خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگ اُحدمیں آنحضرتﷺ کی قبولیتِ دعا اور صحابہؓ اور صحابیات ؓکی قربانیاں اور عشقِ رسولﷺ کا ایمان افروز تذکرہ:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍مارچ۲۰۲۴ء

٭… زیاد بن سکنؓ کے پانچ ساتھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں ایک ایک کرکے شہید ہوگئے اور زیاد بن سکنؓ شدید زخمی ہوگئے

٭… حضرت ہندؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت ہیں اور آپؐ کے بعد ہر مصیبت آسان ہے

٭… حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ میں جب اس عورت کا واقعہ پڑھتا ہوں تو میرا دل اُس کے متعلق ادب اور احترام سے بھر جاتا ہے

٭… ایک مسلمان عورت نے معرکہ اُحد میں اپنے بیٹے، خاوند، بھائی اور باپ کو کھو دیا اورحیران نہ ہوئی اور نہ ہی اس مصیبت نے اُسے اعتدال کی حدود سے باہر کیا

٭…فلسطین اور دنیا کے عمومی حالات کے لیے دعا کی تحریک، نیز احمدیوں کو دعاؤں کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین

٭… مکرم طاہراقبال چیمہ صاحب ابن خضر حیات چیمہ صاحب صدر جماعت احمدیہ چک چوراسی فتح پور ضلع بہاولپور کی شہادت پر شہید مرحوم کا ذکر خیر اور جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍مارچ۲۰۲۴ء بمطابق ۸؍امان ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۸؍مارچ ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ا ُحد کی جنگ میں حضرت سعدؓ  کی دعا کی قبولیت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی قبولیت کے واقعہ کی بابت عائشہ بنت سعدؓ نے اپنے والد حضرت سعدؓ سے روایت کیا ہےکہ وہ فرماتے ہیں جب لوگوں نے پلٹ کر حملہ کیا تو میں نے کہا کہ یا تو میں خود نجات پا جاؤں گا اور یا میں شہید ہو جاؤں گا۔ اچانک میں نےایک سُرخ چہرے والے شخص کودیکھا اور قریب تھا کہ مشرکین اُن پر غالب ہو جائیں تو اُس شخص نے اپنا ہاتھ کنکریوں سے بھرکراُن کو مارا تو اچانک میرے اور اُس شخص کے درمیان مقدادؓ آگئے۔اُنہوں نے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اورتجھے بُلا رہے تھے۔مجھے ایسا لگا گویا کہ مجھے کوئی تکلیف ہی نہیں پہنچی۔میں ایک دم کھڑا ہوا اور آپؐ کے پاس آیا۔آپؐ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا۔

میں تِیر مارنے لگا اور میں کہتا اے اللہ! تیرا تِیر ہے تُو اِس کو اپنے دشمن کو مار دے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے اے اللہ! تُو سعدؓ  کی دعا قبول کر لے۔ اے اللہ! سعدؓ کے نشانے کو درست کر دے۔ اے سعدؓ !تجھ پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ سعد بن وقاصؓ اپنی آخری عمر تک اِن الفاظ کو نہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔

آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زخمی ہونے کے باوجود صحابہؓ  کی فکر کرنے کے بارے میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ جب یومِ اُحد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ دن سارے کا سارا طلحہؓ  کا تھا۔ پھر اس کی تفصیل بتاتے کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جو اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس لوٹے تھے تو میں نے دیکھا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپؐ کی حفاظت کرتے ہوئے لڑ رہا ہے تو میں نے کہا۔ کاش طلحہؓ ہو !لیکن میں نے دیکھا کہ وہ شخص ابو عبیدہ بن جراحؓ تھے۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپؐ کا نچلا رباعی دانت ٹوٹ چکا تھا اور چہرہ زخمی تھااور آپؐ کے رخسار مبارک میں خود کی کڑیاں دھنس چکی تھیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اپنے ساتھی یعنی طلحہ ؓکی مدد کرو۔اُن کے زخموں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرو۔

اسی طرح زیاد بن سکنؓ کے پانچ ساتھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں ایک ایک کرکے شہید ہوگئے اور زیاد بن سکنؓ شدید زخمی ہوگئے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت لوٹ آئی اور مشرکین کو آپؐ سے دھکیل دیا تو آپؐ کے فرمانے پر صحابہؓ نے آپؐ کو زیاد بن سکنؓ کے قریب کردیا۔آپؐ نے اپنا قدم مبارک کا تکیہ بنا دیا اوراُن کی موت اس حال میں ہوئی کہ اُن کا رخسارآپؐ کے قدم مبارک پر تھا۔اُن کے جسم کوچودہ زخم آئے تھے۔

مدینے کی عورتوں کے صبراور رضا کے نمونے کے بارے میں بعض مثالیں ہیں۔غزوہ اُحد کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینے لوٹے تو حضرت مصعب بن عمیرؓ  کی بیوی حمنہ بنت جحشؓ  کو لوگوں نے اُنہیں اُن کے بھائی اورماموں کی شہادت کی خبر دی تو انہوں نےانا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا لیکن جب اُن کے خاوند کی شہادت کی خبر دی تو وہ رونے لگیں اور بے چین ہو گئیں اور کہا ہائے افسوس! آپؐ کے پوچھنے پرکہ تُونے ایسا کلمہ کیوں کہا۔ حمنہ ؓنے کہا کہ صرف خاوند کے لیے کہا۔مجھے اُس کے بچوں کی یتیمی یاد آگئی تھی جس سے میں پریشان ہو گئی اور پریشانی کی حالت میں یہ کلمہ میرے منہ سے نکل گیا۔ یہ سُن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعبؓ کی اولاد کے لیےدعا کی کہ

اے اللہ! ان کےسر پرست اور بزرگ ان سے شفقت اور مہربانی کریں اور ان کے ساتھ سلوک سے پیش آئیں۔

حضرت ہند ؓکو جب اپنے خاوند،بھائی اور بیٹی کی شہادت کا پتا چلا کہ تینوں شہید ہو گئے تو یہ تینوں کو اونٹنی پر مدینہ دفن کرنے کے لیے لے جارہی تھیں۔ حضرت عائشہؓ جو اُحد کی خبر لینے جارہی تھیں انہوں نے حضرت ہندؓ  کو دیکھ کر خیریت معلوم کی تو حضرت ہندؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت ہیں اور آپؐ کے بعد ہر مصیبت آسان ہے۔حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ اونٹنی پر کون کون ہے تب

حضرت ہندؓ نےبتایا کہ میرا بھائی، میرا بیٹا اور میرا شوہر ہےاور انہیں مدینہ میں دفن کرنے کے لیے لے جارہی ہوں۔

اونٹ کا رُخ جب مدینے کی طرف کیا جاتا تو وہ بیٹھ جاتا اور جب اُحد کی طرف کرتے تو وہ جلدی جلدی چلنے لگتا۔حضرت ہندؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپؐ کو اس کی خبر دی تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ اونٹ مامور کیا گیا ہے یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی کام پر لگایا گیا تھا کہ مدینے کی طرف نہ جائے بلکہ اُحد کی طرف رہے۔آپؐ نے فرمایا کہ کیا تمہارے شوہر نے جنگ پر جانے سے پہلے کچھ کہا تھا۔حضرت ہندؓ نے کہا کہ جب وہ اُحد کی جانب روانہ ہونے لگےتو انہوں نے قبلہ رخ ہوکر یہ کہا تھا کہ اے اللہ! مجھے میرے اہل کی طرف شرمندہ کر کے نہ لوٹانااور مجھے شہادت نصیب کرنا۔اس پر آپؐ نےفرمایا کہ اسی وجہ سے اونٹ نہیں چل رہا تھا۔ فرمایا کہ اے انصار کے گروہ !تم میں سے بعض ایسے نیکوکار لوگ ہیں کہ اگر وہ خدا کی قسم کھا کر کوئی بات کریں تو خدا تعالیٰ اُن کی وہ بات ضرور پوری کرتا ہےاور عمر وبن جموحؓ بھی ان میں سے ایک ہیں۔

حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی ایک بوڑھی عورت کا بیٹا جنگ میں مارا گیا تھا اور اُس نے ایک مصنوعی قَہْقَہَہ لگا کراس خبر پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھاتو اُن دنوں میں خبر آئی کہ دیکھو اس عورت نے کتنےصبر کا مظاہرہ کیا ہے۔آپؓ نے فرمایا کہ اُس نے قَہْقَہَہ تو لگایا لیکن اُس کا اظہار بوجھ سے دبا ہوا معلوم ہوتا ہے یعنی وہ دل میں رو رہی تھی مگر صحابیہ کا واقعہ یہ نہیں ہے کہ اُس نے ضبط کیا ہوا تھا اور دل میں رو رہی تھی بلکہ وہ دل میں بھی خوش تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ میں جب اس عورت کا واقعہ پڑھتا ہوں تو میرا دل اُس کے متعلق ادب اور احترام سے بھر جاتا ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ

میں اس مقدس عورت کے دامن کو چھوؤں اور پھر اپنے ہاتھ آنکھوں سے لگاؤں کہ اُس نے میرے محبوب کےلیے اپنی محبت کی ایک بے مثل یادگار چھوڑ دی۔

آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ محبت تھی جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی تھی۔ خدا تعالیٰ کے مقابلے میں وہ ماں باپ، بہن بھائیوں، بیویوں اور خاوندوں کی پروا نہیں کرتے تھے۔اُن کے سامنے ایک ہی چیز تھی اور وہ یہ کہ اُن کا خدا اُن سے راضی ہو جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رضی اللہ عنہ فرما دیا۔

ایک سیرت نگار لکھتا ہے بلا شبہ مدینے کی مصیبت بڑی درد مند مصیبت تھی لیکن مکہ اور مدینے کے درمیان ایک مصیبت کے وصول کرنے میں دور دراز کا فرق تھا۔ بڑی مصیبت تھی مدینے میں۔ بڑے حالات خراب تھے۔ مشرکین مکہ نے اپنی بدر کی مصیبتوں کو کچھ کمزور ی، اضطراب اورگھبراہٹ سے وصول کیاجبکہ مدینہ نے اپنی اُحد کی مصیبت کو بے نظیر صبر و ایمان اور صبر و ثبات  و شجاعت سے وصول کیا۔اُحد میں مسلمانوں کو بھی کافی نقصان پہنچا لیکن اُن کا یہ نقصان بے نظیر صبرتھا۔ایمان تھا اور ثبات و شجاعت تھی۔مدینے کی فوج کو اُحد میں جو نقصان پہنچا اُس کی وجہ سے مدینے کے باشندوں میں سے کسی کو گھبراہٹ،اضطراب اور کمزوری کا کوئی نشان نہ تھا جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ایک مسلمان عورت نے معرکہ اُحد میں اپنے بیٹے، خاوند، بھائی اور باپ کو کھو دیا اورحیران نہ ہوئی اور نہ ہی اس مصیبت نے اُسے اعتدال کی حدود سے باہر کیا اور وہ بنودینار کی عورت تھی جو میدان ِکارزار کی طرف گئی اور اُس نے اپنے بیٹے، خاوند، بھائی اور باپ کو خون میں لتھڑے ہوئے مقتول دیکھا تو اُس نے توازن کھونا تو کجاپروا ہی نہیں کی اور

وہ صرف اُس انسان کے متعلق پوچھتی رہی جو اُن چاروں سے بڑھ کے اُسے محبوب تھا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔

جب اُس نے آپؐ کو سلامت دیکھا تو اُس نے کہاکہ ہر مصیبت خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہو آپؐ کی سلامتی کےمقابلے میں ہیچ ہے۔ باقی انشاء اللہ آئندہ۔

بعد ازاں حضور انور نے فلسطین کے لوگوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک فرمائی جس کی تفصیل مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہے۔

خطبہ کے آخر میں حضو انور نے فرمایا کہ ایک افسوسناک اطلاع بھی ہے۔ مکرم طاہراقبال چیمہ صاحب ابن خضر حیات چیمہ صاحب صدر جماعت احمدیہ چک چوراسی فتح پور ضلع بہاولپور کو گذشتہ دنوں شہید کر دیا گیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔بوقت شہادت مرحوم کی عمر ساٹھ سال تھی۔ تفصیلات اس طرح ہیں کہ طاہراقبال چیمہ صاحب نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سیر کےلیے روانہ ہوئے تودو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے تعاقب کر کے فائرنگ کر دی۔آپ کے سَر میں دو گولیاں لگیں جس کے نتیجے میں آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ وقوعہ کے بعد حملہ آور موقع سے فرار ہو گئے۔ پولیس نے نامعلوم افرادکے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔وہاں اس کے بارے میں تحقیق تو ہوتی کچھ نہیں لیکن بہرحال مقدمہ درج ہوا ہے۔

شہید مرحوم کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی یا ذاتی رنجش نہیں تھی۔ اپنے گاؤں اور ارد گرد کے دیہات میں بھی یہ نیک نامی کے حامل اور بڑے شریف النفس مشہور تھے۔

سوائے مذہبی عنصر کے اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔مرحوم نظام وصیت میں شامل تھے۔بوقت شہادت بحیثیت صدر جماعت خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ اس سے پہلے بحیثیت سیکرٹری مال اورزعیم انصار اللہ کی توفیق بھی ملتی رہی۔نماز تہجدکا بہت خیال رکھتے۔ خلافت سے عشق تھا۔خطبات باقاعدگی سے سنتے۔امیر صاحب ضلع بہاولپور، مربی صاحب بہاولپور اور دیگر عہدے داران نے بھی مرحوم کی بڑی تعریف کی ہے۔اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کا مقام بلند فرمائے۔ رحمت ومغفرت کا سلوک فرمائے۔ پسماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنےکی توفیق عطا فرمائے۔حضور انور نے نماز جمعہ کے بعد ان کا نماز جنازہ غائب پڑھانے کا بھی اعلان فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button