عرش کی نسبت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب استعارات ہیں
عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے جو اٹھائی جائے یا اٹھانے کے لائق ہو بلکہ صرف تنزّہ اور تقدّس کے مقام کا نام عرش ہے اسی لئے اِس کو غیر مخلوق کہتے ہیں۔ ورنہ ایک مجسم چیز خدا کی خالقیت سے کیونکر باہر رہ سکتی ہے اور عرش کی نسبت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب استعارات ہیں۔ …اب ہم فرشتوں کے اٹھانے کا اصل نکتہ ناظرین کو سناتے ہیں اوروہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے تنزّہ کے مقام میں یعنی اس مقام میں جب کہ اُس کی صفت تنزّہ اُس کی تمام صفات کو روپوش کرکے اُس کو وراء الوراء اور نہاں در نہاں کر دیتی ہے۔ جس مقام کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں عرش ہے تب خدا عقول انسانیہ سے بالاتر ہو جاتا ہے اور عقل کو طاقت نہیں رہتی کہ اُس کو دریافت کرسکے تب اُس کی چار صفتیں جن کو چار فرشتوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو دُنیا میں ظاہر ہو چکی ہیں اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہیں۔ (۱) اوّل ربوبیت جس کے ذریعہ سے وہ انسان کی روحانی اور جسمانی تکمیل کرتا ہے چنانچہ رُوح اور جسم کا ظہور ربوبیت کے تقاضا سے ہے اور اسی طرح خدا کا کلام نازل ہونا اور اُس کے خارق عادت نشان ظہورمیں آنا ربوبیت کے تقاضا سے ہے(۲) دوم خدا کی رحمانیّت جو ظہور میں آچکی ہے یعنی جو کچھ اُس نے بغیر پاداش اعمال بےشمار نعمتیں انسان کے لئے میسر کی ہیں یہ صفت بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے (۳) تیسری خدا کی رحیمیت ہے اوروہ یہ کہ نیک عمل کرنے والوں کو اوّل توصفت رحمانیت کے تقاضا سے نیک اعمال کی طاقتیں بخشتا ہے اور پھر صفت رحیمیت کے تقاضا سے نیک اعمال اُن سے ظہور میں لاتا ہے اور اس طرح پر اُن کو آفات سے بچاتا ہے۔ یہ صفت بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہرکرتی ہے (۴) چوتھی صفت مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے یہ بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا دیتا ہے۔ یہ چاروں صفتیں ہیں جو اُس کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں یعنی اُس کے پوشیدہ وجود کا ان صفات کے ذریعہ سے اس دنیا میں پتہ لگتا ہے اور یہ معرفت عالم آخرت میں دو چند ہوجائے گی گویا بجائے چار۴ کے آٹھ۸ فرشتے ہو جائیں گے۔
(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۷۸-۲۷۹)