پردہ، حیا، عفت ایک عالمگیر مذہبی تعلیم
حیا،عفت اورپاکدامنی فطرت انسانی میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ پس انسانوں اور دیگر مخلوقات میں جہاں اللہ تعالیٰ نے بےشمارفرق رکھے ان میں سے ایک اہم وصف اپنے ننگ کو ڈھانپنا، عفت اور پاکدامنی اختیار کرنا بھی ہے۔ پردہ کی آفاقی تعلیم انسانی روح، فطرت اور اخلاقی اقدار کےعین مطابق ہے۔ یہ فطرت صحیحہ کا جزو لا ینفک ہے۔اسلام سمیت تمام آسمانی ادیان کے مکاتب فکر میں حیا اور عفت کے بارے میں خاص اہتمام دکھائی دیتا ہے۔ اسلام سے پہلے بھی پردے کا رواج تھا۔ قرآن کریم نے بڑے احسن طور پر یہ بتایا ہے کہ جب انسان لاکھوں سال پر مشتمل اپنی ارتقائی منازل طے کرتا ہوا اس سٹیج پر پہنچا کہ اس کو شریعت کے نور سے روشناس کروایا جائے تو سب سے پہلےاحکام میں سے اپنے ننگ کو ڈھانپنا شامل کیا گیا۔جیسا کہ فرمایا:اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوۡعَ فِیۡہَا وَلَا تَعۡرٰی(طٰہٰ: ۱۱۹)ترجمہ: اور تیرے لیے مقدر ہے کہ نہ تو اس میں بھوکا رہے اور نہ ننگا۔
تمام مذاہب کی بنیاد وحی الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی ہر قوم کو اس کے مناسب حال تعلیم اور شریعت سے نوازا۔ اس بات کا تائیدی ثبوت حیا اور پردہ کی بابرکت تعلیم کا تمام عالمگیر مذاہب کی کتب اور انبیاء کی سنت کی صورت میں موجود ہونا ہے۔پس عفت اور پرہیزگاری کی تعلیم کسی ایک مذہب کی اساس نہیں بلکہ آغاز معاشرت سے ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے جو ابتدائی احکام ناز ل کیے گئے ان میں شامل ہے۔ اسی حکم کا دوسرا مرحلہ خواتین کا با پردہ و باحجاب ہونا ہے۔پردہ تمام مذاہب کی خواتین کے تحفظ اور زینت کا ضامن ہے۔ آج بھی مذہبی مقامات پر تمام مذاہب کی خواتین کا با پردہ ہوکرجانا اور سر ڈھانپ کر جانا اس بات کی دلیل ہے کہ حیا کی تعلیم تمام ادیان کا بنیادی جزو ہے۔رسول اللہﷺ نےبھی ایک حدیث میں اس اصول کی طرف راہنمائی فرمائی ہے کہ حیا تمام انبیاء کی تعلیمات اور سنت میں شامل ہے۔
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِيْنَ الْحَيَاءُ، وَالتَّعَطُّرُ، وَالسِّوَاكُ، وَالنِّكَاحُ(جامع الترمذی کتاب النكاح باب ما جاء في فضل التزويج)حضرت ابو ایوب انصاری ؓسے مروی ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا: انبیاءکی سنتوں میں سے چار باتیں رکھی گئی ہیں۔عفت و پرہیزگاری، خوشبو لگانا، مسواک کرنا اورنکاح کرنا۔
اب ہم ذیل میں چند عالمگیر مذاہب کی تعلیمات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں جن میں پردہ، حیا اور عفت کا حکم دیا گیا ہے۔
یہودیت میں پردہ کی تعلیم
حضرت ابراہیم ؑکی اولاد سے شروع ہونے والا مذہب جسے آج یہودیت کے نام سے موسوم کیا جاتاہے ایک شرعی کتاب کا حامل ہے۔ بائبل کے قدیم عہد نامے کو یہودی مقدس مذہبی کتاب قبول کرتے ہیں اور اس پرعمل کرتےہیں۔ قدیم عہدنامے کی متعدد آیات میں نیک،پاک اور باحیا خواتین کے پردہ کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ تورات کی پہلی کتاب پیدائش باب ۲۴ میں حضرت اسحاقؑ کی اہلیہ کا ذکر ملتا ہے کہ جب ان کی شادی ہوئی تو انہوں نے پردہ کیا۔ چنانچہ لکھا ہے:ربقہ نے بھی نگاہ اٹھائی اور اضحاق کو دیکھا۔ تب وہ اپنے اونٹ سے نیچے اتری۔اور خادم سے پوچھا : کھیت میں وہ کون شخص ہے جو ہم سے ملنے آ رہا ہے؟ اس نوکر نے جواب دیا وہ میرا آقا ہے۔تب اس نے اپنا نقاب لے کر اپنے آپ کو ڈھانپ لیا۔(پیدائش باب ۲۴ آیت ۶۴-۶۵)
یسعیاء کی کتاب میں خداوند صیون کی خواتین کا ذکر کرتا ہے جو کہ مغرور اور متکبر ہیں۔ سزا کے طور پر فرماتا ہے کہ خداوند اُن متکبر عورتوں کے پردے کوختم کر دے گا۔چنانچہ لکھا ہے:اس وقت ان کی چوڑیاں،سر کے بنداور گلے کی مالائیں،کان کی بالیاں،کنگن اور نقاب۔سر کے تاج،پازیب اور کمر بند،عطر دان اور تعویذ، انگوٹھیاں اور نتّیں، نفیس کُرتے،اوڑھنیاں اور ڈوپٹے،بٹوے اور آئینے اور سوتی کپڑے،دستاریں اور برقعے۔غرض کہ خدا وند اُن کی آرائش کی سبھی چیزیں چھین لے گا۔(یسعیاء باب ۳، آیت:۱۸-۲۳)
یہودیت کی فقہ کی کتاب طالمود میں سبت کے احکام میں عورتوں کے سر کے بال ڈھانپنے اور مناسب لمبے پردہ دار لباس میں گھر سے باہر جانے کی تعلیم ملتی ہے۔چنانچہ طالمود میں لکھا ہے :
Little girls may go out with laces on and even with screws in their ears. Arabians may go out in their long veils and Medians in their mantillas; so may even all women go out, but the sages spoke of existing customs. She may fold her mantilla around a stone, nut, or a coin (used as buttons), provided she does it not especially on the Sabbath.
ترجمہ:چھوٹی عمر کی لڑکیاں جھالر والے لباس کے ساتھ اور کانوں میں بالیوں کے ساتھ گھر سے باہر جا سکتی ہیں۔ عرب یہود خواتین اپنے لمبے پردوں اور مید(ایک علاقہ کا نام) کی یہود عورتیں اپنی بڑی اوڑھنیوں میں باہر جا سکتی ہیں۔ الغرض تمام خواتین باہر جا سکتی ہیں…وہ اپنی اوڑھنی کے کنارے پر ایک پتھر، نٹ یا سکہ (بٹن کے طور پر)استعمال کے لیے باندھ سکتی ہیں۔بشرطیکہ یہ تمام اہتمام خاص طور پر سبت کے لیے نہ ہو۔
پرانے عہد نامے کی اہم کتاب گنتی باب ۵ آیت نمبر ۱۸سے بھی اشارہ ملتاہے کہ شادی شدہ عورت کے بال ڈھانپے ہونے چاہئیں۔
ان حوالہ جات سے بعض لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صرف شادی شدہ عورت کو پردہ کرنا ہے۔ پس یہ مغالطہ نہ رہے کہ غیرشادی شدہ لڑکی چاہے کسی بھی عمر کی ہو اس کو پردہ کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ جیسے ہی لڑکی جوان ہو اور شادی کی عمر کو پہنچے تو اپنے سر ڈھانپے۔ چند دہائیاں پہلے تک یہی رواج تھا کہ جیسے ہی لڑکی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی اس کی شادی کر دی جاتی۔ اس لیے شادی شدہ کو پردہ کا کہنے سے مراد ہے کہ ہر بالغ لڑکی کو پردہ کرنا ہے۔پردہ اور حیا کی انہی تعلیمات کی بدولت ہم دیکھتےہیں کہ یہودی خواتین خاص طور پر اپنے سروں کو ڈھانپتی ہیں۔ چونکہ بالوں کو خاص طور پر ڈھانپنے کا حکم ہے اس لیے خواتین وِگ استعمال کرتی ہیں۔
عیسائیت میں شرم و حیا کی تعلیم
عیسائیت تعداد کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ عیسائی پرانے عہد نامے کو مقدس شریعت ماننے کے ساتھ نئے عہد نامے پر بھی کاربندہیں۔نئے عہد نامے میں عورتوں کے سر کو ڈھانپنے کا حکم وضاحت سے ملتا ہے۔ چنانچہ کرنتھیوں کے نام پہلے خط کے باب ۱۱ آیت ۵-۶میں لکھا ہے: جو عَورت بے سر ڈھنکے ہُوئے دُعا یا نبُوت کرتی ہے وہ اپنے سر کو بے حُرمت کرتی ہے کیونکہ وہ سرمنڈی کے برابر ہے۔اگر عَورت اوڑھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے۔ اگر عَورت کا بال کٹانا یا سرمنڈانا شرم کی بات ہے تو اوڑھنی اوڑھے۔
پھرتیمتھیس کے نام پہلا خط کے باب ۲آیت ۹میں لباس کے انتخاب میں حیا اور عفت کو مد نظر رکھنے کی تعلیم دیتے ہوئے لکھا ہے:اسی طرح عورتیں حیا دار لباس سے شرم اور پرہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گوندھنے اور سونے اور موتیوں اورقیمتی پوشا ک سے۔
اسی طرح خواتین کو بری نظر سے دیکھنے کے متعلق خود حضرت عیسیٰ ؑ نے تنبیہ فرمائی۔ جیسا کہ متی کی انجیل میں مذکور ہے:میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا۔(متی باب ۵ آیت ۲۸)
ہندو ازم میں پردہ کی تعلیم اور رواج
برصغیر میں کئی ہزار سال سے ہندو ازم غالب مذہب کے طور پر رائج ہے۔ابتدا سے ہی ہندو معاشرہ میں عموماً شریف اور معزز خواتین با حیا لباس اور پردہ کی پابندی کرتی نظر آتی ہیں۔یہ تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ پردہ اور حیا انسان کی فطرت میں داخل ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہندوازم کی مقدس کتب میں بھی پردہ کی پابندی کی تعلیم ملتی ہے۔ چنانچہ ہندومت کے مذہبی مقدس مجموعہ وید کی سب سے اہم کتا ب رگ وید میں براہمہ خدا عورت کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔
Cast down thine eyes and look not up. More closely set thy feet. Let none See what thy garment veils, for thou, a Brahman, hast become a dame.
(Rig veda, Eighth book, Hymn xxxiii. Indra:19, page 492)
ترجمہ: اے عوتو! اپنی آنکھیں نیچی رکھو اور اوپرنہ دیکھو۔اپنے پاؤں قریب قریب رکھو(مناسب اور با حیا طریق سے کھڑے ہو۔) کوئی بھی تمہارے جسم کا وہ حصہ نہ دیکھ سکے جسے لباس چھپاتا ہے۔کیونکہ براہمہ خدا نے تمہیں عورت بنایا ہے۔
مقدس کتب کے ساتھ ہندو ازم میں تواتر سے آنے والے بزرگ جن کو ہندو اوتار مانتےہیں پردہ کی تعلیم پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔چنانچہ رام چند (جن کو ہندو معاشرہ میں نہایت اہم اوتار مانا جاتا ہے ) کا واقعہ ملتا ہے کہ جب انہوں نے راون کو ختم کیا تو اس کی بیوی نے ان الفاظ میں رام کے سامنے اپنا نوحہ پیش کیا کہ آپ کی بیویاں ہمارے سامنے با پردہ کھڑی ہیں جبکہ ہم آج اس حال میں ہیں کہ آپ کے سامنے رستہ میں پڑی ہوئی ہیں اور بے پردہ ہیں۔ چنانچہ رامائن کے یُدکندا میں یہ مکالمہ اس طور سے موجود ہے۔
O Lord! Are you not indeed enraged, in seeing me on foot in this way out through the city-gate, unveiled and come on foot in the way? ’’O lover of your consorts! Look at all your spouses, who came out, with their veils dropped off. Why are you not getting enraged in seeing this?‘‘
Valmiki Ramayana – Yuddha Kanda – Sarga 111
پھر اسی طرح کی ایک اور روایت کے مطابق جب ایک معزز مہمان (پرشورام)رام چندر سے ملنےآئے تو انہوں نے اپنی اہلیہ کو ان سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
ہندوستان میں عام طور پر خواتین اپنے رواج کے مطابق اپنے سروں اور اکثر چہروں کو ڈھانپتی ہیں۔ متعدد علاقوں میں نقاب کابھی رواج ہے۔شادی بیاہ کے موقع پر گھونگھٹ نکالنا بھی دراصل رسم پردہ کی ہی ایک شکل ہے۔اگر ہند و مذہب میں حیا اور پردہ کی تعلیم نہ دی گئی ہوتی تو آج ہم اس تعلیم پر عمل کرنے والے نہ ہوتے۔
بدھ ازم میں پردہ کی تعلیم کا ذکر
بدھ ازم اپنے فلسفہ اخلاقیات کی وجہ سے دنیا میں شہرت رکھنے والا مذہب ہے۔مہایانہ بدھ ازم کی اہم کتاب میں گوتم بدھ کی شادی سے قبل کا ایک واقعہ ملتا ہے جب ان کی بیوی اپنے ہونے والے سسر،ساس اور قریبی رشتہ داروں کے سامنے آئی تو وہ مکمل طور پر باحجاب نہیں تھی۔ بدھ کے اہل خانہ نے اعتراض کیا کہ شادی شدہ عورت کو با حجاب ہونا چاہیے۔ اگرچہ بدھ کی ہونے والی اہلیہ نے اس موقع پر جواب دیا کہ اصل پردہ تو نظر اور دل کا پردہ ہے۔ ظاہری پردہ اگر نیت اور روح سے خالی ہو تواس سے زیادہ بے لباس چیز کوئی نہیں۔
(Lalitavistara, The play in full, Chapter 12, Demonstrating Skill in the Arts, Page 114)
اس حوالہ سے ایک یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ بدھ کے زمانے میں بھی خواتین پردہ کی پابندی کر تی تھیں۔ جہاں تک بدھ کی بیوی کے جواب کا تعلق ہے تو پردہ کی اصل روح نفس اور دل کی پاکیزگی ہی ہے۔دکھاوے کے لیے ظاہری لباس پہننے والیوں کو تو رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے دن بے لباس قرار دیا ہے۔پھر یہ سوال بھی قابل حل ہے کہ بدھ کے وقت میں شریعت میں کس حد تک پردہ کی کس صورت کا حکم تھا؟قریبی اہل خانہ کے سامنے پردہ کی کیا شکل ہو گی؟بدھ نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ پردہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ حوالہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ بدھ ازم کے وقت میں بھی پردہ کی کوئی صورت قابل عمل تھی۔
مذکورہ بالا حوالہ جات سےیہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہوتاہے کہ حیا اور پردہ کی تعلیم تہذیب و تمدن کے آغاز کے ساتھ وحی الٰہی سے سکھائی گئی اسی لیے ہر قوم اور ہر شریعت میں ہمیں اس کے متعلق تعلیم ملتی ہے۔
اسلام سے قبل مذاہب کی مختص الزمان و قوم تعلیمات پر محاکمہ
اس جگہ اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا بھی ضروری ہے کہ مذکورہ بالا حوالہ جات میں صرف خاص مواقع یا عبادت کے دوران یا شادی کے وقت یا کسی مخصوص تہوار پر سر ڈھانپنے اور پردہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ احکام ہرنامحرم سے پردہ کرنے اوربرقع کو استعمال کرنے سے مختلف ہیں۔ یہ محض ایک اشتباہ ہے۔دراصل اسلام سے قبل تمام شریعتیں مختص القوم و الزمان تھیں اس لیے ان کی تعلیم بہرحال اپنے اندر کمال نہیں رکھتیں۔پھر انسانی شعور اور معاشرہ بھی اپنی کامل شکل تک نہیں پہنچا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نےان کے مناسب حال احکام اور پردہ اور عفت کی مبادیات کا حکم دیا۔ جیسا کہ ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ اولین احکام میں جو آدم ؑکو دیے گئے میں صرف اپنے ننگ کو ڈھانپنا شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح بائبل میں شادی شدہ عورت کو پردہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ بعض مذاہب میں صرف عبادت کے وقت سر ڈھانپنے کا حکم ہے۔بعض جگہ غیر لوگوں کے سامنے بے پردہ آنے سے روکا گیا ہے۔ ان احکامات سے یہ معلوم ہوا کہ یہ پردہ کے حکم کی ابتدائی صورتیں تھیں جن کو اسلام نے آکر مکمل کر دیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پہلی شریعتوں میں غلط احکام تھے بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ احکام مبادیات تھے چونکہ ابھی تک شریعت کامل نہیں ہوئی تھی۔ پس جب خدا تعالیٰ نے کامل شریعت ناز ل فرما دی توتمام احکام کو اتم اور اکمل صورت میں پیش فرمایا۔
کامل شریعت کے قیامت تک رہنے والے احکام
رسول اللہﷺ انبیاء کے تسلسل میں بطور خاتم النبیین آخر ی شرعی نبی کے طور پر تشریف لائے اور آپؐ نے رہتی دنیا تک قائم رہنے والی شریعت یعنی قرآن کریم کو پیش فرمایا۔پسفِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌکے تحت پہلی شریعتوں کے تسلسل میں قرآن کریم نے جس طرح دیگر تمدنی،معاشرتی اور دینی احکام کو بام عروج تک پہنچا دیا اسی طرح پردہ،حیا اور عفت کے ضمن میں بھی اعلیٰ ترین اور محکم راہنمائی فرمائی۔ قرآن کریم نے پردہ کی پُر حکمت اور احسن تعلیم تفصیل سے پیش فرمائی اور ان تمام راہوں کو روک دینے کا حکم دیاجس سے برائی پھیلنے کا احتمال ہوتا ہے۔قرآن کریم سے پردہ کی تین مختلف صورتیں ثابت ہوتی ہیں۔
پردہ کی پہلی صورت
پہلی صورت یہ ہے کہ عورت کو کسی بھی نامحرم سے مکمل طور پر پردہ کرنے کا حکم ہے۔ پردہ کا پہلا حکم سورة الاحزاب میں نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔(سورة الاحزاب :۶۰)اے نبی! تُو اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اوپر جھکا دیا کریں۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں تکلیف نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
پردے کی یہ صورت ایسے مواقع کے لیے ہے جب کوئی عورت اپنے دائرہ عمل سے باہر یعنی گھر سے کسی بھی کام سے باہر نکلے تو اپنے سر،چہرے بالوں اورزینت کو اچھی طرح ڈھانپ کر نکلے۔کسی بھی نا محرم کے سامنے اس کا چہرہ یازینت ظاہر نہ ہو۔جلباب بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوپر سے نیچے کی طرف ڈالی جائے۔ درج ذیل حدیث میں اس بات کی وضاحت بھی ہو گئی کہ عورت کا ضرورت کے تحت گھر سے باہر جانامنع نہیں ہے۔ صرف پردہ کرنے کی شرط ہے۔احادیث سےثابت ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد صحابیاتؓ مناسب طور پر بڑی چادریں اوڑھ کر گھر سے نکلتیں۔ ابوداؤد کی روایت ہے۔
لَمَّا نَزَلَتْ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ۔ خَرَجَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ کَأَنَّ عَلٰی رُءُوْسِہِنَّ الْغِرْبَانُ مِنَ الْأَکْسِیَّۃِ
جب یہ آیت[یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ الخ] نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں اس حالت میں کالا لباس پہنے ہوئے گھر سے نکلیں گویا ان کے سروں پر کالے کوّے بیٹھے ہوں۔ (سنن ابی داوٴد، کتاب اللباس، باب فی قولہِ تعالیٰ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ)
رسول اللہﷺ نے مردوں اور عورتوں کے کھلے عام اختلاط سے بچنے کی بھی حد درجہ تلقین فرمائی کیونکہ یہی وہ مواقع ہیں جب برائی انسانی دل میں سرایت کر سکتی ہے۔چنانچہ ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ۔(سنن ترمذی، کتاب الفتن بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ)ترجمہ : جب کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔
پردہ کی دوسری صورت
پردہ کی دوسری صورت یہ بتائی کہ تمام مرداور خواتین شرم و حیا کا خیال کرتے ہوئے اپنی نظروں کو نیچے رکھیں اور ایسی جگہ جہاں برقع کی طرز کا پردہ ممکن نہیں وہاں بھی ایسالباس ہو کہ اپنی زینت ظاہر نہ کرے۔ فرمایا:قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَیَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ۔ وَقُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَیَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَلَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَلۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَلَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَلَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَتُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔ (سورة النور ۳۱-۳۲)ترجمہ: مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقیناً اللہ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے ازخود ظاہر ہو۔اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔ اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی (جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں۔ اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ (لوگوں پر) وہ ظاہر کردیا جائے جو (عورتیں عموماً) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
ان آیات میں ایک طرف تو غض بصر کی عام تعلیم بیان فرمائی کہ اگر کسی بھی نا محرم عورت با پردہ یا بے پردہ سے سامنا ہو جائے تو دونوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی بجائے اپنی نگاہوں کو نیچے رکھا جائے اور اپنے جذبات نفس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔
پھر اضافی طور پر خواتین کو حکم دیا کہ وہ اپنی زینت محرم رشتہ داروں کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریںسوائے اس کے جو از خود ظاہر ہو۔ یہ حکم پہلے سے اس اعتبار سے بھی مختلف ہے کہ پہلے تمام نامحرموں کے سامنے مکمل طور پر باحجاب ہونے کا حکم دیا گیا اور اس جگہ غض بصر کے ساتھ زینت کی نمائش سے روکا گیا اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس یہاں ایسے نامحرم اور دور کے رشتہ دار مراد ہیں جن کا بطور مہمان بوقت ضرورت گھروں میں آنا جانا ہے۔گھر کے ماحول میں تو برقع والا مکمل پردہ نہیں ہو سکتا۔اس لیے اسی حالت میں خواتین کو مناسب لباس میں اور اوڑھنی کے ساتھ گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا کہ اگر مجبوراً کسی مرد کے سامنے آنا پڑ جائے تو بھی بے پردگی نہ ہو۔ اسی لیے خاص طور پر یہاں غض بصر کا بھی حکم دیا گیا کہ اگر کسی پر نظر پڑ گئی ہے تو بھی شرم و حیا سے آنکھوں کو جھکانا لازم ہے۔
فروج کی حفاظت کا حکم
آیت مذکورہ بالا میں اللہ تعالیٰ نے نہایت حکمت سے مومن مرد، عورت کو اپنی فروج کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ فروج سے مراد صرف شرم گاہ نہیں بلکہ وہ تمام ذرائع ہیں جن سے برائی انسانی دل میں داخل ہو سکتی ہے۔ اس میں کان،آنکھیں،منہ شرم گاہ سب شامل ہیں۔ پس ایک چھوٹے سے لفظ کے استعمال سے ہی اللہ تعالیٰ نے ان تمام وسائط کی حفاظت کا حکم دے دیا جن سے بے پردگی اور گناہ کی ابتدا ہوتی ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتےہیں:’’اس آیت میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بدن کے ان تمام سوراخوں کومحفوظ رکھیں جن کی راہ سے بدی داخل ہوسکتی ہے۔ سوراخ کے لفظ میں جو آیت ممدوح میں مذکور ہے آلات شہوت اور کان اور ناک اور منہ سب داخل ہیں۔ اب دیکھو کہ یہ تمام تعلیم کس شان اور پا یہ کی ہے جو کسی پہلو پر نامعقول طور پر افراط یا تفریط سے زور نہیں ڈالا گیا اور حکیمانہ اعتدال سے کام لیا گیا ہے۔ اور اس آیت کا پڑھنے والا فی الفور معلوم کرلے گا کہ اس حکم سے جو کھلے کھلے نظر ڈالنے کی عادت نہ ڈالو یہ مطلب ہے کہ تا لوگ کسی وقت فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اور دونوں طرف مرد اور عورت میں سے کوئی فریق ٹھوکر نہ کھاوے‘‘۔(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد۱۵صفحہ۱۶۴-۱۶۵)
پردہ کی تیسری صورت
پردہ کی تیسری صورت قرآن کریم نے یہ بیان کی کہ انتہائی قریبی محرم رشتہ دا روں اور گھر میں کام کاج کرنے والوں سے بھی دن کے بعض اوقات میں پردہ کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَالَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَحِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَمِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ وَلَا عَلَیۡہِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَہُنَّ (النور:۵۹)ترجمہ:اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے وہ جو تمہارے زیر نگیں ہیں اور وہ جو تم میں سے ابھی بالغ نہیں ہوئے، چاہئے کہ وہ تین اوقات میں (تمہاری خوابگاہوں میں داخل ہونے سے پہلے) تم سے اجازت لیا کریں۔ صبح کی نماز سے قبل اور اس وقت جب تم قیلولے کے وقت (زائد) کپڑے اتار دیتے ہو اور عشاءکی نماز کے بعد۔ یہ تین تمہارے پردے کے اوقات ہیں۔ ان کے علاوہ (بغیر اجازت آنے جانے پر) نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ اُن پر۔
اس جگہ رحمی رشتہ داروں کو بھی دن کے چند اوقات میں دوسروں کے پردے کا خیا ل رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔اسی ضمن میں قرآن کریم نے یہ بھی ہدایت دی ہے کہ کسی کے گھر یا کمرے میں بغیر اجازت بھی داخل نہ ہو تاکہ کوئی بےپردگی نہ ہو۔فرمایا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ۔(النور ۲۸)
اعلیٰ درجہ کی خواتین کو پردہ کے خصوصی احکامات
اللہ تعالیٰ نے ازواج النبیﷺ کے اعلیٰ اور مقدس ترین مقام کے پیش نظر پردے کے مذکورہ بالا احکام کے ساتھ چنددیگر احکام کی طرف بھی توجہ دلائی۔جیسا کہ فرمایا کہ جب کسی سے بات کرنی ہو تو ایسے رنگ میں کی جائے کہ کسی کے دل میں غلط خیال اور برائی پیدا نہ ہو۔اسی طرح ان کو بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے کی بھی مناہی فرمائی اور پرانے طریق کے بناؤ سنگھار سے بھی روکا۔ اگرچہ یہ حکم خاص ازواج رسول ﷺ کے لیے ہے لیکن سنت کے طور پر تمام نیک اور پاک مومن عورتیں بھی اس میں شامل ہیں۔
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا۔ وَقَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَاَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَاَطِعۡنَ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَیُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا (الاحزاب:۳۳-۳۴)ترجمہ: اے نبی کی بیویو! تم ہرگز عام عورتوں جیسی نہیں ہو بشرطیکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ پس بات لجا کر نہ کیا کرو ورنہ وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے طمع کرنے لگے گا۔ اور اچھی بات کہا کرو۔ اور اپنے گھروں میں ہی رہا کرو اور گزری ہوئی جاہلیت کے سنگھار جیسے سنگھار کی نمائش نہ کیا کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اے اہلِ بیت! یقیناً اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی آلائش دور کردے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ گھر میں رہنے سے مراد کسی عورت کو گھر میں قید کرنا نہیں ہے۔ ازواج النبی ﷺ بھی ضرورت کے وقت گھر سے نکلتیں،جنگوں میں بھی حصہ لیتیں اور سفیروں وغیرہ میں بھی ساتھ جاتیں۔ اس جگہ یہ مراد ہے جیسے کوئی ملکہ یا کسی ملک کی خاتون اول خاص خاص مواقع پر ہی سامنے آتی ہیں یہی مقام ازواج النبیﷺ کا ہے۔
کیا اسلامی پردہ کسی خاص طرز کا برقع ہے۔
پردہ اور برقع کے متعلق ایک اور اشتباہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ کسی خاص طرز،ملک اور معاشرے کا برقع ہی اصل پردہ ہے اور ہر ملک میں وہی استعمال کرنا چاہیے۔ یہ بات درست نہیں۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور وہ ممالک اور معاشروں کی سرحدوں سے آزاد ہے۔ پردہ کے حکم کی اصل فلاسفی یہ ہے کہ اپنی عفت اور عصمت کی حفاظت کی جا سکے۔ مناسب لباس پہنا جائے۔عورتوں اور مردو ں کے باہمی میل جول سے بچا جائے تاکہ انسان بہک کر کسی بھی گناہ میں نہ گر جائے۔ پس کسی بھی ملک کے معاشرہ میں ایسا پردہ اور لباس جس کو وہاں کے شریف لوگ مناسب باحیا اور باپردہ لباس سمجھتے ہیں اور اگر وہ پردہ کے اس حکم کی فلاسفی کو پورا کرنے والا ہے تو اس جگہ پر اسلامی پردہ ہی کہلائے گا۔یہ ضروری نہیں کہ کسی ایک ملک یا معاشرے کے پردے کو ساری دنیا میں لاگو کیا جا ئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پردہ کی فلاسفی اور حکمت کے متعلق فرماتےہیں: ’’خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے۔ یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے۔ بالآخر یاد رہے کہ خَوابِیْدَہ نِگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائزالنظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غضِّ بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہیزگار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہیے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کیلئے اس تمدنی زندگی میں غضِّ بصرکی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خُلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا۔یہی وہ خُلق ہے جس کو احصان اور عفت کہتے ہیں۔ ( اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ۳۴۴)