حضرت مصلح موعودؓ کا قبر پر دعا مانگنے کا طریق
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: میں اپنے متعلق بتاتا ہوں کہ جب بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر پر دعا کرنے کے لیے آتا ہوں مَیں نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ پہلے میں رسول کریمﷺ کے لئے دعا کیا کرتا ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے دعا کرتا ہوں اور دعا یہ کیا کرتا ہوں کہ یا اللہ! میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو مَیں اپنے اِن بزرگوں کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کر سکوں۔ میرے پاس جو چیزیں ہیں وہ انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ البتہ تیرے پاس سب کچھ ہے اس لیے مَیں تجھ سے دعا اور التجا کرتا ہوں کہ تو مجھ پر احسان فرما کر میری طرف سے انہیں جنت میں کوئی ایسا تحفہ عطا فرما جو اِس سے پہلے انہیں جنت میں نہ ملا ہو تو وہ ضرور پوچھتے ہیں کہ یا اللہ! یہ تحفہ کس کی طرف سے آیا ہے؟ اور جب خدا انہیں بتاتا ہے تو وہ اُس کے لئے دعا کرتے ہیں اور اِس طرح دعا کرنے والے کے مدارج بھی بلند ہوتے ہیں اور یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے۔اسلام کا مسلمہ اصل ہے اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتاکی دعائیں مرنے والے کو ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ کہہ کر اِس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تمہیں کوئی شخص تحفہ پیش کرے تو تم اُس سے بہتر تحفہ اُسے دو ورنہ کم از کم اتنا تحفہ تو ضرور دو جتنا اُس نے دیا۔قرآن کریم کی اِس آیت کے مطابق جب ہم رسول کریمﷺیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعا کریں گے اور ان پر درود اور سلام بھیجیں گے تو خدا تعالیٰ ہماری طرف سے اِس دعا کے نتیجہ میں اُنہیں کوئی تحفہ پیش کر دے گا۔ ہم نہیں جانتے کہ جنت میں کیا کیا نعمتیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو اُن نعمتوں کو خوب جانتا ہے اِس لیے جب ہم دعا کریں گے کہ الٰہی! تُو رسول کریمﷺکو کوئی ایسا تحفہ دے جو اِس سے پہلے اُنہیں نہ ملا ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ جب وہ تحفہ اُنہیں دیا جاتا ہوگا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی بتایا جاتا ہوگا کہ یہ فلاں شخص کی طرف سے تحفہ ہے۔پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اِس علم کے بعد وہ چپ کر کے بیٹھے رہیں اور تحفہ بھجوانے والے کے لئے دعا نہ کریں۔ ایسے موقع پر بےاختیار اُن کی روح اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائے گی اور کہے گی کہ اے خدا ! اَب تُو ہماری طرف سے اِس کو بہتر جزا ء عطا فرما۔ اِس طرح فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ کے مطابق وہ دعا پھر درود بھیجنے والے کی طرف لوٹ آئے گی اور اِس کے درجہ کی بلندی کا باعث ہوگی۔(انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ ۱۸۲-۱۸۳)
(مرسلہ:عثمان مسعود جاوید۔ سویڈن)