جنازہ ایک دُعا ہے
جنازہ ایک دُعا ہے اور اس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو۔ … اور میت پر کسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے۔ خدا تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے۔ اس بات کا خوف نہ کرو کہ ایسا کرنے سے لوگ تمہیں بُرا کہیں گے وہ پہلے کب تمہیں اچھا کہتے ہیں ۔ یہ سب باتیں شریعت کے مطابق ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ آخر کار وہ لوگ جو تم پر ہنسی کریں گے خود بھی ان باتوں میں تمہاری پیروی کریں گے۔
(ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۲۵۳، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
سوال پیش ہوا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ فاتحہ خوانی ایک دعائے مغفرت ہے پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟ فرمایا کہ ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بے ہودہ بکواس کے اَور کچھ نہیں ہوتا۔ پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریمؐ یا صحابہ کرامؓ و ائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی۔ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں۔ ناجائز ہے۔ جو جنازہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں۔
(ملفوظات جلد۹ صفحہ۲۷۷، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
اِک نہ اِک دن پیش ہو گا تُو فنا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے
چھوڑنی ہوگی تجھے دُنیائے فانی ایک دن
ہر کوئی مجبور ہے حکمِ خدا کے سامنے
(اخبار ’’الفضل‘‘ ۱۳؍جنوری ۱۹۲۸ء)