ سلوک کروں مگر وہ کافر ہے کیا میں اس سے سلوک کر سکتی ہوں؟آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں کر یہ دنیاوی معاملہ ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘(بخاری کتاب الادب باب صلۃ الوالد المشرک)پھر حضرت عمرؓ جیسے انسان جن کے متعلق مسلمان بھی سمجھتے ہیں کہ خشونت والے تھے اور اپنی پہلی حالت میں تلوار لے کر رسول کریؐم کو قتل کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ان کے متعلق آتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے ان کو ایک جُبّہ دیا جو ریشمی تھا۔انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ[ﷺ] ! میں نے ایک دفعہ آپؐ کو ریشمی جبہ دیا تھا مگر آپ نے اس کو پسند نہ فرمایا تھا اب مجھے آپ نے ریشمی جبہ دیا ہے کہ میں اس کو پہن لوں۔آپ نے فرمایا میں نے پہننے کے لئے نہیں دیا کسی کو تحفہ دید ویا بیچ ڈالو۔(بخاری کتاب اللباس باب الحریر للنساء)اس پر انہوں نے اپنے اس بھائی کو جومکہ میں رہتا تھا اور کافر تھا دے دیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے تعلقات اور سلوک منقطع نہیں ہو جاتا بلکہ اس لڑائی کے زمانہ میں کافر شتہ داروں سے سلوک کئے جاتے تھے۔ ( پیغام صلح، تقریر فرمودہ ۱۴؍ نومبر۱۹۲۳ء انوار العلوم جلد ۷صفحہ۲۹۹-۳۰۰)
کہہ دینا یہ اختلافی مسئلہ ہے اورکثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے
لطیفہ مشہور ہے کہ ایک جاہل شخص تھا جسے مولویوں کی مجلس میں بیٹھنے کا بڑا شوق تھا مگر چونکہ اسے دین سے کوئی واقفیت نہ تھی اس لئے جہاں جاتا لوگ دھکّے دے کر نکال دیتے۔ ایک دفعہ اس نے کسی دوست سے ذکر کیا کہ مجھے علماء کی مجلس میں بیٹھنے کا بڑا شوق ہے مگر لوگ مجھے بیٹھنے نہیں دیتے میں کیا کروں۔ اس نے کہا ایک بڑا سا جُبّہ اور پگڑی پہن لو۔ لوگ تمہاری صورت کو دیکھ کر خیال کریں گے کہ کوئی بہت بڑا عالم ہے اور تمہیں علماء کی مجلس میں بیٹھنے سے نہیں روکیں گے۔ جب اندر جا کر بیٹھ جاؤ اور تم سے کوئی بات پوچھی جائے تو کہہ دینا کہ اختلافی مسئلہ ہے بعض نے یوں لکھا ہے اور بعض نے اس کے خلاف لکھا ہے اور چونکہ مسائل میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے تمہاری اس بات سے کسی کا ذہن اِدھر منتقل نہیں ہو گا کہ تم کچھ جانتے نہیں۔ چنانچہ اس نے ایک بڑا سا جُبّہ پہنا، پورے تھان کی پگڑی سر پر رکھی اور ہاتھ میں عصا لے کر اس نے علماء کی مجالس میں آنا جانا شروع کر دیا۔ جب کسی مجلس میں بیٹھتا تو سرجُھکا کر بیٹھا رہتا۔ لوگ کہتے کہ جناب آپ بھی تو کچھ فرمائیں۔ اس پر وہ گردن ہِلا کر کہہ دیتا اس بارہ میں بحث کرنا لغو ہے۔ علماء اسلام کا اس کے متعلق بہت کچھ اختلاف ہے کچھ علماء نے تو اس طرح لکھا ہے جس طرح یہ مولانا فرماتے ہیں اور کچھ علماء نے اُس طرح لکھا ہے جس طرح وہ مولانا فرماتے ہیں۔ لوگ سمجھتے کہ اس شخص کا مطالعہ بڑا وسیع ہے۔ چنانچہ کہتے بات تو ٹھیک ہے جھگڑا چھوڑو اور کوئی اور بات کرو کچھ مدت تو اسی طرح ہوتا رہا اور علماء کی مجالس میں اس کی بڑی عزت و تکریم رہی۔ مگر ایک دن مجلس میں یہ ذکر چل پڑا کہ زمانہ ایسا خراب آ گیا ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ خدا کا انکار کرتا چلا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر خدا ہے تو کوئی دلیل دو۔ اس پر لوگوں نے حسبِ دستور ان سے بھی کہا کہ سنایئے مولانا آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ کہنے لگا بحث فضول ہے کہ کچھ علماء نے لکھا ہے کہ خدا ہے اور کچھ علماء نے لکھا ہے کہ خدا نہیں۔ یہ سنتے ہی لوگوں میں اس کا بھانڈا پُھوٹ گیا اور انہوں نے دھکّے دے کر اسے مجلس سے باہر نکال دیا۔(خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحہ ۵۱۶-۵۱۷)
اختلاف پر اتفاق
بعض دفعہ دنیا دار لوگوں کے مونہوں سے بھی بعض حکمت کی باتیں نکل جاتی ہیں گزشتہ جنگ کے بعد مسٹر لائڈ جارج فرانس کے ساتھ یہ مشورہ کرنے کے لئے گئے کہ جرمنوں کے ساتھ کن شرائط پر صلح کی جائے۔فرانس والے یہ چاہتے تھے کہ جرمنی کابہت سا حصہ ان کے سپرد کر دیا جائے لیکن مسٹر لائڈ جارج یہ نہیں چاہتے تھے کہ جرمنی کا کوئی حصہ فرانس کے سپرد کیا جائے۔ کئی دن تک اس مطالبہ کے متعلق گفتگو ہوتی رہی آخر انہوں نے دیکھا کہ اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے اس لئے وہ گفتگو ختم کر کے واپس آگئے۔ لوگوں نے بحث کا نتیجہ پوچھا تو انہوں نے کہا نتیجہ بہت اچھا رہا ہے ہم نے ایک دوسرے کے اختلاف پر اتفاق کر لیا ہے۔ پس ہر اختلاف میں لڑائی نہیں ہوتی بلکہ لڑائی وہاں ہوتی ہے جہاں انسان اپنی بات کو زور سے منوانے کی کوشش کرے اور اس اختلاف کو بزورِبازو دور کرنا چاہے۔(دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے، فرمودہ ۹؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء بمقام کوٹھی نمبر ۸ یارک روڈ دہلی، انوارالعلوم جلد ۱۸صفحہ ۴۲۲)
اسلام اختلاف کو برداشت کرتاہے
دنیا میں امن پیدا کرنے کے دو ہی ذریعے ہیں کہ یا تو اختلاف کو مٹا دیا جائے اور مکمل اتحاد کی صورت پیدا کر لی جائے اور یا پھر اس اختلاف کو برداشت کیا جائے۔ دنیا میں جب بھی نبی آتے ہیں تو لوگ ان کو مارتے اور دکھ دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس اختلاف کو برداشت نہیں کر سکتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لڑائی یہودیوں سے اس لئے نہ تھی کہ تم مجھے ضرور مانو بلکہ اس لئے تھی کہ یہودی آپ کو مجبورکرتے تھے کہ تم اپنا مذہب چھوڑ دو اور یہ اختلاف پیدا نہ کرو۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مکہ والوں سے لڑائی اس لئے نہ تھی کہ تم مجھے ضرور مانو بلکہ اس لئے تھی کہ مکہ والے آپ کو اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ تم اپنا مذہب چھوڑ دو اور ہماری قوم میں اختلاف پیدا نہ کرو ہم تمہارے اس اختلاف کو کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ لڑائی کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں فرعون نے پیدا کی اور یہی وجہ ہندوستان کے نبی کرشن اور رام چندر کے زمانہ میں ان کے دشمنوں نے پیدا کی اور یہی وجہ ایران کے نبی زرتشت کے زمانے میں ان کے دشمنوں نے پیدا کی اور یہی وجہ چین کے نبی کنفیوشس کے زمانہ میں ان کے دشمنوں نے پیدا کی۔ تمام زمانوں میں انبیاء سے لڑائی کی وجہ یہی تھی حالانکہ نبیوں نے کسی کو اپنے ماننے کے لئے مجبور نہیں کیا ہاں دشمن مجبور کرتے تھے کہ تم اپنا دعویٰ چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ مل جاؤ۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عرب میں غلبہ عطا کیا تو آپ نے بحرین کے بادشاہ کے پاس وفد بھیجا اور ساتھ ہی اپنا ایک خط بھی دیا جس کی بناء پر وہ مسلمان ہوگیا جب وہ مسلمان ہو گیا تو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خط لکھا کہ میرے علاقہ میں جو عیسائی اور مجوسی وغیرہ رہتے ہیں ان سے کیا سلوک کیا جائے؟ آپ نے اس کو لکھوایا کہ غیر مذہب والے کو اسلام لانے پر مجبور نہ کرو اور نہ ہی اس کو اپنے ملک سے نکالو جو لوگ اپنے مذہب پر رہنا چاہیں انہیں اپنے مذہب پر ہی رہنے دو ہاں ان سے ٹیکس وصول کرو اگر وہ ٹیکس ادا کرتے جائیں تو تمہیں ان پر کسی طرح دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں۔
اسلام کا یہ طریق بتاتا ہے کہ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ضرور اسلام میں داخل ہو بلکہ وہ اختلاف کو برداشت کرتا ہے۔ پس فساد کی وجہ صرف اختلاف نہیں بلکہ ایسا اختلاف ہے جس کے چھوڑنے کے لئے دوسرے کو مجبور کیا جائے اور دوسروں کو اپنے اندر شامل رہنے پر مجبور کیا جائے۔ دوسروں کو اپنے اندر شامل رکھنے کے لئے مجبور کرنا بظاہر اتحاد نظر آتا ہے مگر یہی چیز فساد کا منبع ہے۔(دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے،فرمودہ ۹؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء بمقام کوٹھی نمبر ۸ یارک روڈ دہلی، انوارالعلوم جلد ۱۸صفحہ ۴۲۳-۴۲۴)
محض لفظی نزاع سے بھی لڑائی ہوجاتی ہے
مثنوی میں مولانا روم ایک مثال بیان کرتے ہیں کہ کسی جگہ چار فقیر تھے ان میں سے ایک ہندی تھا، دوسرا ایرانی، تیسرا عرب اور چوتھا ترک۔ وہ چاروں بازار میں اکٹھے ہو کر لوگوں سے خیرات مانگتے رہے مگر کسی نے انہیں کچھ نہ دیا۔ جب شام ہوئی تو کوئی شخص اُن کے پاس سے گزرا اور جب انہوں نے سوال کیا تو اُسے ان کی حالت پر رحم آیا اور اس نے انہیں ایک پیسہ دے دیا مگر چونکہ پیسہ ایک تھا اور فقیر چار تھے اس لئے انہوں نے آپس میں جھگڑنا شروع کر دیا۔ ہندی کہتا تھا میں صبح سے گلا پھاڑ پھاڑ کر سوال کرتا رہا ہوں اس لئے پیسہ میری خواہش کے مطابق خرچ کیا جائے اور اس پیسہ کی داکھ [داکھ:انگور کی ایک قسم]خریدی جائے گی۔ عرب کہنے لگا تم غلط کہہ رہے ہو پیسہ دینے والے نے میری ہی حالت پر رحم کھا کر پیسہ دیا ہے اس لئے پیسہ میری مرضی کے مطابق خرچ ہو گا اور اس کی داکھ نہیں بلکہ عِنَب(انگور) خریدا جائے گا، ایرانی نے کہا تم دونوں غلط کہہ رہے ہو یہ پیسہ میری مرضی سے خرچ ہوگا اور نہ داکھ خریدی جائے گی اور نہ عِنَب بلکہ انگور خریدا جائے گا۔ یہ سن کر ترکی سخت چیں بجبیں ہوا اور کہنے لگا تمہاری تینوں کی رائے غلط ہے۔ یہ پیسہ میری مرضی کے سِواخرچ نہیں ہو سکتا اور اُس نے ترکی زبان میں انگور کا نام لے کر کہا کہ میں وہ خریدنا چاہتا ہوں۔ اس پر انہوں نے آپس میں لڑنا شروع کردیا اور ان میں سے ہر شخص چاہتا تھا کہ میری بات مانی جائے اور میری خواہش کے مطابق چیز خریدی جائے۔ وہ آپس میں جھگڑ ہی رہے تھے کہ ایک شخص پاس سے گزرا جو اُن چاروں کی زبانیں سمجھتا تھا اُس نے پاس کھڑے ہو کر ان کی باتیں سُنیں اور کہاآؤ میں تمہارے جھگڑے کا فیصلہ کر دوں اور ہر ایک کی خواہش کے مطابق چیز خرید دوں۔ یہ کہہ کر وہ ان کو ساتھ لے گیا اور جا کر انگور خرید دئیے اور وہ سب خوش ہو گئے۔
اصل بات یہ تھی کہ وہ سب ایک ہی چیز مانگ رہے تھے مگر وہ ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے آپس میں لڑ رہے تھے۔ اسی طرح بعض اوقات اختلاف کی بنیاد محض غلط فہمی پر ہوتی ہے اور فریقین آپس میں جھگڑا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ نہ وہ اس کے نقطۂ نگاہ کو سمجھ رہا ہوتا ہے اور نہ وہ اس کے نقطۂ نگاہ کو، اور وہ آپس میں لڑتے چلے جاتے ہیں لیکن اگر ایک دوسرے کے نقطۂ نگاہ کو سمجھ لیا جائے تو اختلافات کی بنیاد اُٹھ جانے سے کوئی مشکل نہیں رہتی۔(زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کی خوبیاں اور ان کا پس منظرفرمودہ ۲۷،۲۶؍مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان، انوارالعلوم جلد ۱۹صفحہ ۴-۵)
ماضی کا مسلمان اسلام کی خاطر اپنے بڑے سے بڑے اختلاف کو بھول سکتا تھا
دیکھو حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں لڑائی تھی کوئی معمولی لڑائی تو نہیں تھی۔اسلام کے اتنے قرب کے باوجود دونوں لشکرلئے ہوئے ایک دوسرے کو مارنے کے لئے تیار پھرتے ہیں مگر جب روما کے بادشاہ نے یہ لڑائی دیکھ کرفیصلہ کیاکہ وہ آپ ان پر حملہ کرے تو اُس نے اپنے افسروں سے مشورہ کیا۔ سارے جرنیلوں نے کہاکہ بڑا عمدہ موقع ہے۔ان میں لڑائی ہے حملہ کردو۔اُن کا جو بڑا بشپ (پادری) تھا وہ بڑا ہوشیار تھااُس نے کہا بادشاہ! میں تمہیں ایک سبق دیتا ہوں اِس کو دیکھ لو اور پھر خیال کرلینا۔کہنے لگا ذرا دو کتے منگوائیے بڑے تیز تیز اور شیر منگوائیے۔کتے منگوا کر کہنے لگا ان کو ذرا فاقہ دیجئے اور کل میرے سامنے ان کو لایا جائے۔کتے بلوائے،فاقے دے کر اُن کے آگے پھینکا گوشت۔پس گوشت پھینکا تو دونوں کتے اُس پر جھپٹے۔ ایک اُس کو مارے اور دوسرا اس کو کاٹے اور بہت بُری طرح لہولہان کردیا۔اُس نے کہا اب شیر چھوڑ دو۔ شیر جو پنجرے میں سے اُس جگہ پرسے گزرا تو معاً آتے ہی اُن کی لڑائی چھٹ گئی اور دونوں کتے ایک دائیں ہوگیااور ایک بائیں ہوگیا۔ وہ اِدھر جھپٹے۔جب وہ اِدھر منہ کرے تو پیچھے سے وہ کاٹ لے۔ جب وہ اُدھر منہ کرے تو وہ کاٹ لے۔بُرا حال شیر کا کردیا۔تو وہ تو خیر دشمن تھا اُس نے مسلمانوں کی گندی مثال دینی تھی۔کہنے لگا علیؓ اور معاویہؓ والی یہی مثال ہے۔ یہ لڑ تو رہے ہیں پر آپ گئے نا تو انہوں نے اکٹھے ہوجانا ہے۔
وہ جانتا تھا کہ مسلمان کیریکٹرا ُس وقت تک اتنا مضبوط تھا کہ وہ اسلام کی خاطر اپنے بڑے سے بڑے اختلاف کو بُھول سکتا تھا۔لیکن بادشاہ نے اُس کے مشورہ کو قبول نہ کیا اورفوج کو موبے لائز(MOBILIZE)کرنے کا حکم دے دیا۔ جب رومی فوج کے موبے لائز(MOBILIZE)ہونے کی اطلاع اسلامی ملک میں پہنچی تو حضرت معاویہ ؓنے اُس کو خط لکھا۔انہوں نے لکھا میں نے سنا ہے کہ تم اسلامی ملک پر حملہ کرنا چاہتے ہو اور یہ جرأت تم کو اِس وجہ سے ہوئی ہے کہ میں علیؓ سے لڑرہا ہوں لیکن میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تمہاری فوجوں نے اسلامی ملک کا رُخ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو علیؓ کی طرف سے تم سے لڑنے کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا۔ اُسی وقت مَیں اختلاف چھوڑ کر علیؓ کی اطاعت کرلوں گاا ور اُس کی طرف سے لڑنے کے لئے نکلوں گا۔بادشاہ ڈر گیا اُس نے کہا بطریق والی بات ٹھیک ہے۔(متفرق امور، فرمودہ ۲۷؍دسمبر۱۹۵۳ء بمقام جلسہ سالانہ ربوہ، انوار العلوم جلد ۲۴ صفحہ ۱۶۶-۱۶۷)
سنا ہے دل کا بدلنا بہت ضروری ہے
اگر یہ بات ہے دل کو بدل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے سوچیں اگر اس کو باوضو ہو کر
تو اختلاف کے پتھر پگھل کے دیکھتے ہیں
(چودھری محمد علی مضطر عارفی)