مومن وہ لوگ ہیں جولغو کاموں اور لغو باتوں…سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں
روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ وہ ہے…جس کی طرف قرآن شریف کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے وَالَّذِیۡنَ ھُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ(المومنون:۴)یعنی رہائی یافتہ مومن وہ لوگ ہیں جولغو کاموں اور لغو باتوں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں سے اور لغو تعلقات سے اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں اور ایمان ان کا اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اس قدر کنارہ کشی اُن پر سہل ہوجاتی ہے کیونکہ بوجہ ترقیٔ ایمان کے کسی قدر تعلق اُن کا خدائے رحیم سے ہوجاتا ہے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۹۸)
انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں۔ ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور اُن کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوقِ عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقْویٰ قرآنِ شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۰۹۔۲۱۰)