احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ کی اہمیت اور اس کے ۲۹ عظیم الشان فوائد
(گذشتہ سے پیوست) (۲۳) سو الحمدللہ کہ ان تمام مقاصد کے پورا کرنے کے لیے یہ کتاب طیار ہوئی دوسری اس کتاب میں یہ بھی خوبی ہے جو اس میں معاندین کے بیجاعذرات رفع کرنے کے لئے اور اپنی حجت ان پر پوری کرنے کے لئے خوب بندوبست کیا گیا ہے یعنی ایک اشتہار تعدادی دس ہزار روپیہ کا اسی غرض سے اس میں داخل کیا گیا ہے کہ تا منکرین کو کوئی عذر اور حیلہ باقی نہ رہے اور یہ اشتہار مخالفین پر ایک ایسا بڑا بوجھ ہے کہ جس سے سبکدوشی حاصل کرنا قیامت تک ان کو نصیب نہیں ہوسکتا اور نیز یہ ان کی منکرانہ زندگی کو ایسا تلخ کرتا ہے جو انہی کا جی جانتا ہوگا۔ غرض یہ کتاب نہایت ہی ضروری اور حق کے طالبوں کے لئے نہایت ہی مبارک ہے کہ جس سے حقیت اسلام کی مثل آفتاب کے واضح اور نمایاں اور روشن ہوتی ہے اور شان اور شوکت اُس مقدس کتاب کی کھلتی ہے کہ جس کے ساتھ عزت اور عظمت اور صداقت اسلام کی وابستہ ہے۔(براہین احمدیہ صفحہ ’ب،ج‘،روحانی خزائن جلد اول صفحہ۸-۱۰)
ایک اَور جگہ مزید اس کی وضاحت کے طور پر فرماتے ہیں :’’پھر کھول کر بیان کیا جاتا ہے کہ کتاب براہین احمدیہ بغیر اشد ضرورت کے نہیں لکھی گئی۔ جس مقصد اور مطلب کے انجام دینے کے لئے ہم نے اس کتاب کو تالیف کیا ہے اگر وہ مقصد کسی پہلی کتاب سے حاصل ہوسکتا تو ہم اسی کتاب کو کافی سمجھتے اور اسی کی اشاعت کے لئے بدل و جان مصروف ہوجاتے اور کچھ ضرور نہ تھا جو ہم سالہا سال اپنی جان کو محنت شدید میں ڈال کر اور اپنی عمر عزیز کا ایک حصہ خرچ کرکے پھر آخرکار ایسا کام کرتے جو محض تحصیل حاصل تھا لیکن جہاں تک ہم نے نظر کی ہم کو کوئی کتاب ایسی نہ ملی جو جامع ان تمام دلائل اور براہین کی ہوتی کہ جن کو ہم نے اس کتاب میں جمع کیا ہے اور جن کا شائع کرنا بغرض اثبات حقیت دین اسلام کے اس زمانہ میں نہایت ضروری ہے تو ناچار واجب دیکھ کر ہم نے یہ تالیف کی اگر کسی کو ہمارے اس بیان میں شبہ ہو تو ایسی کتاب کہیں سے نکال کر ہم کو دکھادے تاہم بھی جانیں ورنہ بیہودہ بکواس کرنا اور ناحق بندگانِ خدا کو ایک چشمہ فیض سے روکنا بڑا عیب ہے۔
مگر یاد رہے جو اس مقولہ سے کسی نوع کی خود ستائی ہمارا مطلب نہیں جو تحقیقات ہم نے کی اور پہلے عالی شان فضلاء نے نہ کی یا جو دلائل ہم نے لکھیں اور انہوں نے نہ لکھیں یہ ایک ایسا امر ہے جو زمانہ کے حالات سے متعلق ہے نہ اس سے ہماری ناچیز حیثیت بڑھتی ہے اور نہ ان کی بلند شان میں کچھ فرق آتا ہے انہوں نے ایسا زمانہ پایا کہ جس میں ابھی خیالات فاسدہ کم پھیلے تھے اور صرف غفلت کے طور پر باپ دادوں کی تقلید کا بازار گرم تھا سو ان بزرگوں نے اپنی تالیفات میں وہ روش اختیار کی جو ان کے زمانہ کی اصلاح کے لئے کافی تھی ہم نے ایسا زمانہ پایا کہ جس میں بباعث زور خیالات فاسدہ کے وہ پہلی روش کافی نہ رہی بلکہ ایک پرزور تحقیقات کی حاجت پڑی جو اس وقت کی شدت فساد کی پوری پوری اصلاح کرے یہ بات یاد رکھنی چاہیے جو کیوں ازمنہٴ مختلفہ میں تالیفات جدیدہ کی حاجت پڑتی ہے اس کا باعث یہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا یعنی کسی زمانہ میں مفاسد کم اور کسی میں زیادہ ہوجاتے ہیں اور کسی وقت کسی رنگ میں اور کسی وقت کسی رنگ میں پھیلتے ہیں اب مؤ لف کسی کتاب کا جو ان خیالات کو مٹانا چاہتا ہے اس کو ضرور ہوتا ہے جو وہ طبیب حاذق کی طرح مزاج اور طبیعت اور مقدار فساد اور قسم فساد پر نظر کرکے اپنی تدبیر کو علٰی قدر ما ینبغی و علٰی نحو ما ینبغیعمل میں لاوے اور جس قدر یا جس نوع کا بگاڑ ہوگیا ہے اسی طور پر اس کی اصلاح کا بندوبست کرے اور وہی طریق اختیار کرے کہ جس سے احسن اور اسہل طور پر اس مرض کا ازالہ ہوتا ہو کیونکہ اگر کسی تالیف میں مخاطبین کے مناسب حال تدارک نہ کیا جائے تو وہ تالیف نہایت نکمی اور غیرمفید اور بے سود ہوتی ہے اور ایسی تالیف کے بیانات میں یہ زور ہرگز نہیں ہوتا جو منکر کی طبیعت کے پورے گہراؤ تک غوطہ لگا کر اس کے دلی خلجان کو بکلی مستاصل کرے پس ہمارے معترضین اگر ذرا غور کرکے سوچیں گے تو ان پربہ یقین کامل واضح ہوجائے گا کہ جن انواع و اقسام کے مفاسد نے آج کل دامن پھیلا رکھا ہے ان کی صورت پہلے فسادوں کی صورت سے بالکل مختلف ہے وہ زمانہ جو کچھ عرصہ پہلے اس سے گزر گیا ہے وہ جاہلانہ تقلید کا زمانہ تھا۔ اور یہ زمانہ کہ جس کی ہم زیارت کررہے ہیں یہ عقل کی بداستعمالی کا زمانہ ہے۔ پہلے اس سے اکثر لوگوں کو نامعقول تقلید نے خراب کر رکھا تھا اور اب فکر اور نظر کی غلطی نے بہتوں کی مٹی پلید کردی ہے یہی وجہ ہے کہ جن دلائل عمیقہ اور براہین قاطعہ لکھنے کی ہم کو ضرورتیں پیش آئیں وہ ان نیک اور بزرگ عالموں کو کہ جنہوں نے صرف جاہلانہ تقلید کا غلبہ دیکھ کر کتابیں لکھی تھیں پیش نہیں آئی تھیں۔ ہمارے زمانہ کی نئی روشنی (کہ خاک برفرق ایں روشنی) نو آموزوں کی روحانی قوتوں کو افسردہ کررہی ہے۔ ان کے دلوں میں بجائے خدا کی تعظیم کے اپنی تعظیم سما گئی ہے اور بجائے خدا کی ہدایت کے آپ ہی ہادی بن بیٹھے ہیں۔ اگرچہ آج کل تقریباً تمام نو آموزوں کا قدرتی میلان وجوہات عقلیہ کی طرف ہوگیا ہے لیکن افسوس کہ یہی میلان بباعث عقل ناتمام اور علم خام کے بجائے رہبر ہونے کے رہزن ہوتا جاتا ہے۔ فکر اور نظر کی کجروی نے لوگوں کے قیاسات میں بڑی بڑی غلطیاں ڈال دی ہیں اور مختلف رایوں اور گوناگوں خیالات کے شائع ہونے کے باعث سے کم فہم لوگوں کے لئے بڑی بڑی دقتیں پیش آگئی ہیں۔ سوفسطائی تقریروں نے نو آموزوں کی طبائع میں طرح طرح کی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں۔ جو امور نہایت معقولیت میں تھے وہ ان کی آنکھوں سے چھپ گئے ہیں۔ جو باتیں بغایت درجہ نامعقول ہیں ان کو وہ اعلیٰ درجہ کی صداقتیں سمجھ رہے ہیں۔ وہ حرکات جو نشاء انسانیت سے مغائر ہیں ان کو وہ تہذیب خیال کئے بیٹھے ہیں اور جو حقیقی تہذیب ہے اس کو وہ نظر استخفاف اور استحقار سے دیکھتے ہیں پس ایسے وقت میں اور ان لوگوں کے علاج کے لئے جو اپنے ہی گھر میں محقق بن بیٹھے ہیں اور اپنے ہی منہ سے میاں مٹھو کہلاتے ہیں ہم نے کتاب براہین احمدیہ کوجو تین سو براہین قطعیہ عقلیہ پر مشتمل ہے بغرض اثبات حقانیت قرآن شریف جس سے یہ لوگ بکمال نخوت مونہہ پھیر رہے ہیں تالیف کیا ہے کیونکہ یہ بات اجلی بدیہات ہے جو سرگشتہٴ عقل کو عقل ہی سے تسلی ہوسکتی ہے اور جو عقل کا رہزدہ ہے وہ عقل ہی کے ذریعہ سے راہ پر آسکتا ہے۔
اب ہریک مومن کے لئے خیال کرنے کا مقام ہے کہ جس کتاب کے ذریعہ سے تین سو دلائل عقلی حقیت قرآن شریف پر شائع ہوگئیں اور تمام مخالفین کے شبہات کو دفع اور دور کیا جائے گا وہ کتاب کیا کچھ بندگان خدا کو فائدہ پہنچائے گی اور کیسا فروغ اور جاہ و جلال اسلام کا اس کی اشاعت سے چمکے گا ایسے ضروری امر کی اعانت سے وہی لوگ لاپروا رہتے ہیں جو حالت موجودہ زمانہ پر نظر نہیں ڈالتے۔ اور مفاسد منتشرہ کو نہیں دیکھتے اور عواقب امور کو نہیں سوچتے یا وہ لوگ کہ جن کو دین سے کچھ غرض ہی نہیں اور خدا اور رسول سے کچھ محبت ہی نہیں۔ اے عزیزو!! اس پُرآشوب زمانہ میں دین اسی سے برپا رہ سکتا ہے جو بمقابلہ زور طوفان گمراہی کے دین کی سچائی کا زور بھی دکھایا جاوے اور ان بیرونی حملوں کے جو چاروں طرف سے ہورہے ہیں حقانیت کی قوی طاقت سے مدافعت کی جائے یہ سخت تاریکی جو چہرۂ زمانہ پر چھا گئی ہے یہ تب ہی دور ہوگی کہ جب دین کی حقیت کے براہین دنیا میں بکثرت چمکیں اور اس کی صداقت کی شعاعیں چاروں طرف سے چھوٹتی نظر آویں۔ اس پراگندہ وقت میں وہی مناظرہ کی کتاب روحانی جمعیت بخش سکتی ہے کہ جو بذریعہ تحقیق عمیق کے اصل ماہیت کے باریک دقیقہ کی تہہ کو کھولتی ہو اور اس حقیقت کے اصل قرارگاہ تک پہنچاتی ہو کہ جس کے جاننے پر دلوں کی تشفی موقوف ہے۔
اے بزرگو!!! اب یہ وہ زمانہ آگیا ہے کہ جو شخص بغیر اعلیٰ درجہ کے عقلی ثبوتوں کے اپنے دین کی خیر منانی چاہے تو یہ خیال محال اور طمع خام ہے۔ تم آپ ہی نظر اٹھا کر دیکھو جو کیسی طبیعتیں خود رائی اختیار کرتی جاتی ہیں اور کیسے خیالات بگڑتے جاتے ہیں اس زمانہ کی ترقی علوم عقلیہ نے یہی الٹا اثر کیا ہے حال کے تعلیم یافتہ لوگوں کی طبائع میں ایک عجب طرح کی آزاد منشی بڑھتی جاتی ہے اور وہ سعادت جو سادگی اور غربت اور صفا باطنی میں ہے۔ وہ ان کے مغرور دلوں سے بالکل جاتی رہی ہے اور جن جن خیالات کو وہ سیکھتے ہیں وہ اکثر ایسے ہیں کہ جن سے ایک لامذہبی کے وساوس پیدا کرنے والا ان کے دلوں پر اثر پڑتا جاتا ہے اور اکثر لوگ قبل اس کے جو ان کو کوئی مرتبہ تحقیق کامل کا حاصل ہو صرف جہل مرکب کے غلبہ سے فلسفی طبیعت کے آدمی بنتے جاتے ہیں۔ آؤ اپنی اولاد اور اپنی قوم اور اپنے ہموطنوں پر رحم کرو اور قبل اس کے جو وہ باطل کی طرف کھینچے جائیں ان کو حق اور راستی کی طرف کھینچ لاؤ تا تمہارا اور تمہاری ذریت کا بھلا ہو اور تا سب کو معلوم ہو جو بمقابلہ دین اسلام کے اور سب ادیان بے حقیقت محض ہیں دنیا میں خدا کا قانون قدرت یہی ہے جو کوشش اور سعی اکثر حصول مطلب کا ذریعہ ہوجاتی ہے اور جو شخص ہاتھ پاؤں توڑ کر اور غافل ہوکر بیٹھ جاتا ہے وہ اکثر محروم اور بے نصیب رہتا ہے سو آپ لوگ اگر دین اسلام کی حقیت کے پھیلانے کے لئے جو فی الواقع حق ہے کوشش کریں گے تو خدا اس سعی کو ضائع نہیں کرے گا خدا نے ہم کو صدہا براہین قاطعہ حقیت اسلام پر عنایت کیں اور ہمارے مخالفین کو ان میں سے ایک بھی نصیب نہیں اور خدا نے ہم کو حق محض عطا فرمایا اور ہمارے مخالفین باطل پر ہیں اور جو راستبازوں کے دلوں میں جلال احدیت کے ظاہر کرنے کے لئے سچا جوش ہوتا ہے اس کی ہمارے مخالفوں کو بُو بھی نہیں پہنچی لیکن تب بھی دن رات کی کوشش ایک ایسی موثر چیز ہے کہ باطل پرست لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور چوروں کی طرح کہیں نہ کہیں ان کی نقب بھی لگتی ہی رہتی ہے۔دیکھو عیسائیوں کا دین کہ جس کا اصول ہی اول الدُن دُرد ہے پادریوں کی ہمیشہ کی کوششوں سے کیسا ترقی پر ہے اور کیسے ہر سال ان کی طرف سے فخریہ تحریریں چھپتی رہتی ہیں کہ اس برس چار ہزار عیسائی ہوا اور اس سال آٹھ ہزار پر خداوند مسیح کا فضل ہوگیا ابھی کلکتہ میں جو پادری ھیکر صاحب نے اندازہ کرسٹان شدہ آدمیوں کا بیان کیا ہے اس سے ایک نہایت قابل افسوس خبر ظاہر ہوتی ہے۔ پادری صاحب فرماتے ہیں جو پچاس سال سے پہلے تمام ہندوستان میں کرسٹان شدہ لوگوں کی تعداد صرف ستائیس ہزار تھی اس پچاس سال میں یہ کارروائی ہوئی جو ستائیس ہزار سے پانچ لاکھ تک شمار عیسائیوں کا پہنچ گیا ہے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون !! اے بزرگو اس سے زیادہ تر اور کون سا وقت انتشار گمراہی کا ہے کہ جس کے آنے کی آپ لوگ راہ دیکھتے ہیں ایک وہ زمانہ تھا جو دین اسلام یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا کا مصداق تھا اور اب یہ زمانہ!!! کیاآپ لوگوں کا دل اس مصیبت کو سن کر نہیں جلتا؟ کیا اس وباء عظیم کو دیکھ کر آپ کی ہمدردی جوش نہیں مارتی؟ اے صاحبان عقل و فراست۔ اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ جو فساد دین کی بےخبری سے پھیلا ہے اس کی
(۲۴)اصلاح اشاعت علم دین پر ہی موقوف ہے سو اسی مطلب کو کامل طور پر پورا کرنے کے لئے میں نے کتاب براہین احمدیہ کو تالیف کیا ہے اور اس کتاب میں ایسی دھوم دھام سے حقانیت اسلام کا ثبوت دکھلایا گیا ہے کہ جس سے ہمیشہ کے مجادلات کا خاتمہ فتح عظیم کے ساتھ ہوجاوے گا۔‘‘ (براہین احمدیہ صفحہ ج تا و،روحانی خزائن جلداول صفحہ ۶۴تا۶۹)
(باقی آئندہ)