سورت بنی اسرائیل، الکہف اور مریم میں یہود و نصاریٰ کے متعلق پیشگوئیاں نیز مسلمانوں کی دو تباہیوں کا ذکر اور ان کے دوبارہ عروج کا قرآنی نسخہ (قسط دوم۔آخری)
[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍مارچ۲۰۲۴ء]
سورت کہف کی پیشگوئیاں
سورت کہف میں اصحاب کہف کا ذکر ہے جو ابتدائی دور کے مُوحد عیسائی تھے جن کے آخری لوگوں نے یاجوج ماجوج بن کر دنیا میں عظیم فتنہ پھیلانا تھا اس آخری دور کے متعلق بھی اشاروں کنایوں میں بہت سی پیشگوئیاں ہیں مثلاً سورت کہف کی آیت ۱۹ہے وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا۔ (اور ہم انہیں دائیں اور بائیں ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور ان کا کتا چوکھٹ پر اپنی اگلی دونوں ٹانگیں پھیلائے ہوئے ہے۔ اگر تو انہیں جھانک کر دیکھے تو ضرور پیٹھ پھیر کر ان سے بھاگ جائے اور ان کے رعب سے بھر جائے۔)
یعنی ہم ان کو دنیا میں پھیلانے والے ہیں اور كَلْبُهُمْ سے یہ اشارہ ہے کہ ان قوموں میں کتے رکھنے کا بہت رواج ہو گا اور یہ بھی کہ ان کا رعب دنیا میں بہت ہو گا۔(تفسیر کبیر جلد۴صفحہ۴۳۲)
اصحاب کہف کے ذکر میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ امت محمدیہؐ کے ایک حصے کو ان جیسے واقعات پیش آنے والے تھےاور حدیث میں رسول اللہﷺنے فرمایا ہے کہ اصحابالکہف اعوان المہدی(الدر المنثور في التفسير بالمأثورجلد ۵صفحہ ۳۷۰ )یعنی اصحاب کہف مہدی کے مرید اور ساتھی ہیں ۔(تفسیر کبیرجلد۴صفحہ۴۴۲)
اصحاب کہف کے بعد اسرا٫ موسیٰ کا واقعہ بیان کر کے بتایا کہ مسیحی قوم کی ترقی کا پہلا دور محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ مکی زندگی میں یہ خبر دینا کہ مسلمان عیسائیوں کوزک پہنچائیں گے زبردست پیشگوئی ہے اس کے بعد ذوا لقرنین کا واقعہ مسیحی قوم کی ترقی کے دوسرے دور کی خبر دینے کے لئے ہے۔ (تفسیر کبیرجلد۴صفحہ۴۹۲)
سورت کہف میں موسیٰ کے اسراء میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ اصحاب کہف کی نسلوں کی ترقی ایک حد تک جا کر رک گئی۔ اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اَور نبی ظاہر ہوا اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ موسی ؑکی قوم سے مراد اس جگہ موسوی سلسلہ کا آخری حصہ ہے یعنی مسیحی دور۔
حضرت عمرو بن عاص ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرُّومُ اَ كْثَرُ النَّاسِ (صحیح بخاری کتاب ا لفتن باب تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرُّومُ أَكْثَرُ النَّاسِ حدیث نمبر ۲۸۹۸) جب قیامت قائم ہو گی تو رومی دنیا میں سب سے زیادہ ہوں گے۔ یعنی دنیا میں عیسائیت کا غلبہ ہو گا اور ہر ملک پر حکومت کریں گے۔یہاں قیامت سے مراد آخری زمانہ میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والی قیامت ہے
سورت کہف کی آیت نمبر ۴۸ہے۔ وَیَوۡمَ نُسَیِّرُ الۡجِبَالَ وَتَرَی الۡاَرۡضَ بَارِزَۃً ۙ وَّحَشَرۡنٰہُمۡ فَلَمۡ نُغَادِرۡ مِنۡہُمۡ اَحَدًا۔ (اور جس دن ہم پہاڑوں کو حرکت دیں گے اور تو زمین کو دیکھے گا کہ وہ اپنا اندرونہ ظاہر کردے گی اور ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔)
پہاڑ کے معنی بڑے آدمی کے بھی ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ یہ سب پیشگوئیاں اس دن پوری ہوں گی جب بڑے بڑے لوگ جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوں گے اور ساری زمین یعنی اہل زمین ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو جائیں گے اور کوئی بھی پیچھے نہیں رہے گاان آیات میں آخری زمانہ میں ہونے والی عالمی جنگوں کا ذکر ہے جس کی پیشگوئی انجیل میں بھی ہے کہ قوم قوم پر اور بادشاہت بادشاہت پر چڑھائی کرے گی۔(متی باب ۲۴آیت ۷)۔(تفسیر کبیر جلد۴صفحہ۴۵۷)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب فتنے زوروں پر ہوں گے اور لوگ ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں گے تب اللہ تعالیٰ مہدی کو مبعوث فرمائے گا جو گمراہی کے قلعوں اور بند دلوں کو فتح کرے گا۔ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر گئی تھی۔ (ینابیع المودةجلد۳صفحہ۹۳۔ شیخ سلیمان بن شیخ ابراہیم طبع دوم۔ مکتبہ العرفان۔بیروت)
سورت کہف کی آیت نمبر ۸۴ ہےوَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا۔ (اور وہ تجھ سے ذوالقرنَین کے بارہ میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دے کہ میں ضرور اس کا کچھ ذکر تم پر پڑھوں گا )اس میں امت مسلمہ میں آنے والے ذوالقرنین کی پیشگوئی ہےاور حضرت مسیح موعودؑ نے اس کا مصداق ہونے کا دعویٰ فرمایاہے۔
یاجوج ماجوج اور ذو القرنین
مسیحی ترقی کے دو دوروں کا نام آسمانی کتب میں الگ الگ رکھا گیا ہے۔ پہلا دور اصحاب کہف کا دور ہے اور دوسرا دور الہامی کتب میں یاجوج ماجوج کا دور کہلاتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۴۹۳)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے مغربی اقوام کے مذہبی اورسیاسی فتنوں کو دجال اوریاجوج ماجوج قرار دیا۔فرمایا: ’’یہ خبر جو قرآن شریف میں لکھی ہے مسیح موعود کے ظہور کی طرف اشارہ ہے اور اسی وجہ سے یاجوج ماجوج کے تذکرہ کے نیچے اس کو لکھا ہے اور یاجوج ماجوج دو قومیں ہیں جن کا پہلی کتابوں میں ذکر ہے اور اس نام کی یہ وجہ ہے کہ وہ اجیج سے یعنی آگ سے بہت کام لیں گی اور زمین پر ان کا بہت غلبہ ہو جائے گا اور ہر ایک بلندی کی مالک ہو جائیں گی۔ تب اُسی زمانہ میں آسمان سے ایک بڑی تبدیلی کا انتظام ہو گا اور صلح اور آشتی کے دن ظاہر ہوں گے۔‘‘(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۱۱ ) پھر فرمایا: اَجِیْج آگ کو کہتے ہیں جس سے یاجوج ماجوج کا لفظ مشتق ہے اِس لئے جیسا کہ خدا نے مجھے سمجھایا ہے یا جوج ماجوج وہ قوم ہے جو تمام قوموں سے زیادہ دنیا میں آگ سےکام لینے میں استاد بلکہ اس کام کی موجد ہے۔ اور ان ناموں میں یہ اشارہ ہے کہ اُن کے جہاز، اُن کی ریلیں، اُن کی کلیں آگ کے ذریعہ سے چلیں گی اور اُن کی لڑائیاں آگ کے ساتھ ہوں گی اور وہ آگ سے خدمت لینے کے فن میں تمام دنیا کی قوموں سے فائق ہوں گے اور اِسی وجہ سے وہ یاجوج ماجوج کہلائیں گے۔ سو وہ یوروپ کی قومیں ہیں جو آگ کے فنون میں ایسے ماہر اور چابک اور یکتائے روزگار ہیں کہ کچھ بھی ضرور نہیں کہ اس میں زیادہ بیان کیا جائے۔ پہلی کتابوں میں بھی جو بنی اسرائیل کے نبیوں کو دی گئیں یورپ کے لوگوں کو ہی یاجوج ماجوج ٹھہرایا ہے بلکہ ماسکو کا نام بھی لکھا ہے جو قدیم پایہٴ تخت روس تھا۔ سو مقرر ہو چکا تھاکہ مسیح موعود یاجوج ماجوج کے وقت میں ظاہر ہو گا۔(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۲۴) دوسری قسم کی مخلوق جو مسیح موعود کی نشانی ہے یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا ہے۔ توریت میں ممالک مغربیہ کی بعض قوموں کو یاجوج ماجوج قرار دیا ہے۔ اور ان کا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ٹھہرایا ہے۔ قرآن شریف نے اس قوم کے لیے ایک نشانی یہ لکھی ہے کہ … یعنی ہرایک فوقیت ارضی اُن کو حاصل ہو جائے گی اور ہر ایک قوم پر وہ فتح یاب ہو جائیں گے۔ دوسرے اس نشانی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ آگ کے کاموں میں ماہر ہوں گے یعنی آگ کے ذریعہ سے اُن کی لڑائیاں ہوں گی اور آگ کے ذریعہ سے اُن کےانجن چلیں گے اور آگ سے کام لینے میں وہ بڑی مہارت رکھیں گے اِسی وجہ سے اُن کا نام یاجوج ماجوج ہے کیونکہ اجیج آگ کے شعلہ کو کہتے ہیں اور شیطان کے وجود کی بناوٹ بھی آگ سے ہے جیسا کہ آیت خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍسے ظاہر ہے۔ اس لئے قوم یاجوج ماجوج سے اس کو ایک فطرتی مناسبت ہے۔ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۷۶ )
حضرت نواس بن سمعانؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ظہور مسیح کے بعد یاجوج ماجوج آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکرالدجال حدیث نمبر ۲۹۳۷) اس سے مراد مغربی اقوام کے ایجاد کردہ ہوائی جہاز، راکٹس اور میزائل وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں جن کی ظاہری شکل بھی تیر جیسی ہوتی ہے اور تیر ہی کی طرح آسمان میں اڑتے اور نشانے پر پہنچتے ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:…یاجوج وماجوج ان قومو ں کانام ہے جو شمالی ایشیا اورمشرقی یورپ کے علاقوں میں رہتی تھیں۔ایشیا کی زرخیزی کی وجہ سے وہ اس پر حملے کرتی تھیں۔اگران حملوں میں وہ کامیاب ہوجاتیں توجس طرح آریہ قوم ہندوستان میں بس کر دوسری پرانی قوموں میں مل جل گئی ہے یہ قومیں بھی ایشیا کے مختلف ممالک میں پھیل کردوسری اقوام کے ساتھ مل جاتیں اورہرملک کے مطابق مذہب اختیا رکرلیتیں اورکسی ایک مذہب پر جمع نہ ہوتیں۔لیکن خداتعالیٰ کی قدرت سے ہوایہ کہ ذوالقرنین نے ان اقوام کے حملو ں کو بڑی سختی سے روک دیا۔اوریہ قوم ایشیاکے انتہائی شمال مغرب اوریورپ کے مشرق میں گھر گئیں اورذوالقرنین نے اس امر کاانتظام کیا کہ ان اقوا م کے ایشیا میں آنے کی صورت ہی نہ رہے اورگویا ایک قسم کابائیکاٹ کردیاگیا۔نتیجہ یہ ہواکہ یہ اقوام یورپ میں پھیلنی شروع ہوئیں۔اورچونکہ یو رپ میں مذاہب میں سے صرف مسیحی مذہب تھا باقی بت پرستی ہی بت پرستی تھی۔اس لئے دنیا کے پرانے مذاہب میں سے ان اقوام کو صرف مسیحیت سے واسطہ پڑا اوریہ اقوام آہستہ آہستہ سب کی سب مسیحی ہوگئیں اورساری قومیں ایک ہی مذہب میں شامل ہوکر دوسری دنیا کے مقابلہ میں ایک زبردست جتھابن گئیں۔اس طرح مذہبی عداوت کابیج بویاگیا۔ اس کے علاوہ چونکہ ذوالقرنین کے ماتحت اوراس کی پالیسی پر عمل کرکے سب ایشیا نے ان کو شمال کی طرف دھکیل دیا جوا س زمانہ کے لحاظ سے سب سے ردّی اورسب سے حقیر علاقہ تھا۔ان قوموں کے اندر ایشیا اورمشرق کی طرف آنے کی ایک زبردست خواہش پیداہوگئی جواپنی شدت کی وجہ سے ہرنسل سے دوسری نسل کی طرف وراثتہً منتقل ہوتی چلی گئی او راس طرح سیاسی عداوت کابیج بویاگیا۔
غرض ذوالقرنین ایک لحاظ سے یاجوج ماجوج یادجالی فتنہ کے پیداکرنے کاموجب ہوا۔پس اللہ تعالیٰ نے مسیحی ترقی کے اس دور کاذکر کرنے سے پہلے ذوالقرنین کاذکر کیااورخصوصاً اس کے اس فعل کا جس کی وجہ سے یاجوج ماجوج کی ایک علیحدہ قو می اورسیاسی بنیاد پڑی۔
ذوالقرنین کے ذکر میں ایک اورحکمت بھی ہے۔اوروہ یہ کہ ذوالقرنین ماوہ اورفارس کابادشاہ تھا۔پس اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ یاجوج ماجوج کی پیدائش ایک فارسی نسل کے انسان کے ذریعہ سے ہوئی۔اوراللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو اس کے نیک بندے ہو ںجب ان کے کسی نیک فعل کے ثانوی ردعمل کے طور پر کوئی بدی پیداہو تووہ انہی کی اولاد یاہموطن یا مثل کے ذریعہ سے اس بدی کودورکرواتاہے کہ اس کے نیک بندے کے نام سے ایک دورکا عیب بھی منسوب نہ ہو۔پس ذوالقرنین کاذکر اس جگہ اس لئے کیا گیا۔تا اس خبرکوبطورپیشگوئی بیان کرکے ایک دوسرے ذوالقرنین کی خبر دی جاسکے جوفارسی الاصل ہوگااوریاجوج ماجوج کامقابلہ کرکے اس کے زورکوتوڑے گااور اس طرح پہلے ذوالقرنین پر سے الزام کودور کر ے گا اورذوالقرنین کانام اس وجہ سے پائے گا۔کہ اللہ تعالیٰ اسے دوقوتوں کاوارث بنائے گا۔ایک مہدویت کی قوت اورایک مسیحیت کی قوت۔وہ محمد رسو ل اللہﷺ کے علوم کاوارث ہونے کی وجہ سے مہدی کہلائے گا اورحضرت مسیحؑ کی صفات کو اخذ کرنے کی وجہ سے مسیح کہلائے گا۔جیساکہ حدیثوں میں ہے کہ لَاالْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيْسیٰ۔پس ان دونوں قوتوں کے حاصل ہونے کے سبب اس کانا م ذوالقرنین ہو گا۔نیزاس وجہ سے بھی کہ وہ بعض پیشگوئیوں کے مطابق دوصدیوں کو پائے گا۔یعنی ایک صدی کے خاتمہ پروہ خداتعالیٰ سے الہام پائے گااوردوسری صد ی کے شروع ہونے پر اپناکام ختم کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھایاجائے گا ۔(تفسیر کبیر جلد ۴صفحہ ۴۹۳)
مسیح موعود کی زندگی میں اسلامی اور عیسائی کیلنڈر سمیت دنیا کی ۳۲ قوموں کی صدیاں تبدیل ہوئیں۔(تفصیل حقائق الفرقان از حضرت خلیفہ اول ؓ جلد ۳ صفحہ ۳۵ )
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:…کوئی قوم ایسی نہیں جس کی مقرر کردہ صدیوں میں سے ۲ صدیاں میں نے نہ پائی ہوں۔ اور بعض احادیث میں بھی آچکا ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ ذوالقرنین ہوگا۔ غرض کہ موجب نص وحی الٰہی کے مَیں ذ والقرنین ہوں۔ (براہین احمدیہ جلد۵، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۱۸)
جس حدیث کا حضورؑ نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے :حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ذوالقرنین مشرق و مغرب میں پہنچا۔اللہ تعالیٰ اس کی یہی سنت میرے بیٹے امام مہدی میں قائم کرے گا اور وہ مشرق و مغرب کے دور دراز علاقوں اور پہاڑوں میں بلند و پست ہرجگہ پر پہنچے گا اللہ اس کے لیے زمین کے خزانے اور معدن ظاہر فرمائے گا اور رعب سے اس کی مدد کرے گا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی۔ (اکمال الدین صفحہ ۳۶۴-۳۶۵ ابو جعفر محمد بن علی بابویہ القمی متوفی۳۸۱ھ بیروت لبنان)
سورت کہف کی آیت نمبر۹۹، ۱۰۰ہے فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا۔ وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا۔ (جب میرے ربّ کا وعدہ آئے گا تو وہ اس دیوار کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور یقیناً میرے ربّ کا وعدہ سچا ہے۔ اس دن ہم ان میں سے بعض کو بعض پر موج در موج چڑھائی کرنے دیں گے اور صور پھونکا جائے گا اور ہم اُن سب کو اکٹھا کریں گے۔)
یعنی جب ذوالقرنین کے وعدہ کا وقت آئے گا اور یاجوج ماجوج سے بچانے کے لیے جو دیوار بنائی گئی تھی وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ ان اقوام کو یعنی یاجوج ماجوج کو پھر ترقی دےگا اور مختلف اقوام عالم آپس میں لڑیں گی اور اللہ تعالیٰ سب دنیا کو جمع کر دے گا یعنی ایسا زمانہ ہو گا جب سفر آسان ہو جائیں گے اور ساری دنیا ایک ملک کی طرح ہو جائے گی۔
دوسری جگہ یاجوج ماجوج کے پھیلنے کا ذکر سورت انبیاء آیت ۹۷ میں ہے اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ(اور جب یاجوج ماجوج کو کھولا جائے گا اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑے چلے آئیں گے۔)
وہ سمندر کی لہروں پر سے تیزی سے سفر کرتے ہوئے سب دنیا میں پھیل جائیں گے اس میں دخانی جہازوں کی ایجاد کی طرف بھی اشارہ ہے چنانچہ مغربی اقوام سمندر کے ذریعہ ہی مشرق میں پھیلیں۔(تفسیر کبیر جلد ۴صفحہ۵۰۷)
قرآن کریم میں دجال کا ذکر نہیں جب کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے اور اس سے بڑا فتنہ کائنات میں کبھی پیدا نہیں ہوا۔حضرت مسیح موعودؑ پر یہ راز کھولا گیا کہ دجال اور یاجوج ماجوج ایک ہی قسم کی اقوام کے ۲ مختلف فتنوں کے نام ہیں
سورت کہف کی آیت نمبر ۱۱۰ہے قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَلَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا۔ (کہہ دے کہ اگر سمندر میرے ربّ کے کلمات کے لئے روشنائی بن جائیں تو سمندر ضرور ختم ہو جائیں گے پیشتر اس کے کہ میرے ربّ کے کلمات ختم ہوں خواہ ہم بطور مدد اس جیسے اور سمندرلے آئیں۔)
اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ وہ زمانہ تصانیف کا ہو گا ترقی یافتہ قومیں سائنس پر کثرت سے کتابیں لکھیں گی ایجادات کریں گی اور نئے نئے علوم دریافت کریں گی مگر خدا کی قدرتوں کا احاطہ نہیں کر سکیں گی۔ (تفسیر کبیر جلد ۴صفحہ۵۱۱)
سورت مریمؑ کی پیشگوئیاں
سوۃ مریم ؑمیں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح ناصری ؑکی جماعت کو خدا تعالیٰ نے تبلیغ دین کی ایسی توفیق دی کہ ان کے ذریعہ سے پھر تورات کی حکومت ایک نئے رنگ میں دنیا میں قائم ہو گئی اور وہی قوم جو مردہ ہو چکی تھی پھر موسوی سلسلہ کے آخری خلیفہ مسیح ناصری پر ایمان لا کر دنیا میں ترقی کر گئی اور موسوی سلسلہ پھیل گیا۔ چنانچہ یہ بتانے کے لئے کہ مسلمانوں کی دوبارہ ترقی بھی ایک مسیح کے ذریعہ سے ہو گی سورۂ مریم کو سورۂ کہف کے بعد رکھا گیا اور اس میں مسیح علیہ السلام کے واقعات بیان کر کے توجہ دلائی گئی کہ ایک ایسا ہی نشان مسلمانوں میں بھی ظاہر ہوگا اور مسلمان پھر اس نشان کے ذریعہ سے ترقی کریں گے۔ چنانچہ جس طرح موسوی سلسلہ کی ترقی ایک مسیح کے ساتھ وابستہ تھی اسی طرح اسلام کی ترقی ایک مسیح کے ساتھ وابستہ ہو گی جس طرح وہاں اصحاب کہف یعنی مسیح ناصریؑ کے اتباع کے ذریعہ سے وہ غلبہ ملا تھا اسی طرح یہاں آنے والے مسیح کے لئے نئے اصحاب کہف پیدا ہوں گے اور ان کے ذریعہ سے دوبارہ اسلام غالب آ ئے گا۔
مسلمانوں پر مسیح کے ذریعہ سے ہی تباہی آئی یعنی مسیح ناصریؑ کی قوم کے ذریعہ سے اور مسلمانوں نے اگر تباہی سے بچنا ہے تب بھی مسیح کے ذریعہ سے ہی یعنی مسیح موعود پر ایمان لانے کی وجہ سے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سورت مریم میں عیسائیت کی تاریخ بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ تاریخ تمہارے لئے شمع راہ ہو گی اور تمہیں مدنظر رکھنا پڑے گا کہ اس طرح عیسائیت کی بنیاد پڑی اور اس رنگ میں تمہارے احیاء کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ گویا سورۂ مریم۔ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف کی تیسری کڑی ہے اور یہ تینوں سورتیں ایک ہی مضمون کی حامل اور ایک ہی طریق پر چل رہی ہیں۔
سورت مریم کی آیت نمبر ۲ ہے كهيعص (تُو کافی ہے اور ہادی ہے اے علیم اور صادق) حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: اس میں عیسائیت کے ابطال کے لئے خدا تعالیٰ کی چار صفات پیش کی گئی ہیں۔یعنی صفت کافی، صفت ہادی، صفت علیم اور صفت صادق خدا تعالیٰ کی صفت کافی اور ہادی اس کی صفت علیم اور صادق کے تابع ہیں جو علیم ہوتا ہے وہ کافی ہوتا ہے اور جو صادق ہوتا ہے وہ ہادی ہوتا ہے… عیسائیت کے تمام مسائل اپنی چار صفات کے اردگرد چکر کھاتے ہیں کیونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے علیم اور کافی ہونے کو اور اس کے صادق اور ہادی ہونے کو نہیں سمجھا اور اس لئے انہوں نے غلط عقائد اختیار کر لئے۔ اس سورت میں چونکہ خدا تعالیٰ نے عیسائیت کا ذکر کیا ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان صفات کو بیان کیا گیا ہے جو عیسائیت کے رد میں کام آنے والی تھیں۔ (تفسیر کبیر جلد۵صفحہ۱۱۵)
حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے ان مقطعات کو صفات الٰہیہ قرار دیا ہے اور میری ایک پرانی رؤیا بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔ میں ایک دفعہ سندھ سے آ رہا تھاکہ میں نے رویاء میں دیکھا کہ کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ قرآن کریم میں جو کھیعصآتا ہے ان حروف مقطعات میں میرا بھی ذکر آتا ہے اور چونکہ میرا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثیل مسیح ناصری ہیں اس لئے درحقیقت ان حروف مقطعات میں میرا ذکر ہونے کے یہ معنے ہیں کہ کھیعص میں مسیحیت کا ذکر ہے اور جب اس میں پہلی مسیحیت کا ذکر تو اس لحاظ سے ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے کافی اور ہادی ہونے اور اس کے علیم اور صادق ہونے کی صفات کو نہ سمجھ کر غلط مذہب اختیار کر لیاا ور ہمارے حق میں یہ مقطعات اس لحاظ سے ہونگے کہ ہم نے انہی صفات سے کام لے کر عیسائیت کا رد کر دیا۔(تفسیر کبیر جلد۵صفحہ۱۱۶)
سورت مریم کی آیت نمبر ۷۱،۷۰ ہے ثُمَّ لَنَنۡزِعَنَّ مِنۡ کُلِّ شِیۡعَۃٍ اَیُّہُمۡ اَشَدُّ عَلَی الرَّحۡمٰنِ عِتِیًّا۔ ثُمَّ لَنَحۡنُ اَعۡلَمُ بِالَّذِیۡنَ ہُمۡ اَوۡلٰی بِہَا صِلِیًّا۔(تب ہم ہر گروہ میں سے اُسے کھینچ نکالیں گے جو رحمان کے خلاف بغاوت میں سب سے زیادہ سخت تھا۔ پھر ہم ہی تو ہیں جو اُن لوگوں کو سب سے زیادہ جانتے ہیں جو اُس میں جلنے کے زیادہ سزاوار ہیں۔)
اس جگہ اصحاب تثلیث کا ذکر ہے اور قرآن کریم سے پتہ لگتاہے کہ اصحاب تثلیث کی ترقی کا زیادہ تر تعلق آلات نار سے ہوگا اور وہ اپنے مخالفوںکو بھی زیادہ تر آلات نارسے ہی ڈرائیں گے۔مثلاًبندوق ہے۔توپ ہے۔ بم ہے یا اب ایٹم بم نکل آیا ہے۔ان سب میں آگ سے کام لیا جاتاہے… یاجوج و ماجوج ان کا اس لئے نام رکھا گیاتھا کہ انہوں نے آگ سے زیادہ کام لینا تھا اور آتشیں اسلحہ کے استعمال سے ہی انہوں نے دنیا پر غلبہ پانا تھا چنانچہ دیکھ لو پستول،ریوالور،بندوق،رائفل،بم اور پھر ایٹم بم یہ سارے کے سارے آگ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اپنے مخالفوںکو مغلوب کرنے کا ان کے پاس یہی ایک ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ چونکہ ان لوگوںنے سب سے زیادہ آگ کی کھیل کھیلی ہوگی اس لئے ہم بھی سب سے زیادہ انہی لوگوں کو آگ کا عذاب دیں گے اور اس دن انہیں معلوم ہوجائے گاکہ آگ کے عذاب کے یہ لوگ زیادہ مستحق ہیںیا دوسرے۔
عذاب کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ کئی قسم کے عذاب ہوسکتے ہیں۔مثلاً پانی کا بھی عذاب ہوسکتاہے۔بیماریوں کا بھی عذاب ہوسکتاہے۔سردی کا بھی عذاب ہوسکتاہے اور خوفناک نظاروںکا بھی عذاب ہوسکتاہے مگر انہوں نے چونکہ لوگوں کو آگ کا عذاب دیا ہوگااس لئے آگ کا عذاب ہی ان کے زیادہ مناسب ہوگایعنی ان پر ایسے عذاب نازل ہوں گے جن میں سوزش اور جلن اور آگ پائی جاتی ہوگی۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی سوزش کا عذاب ان لوگوں کے لئے مقدر ہے۔ (تفسیر کبیر جلد۵صفحہ۳۳۵)
دیگر پیشگوئیاں
آخری زمانہ میں یاجوج ماجوج کے ہاتھوں مسلمانوں کی تباہی کی خبر قرآن کریم میں متعدد مقامات پر درج ہے اس لیے چند اور پیشگوئیاں بھی درج کی جاتی ہیں:
سورت طٰہٰ آیات ۱۰۳-۱۰۴ میں مجرموں کے اٹھائے جانے کا اور ان کے زمانہ کا بھی ذکر ہے يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا۔( جس دن صور میں پھونکا جائے گا اور اُس دن ہم مجرموں کو اکٹھا کریں گے یعنی بکثرت نیلی آنکھوں والوں کو۔ وہ آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کر رہے ہوں گے کہ تم نہیں رہے مگر دس (یوم تک)۔)
ان کی علامت یہ ہے کہ ان کی آنکھیں نیلی ہیں اور وہ کہیں گے کہ ہم عَشْرًا یعنی دس تک رہے۔ نیلی آنکھوں والی یوروپین قومیں ہیں اور دس سے مراد دس صدیاں یا ہزار سال ہیں۔
رسول اللہﷺکا دعویٰ قریباً ۶۱۱عیسوی کا ہے اور اس میں ہزار جمع کریں تو ۱۶۱۱ء بنتا ہے یہی وہ تاریخیں ہیں جن میں ہندوستان میں انگریزوں کے قدم جمے۱۶۱۱ءمیں مغلیہ سلطنت نے ان کو خلیج بنگال میں کام کرنے کی اجازت دی اور ۱۶۱۲ءمیں ان کو پہلا کارخانہ کھولنے کی اجازت ملی۔اور یہ یورپ کی ترقی کی پہلی بنیاد تھی ہندوستان کے بعد یورپ نے دوسرے ایشیائی ممالک اور افریقہ پر قبضہ کیا۔ (تفسیر کبیرجلد۴صفحہ۴۳۴)
سورت لہب کی آیت نمبر ۲ ہے تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبّ۔ (ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ بھی ہلاک ہو گیا ۔) ساری سورت ابو لہب کے گرد گھومتی ہے مگر ابو لہب سے مراد کوئی ایک شخص نہیں بلکہ وہ قوم ہے جو آخری زمانہ میں دنیا پر غلبہ حاصل کر کے اسلام کے خلاف آگ بھڑکائے گی ایسی ایجادیں کرے گی جس سے شعلے اور آگ پیدا ہوں اوراس کے ہاتھوں سے مراد اس کی ساتھی اور ہمسایہ قومیں ہیں جو اس کی مددگار ہوں گی اس سے مراد مغربی قومیں ہیں جو ظاہر میں بھی سرخ و سفید ہیں جن کے استیصال کے لیے مسیح موعود نے آنا تھا اور جن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھا کہ لا یدان لاحد لقتالھم۔ان کے مقابلہ کی بظاہر کسی کو طاقت نہیں ہو گی۔
سورت لہب کی آیت نمبر ۳ہے مَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ۔ (اس کے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا۔) وہ اقوام بڑی مالدار ہوں گی ان کا مال ۲قسم کا ہو گا ایک وہ جو انہوں نے ایجادوں اور صنعتوں سے کمایا ہو گا اور دوسرا وہ جو دوسرے ملکوں پر قبضہ کر کے حاصل کیا ہو گاسورت لہب کی آیت نمبر ۴ہے سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ۔ (وہ ضرور ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا ۔)نار سے مراد جنگیں بھی ہیں مصلح موعودؓ فرماتے ہیں مغربی تحریکیں اسلام کے خلاف ۱۹۱۴ء میں کمال کو پہنچیں اور اس کے معا ًبعد ان کی آپس میں جنگ ہو گئی اب دنیا ایک اور تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
سورت لہب کی آیت نمبر ۶،۵ ہے وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ۔ فِي جِيْدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَّسَدٍ۔ (اور اس کی عورت بھی اس حال میں کہ وہ بہت ایندھن اٹھائے ہوئے ہو گی اس کی گردن میں کھجور کی کھال کا مضبوطی سے بٹا ہوا رسہ ہو گا )
امْرَأَتُہُُسے مراد وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو کسی کے ماتحت ہوں جس سے یہ مراد ہے کہ مغربی ممالک کے اپنے ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنی حکومتوں کو اسلام کے خلاف بھڑکائیں گےاور ایندھن مہیا کریں گے ان کے گلوں میں رسوم و رواج کی ایسی رسیاں ہیں جن کو وہ توڑ نہیں سکیں گے۔(ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد۱۰ سورت لہب)
الغرض یہ ساری پیشگوئیاں اس زمانہ میں پوری ہو کر قرآن اور محمد رسول اللہ کی صداقت کا کھلم کھلا اعلان کر رہی ہیں سبق بھی دے رہی ہیں غلط راستوں سے متنبہ بھی کر رہی ہیں ان میں بشارات بھی ہیں اور تنبیہات بھی۔انذاری پیشگوئیاں دعاؤں اور حکم الٰہی کی اطاعت سے ٹل جاتی ہیں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے غضب سے بچنے کی توفیق دے۔ (آمین )